جس کے میناروں سے 86 سال بعد اذان کی آواز بلند ہوئی
بلاشبہ 10جولائی 2020ء جمعۃ المبارک کا دن مسلم دنیا، بالخصوص ترکی کے مسلمانوں کے لیے بڑی خوشی کا دن تھا۔ اس خوشی کا سبب86 سال کے طویل وقفے، صبر آزما جدوجہد اور قانونی جنگ کے بعد جامع مسجد آیا صوفیہ کے میناروں سے توحید کی صدائوں کا بلند ہونا ہے۔
آیا صوفیہ جسے سینٹ صوفیہ اورہگاصوفیہ(Hagia Sophia) جیسے مختلف ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے، دنیا کی اس قدیم ترین عمارت کی بنیاد بازنطینی حکمران کونسٹنٹائن اوّل (Constantine) نے رکھی تھی۔ لیکن یہ عمارت اپنی موجودہ حالت میں شہنشاہ جسٹینین (Justinian) کے دور میں 532ء اور537ء میں تعمیر کی گئی۔ ایک ہزار سال تک اسے دنیا کے سب سے بڑے گرجے اور عیسائیوں کے مذہبی و روحانی مرکز کی حیثیت حاصل رہی۔ اس عمارت کی سب سے نمایاں شے اس کا وسیع گنبد تھا جسے سنبھالنے کے لیے کوئی ستون نہیں تھا۔ فنِ تعمیر کی یہ نمایاں خصوصیت اورخوبی دراصل اس کی خامی بھی تھی کیونکہ بعد کے ادوار میں کئی زلزلوں میں یہ گنبد زمین پر آرہا اور اس کی مرمت کرنی پڑی۔ اس کے علاوہ آگ لگنے سے بھی عمارت کلی یا جزوی طور پر تباہ ہوگئی اور مرمت کے مراحل سے گزری۔
بازنطینی دور میں قسطنطنیہ مشرقی رومی سلطنت کا مرکز تھا اور ساتھ ہی ساتھ آرتھوڈوکس کلیسا کی جائے پیدائش بھی۔ اس لحاظ سے آیاصوفیہ کو انتہائی مقدس حیثیت حاصل تھی۔ یہاں نہ صرف یہ کہ بازنطینی شہنشاہوں کی تاج پوشی ہوتی تھی بلکہ دوسرے مذہبی مراسم بھی ادا کیے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ ایک سیاسی اور عسکری مرکز بھی تھا، صلیبی جنگوں کے منصوبے یہیں تشکیل پاتے تھے اور یہیں سے پوپوں کے ذریعے مسیحی حکمرانوں اور بادشاہوں کو متحد کیا جاتا تھا۔
1453ء میں قسطنطنیہ کی عظیم فتح کے بعد سلطان محمد فاتح نے آیاصوفیہ میں پناہ گزین عیسائیوں اورشاہی خاندان کے افراد کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا جو یہاں آہ و فریاد کررہے تھے اور یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی جانوں کی خیر نہیں۔ سلطان محمد فاتح نے آیا صوفیہ میں دو رکعت نماز شکرانہ ادا کی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ’’ایک مبارک شہر کو فتح کرنے والے مبارک جرنیل‘‘ کا لقب حاصل کیا۔
فقہ اسلامی اور اُس وقت کے جنگی قوانین کے مطابق بزورِ تلوار فتح کیے جانے والے غیر مسلم علاقے یا ملک کی سب سے بڑی عبادت گاہ کو مسجد میں تبدیل کرنا ’’حقِ فتح‘‘ ہے۔ لیکن فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد فاتح نے اس عمارت کو اور آس پاس کی زمین کو اپنے ذاتی مال سے خریدا اور اس کی مکمل قیمت کلیسا کے راہبوں کو ادا کی۔ یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ سلطان نے اس مصرف کے لیے مسلمانوں کے بیت المال سے بھی قیمت نہیں لی بلکہ طے کردہ پوری قیمت اپنی جیب سے ادا کی، اور اس عمارت اور زمین کو مسلمانوں کے مصالح کے لیے وقف کردیا۔ خرید وفروخت کی دستاویزات آج بھی ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں موجود ہیں۔
ترک حکمرانوں بشمول سلطان محمد فاتح نے اس کلیسا کے چاروں طرف چار مینار تعمیر کروائے۔ یہ چاروں مینار الگ الگ دور میں مختلف طرزوں میں تعمیر کیے گئے۔ یہ مینار آج بھی قائم ہیں اور آیا صوفیہ کو نمایاں طور پر ایک مسجد کا روپ دیتے ہیں۔ انیسویں صدی عیسوی میں عثمانیوں نے مرکزی ہال میں ایک خوبصورت محراب اور منبر کا اضافہ کیا، اورمشہور خطاطوں کے خطاطی کے نمونے بھی نئی جامع مسجد میں رکھے گئے۔ 1453ء سے 1935ء تک، تقریباً 481 سال، آیا صوفیہ کی یہ عظیم عمارت مسجد کی حیثیت سے قائم رہی۔
مسجد آیاصوفیہ کو میوزیم میں بدلنے کی تحریک سلطان عبدالحمید دوم کے زمانے میں شروع ہوئی، جس کا آغاز استنبول میں یہودیوں کے قائم کردہ رابرٹ کالج میں بازنطینیوں کی تاریخی عمارات اور نوادرات کی حفاظت کی خاطر ایک انسٹی ٹیوٹ کے قیام سے ہوا۔ انسٹی ٹیوٹ کے کارپردازوں نے آیاصوفیہ کی حفاظت اور عجائب گھر میں تبدیلی کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ اس سلسلے میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک سے مشنری، نام نہاد دانشور اور سیاست دان آنے لگے اور اپنے مطالبات شدومد سے پیش کرنے لگے۔ جنگِ آزادی اور جمہوریہ ترکیہ کے قیام کے بعد ان کو مطلوبہ ماحول میسر آگیا، اور آخرکار مصطفیٰ کمال اتاترک نے وزیراعظم کو ہدایت دی کہ وہ آیاصوفیہ کی عجائب گھر میں تبدیلی کے لیے قانونی کارروائی کریں۔ وزیراعظم نے مسودۂ قانون تیار کیا جو 1934ء میں منظور کرلیا گیا۔ جس کے بعد آیا صوفیہ کو کھولا گیا لیکن مسجد کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک عجائب گھر کی حیثیت سے۔ اس طرح مغربی ممالک اور ترکی کے لادین عناصر اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئے۔ خدا کے گھر کو عجائب گھر میں تبدیل کردیا گیا۔ مصطفیٰ کمال پاشا نے یہاں نماز پڑھنا ممنوع قرار دے دیا اور یہاں نماز پڑھنے کی کوشش کرنے والوں کو گرفتار کیا جانے لگا۔
آیا صوفیہ جب تک گرجا رہا اس کی دیواروں پر عیسائیوں کی مقدس شبیہیں بھی موجود رہیں۔ عثمانیوں نے مسجد کے تقدس کو قائم رکھنے کے لیے ان شبیہوں کو ایک خاص روغن سے ڈھانپ دیا تھا۔ لیکن 1934ء میں جب اس کی مسجد کی حیثیت کو ختم کیا گیا تو کمال پاشا نے یہ روغن صاف کروا کے ان شبیہوں کو دوبارہ اجاگر کروا دیا۔ ستمبر 2015ء میں جب ہمیں آیا صوفیہ کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تو یہاں اسلام اور عیسائیت کی علامات کا ایک عجیب امتزاج نظر آیا۔ ایک طرف خوبصورت منبر پر سنہرے حروف میں قرآنی آیات، اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے اسمائے گرامی والی تختیاں نظر آئیں، جب کہ دوسری طرف دیواروں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت مریم علیہا السلام اور عیسائی راہبوں کی شبیہیں بھی موجود تھیں۔
قسطنطنیہ کی عظیم فتح کی یادگار آیاصوفیہ جیسی تاریخی حیثیت کی حامل ایک عظیم عبادت گاہ کی مسجد میں تبدیلی محض مسلمانانِ ترکی ہی نہیں بلکہ مسلمانانِ عالم کی دیرینہ خواہش اور مطالبہ تھا۔ فنِ تعمیر کا شاہکار یہ عبادت گاہ تقریباً چار سواکیاسی سال ایک مسجد کی حیثیت رکھنے کے بعد گزشتہ چھیاسی سال سے خدا کے گھر کی حیثیت سے محروم تھی۔ اس عرصے میں اس میں موجود قرآنی آیات، نقش و نگار اورخطاطی کے نمونوں کو ختم کرکے کلیسا سے متعلق میناکاری، موزائیک اور مصوری کے نمونے کھود کھود کرنکالے گئے۔
عجائب گھر کے طور پر اس کی ابتر حالت اور بے حرمتی پر اہلِ ایمان کڑھتے رہے اور باربار مطالبہ کرتے رہے کہ اس کی اسلامی حیثیت بحال کی جائے۔ اتاترک اور عصمت انونو کے دور میں اس سلسلے میں کوئی اجتماعی کوشش نہیں ہوسکی، البتہ ترکی کی ملّی سلامت پارٹی نے اسے باقاعدہ مطالبے کی شکل دی اوراس کے سربراہ پروفیسر نجم الدین اربکان نے اس کا متعدد بارکھل کر اظہار کیا۔ ترکی کے اخبارات ’’ترکیہ‘‘ اور’’ترجمان‘‘ نے آیاصوفیہ کو دوبارہ مسجد کی حیثیت دینے سے متعلق مہم کا آغاز کیا۔ اس سلسلے میں مختلف طبقہ فکرکے لوگوں کی آراء کو جگہ دی گئی اور ’’ترکیہ‘‘ نے دستخطوں کی ایک مہم شروع کی۔ دو تین ہفتوں میں دس لاکھ سے زیادہ دستخط حاصل کیے گئے اور انھیں متعلقہ حکام کو پیش کیا گیا۔ اسی دوران برسراقتدار مادرِ وطن پارٹی کے بعض اراکین ِقومی اسمبلی نے بھی آیاصوفیہ کے مسجد میں تبدیل کیے جانے سے متعلق مسودۂ قانون کو اسپیکر کے حوالے کیا۔ مادرِ وطن پارٹی کی مجلسِ قائمہ نے اس مسودۂ قانون کی منظوری دے دی۔ لیکن سرکاری جماعت میں اس مسودۂ قانون کے بارے میں اراکینِ اسمبلی کی آراء مختلف تھیں۔ زیادہ تر تعداد قدامت پسند اور قوم پرست ہونے کے باوجود مغربی ذہن کے لبرل خیالات کے حامی اراکین اور وزراء اتاترک اورلادینیت کے اصولوں سے انحراف کی ہمت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ آیاصوفیہ کے مسجد میں تبدیل کیے جانے سے نہ صرف یہ کہ اتاترک کے فیصلے سے بغاوت ہوگی بلکہ اس سے ترکی کی لادینی حیثیت اور بیرونِ ملک وقار میں کمی ہوگی۔ مسودۂ قانون کے حامی لوگوں کا نقطہ نظر یہ تھا کہ آیاصوفیہ کی اصل حیثیت ایک مسجد کی ہے، اتاترک نے مغربی ممالک اور عیسائیوں کے دباؤ میں آکر اسے ایک عجائب گھر بنادیا تھا، اور اب اسے مسجد بنادینا اس کی سابقہ حیثیت کو بحال کرنا ہوگا۔
31 مئی 2014ء کو ترکی میں ’’نوجوانانِ اناطولیہ‘‘ نامی ایک تنظیم نے مسجد کے میدان میں فجر کی نماز کی مہم چلائی جو آیا صوفیہ کی مسجد بحالی کے مطالبے پر مبنی تھی۔ اس تنظیم کا کہنا تھا کہ انھوں نے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے تائیدی دستخطوں کو جمع کرلیا ہے۔ ترکی کی تاریخی یادگاروں، ماحولیات اور اوقاف کی ایسوسی ایشن نے 24 جون 2005ء کو ترکی کی اعلیٰ عدالت میں مقدمہ دائر کرکے مسجد کی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ تاہم عدالت نے یہ مطالبہ یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ میوزیم کا استعمال مسجد کی حرمت پامال نہیں کررہا، لہٰذا آیا صوفیہ کو میوزیم ہی رہنے دیا جائے۔ چونکہ چیمبر کا فیصلہ کمزور دلائل پر مبنی تھا، لہٰذا 2016ء میں ترکی کے اوقاف کے مذکورہ ادارے نے دوبارہ اپنا مقدمہ دائر کردیا، جس میں انھیں کامیابی حاصل ہوئی۔
آیا صوفیہ سے متعلق ترکی کی اعلیٰ ترین عدالت کونسل آف اسٹیٹ کے حالیہ فیصلے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس مقدمے میں کہیں یہ بحث ہی نہیں ہوئی کہ اس عمارت اور زمین کو مسجد ہونا چاہیے یا میوزیم یا گرجا گھر۔ اس حوالے سے بھی کوئی بات نہیں ہوئی کہ سلطان محمد فاتح کا اسے مسجد بنانا یا مصطفیٰ کمال اتاترک کا اسے عجائب گھر بنانا درست تھا یا نہیں۔ مقدمے کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ کیا حکومتِ ترکیہ کا اس عمارت پر قبضہ قانونی ہے یا نہیں؟
1923ء میں ترک جمہوریہ کے قیام کے بعد بھی 14 سال تک جامع مسجد آیاصوفیہ ایک نجی وقف کے پاس ہی تھی۔ سلطان محمد فاتح نے یہ مسجد براہِ راست حکومتی قبضے میں رکھنے کے بجائے ایک نجی وقف کے حوالے کی تھی جس کی قانونی حیثیت کو سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد بھی حکومتِ ترکیہ نے قبول کیا اور اس کی جمہوریہ ترکیہ میں باقاعدہ رجسٹریشن ہوئی۔ لیکن 1934ء میں مصطفیٰ کمال نے بغیر کوئی قیمت ادا کیے اس وقف کی اس جائداد یعنی مسجد آیاصوفیہ پر قبضہ کرلیا۔ اس کیس میں حکومتِ ترکیہ باقاعدہ فریق بھی نہیں تھی، تاہم سیاسی طور پر وقف کو ترکی کے صدر اردوان کی حمایت ضرور حاصل تھی۔ اگر حکومت چاہتی تو خود اپنے زیرانتظام عمارت کو مسجد بنادیتی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ جب وقف نے عدالت میں دستاویزی ثبوت پیش کردیے کہ یہ عمارت آرتھوڈوکس عیسائیوں نے سلطان محمد فاتح کو قیمت لے کر فروخت کی تھی اور محمد فاتح نے اسے اسلامی وقف کے حوالے کیا تھا، اور یہ کہ یہ عمارت اسلامی وقف کی ملکیت مسجد تھی، لہٰذا اتاترک کو ناجائز اور غیر قانونی اقدام کرکے اسے میوزیم بنانے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا، تو عدالت نے وقف کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے آیا صوفیہ کی مسجد کی حیثیت بحال کردی۔ واضح رہے کہ کسی گرجا گھر کو مسجد میں تبدیل نہیں کیا گیا، بلکہ ایک مسجد جسے عجائب گھر بنادیاگیا تھا، اسے اس کی اصل حیثیت پر لوٹایا گیا ہے۔
حکومتِ ترکیہ نے عثمانی دستاویز ظاہر کردی ہیں جس کے مطابق آیا صوفیہ کو سلطان محمد فاتح نے ذاتی حیثیت میں خرید کر مسجد کے لیے وقف کردیا تھا۔آیا صوفیہ 24 جولائی کو نماز جمعہ کے ساتھ باقاعدہ بطور مسجد کھلے گی۔ لیکن لوگوں نے ابھی سے آیا صوفیہ کے باہر نماز قائم کرنا شروع کردی ہے۔ جب تک آیاصوفیہ کو عجائب گھر کی حیثیت حاصل تھی، داخلے کے لیے ٹکٹ لینا ہوتا تھا۔ اب داخلہ بغیر ٹکٹ کے ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں، دونوں کے لیے مسجد کھلی رہے گی۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے ترک قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آیا صوفیہ کو مسجد بنانے کا فیصلہ قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ کی آزادی کی طرف پہلا قدم ہے، اِن شاء اللہ یہ فیصلہ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرے گا اور ایک شاندار مستقبل کی نوید بنے گا۔
آیا صوفیہ
اس موقع پر ترک سیاست دان، صحافی اور شاعر عثمان یکسیل سردانگیچتی(osmanyükselserdengeçti)کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں، جنھیں ’’آیا صوفیہ‘‘ پر ایک نظم لکھنے کی پاداش میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس تاریخی نظم کے آخری اشعار کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے : ۔
’’آیا صوفیہ۔ اے محتشم عبادت گاہ!
فکر نہ کرو
فاتح کی اولاد بہت جلد تمھارے بتوں کو الٹ دے گی، اور تجھے مسجد میں بدل دے گی
آنسوؤں سے وضو کرتے ہوئے سجدے کیے جائیں گے
تحلیل اور تکبیر کی صدائیں تیرے خالی گنبدوں کو دوبارہ بھر دیں گی
دوسری بار فتح ہوگی
فن کار اس کی داستانیں بنائیں گے، اذانیں اس کا اعلان کریں گی
خاموش اور لاوارث میناروں سے اٹھتی تکبیروں کی آواز دوبارہ فضا میں گونجے گی
پُر مسرت لشکارے دوبارہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں چمکیں گے
ساری دنیا فاتح کو دوبارہ زندہ ہوتے دیکھے گی
یہ ہوگا آیا صوفیہ! یہ ہوگا
دوسری بار فتح، موت کے بعد زندگی، یہ یقینی ہے
یہ دن قریب ہے، بلکہ کل، بلکہ کل سے بھی زیادہ قریب ہے‘‘