قرطبہ کا میئر جس نے ساڑھے سات سو سال بعد مسجد القاضی ابو عثمان بحال کرائی
فردوس گم گشتہ اندلس کا ذکر آتا ہے تو بے اختیار مولانا حالی کا وہ مرثیہ ذہن میں گونجنے لگتا ہے جو انہوں نے دہلی کی بربادی کے بعد لکھا تھا۔ اس کا ایک ایک لفظ آنسوئوں میں گندھا ہوا ہے۔ اگر ہم ان کے شعر میں تھوڑا سا تصرف کرلیں تو فنی سقم کے باوجود شاید ان کو بھی اعتراض نہیں ہوگا۔ ایک عرب شاعر کے بقول: ۔
فقلت لہ ان الشجیٰ یبعث الشجیٰ
فدعنی فھذا کلہ قبر مالک
چنانچہ اس سلسلے میں ان کے جذبات بھی وہی رہے ہوں گے جو ہمارے ہیں، بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ۔ اس لیے کہ شاعر بہت حساس ہوتا ہے:۔
تذکرہ اندلس مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز
سید یحییٰ قرطبی اندلسی نے اندلس کا ایک بڑا دل دوز مرثیہ لکھا تھا۔ ’’مرثیہ مصائب ِ اندلس‘‘ کے نام سے سرسید نے اس کا ترجمہ کیا تھا اور اپنے ایک طویل نوٹ کے ساتھ 26 جنوری 1878ء کو انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع کیا۔ یہ غالباً اپنی نوعیت کی پہلی کاوش تھی۔ یہ مرثیہ شذراتِ سرسید میں شامل ہے جسے دارالمصنفین نے شائع کیا ہے۔
پہلے 1236ء میں قرطبہ کی بربادی اور پھر 1296ء میں غرناطہ سے مسلمانوں کی بے دخلی ایسے واقعات ہیں جو خون کے آنسو رلاتے ہیں۔ جو وہاں سے نکل نہیں سکے ان کے ساتھ ایسے انسانیت سوز مظالم کیے گئے اور صدیوں تک کیے جاتے رہے جن کا تصور بھی محال ہے۔ اندلس میں بچے کھچے مسلمانوں نے جن کو مورسکو (Morisco) کہا جاتا ہے، صدیوں پر پھیلے ہوئے طویل عرصے میں جو مظالم سہے ہیں ان کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ اندلس کا مذہب کیتھولک عیسائیت قرار پایا، اس سرزمین پر کسی اور مذہب کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ مسجدوں کو گرجوں میں تبدیل کردیا گیا۔ مسجد قرطبہ کو بہت توڑ پھوڑ کر گرجا میں تبدیل کردیا گیا۔ اس علاقے کا نام ہی Consquista رکھ دیا گیا جس کے معنی ہیں ’فتح‘۔ گویا یہ اندلس کی عیسائی فتح کی سب سے اہم علامت تھی۔عہدِ حاضر میں اسپین کے فوجی ڈکٹیٹر فرانکو (Francisco Franco -1892 -1975) کا دورِ حکومت خاص طور سے بدنام زمانہ ہے۔ دانش وروں اور روشن خیال لوگوں کے لیے اس کا نام ہی ظلم و ستم کی علامت بن گیا تھا۔ کسی کو یہ آزادی نہیں تھی کہ کیتھولک عیسائیت کے سوا کوئی اور مذہب اختیار کرسکے۔ مذہبی آزادی یکسر مفقود تھی۔ اس نے نازی جرمنی اور فاشسٹ اٹلی سے اتحاد کیا۔
۔ 1975ء میں فرانکو کے انتقال کے بعد اندلس میں جمہوریت بحال ہوئی۔ اسے سیکنڈ ریپبلک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نئے نظام کے نفاذ کے بعد سب سے پہلے قرطبہ کی میونسپل کونسل کا انتخاب ہوا۔ اس انتخاب میں قرطبہ کے میئرکی حیثیت سے جس شخصیت کا انتخاب ہوا وہی ہماری اس مختصر تحریر کا موضوع ہے۔ اپنی بے مثال مقبولیت اور ایوان میں غیر معمولی اکثریت، نیز مسلمانوں کے لیے انہوں نے جو کام کیے ان کی وجہ سے لوگ ان کو سرخ خلیفہ (Red Caliph) کے نام سے یاد کرنے لگے۔ سرخ اس لیے کہ وہ کمیونسٹ تھے۔ برصغیر کے مسلمان ان کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں اور نہ ان کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ آئندہ سطور میں ان کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
میئر خولیو (Julio Anguita Gonzales) کی پیدائش 21 نومبر1941ء کو ہوئی۔ خاندانی پس منظر عسکری تھا۔ بارسلونا یونیورسٹی سے تاریخ میں ڈگری حاصل کی اور تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ اُس وقت جنرل فرانکو کی سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے دانش ور اور حساس لوگ کمیونزم کی طرف مائل ہوجاتے تھے اور نظامِ وقت کے خلاف بغاوت کے جذبات ان کے دل و دماغ میں پرورش پانے لگتے تھے۔ یہی کچھ خولیو کے ساتھ ہوا۔ 1973ء میں وہ کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ منسلک ہو گئے۔ پھر وہ جلد ہی پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے اہم عہدے پر فائز ہوگئے۔ 1989ء سے 2000ء تک یونائیٹڈ لیفٹ کے کو آرڈی نیٹر رہے۔ اسی دوران وہ میڈرڈ سے پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے۔ ملکی اور سیاسی نقطہ نظر سے یہ سب بڑی کامیابیاں ہیں، لیکن عالمِ اسلام میں بالخصوص جن کاموں کے لیے وہ جانے اور پہچانے گئے وہ انہوں نے قرطبہ کے میئر کی حیثیت سے انجام دیے۔
سیکنڈ ریپبلک دراصل فرانکو کے طویل ظالمانہ دور کے بعد تازہ ہوا کے ایک جھونکے کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کے زیراثر جمہوریت کی بحالی کے علاوہ نئے دستور میں دوسرے مذاہب کی آزادی کو بھی تسلیم کیا گیا تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا جس کا مسلمان نہ جانے کب سے انتظار کررہے تھے۔ دراصل اسپین کی تاریخ کے خصوصی پس منظر میں یہ بہت بڑی پیش رفت تھی۔ اس سے پہلے جو مسلمان وہاں رہتے تھے وہ اپنے تشخص کو چھپاتے تھے، یا باقاعدہ عیسائیت قبول کرلیتے۔ اب مسلمان بھی اسپین کے قانونی شہری تھے۔ نئے دستور کے زیراثر سب سے پہلا انتخاب قرطبہ کے میئر کا ہوا۔ اس میں خولیو بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ انہوں نے اپنی پہلی مدت میں جو کام کیے اور جو نیک نامی اور مقبولیت حاصل کی اس کے نتیجے میں جب وہ دوبارہ الیکشن کے لیے کھڑے ہوئے تو ان کو غیر معمولی اکثریت حاصل ہوئی۔ پھر انہوں نے جو کام کیے اور مسلم دوستی کا جو مظاہرہ ان کی طرف سے ہوا، اس کی وجہ سے عوام ان کو سرخ خلیفہ کے نام سے یاد کرنے لگے۔ قدیم اسلامی دارالسلطنت کے میئر کے لیے یہ خطاب کتنا معنی خیز ہے، اس کا اندازہ باآسانی کیا جا سکتا ہے۔ عہدِ جدید میں اسپین میں قومیت کا جو تصور ابھرا ہے اس میں وہاں کے مسلم ماضی سے وابستگی اور اس پر فخر کا احساس بھی ایک اہم عنصر کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اقبال جب یہ کہتے ہیں: ۔
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دلنشیں
بوئے یمن آج بھی اس کی ہوائوں میں ہے
رنگِ حجاز آج بھی اس کی نوائوں میں ہے
تو اس میں مبالغہ کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ اس کے مظاہرے زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتے ہیں۔ انہی جذبات کے زیراثر 1972ء میں اُس وقت کے میئر کو زمین رانیتہ نے یونیسکو سے مطالبہ کیا تھا کہ مسجد کبیر کو ورلڈ ہیومن ہیریٹیج میں شامل کیا جائے اور اس کی مسجد کی حیثیت بحال کی جائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مسجد قرطبہ جو فنِ تعمیر کا ایک شاہکار ہے اُس وقت تک اس فہرست میں شامل نہیں تھی اور نہ اُس وقت تک اس سلسلے میں جو کوششیں کی گئیں وہ بارآور ہوئیں۔ مسجد کبیر کو مسجد کی حیثیت سے بحال کرنے کے موضوع پر خاصا بحث مباحثہ ہوا۔ مسجد میں اسے چرچ بنانے کی وجہ سے جو تبدیلیاں آئی تھیں ان کو درست کرنے میں 10 ملین ڈالر کے اخراجات کا تخمینہ تھا۔ شاہ فیصل مرحوم نے فرانکو کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ اس رقم کا انتظام کردیں گے۔ یہ پیغام 1973ء میں بھیجا گیا۔ لیکن یہ کام ممکن نہیں تھا۔ مسجد کی ملکیت چرچ کے پاس ہے اور وہ اس پر کسی قیمت پر راضی نہیں ہوسکتا۔
اسپین کا نیا دستور 1979ء میں نافذ ہوا۔ 1980ء میں اسپین کی سرزمین پر تمام ادیان کی آزادی پر اتفاقِ رائے ہوگیا۔ اب مسلمان بحیثیت مسلمان وہاں کے شہری ہوسکتے تھے۔ پروفیسر علی المنتصر الکتانی جن کی کتاب ’’الانبعاث الاسلامی فی الاندلس‘‘ سے اس مضمون کے لیے بیشتر مواد حاصل کیا گیا ہے، پہلے ہی سے وہاں کے حالات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ 1980ء میں وہ قرطبہ آئے اور وہاں کے مسلمانوں سے ملے۔ نئے قوانین کے تحت انہوں نے وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ایک میٹنگ کی۔ اس میٹنگ میں ’’جمعیۃ قرطبہ الاسلامیہ‘‘ کی تشکیل عمل میں آئی۔ البتہ رجسٹریشن کے وقت ضرورت کے لحاظ سے اس میں جزوی طور پر کچھ تبدیلیاں کردی گئیں۔ اب اس کا نام ’’جمعیۃ قرطبہ الاسلامیہ و مقاطعامھا‘‘ رکھا گیا۔
اسی دوران نئے قوانین کے تحت ہونے والے الیکشن میں خولیو بھاری اکثریت سے میئر چن لیے گئے اور یہیں سے اندلس میں اسلامی تشخص کو ایک نئی جہت ملنے کے اسباب پیدا ہوئے۔ 1980ء میں پروفیسر علی کتانی نے ان کو تبریک کا ایک خط لکھا اور اس میں یہ مطالبہ کیا کہ قرطبہ کی حدود میں مسلمانوں کو کوئی ایسی جگہ مہیا کرائی جائے جہاں وہ مل جل سکیں اور اپنے مذہبی شعائر ادا کرسکیں۔ 18 ستمبر 1980ء کو میئر خولیو نے لکھا کہ اسپین کے عالمِ اسلام سے تعلقات کے پیش نظر ہماری یہ خواہش ہے کہ ایک مسجد مسلمانوں کے حوالے کردی جائے جہاں وہ اپنے مذہبی شعائر انجام دے سکیں۔ پروفیسر کتانی کے اظہارِ تشکر کے جواب میں میئر خولیو نے 6 اکتوبر 1980ء کو ان کو ایک خط لکھا اور انہیں قرطبہ آنے کی دعوت دی تاکہ متعلقہ معاملات پر بالمشافہ گفتگو کی جاسکے۔ چنانچہ پروفیسر کتانی اور میئر خولیو کے درمیان 24 نومبر 1980ء کو پہلی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں میئر نے بتایا کہ شہری کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ مسجد القاضی ابوعثمان کو ’’جمعیۃ قرطبہ الاسلامیہ‘‘ کے حوالے کردیا جائے، البتہ اس کی مرمت کی ذمہ داری جمعیت کی ہوگی۔ اس ملاقات میں یہ بھی طے پایا کہ 26 دسمبر 1980ء کو پروفیسر کتانی اپنے والد شیخ محمد المنتصر الکتانی کے ساتھ مسجد کی بازیابی کے لیے قرطبہ کا سفر کریں۔
قاضی ابوعثمان نے یہ مسجد عبدالرحمٰن الناصر (891ء۔ 961ء) کے عہدِ حکومت میں بنائی تھی۔ یہ ایک خاصی بڑی مسجد ہے اور مسجد کبیر سے کچھ زیادہ دور بھی نہیں ہے۔ اس کا طول و عرض ایک ہزار مربع میٹر ہے۔ سن 1236ء میں جب سلطان شمس الدین التمش نے ہندوستان میں ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد رکھنے کے بعد انتقال کیا، یہاں اسلام کی عظمت کا سورج غروب ہوگیا۔ عیسائیوں نے مسجد کبیر کو شہر کا خاص چرچ، اور مسجد قاضی ابوعثمان کو بھی چرچ بنادیا اور اس کا نام سینٹ کلارا رکھ دیا۔ کنیسہ نے بعد میں اس کو کسی وجہ سے حکومت کو فروخت کردیا اور اس طرح اس کی بازیابی کی راہ ہموار ہوئی۔ میئر نے 26 دسمبر 1980ء کو مسجد کی کنجیاں شیخ محمد المنتصر الکتانی کے حوالے کیں۔ اس کے لیے قرطبہ کے کونسل ہال میں ایک خصوصی رحمت کا اہتمام کیا گیا۔ وہاں سے پورا مجمع جس میں جمعیت کے ارکان بھی شامل تھے، مسجد گیا اور وہاں کے بلند مینار سے ساڑھے سات سو سال کے بعد اذان دی گئی۔ کیسا روح پرور منظر رہا ہوگا اور قرطبہ کے درو دیوار پر جو اثرات پڑے ہوں گے جو صدیوں سے اس آواز کے لیے ترس گئے تھے وہ اللہ ہی جانتا ہے۔
دیدہ انجم میں ہے تیری زمیں آسماں
آہ! کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
اس کے بعد نمازِ جمعہ ادا کی گئی۔ اس فیصلے کی مخالفت بھی ہوئی اور اسے ایک بہت خطرناک رجحان کی ابتدا کے طور پر دیکھا گیا، لیکن میئر اور ارکان اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک تاریخ ساز واقعہ تھا۔ بعد میں میئر خولیو کی کوششوں سے مسجد کبیر کو عالمی اہمیت کے آثار کی فہرست میں شامل کرلیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہوگئے تھے لیکن سیاسی مصالح کی وجہ سے اسے ظاہر نہیں کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔ البتہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ایک بار انہوں نے قرطبہ کے اسقف اعظم سے کہا تھا کہ میں تمہارا میئر ہوں لیکن تم میرے اسقف نہیں ہو۔
خولیو نے زندگی کے آخری ایام میں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ بہرحال تاریخ میں ان کا نام زریں حروف میں ثبت ہوگیا۔ 16 مئی کو ان کا انتقال ہوگیا۔ اس سرخ خلیفہ کے نام اور کام کو اسپین اور دنیا کے مسلمان احساسِ تشکر کے ساتھ یاد رکھیں گے۔
(بشکریہ ”معارف اعظم گڑھ“ جولائی 2020ء)