تحریک نظامِ مصطفیٰ اور ہم

تحریک کو انتخابی دھاندلی، آئین کی بالادستی اور شخصی آمریت سے نجات کے لیے یاد نہ رکھنا زیادتی ہے

پاکستان میں مارچ سے جولائی تک کے مہینے شدید گرمی کے مہینے ہیں۔ جولائی میں تو سورج سوا نیزے پر آجاتا ہے۔ ہر سال یہ مہینے سورج کی تپش برساتے ہوئے آتے ہیں جس سے لوگ بے حال ہوجاتے ہیں۔ لُو چلتی ہے تو جسم جھلسنے لگتے ہیں۔ لیکن اس ملک میں ایک بار یہی مہینے ایسے گزرے ہیں جب لوگ گرمی، تپش اور لُو کی پروا کیے بغیر ملک بھر میں سراپا احتجاج تھے۔ سڑکیں اُن کے خون سے رنگین ہورہی تھیں لیکن جذبے سرد ہونے کا نام نہ لیتے تھے۔ لوگ اپنے پیاروں کے لاشے اٹھاتے، زخمیوں کو اسپتال لے جاتے اور پھر لوٹ کر اس احتجاج میں، اس خونیں احتجاج میں شریک ہوجاتے تھے۔ آخرکار ان بے بسوں کی قربانیوں، صبر اور جرأت پر رب کائنات کو ترس آگیا، چنانچہ جولائی کے ابتدائی چار دنوں کی گرمی اور تپش میں احتجاج کرنے والے اور لاشیں اٹھانے والے 5 جولائی کو احتجاج کے بجائے شکرانے کے نوافل اور تشکر کے جلوس نکال رہے تھے۔ یہ جولائی 1977ء تھا۔ ملک کے شہری تو جنوری سے انتخابی مہم میں اپنی جانیں لڑا رہے تھے اور مارچ سے ان انتخابات میں دھاندلی کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے۔ 11 مارچ سے 4 جولائی تک احتجاجی جلسے جلوسوں کا یہ سلسلہ اس ملک کی سب سے بڑی عوامی تحریک کا عنوان بن گیا تھا۔ تقریباً چار ماہ تک بے پناہ جانی قربانیوں کے باوجود یہ تحریک کمزور نہیں پڑی تھی۔ پولیس کے بے پناہ تشدد اور تین شہروں میں مارشل لا لگائے جانے کے باوجود احتجاج کم ہوا تھا اور نہ تحریک کمزور پڑی تھی۔ 5 جولائی کو مارشل لا لگا تو لوگوں کو قرار آگیا۔ آج بھی اس ملک کے شہروں اور قصبات میں ایسے سینکڑوں بلکہ ہزاروں گھرانے موجود ہیں جنہوں نے اس تحریک میں اپنے پیارے قربان کیے یا وہ شدید زخمی ہوئے۔ تحریک میں حصہ لینے والے، اس دوران جیل جانے والے، اور زخمی ہونے والے لاکھوں افراد آج بھی زندہ ہوں گے۔ سیاسی جماعتوں کے ایسے قائدین بھی موجود ہیں جو اس تحریک کے دوران دوسرے یا تیسرے درجے کے لیڈر ہوا کرتے تھے۔ لیکن شاید آج کسی کو 5 جولائی اور وہ شاندار تحریک یاد نہیں ہے، یا پھر رواداری حقیقت پر غالب آگئی ہے۔
ہر سال کی طرح اِس بار بھی 5 جولائی خاموشی سے گزر گیا۔ تحریک نظام مصطفیٰ کے دوران انتخابی دھاندلی، شخصی آمریت اور فسطائیت کے خلاف تحریک چلانے والی کسی جماعت نے اس دن کوئی بیان بھی جاری کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ پیپلز پارٹی نے روایتی انداز میں ایک بیان جاری کردیا۔ اس کے کچھ کارکنوں اور حمایتیوں نے سوشل میڈیا پر گالیاں دے کر اپنی بھڑاس نکال لی۔ لیکن قربانیاں دینے والے خاموش ہیں۔ کیوں؟ اس کا کسی کو تو جواب دینا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں نے 5 جولائی کو مارشل لا لگنے کے بعد نہ صرف اس پر اطمینان کا اظہار کیا تھا، بلکہ کئی دن تک خوشیاں منائی تھیں۔ ملک بھر میں اس خوشی میں حلوے کی دیگیں پک رہی تھیں، یہاں تک کہ پاکستان قومی اتحاد کے ایک رہنما کو یہ کہنا پڑا کہ اب دیگیں پکانا بند کردیں ورنہ ملک میں چینی کی قلت پیدا ہوجائے گی۔ مارشل لا لگنے تک پاکستان قومی اتحاد کے رہنما برملا یہ کہہ رہے تھے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اور اُس کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مذاکرات کے ذریعے صرف وقت حاصل کررہے ہیں۔ وہ وقت ملتے ہی دو تین لاکھ افراد کو قتل کرانے میں ذرا تامل نہیں کریں گے۔
تحریک نظام مصطفیٰ جو اس ملک کی سب سے طویل، قربانیوں سے پُر، اور شاندار تحریک تھی پیپلز پارٹی نے پروپیگنڈے اور میڈیا کے زور پر اُسے ملک میں مارشل لا کی وجہ بنادیا۔ اور قومی اتحاد میں شامل جماعتوں نے سیاسی وضع داری کے باعث اس پر خاموشی اختیار کرلی، جس کی وجہ سے یہ بڑی اورشاندار تحریک شاید تاریخ میں ایک متنازع تحریک بن جائے۔ حالانکہ یہ سچے جذبوں، قربانیوں اور مظلوموں کے خون سے رنگین تحریک تھی۔ میڈیا نے ضیاء دشمنی میں ایسا کیا۔ اِس بار سوشل میڈیا پر لگنے والی پوسٹوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ عام آدمی بھی اسی پروپیگنڈے کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی بات 5 جولائی سے شروع کرتی ہے، جبکہ یہ بات ذوالفقار علی بھٹو کی، ایک سازش کے تحت آدھے پاکستان پر حکمرانی کے پہلے دن سے شروع ہوتی ہے۔ وہ پاکستان (متحدہ پاکستان) کی سنگل میجارٹی پارٹی نہیں تھے۔ جس دن سے انہوں نے اقتدار سنبھالا ملک میں فسطائیت، شخصی آمریت اور ظلم و ستم کا آغاز ہوگیا۔ اس ظلم سے خود اُن کے ساتھی بھی محفوظ نہ رہے۔ اُن کے پورے دورِ اقتدار میں ایمرجنسی نافذ اور انسانی حقوق معطل رہے۔ سیاسی مخالفین جیلوں میں قید یا قتل ہوتے رہے۔ ملک میں مہنگائی کے باعث لوگ کبھی آٹے، کبھی چینی اور کبھی گھی کی لائنوں میں لگے ہوتے۔ ایک ڈیموکریٹ ہونے کے دعوے دار وزیراعظم نے اپنے پورے عرصۂ اقتدار میں اپنی پارٹی میں انتخاب کرائے اور نہ ہی بلدیاتی انتخابات۔ ضمنی انتخابات میں دھاندلی اُن کی پہچان بن گئی۔ بلوچستان میں نیپ اور جے یو آئی کی مخلوط منتخب حکومت کو برطرف کرکے انہوں نے فسطائیت کی انتہا کردی، جس کے احتجاج میں صوبہ سرحد میں مفتی محمود کی حکومت نے استعفیٰ دے دیا۔ اس دور میں قومی اسمبلی سے اپوزیشن لیڈرز کو سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے ایوان سے باہر پھنکوایا گیا۔ دفاتر میں پیپلز پارٹی کی غنڈہ گردی چلتی تھی اور شریف سرکاری ملازمین کان لپیٹ کر وقت گزار دیتے تھے۔ اس سارے ظلم کے خلاف لوگ بھرے بیٹھے تھے کہ ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہوگیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے اپوزیشن کی 9 سیاسی جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد بناکر ملک بھرمیں مشترکہ امیدوار کھڑے کردیے۔ لوگ اِن امیدواروں پر نچھاور ہورہے تھے، انہیں نجات دہندہ قرار دے رہے تھے کہ وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ انتظامی مشینری کے ذریعے بلامقابلہ منتخب کرا لیے گئے۔ مگر عوام نے ہمت نہ ہاری۔ لیکن 7 مارچ کو قومی اسمبلی کے انتخابات میں سرکار نے ایسا جھرلو پھیرا کہ اگلے ہی روز پوری قوم سڑکوں پر آگئی۔ اور پھر یہ عوام 4 جولائی تک سڑکوں پر رہے۔ اس شاندار تاریخ کو جو جمہوریت کی بقا، آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، شخصی آمریت سے نجات اور شفاف انتخابات کے نتیجے میں ایک صحیح عوامی حکومت کے قیام کی تحریک اور تاریخ ہے، یاد نہ رکھنا زیادتی ہے۔ لوگ اس فسطائی حکومت سے اس قدر عاجز تھے کہ انہوں نے فوج کی آمد پر سُکھ کا سانس لیا اور پورے ملک میں اُس کو بڑے پیمانے پر خوش آمدید کہا۔ اس شاندار تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے بعض حلقوں کی جانب سے مذموم پروپیگنڈا کیا گیا جو اب بھی جاری ہے کہ حکومت اور پی این اے کی مذاکراتی ٹیم کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوچکے تھے، صرف فل اسٹاپ اور کامے لگنا باقی تھے کہ فوج نے شب خون ماردیا۔ وہ مسودہ جس پر فل اسٹاپ اور کامے باقی رہ گئے تھے آج تک قوم کے سامنے نہیں آسکا، جس پر مذاکراتی ٹیم کے ارکان کے اتفاق کرنے سے متعلق دستخط موجود ہوں۔ مارشل لا لگنے سے صرف ایک دن پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ کہہ کر مذاکرات منسوخ کردیے تھے کہ پی این اے کے لیڈر ہر بار نئے مطالبات لے کر آجاتے ہیں۔ اسی طرح کی پریس کانفرنس ایک دن پہلے پی این اے کے رہنمائوں نے بھی کی تھی اور تحریک شروع کرنے کے لیے تاریخ بھی دے دی تھی۔ رات گئے جب بہت تاخیر ہوچکی تھی اور فوجیں حرکت میں آچکی تھیں بھٹو صاحب نے دوبارہ مذاکرات کی دعوت دی، مگر اس وقت یہ ایک بیکار مشق تھی۔ پھر جب پیپلز پارٹی کے رہنمائوں اور پی این اے کے رہنمائوں کو حفاظتی تحویل میں لیا گیا اُس وقت، اور رہائی کے بعد بھی کسی نے نہیں کہا کہ مذاکرات تو کامیاب ہوگئے تھے۔ نئے انتخابات کے لیے انتخابی مہم شروع ہوئی تو بھٹو صاحب یا پی این اے دونوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ بعد میں جب بھٹو صاحب نواب محمد احمد خان قتل کیس میں گرفتار ہوئے تب بھی انہوں نے یا اُن کی پارٹی نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ پی این اے کی پارٹیوں نے جب ضیاء کابینہ میں اپنے وزیر دیے تب بھی کسی نے یہ احتجاج نہیں کیا کہ ضیاء نے تو کامیاب مذاکرات کے باوجود شب خون مارا ہے اس لیے ہم اس حکومت میں شامل نہیں ہوں گے۔ جیل کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے جو کتاب لکھی اُس میں بھی ایسی کوئی بات نہیں۔ نصرت بھٹو نے حکومت کی بحالی کے لیے سپریم کورٹ میں جو پٹیشن دائر کی اُس میں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا گیا۔ بدقسمتی سے اب پروپیگنڈے کے ذریعے اس ساری تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ حکومت اور پی این اے کے مذاکرات شروع ہی اس بنا پر ہوئے تھے کہ حکومت نے مارچ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزام کو تسلیم کیا تھا۔ اس لیے پیپلز پارٹی کے لیے تو آسان راستہ ہے کہ وہ دسمبر 1971ء سے جولائی 1977ء تک اپنی حکومت کی بدترین کارکردگی، فسطائیت، لاقانونیت، قتل و غارت گری، مہنگائی اور امن وامان کی خراب ترین صورت حال کے علاوہ انتخابات میں دھاندلی پر بات کرنے کے بجائے 5 جولائی کے شب خون سے بات شروع کرتی ہے۔ لیکن باقی جماعتیں جنہوں نے اس تحریک میں جانیں اور قربانیاں دیں وہ اگر تاریخ کا بیانیہ درست نہیں کریں گی تو کل کلاں کو یہ کہا جائے گا کہ ایک سازش کے تحت منتخب حکومت کو ختم کیا گیا، اس سازش میں قومی اتحاد کی جماعتیں بھی شریک تھیں۔ بلکہ پیپلز پارٹی کے دانشور تواب بھی یہی کہہ رہے ہیں، حالانکہ اس کا سچائی سے دور دور کا تعلق نہیں۔ پی این اے کی تحریک خالصتاً ایک عوامی تحریک تھی جو حکومتی مظالم اور انتخابی دھاندلی کے خلاف شروع ہوئی تھی اور نظام مصطفیٰ کے نعرے کے تحت آگے بڑھ رہی تھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دانشور اور سیاسیات کے ماہرین کے علاوہ سیاسی قائدین عوام کے سامنے پورا سچ رکھیں، اور ماضی کی اس شاندار تحریک کو داغدار ہونے سے بچائیں۔