ہٹلر مودی کا ’’سہولت کار‘‘ بن کر مظلوم کشمیری مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی
۔13 جولائی… یوم شہدائے کشمیر… جب آج سے 89 سال قبل جدوجہدِ آزادیِ کشمیر کے نہتے مجاہدین نے ڈوگرہ فوجیوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان کیا اور برستی گولیوں کے دوران اذان دے کر عزم و ہمت اور جرأت و استقامت کی ایسی داستان رقم کی جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اذان دیتے ہوئے 22 کشمیری حریت پسندوں نے سینے پر گولیاں کھا کر جام شہادت نوش کیا مگر اپنے استقلال میں جنبش نہیں آنے دی اور اذان دینے کا عمل مکمل کرکے دم لیا۔ قربانی، استقلال اور استقامت کی اس ناقابلِ یقین اور ناقابلِ فراموش داستان ہی کے تناظر میں 13 جولائی کو ہر سال دنیا بھر میں کشمیری مسلمان، اور اُن سے اظہارِ یکجہتی کی خاطر پاکستانی شہری بھی ’’یوم شہدائے کشمیر‘‘ جذبۂ عقیدت کے ساتھ مناتے ہیں۔ اِس برس بھی یہ دن مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے علاوہ پورے پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پورے جوش و خروش سے منایا گیا۔ حریت قیادت کی ہدایت پر مقبوضہ کشمیر میں اس روز مکمل ہڑتال کی گئی اور وادی کے طول و عرض میں فوج کی بھاری نفری کی موجودگی میں ہر طرح کی رکاوٹوں کو توڑ کر احتجاجی ریلیاں منعقد کی گئیں۔ آزاد کشمیر اور پاکستان میں بھی اس کی پیروی کی گئی اور بہت سے شہروں اور قصبات میں احتجاجی جلسوں، جلوسوں، ریلیوں اور سیمینارز وغیرہ کا اہتمام کیا گیا، جن کے ذریعے 13 جولائی کے عظیم شہدا، اور اس کے بعد سے آج تک ان کی تحریکِ آزادی کو زندہ رکھنے والے حریت پسندوں کی بے مثال قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ بھارت نے گزشتہ سال 5 اگست سے اب تک پوری مقبوضہ وادی میں جس طرح مسلسل لاک ڈائون اور کرفیو کی پابندیوں میں معصوم اور بے گناہ شہریوں کو جکڑ رکھا ہے اور ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، اس حوالے سے اِس برس ’’یوم شہدائے کشمیر‘‘ کے موقع پر پہلے سے کہیں زیادہ جوش و جذبہ دیکھنے میں آیا۔
پاکستان میں عوامی کے علاوہ سرکاری سطح پر بھی یہ دن منانے کا اہتمام کیا گیا۔ صدرِ مملکت، وزیراعظم اور دیگر تمام اہم سیاست دانوں نے اپنے پیغامات میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے بھارتی تسلط سے نجات تک ہر طرح سے کشمیری عوام کی جدوجہد کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا، اور اس یقین کا اظہار بھی کیا کہ وہ دن دور نہیں جب مودی کے مظالم اپنے انجام کو پہنچیں گے، مقبوضہ وادی کے عوام کو ان کا مسلمہ حقِ رائے شماری ملے گا اور وادی میں آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔
جلسوں، جلوسوں، ریلیوں ، سیمیناروں اور رہنمائوں کے بیانات کو اگر دیکھا جائے تو یہ گزشتہ پون صدی سے جاری ہیں، ان کے نتیجے میں اگر کشمیر کو آزادی ملنا ہوتی تو یہ خطہ کب کا آزاد ہوچکا ہوتا۔ مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے قائدینِ کرام بیانات تو بہت زبردست دیتے ہیں، تقاریر بھی بے مثال کرتے ہیں، مگر عمل کے میدان میں ان کی کارکردگی مثبت کے بجائے منفی نظر آتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اقوام متحدہ میں تو کشمیر کی خاطر ہزار سال تک لڑنے کے دعوے کرتے رہے مگر اُن کے عملی کردار کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان دولخت ہوگیا بلکہ کشمیر کی آزادی کی منزل بھی کوسوں دور چلی گئی۔ انہوں نے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد اقتدار سنبھالا تو شملہ میں اندرا گاندھی سے مذاکرات کے بعد جو معاہدہ کیا اُس میں مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کا دو طرفہ مسئلہ تسلیم کرکے جدوجہدِ آزادی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ بھٹو کے بعد ان کی بیٹی اور داماد کے دور میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے دعوے تو بہت بلند رہے مگر عملی کردار ان دعووں کے برعکس ہی رہا۔ میاں نوازشریف کی قیادت میں مسلم لیگ کا معاملہ بھی ایسا ہی رہا، وہ زبان سے تو خود کو کشمیری کہتے اور کشمیری عوام کا وکیل قرار دیتے رہے، مگر عملاً انہوں نے بھی بھارت کے ہٹلر نریندر مودی کے تمام تر ظلم اور انتہا پسندی کے باوجود اس سے دوستی کی پینگیں بڑھائیں اور اس حد تک چلے گئے کہ اپنی نواسی کی شادی کی خالصتاً نجی تقریب میں دنیا بھر سے جس واحد شخصیت کو جاتی عمرہ مدعو کیا وہ یہی ظالم اور جابر نریندر مودی تھا۔ جنرل پرویزمشرف کے اقتدار میں بھی بھارت کو نوازنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی، بھارت کو کشمیر میں جنگ بندی لائن پر باڑ لگانے کی اجازت دی گئی، مجاہدینِ کشمیر پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں اور مسئلہ کشمیر کے حل کے نت نئے فارمولے پیش کرکے مقبوضہ کشمیر کے عوام اور حریت قیادت کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا گیا۔
پاکستان کی موجودہ حکومت بھی زبان اور بیانات کی حد تک تو کسی سے پیچھے نہیں، بلکہ ماضی کے حکمرانوں سے قدرے آگے ہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں نہایت زوردار خطاب کیا اور دنیا کو مسئلہ کشمیر پر دو ایٹمی طاقتوں کے مابین تصادم کی دھمکی تک دے ڈالی۔ بھارت نے پانچ اگست کا اقدام کیا تو اس کے خلاف شدید احتجاج کا عندیہ دیا گیا۔ بھارت سے تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مودی کے کشمیری عوام پر مظالم کے خلاف احتجاجی جلسے، جلوسوں کا اہتمام بھی ہوا، اور ہر جمعہ کو نمازِ جمعہ کے بعد بھارت کے خلاف مسلسل احتجاج کے پروگرام کا اعلان کیا گیا… مگر یہ تمام اعلانات ہمارے حکمران وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فراموش کرتے چلے گئے۔ بھارت کے خلاف تجارتی پابندیوں کے نام پر نیم دلانہ اقدامات کیے گئے۔ قوم مطالبہ کرتی رہی کہ بھارتی طیاروں کی پاکستانی فضا پر سے پروازوں پر مکمل پابندی عائد کی جائے جیسا کہ اُس نے مکتی باہنی کی بنگلہ دیش بنانے کی تحریک کے موقع پر بھارتی فضا پر سے پاکستانی طیاروں کی پروازیں روک کر پاکستان کے دونوں بازوئوں کے مابین فضائی رابطہ منقطع کردیا تھا۔ مگر جناب عمران خان اور ان کے ساتھی صاحبانِ اقتدار نے اس مطالبے پر کان نہیں دھرے۔ احتجاجی جلسے جلوسوں کا سلسلہ بھی آہستہ آہستہ مدھم ہوتے ہوتے ختم ہوگیا، اور ہر جمعہ کو نمازِ جمعہ کے بعد احتجاج کا وزیراعظم کا اپنا اعلان بھی چند ہفتوں کے بعد ان کا منہ چڑانے لگا۔ جناب عمران خان نے اقوام متحدہ سے خطاب میں دو ایٹمی طاقتوں کے مابین تصادم کی جو بڑ ہانکی تھی وہ بھی بھٹو کی ہزار سال تک لڑنے کی دھمکی سے مختلف ثابت نہ ہوسکی۔
۔13 جولائی… یوم شہدائے کشمیر پر تو ہمارے حکمرانوں نے بھارت نوازی کی حد کردی، ایک جانب وہ ’’یوم شہدا‘‘ کے حوالے سے زوردار بیانات داغ رہے تھے، مگر دوسری جانب عمل کے میدان میں ہماری حکومت نے یہ ستم کیا کہ افغان حکومت کی درخواست کو جواز بناکر عین یوم شہداء… 13 جولائی کے روز اپنے سابقہ اعلانات سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے لاہور کی سرحد پر بھارت کے ساتھ واہگہ سرحد افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے کھولنے کا اعلان کردیا۔ کیا یہ اعلان بھارتی مظالم کی چکی میں پستے ہوئے، پاکستان سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے کشمیری مسلمانوں کو مایوسی اور ناامیدی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنے کے مترادف نہیں! پاکستانی حکمرانوں کو یہ ظلم اگر کرنا ہی تھا تو ’’یوم شہداء‘‘ پر اپنے اعلانات کی سیاہی خشک ہونے کا انتظار ہی کرلیتے۔ افغان حکومت کی درخواست کا جواز ہماری حکومت نے اس پسپائی اور رسوائی کے لیے تراشا ہے تو سوال یہ ہے کہ آج تک افغان حکومت کا اپنا طرزعمل کیا اس قابل ہے کہ اُس کی درخواست کو پذیرائی بخشنا ہم پر فرض ہوگیا ہو؟ کیا افغان حکومت نے ہمیشہ بھارت نوازی کا وتیرہ نہیں اپنایا ہے؟ ہمارے راستے میں ہمیشہ کانٹے نہیں بوئے؟ اور خود افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی بحالی کی یہ درخواست دراصل بھارت کے مفادات کے تحفظ کے مقاصد اپنے اندر سموئے ہوئے نہیں؟ ہماری آخر کیا مجبوری تھی کہ ہم اس درخواست کو قبول کرنے سے معذرت نہ کرلیتے؟ اس سراسر یک طرفہ اور بھارتی مفادات کی محافظ درخواست کو مسترد نہ کردیتے…؟ مگر ہم نے تو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی خاطر ایک دو نہیں تمام کراسنگ ٹرمینل کھول دیئے ہیں۔
کیا کشمیری مسلمانوں کے زخموں پر ہم اس سے بڑھ کر بھی نمک پاشی کر سکتے ہیں کہ عین ’’یوم شہدائے کشمیر‘‘ پر ہم نے وزیراعظم عمران خان کے بقول ’’ہٹلر مودی‘‘ کے ’’سہولت کار‘‘ کا کردار اپنا لیا ہے…!۔