مکر و فریب زدہ اس دنیا میں کچھ لوگ زمین کا نمک تھے۔ خرم مراد صاحب مرحوم، قاضی حسین احمد صاحب مرحوم، پروفیسر عبدالغفور صاحب مرحوم کے بعد سید منور حسن صاحب بھی راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ یہ سب اس دنیا کے لوگ نہیں تھے، یہ کسی اور سیارے کی مخلوق تھے۔ غم ذات سے نکل کر امت کے غم میں مبتلا، امت کی فکر میں گھلتے گھلتے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ یہ سارے وہ ہیں جو آئینے کی طرح صاف اور شفاف تھے۔ جس طرح شیشے کے آر پار دیکھا جا سکتا ہے ان کی شخصیت میں بھی بال برابر فرق نہیں تھا۔ ان کی حسنات دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ انہوں نے علم، دین اور جدوجہد کی جو شمعیں روشن کیں ان کی روشنی قیامت تک جاری رہے گی، اور اس راہ کے مسافر فیضیاب ہوتے رہیں گے۔
کسی نے سچ لکھا ہے کہ سید مودودی کے بعد سید منور حسن صاحب کو زندگی میں مرشد لکھا جانے لگا۔
کہتے ہیں کہ اگر کسی کے بارے میں رائے دینی ہو تو وہ صائب رائے تب ہوگی جب آپ نے اس شخصیت کے ساتھ سفر کیا ہو، لین دین کیا ہو، غصے میں دیکھا ہو۔ سید صاحب کے ساتھ کئی سفر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، انھیں غصے میں بھی دیکھا اور رائے وہ ہے جو اوپر بیان کی، ایک ایسی شخصیت جس کے آر پار دیکھا جا سکتا ہو۔
رزم ہو یا بزم، پاک دل و پاک باز
۔1995 ء میں، جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھا تب ان کے ساتھ پہلا سفر اور وہ بھی دو دن پر مشتمل، کرنے کا موقع ملا۔ معروف صحافی منیر احمد زاہد کے بھائی بشیر عابد جو خود بھی ایک صحافی اور بڑی اچھی آواز کے مالک تھے، جامعہ منصورہ کے تلامذہ میں سے تھے۔آبائی تعلق زالورہ سوپور سے تھا۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں شہید ہوئے تو ان کی یاد میں عباس پور آزادکشمیر میں کانفرنس تھی۔ مہمانِ خصوصی سید منور حسن صاحب تھے۔ سید صاحب لاہور سے تشریف لائے اور پھر راولپنڈی سے ہم کشمیر جماعت کے جانثار ساتھی صالح طاہر صاحب کے ساتھ عباس پور روانہ ہوئے۔ اُس وقت موبائل فون نہیں تھا، اس لیے زندگی کچھ آسان بھی تھی۔ رات کو قیام راولاکوٹ کے ایک ریسٹ ہائوس میں تھا۔ وہاں پر سابق امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر سردار اعجاز افضل خان اور اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق معتمد عام برادر شبیر احمد مرحوم (2005ء کے زلزلے میں راہیِ ملکِ عدم ہوئے) دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہمارے منتظر تھے۔ نویں جماعت کا طالب علم ایک ملکی سطح کی شخصیت کے ساتھ پہلا سفر کررہا تھا۔ ادب اور احترام کے ساتھ ایک رعب اور دبدبہ بھی حاوی تھا۔ لیکن ابھی ہم نے کوہالہ پل بھی پار نہیں کیا تھا کہ نویں جماعت کا طالب علم ایک بڑی شخصیت کے ساتھ ایسے محوِ گفتگو تھا جیسے برسوں کا تعلق ہو۔
دہلی کے سید نہ صرف شستہ اور رواں زبان بولتے تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بذلہ سنجی، حاضر جوابی اور علم و فضل سے بھرپور گفتگو آپ کا خاصہ تھی۔ ’کے بجے‘ کا لفظ ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا لیکن سید صاحب کی زبان سے پہلی دفعہ سنا جب راولاکوٹ ریسٹ ہائوس
میں رات سونے سے قبل انھوں نے پوچھا کہ ’’صبح ’کے بجے‘ نکلنا ہے؟‘‘اگلے دن ہم وہاں سے عباس پور روانہ ہوئے۔ راستے میں اعجاز افضل صاحب راولاکوٹ اور علاقے کے بارے میں بتاتے رہے۔ کشمیری سرفروشوں سبز علی خان اور ملی خان کا بتایا۔ راولاکوٹ کے قریب وہ درخت ہے جہاں انگریزوں نے ان کی زندہ کھالیں کھینچی تھیں۔ عباس پور جو اُس وقت چھوٹا سا شہر تھا، اس میں بہت بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے۔ تحریک ِآزادیِ جموں کشمیر کے اوّلین میزبانوں میں سے ایک، اور کشمیریوں کے پشتی بان عبدالرشید ترابی صاحب نے کہا کہ آپ لوگ ایک شہید کی کانفرنس میں اتنی بڑی تعداد میں جمع ہوئے ہیں کہ اتنی تعداد میں لوگ جھنڈے والی گاڑیوں کا استقبال کرنے نہیں آتے۔
سید صاحب کا خطاب اور وہ بھی ایک شہید کی یاد میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے موقع پر، لوگ دم بخود تھے۔ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی، کشمیری عوام کی قربانیاں اور عالمی استعمار کی ریشہ دوانیاں ایسے بیان کیں جیسے حق ہوتا ہے۔ فرمایا کہ امریکہ نے افغانستان میں ہونے والی جدوجہد کو نہایت قریب سے دیکھا ہے، دوربین بلکہ خورد بین لگا کے دیکھا ہے۔ بغیر لانچر کے بیک وقت کئی کئی راکٹ فائر کرتے مجاہدین کو دیکھا ہے۔ تب ان کی تحقیق نے ان کو بتایا کہ یہ جذبۂ جہاد ہے جو ان کو اپنی قیمتی متاع ہنسی خوشی قربان کرنے کے لیے تیار کرتا ہے، اور اگر یہ افغان یہاں سے فارغ ہوئے تو پھر کشمیر کا رخ کریں گے۔ لہٰذا انھوں نے ایسے دجل اور فریب تیار کیے کہ افغان اپنے ملک میں ہی مصروف رہیں۔
سید صاحب کی بات کتنی سچ ہوئی کہ بعد میں کیسی کیسی کہانیاں گھڑ کے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، اور ایسے تانے بانے بُنے گئے کہ آج تک افغانستان میں حقیقی امن نہیں ہوسکا۔
عباس پور سے واپسی پر حریت رہنما اشرف صراف صاحب بھی ہمراہ تھے۔ بعد میں ان کا بیٹا مدثر ایف جی سرسید کالج میں میرا کلاس فیلو بھی رہا۔
صراف صاحب کشمیری لہجے میں صالح طاہر صاحب کو طاہر صالحہ کہتے تھے، اور ہم اس سے خوب محظوظ ہوتے۔
عباس پور سے جب ہم واپس پہنچے تو رات ہوچکی تھی۔ میں نے سید صاحب سے درخواست کی کہ رات کا کھانا ہمارے ہاں کھائیں۔ بڑے بھائی چودھری رضا محمد جو آج کل جماعت اسلامی پی پی14 راولپنڈی کے امیر ہیں، انھوں نے فوراً کھانے کا بندوبست کیا۔ بھاگم بھاگ کرکے جب دسترخوان سجا تو سید صاحب نے بمشکل ایک روٹی کھائی۔ اور میں نے دیکھا کہ یہ ان کا معمول تھا کہ ہمیشہ کم کھاتے۔ کہیں پر بھی جاتے تو کھانے کے بجائے پروگرام پر زیادہ توجہ دیتے۔ پروگرام کا وقت نماز کی مناسبت سے رکھتے۔ رضا بھائی بتا رہے تھے کہ اسلام آباد سے ان کو علامہ اقبال کالونی مولانا سرور صاحب کے ہاں پروگرام کے لیے لے کے جانا تھا۔ پشاور روڈ پر ایک پیٹرول پمپ کی مسجد پہنچے تو ابھی نماز میں 20 ۔25 منٹ رہتے تھے۔ میرا خیال تھا کہ مسجد مائی جان پہنچ کر نماز پڑھیں گے تاکہ اس کے بعد پروگرام میں تاخیر نہ ہو۔ لیکن منور صاحب نے کہا کہ ہم وہاں پر جماعت میں شامل نہیں ہوسکتے، لہٰذا ہم نماز یہیں پڑھیں گے۔ اور پھر باقی وقت وہاں پر ہی مسجد میں گزارا۔ ان کے ایک ڈرائیور صاحب نے بتایا کہ منور صاحب جب کراچی جاتے تو صبح کی نماز مختلف مساجد میں ادا کرتے کہ جہاں قرأت اچھی ہو۔ ان کی اپنی آواز بھی ماشااللہ خوبصورت اور منفرد تھی، اور سننے والوں کو مسرور کرتی تھی۔ لیکن میں نے دیکھا کہ جماعت کرانے کے لیے کبھی آگے نہیں ہوتے تھے۔ ہمیشہ کتراتے رہتے اور جو کوئی ساتھ ہوتا اس کو آگے کردیتے۔کئی دفعہ سفر میں مجھے یہ سعادت حاصل ہوئی کہ مجھے انھوں نے امامت کے لیے آگے کردیا۔
وضع داری، احترام اور بڑوں کا احترام کمال درجے پر تھا۔ ایک دفعہ ہم اکٹھے پشاور کسی پروگرام کے لیے جا رہے تھے۔ اس سے پہلے نوشہرہ محترم قاضی حسین احمد صاحب مرحوم کے ہاں جانا تھا۔ دوپہر کا وقت تھا، راستے میں منور صاحب نے مجھے کہا کہ نماز ظہر کے ساتھ ہی ہم جمع کرکے نماز عصر بھی پڑھ لیں گے۔ لیکن جب ہم وہاں پہنچے تو جماعت کھڑی ہونے سے پہلے مجھے زیرلب مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ یہاں دیوبند حضرات ہیں اور یہ جمع بین الصلاتین کو پسند نہیں کرتے، لہٰذا ہم عصر کی نماز پشاور چل کر پڑھ لیں گے۔ یہ احترام، رواداری اور محبت تھی۔ منور صاحب نے مجھے ایک دفعہ مولانا سرور صاحب کے بارے میں کہا کہ وہ بہت پہلے سے وقت لیتے ہیں اور پھر تیاری کے ساتھ بھرپور پروگرام کرتے ہیں۔
مجلس ہو یا خلوت، ایک ہی مؤقف اور بیان ہوتا تھا۔ فی زمانہ اگر کوئی بیان دیتا ہے تو سمجھ لیں کہ اس کا مؤقف اس کے برعکس ہے۔ میر ظفراللہ خان جمالی ایک دن فلور آف دی ہائوس پر کھڑے ہوکر بیان کررہے تھے کہ میں کہیں نہیں جارہا، اور اگلے دن پریس کانفرنس کرکے استعفے کا اعلان کررہے تھے۔ امریکی مداخلت پر سید صاحب کا مؤقف بڑا واضح اوردوٹوک تھا۔ جب بڑے بڑے جغادری خاموش ہوگئے تھے تب بھی سید کا نعرۂ مستانہ جاری رہا۔ معصوم اور بے گناہ لوگوں کی شہادت پر اتنا واضح اور کھلا مؤقف اختیار کرنا اور وہ بھی علی الاعلان بڑے دل گردے کا کام ہے۔ پرویزمشرف کے کردار اور سیاست میں مداخلت پر بھی ان کی سوچ واضح تھی۔
ایک دفعہ اسلام آباد میں بہت بڑی ریلی سے خطاب پر جانے سے پہلے ایک جماعتی بزرگ نے مجھے کہا کہ آپ منور صاحب سے کہیں کہ جلسوں میں فوج کے خلاف بات نہ کریں۔ ایسا اس لیے کہا کہ میں عمر میں کم تھا اس لیے منور صاحب شفقت سے میری بات سن لیتے۔ بہرحال میں نے مدعا سید صاحب کو بیان کردیا۔ فرمانے لگے کہ آپ کی بات ٹھیک ہے اور میں اتفاق کرتا ہوں، لیکن مجھے خود پر اختیار ہی نہیں رہتا۔ ہوسکتا ہے کہ میں بات ہی یہاں سے شروع کروں۔
یعنی جو بات دل اور دماغ میں ہے وہی زبان پر بھی، ایسا نہیں کہ دل میں کچھ اور زبان پر کچھ۔
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
تمام تر طوفانوں کے باوجود اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے۔
یادوں کی ایک بارات ہے۔ بقول فیض:۔
یادوں سے معطر آتی ہے
اشکوں سے منور جاتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ منور صاحب سامنے کھڑے ہیں۔ حرف حرف موتیوں میں رولنے والا، گفتگو کرتے تو دل چاہتا کہ بولتے ہی رہیں۔ جیو نیوز کے میرے دوست اور بھائی آصف بشیر کہتے تھے کہ سیاسی لیڈر جب پریس کانفرنس کرتے ہیں تو پہلے کوئی خبر پیدا کرکے پھر بیان کرتے ہیں، اور اکثر ان کے بیان سے ٹکر بنانا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن منور صاحب کا ہر جملہ ایک ٹکر ہوتا ہے، اور یہ واحد لیڈر ہیں جن کے ساتھ بیٹھ کر ہمیشہ بہت کچھ سیکھ کر جاتا ہوں، اور ان کی تقریر نہ صرف ہر بات کو واضح کردیتی ہے بلکہ رہنمائی کا سامان بھی لیے ہوتی ہے۔
پرویزمشرف کے زیر سایہ حکومت نے ابتدا میں بڑے بڑے منصوبے اور نکات بیان کیے تھے۔
منور صاحب صحافیوں سے کہتے تھے کہ اس پر بھی تو لکھا کریں۔ اور کچھ نہیں تو پہلے صفحے پر ہر روز ان کے منشور کا ایک ایک جملہ ہی لکھ دیا کریں۔
اکثر لوگ اجتماعات میں سوال کرتے ہوئے کہتے تھے کہ لوگ یہ کہتے ہیں… منور صاحب پوچھتے کہ یہ لوگ کہتے ہیں یا آپ کہتے ہیں؟ سوال کرنے والا کہتا کہ لوگ کہتے ہیں۔ تب منور صاحب کہتے کہ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ اور جماعت امریکی ایجنٹ ہیں، لیکن آپ نے مجھ سے یہ سوال کبھی آکر نہیں پوچھا، کیوں کہ آپ اس بات کو نہیں مانتے اور اعتراض کرنے والے کو خود جواب دے دیتے ہیں۔ اور جو سوال آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں اس پر آپ خود بھی مطمئن نہیں ہیں۔ جب سوال کرنے والا پریشان ہونے لگتا تو ایک مہربان قائد سامنے آجاتا۔ بڑی شفقت سے کہتے: ارے بھائی آپ پریشان نہ ہوں، آپ مجھ سے نہیں پوچھیں گے تو کس سے پوچھیں گے! آپ کا حق ہے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں… اور پھر تفصیل سے جواب دیتے۔
وضع داری کی بات ہورہی تھی تو یاد آیا کہ پروفیسر غفور صاحب منصورہ آئے ہوئے تھے۔ منور صاحب امیر بنے یہ تب کی بات ہے۔ میں منور صاحب کے ساتھ مہمان خانے کی طرف جا رہا تھا کہ آگے سے پروفیسر صاحب آگئے۔ منور صاحب بڑے احترام سے ان سے ملے۔ پروفیسر صاحب کہنے لگے کہ آپ کے امیر بننے پر مختلف چینلز اور اخبارات نے آپ کے بارے میں بڑا اچھا لکھا اور اچھی رپورٹس بھی دیں۔
منور صاحب نے حال احوال دریافت کیا اور پھر فرمایا کہ چودھری شجاعت حسین آپ کی بہت عزت کرتے ہیں، اور ان کی والدہ فوت ہوئی ہیں۔ آپ گجرات جاکر ان کی تعزیت کر آئیں۔
اور پروفیسر صاحب اگلے دن گجرات گئے اور چودھری صاحب سے تعزیت کی۔
سید صاحب وقت کے بہت پابند تھے۔ اور بے شک ہال یا جلسہ گاہ ابھی خالی ہو، جو وقت دیتے اُس پر پہنچ جاتے اور جو بھی شیڈول دیا جاتا اُس کی پابندی کرتے۔ اکثر میزبان موقع سے فائدہ اٹھا کر دیگر چیزیں شامل کرتے لیکن وہ اپنے شیڈول سے نہیں ہٹتے تھے۔2006 ء میں جب ہماری رہائش صدر راولپنڈی میں تھی تو میں نے بازار میں ایک بڑی سیرت کانفرنس رکھی۔ چند باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں، ایک تو وہی نماز والی بات۔ پروگرام مغرب کے بعد تھا۔ عشا کی نماز کا وقت ہوگیا تو منور صاحب نے کہا کہ میں پہلے نماز پڑھ کے آنا چاہتا ہوں۔ تب میں نے گزارش کی کہ ساتھ والی مسجد کے امام صاحب یہیں موجود ہیں اور جماعت پروگرام کے اختتام پر ہوگی۔ تب سکون کا سانس لیا۔
دوسری بات یہ کہ جب وہ پروگرام میں پہنچے تو معروف قاری اور نعت خواں قاری اعظم نورانی تلاوت کررہے تھے۔ تلاوت لمبی تھی۔کچھ دوستوں کے اصرار کے باوجود وہ آگے نہیں آئے اور پوری تلاوت جلسہ گاہ کے پیچھے کھڑے ہوکر سنی۔ ایسا میں نے خود بھی کم ہی دیکھا کہ مہمانِ خصوصی آئے اور کھڑا رہے۔ لیکن منور صاحب قرآن کے احترام میں کھڑے رہے۔
پروگرام کے بعد میں نے بغیر شیڈول کے گزارش کی کہ یہاں بزرگ رکن جماعت چودھری محمد علی صاحب بیمار ہیں، اگر اُن کی عیادت ہوجائے۔ محمد علی صاحب بھی غریقِ رحمت ہوئے۔ ملٹری اکائونٹس سے آفیسر ریٹائر ہوئے تھے۔ قرونِ اولیٰ کی یادگاروں میں سے ایک۔
منور صاحب کا اس کے بعد بھی پروگرام تھا۔ بات شیڈول کی آگئی۔ میں نے کہا کہ پانچ منٹ لگیں گے۔ بہرحال ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، اور جیسا کہ ہوتا ہے، میزبان کی خواہش ہوتی کہ اتنا بڑا مہمان آیا ہے تو اس کی خاطر مدارت میں کمی نہ ہو۔ اور وہاں بھی ایسا ہی ہوا۔
جب وہاں سے نکلے تو پیار سے کہنے لگے کہ یہ ان کا حق تھا ہم پر، لیکن دنیا کا کوئی کام پانچ منٹ میں نہیں ہوتا۔ اور پھر جس کی دل جوئی کے لیے جائیں اگر آپ کچھ کھا پی کے نہیں آتے تو اس کا دل خراب ہوتا ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے میچوں سے بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ ویسے خود ہاکی کے اچھے کھلاڑی تھے۔کہنے لگے کہ عمران خان نے ایک دفعہ مجھے کہا کہ آپ اتنے اچھے کھلاڑی تھے تو ہاکی کیوں نہیں کھیلی؟ میں نے جواب دیا کہ آپ جہاں کرکٹ کھیل کے آگئے وہاں میں پہلے آگیا۔ اور عمران خان نے ایک قہقہہ لگایا۔
ایک دفعہ پاکستان اور بھارت کا میچ تھا، اور ہم اسلام آباد سے مظفرآباد کے سفر پر تھے۔ وہاں سے ہمیں باغ جانا تھا۔ میچ شاید شام کا تھا۔ مجھ سے کہنے لگے کہ اب یہ آپ کا امتحان ہے کہ میچ کیسے دکھاتے ہیں۔ میں نے بہرحال بندوبست کرلیا کہ ہم رات کو مظفر آباد ٹھیریں گے اور صبح باغ چلے جائیں گے۔ جب پروگرام منور صاحب کو بتایا تو انھوں نے تفصیل پوچھی۔ اب اس میں یہ تھا کہ اگر ہم رات کو وہاں ٹھیرتے تو صبح باغ کا پروگرام متاثر ہوتا۔ لہٰذا میچ میں دلچسپی کے باوجود رات کو مظفرآباد نہیں ٹھیرے۔ رات کو سفر کیا اور راستے میں ریڈیو پر کمنٹری سن لی۔
باغ میں ایک فاریسٹ ریسٹ ہاوس میں ٹھہرے۔اگلے دن ریسٹ ہائوس سے جلسہ گاہ تک عبدالرشید ترابی صاحب نے ایک بڑے جلوس کا اہتمام کیا تھا۔ باغ شہر میں کانفرنس تھی۔ عوام کا جم غفیر تھا۔ دوسری جماعتوں کے زعما بھی تھے۔ ہم صبح نو یا دس بجے نکلے تھے اور کشمیری لیڈر تقریریں بہت لمبی کرتے ہیں، 3 بج گئے، منور صاحب کی باری نہ آئے۔ تب میں نے عثمان انور بھائی سے جو اسٹیج سیکرٹری تھے، گزارش کی کہ مختصر کریں۔ انھوں نے جواب دیا (جس پر میں مزید پریشان ہوگیا)کہ اب تین مقرر رہ گئے ہیں، وہ پندرہ پندرہ منٹ لگائیں گے۔ میں نے کہا کہ اگر آپ پندرہ منٹ کہہ رہے ہیں تو وہ خود اس کو تیس کرلیں گے۔
بہرحال عصر تک منور صاحب کی باری آئی۔ ازراہِ تفنن فرمایا کہ مجھے مہمانِ خصوصی کہا گیا ہے تو جتنا وقت باقی سب نے لگایا اس کے برابر میرا بھی حق ہے۔ تھکے ہارے مجمع کو چارج کردیا۔ لوگوں نے یکسوئی سے بات سنی۔بعد میں جب ہم گاڑی میں روانہ ہوئے تو میں نے کہا کہ بہت تھکاوٹ ہوگئی تھی لیکن پھر بھی آپ نے بھرپور خطاب کیا۔ کہنے لگے کہ تقریر مجمع سے ہوتی ہے۔ تب میں نے انھیں علامہ طالب جوہری کی بات سنائی کہ تقریر مقرر نہیں کرتا بلکہ مجمع کرواتا ہے۔ منور صاحب نے سن کے فرمایا کہ بالکل درست بات ہے۔ مقرر وہی ہے جو مجمع کو ساتھ لے کر چلے۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی فصاحت و بلاغت اور منطق کو کون نہیں مانتا! ان کے دلائل پر سب خاموش ہوجاتے۔ مولانا کو قائل کرنا خوب آتا ہے۔ لیکن منور صاحب سے وہ بھی کتراتے تھے۔ ایم ایم اے کے ایک اجلاس میں جب مولانا فضل الرحمٰن ہر بات میں ’ہم‘ کا صیغہ استعمال کررہے تھے تب منور صاحب نے کہا کہ جب آپ اے پی ڈی ایم کے اجلاس میں کہتے ہیں کہ ہم مشورہ کریں گے، تب تو سمجھ میں آتا ہے کہ آپ ایم ایم اے کی بات کرتے ہیں، لیکن اب یہاں بھی آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم مشورہ کریں گے تو اس سے کیا مراد ہے؟ تب مولانا ہلکے سے پریشان ہوئے اور باقی سب زیر لب مسکرائے۔ منور صاحب ایم ایم اے کی ایک افادیت یہ بیان کرتے تھے کہ اجلاسوں میں نماز کا وقفہ ہوتا ہے، دوسرے اتحادوں میں نماز کے وقفے نہیں ہوتے تھے اور ہم عجب امتحان سے دوچار… بیٹھیں تو نماز جاتی ہے، اور جائیں تو کیا عجب کہ پیچھے سے اہم فیصلے ہوجائیں، لیکن ہمیں تو بہرحال نماز کو ترجیح دینی تھی۔
منور صاحب کسی اور دنیا کے آدمی تھے۔ شیشے کی طرح صاف اور شفاف۔
رفتید ولے نہ از دل ما
اگرچہ وہ چلے گئے لیکن انھوں نے اپنی محنت اور جدوجہد سے علم و عمل کی جو شمع روشن کی، تشنگانِ علم اس سے قیامت تک روشنی حاصل کرتے رہیں گے۔ تمام تر دبائو اور مخالفت کے باوجود کشمیر، فلسطین، افغانستان اور پوری امت کا نہ صرف درد ان کے دل میں جاگزیں رہا بلکہ انھوں نے ہر محاذ پر صرف اور صرف امت کی بات کی۔ ان کی کوئی گفتگو ایسی نہیں جو امت کا درد لیے ہوئے نہ ہو۔