بلوچستان، جعلی ڈومیسائل پر وفاقی ملازمتوں میں دیگر صوبوں کے لوگوں کی بھرتیاں

سیاسی جماعتیں اور سماجی حلقے بیان بازی سے بڑھ کر اس زیادتی کے خلاف راست اقدامات اٹھائیں، عدالتوں سے رجوع کریں، اور اس عمل کی روک تھام کی ہر ممکن سعی کریں

یہ تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان پرایوں کے علاوہ اپنوں کے بھی برے سلوک و ستم کا شکار رہا ہے، مگر اس تناظر میں صریح زیادتی کا مرتکب وفاق اور وفاق کی طاقتور بیوروکریسی ہے۔ اب صوبے پر حاکمیت اور تسلط کی ایک اور صورت بھی سامنے آچکی ہے، جس کے لیے ذمے دار صوبے کے اندر دو عشروں پر محیط شورش برپا کرنے والے ہیں۔ بلوچستان کے اندر سیاسی جماعتوں اور صوبے کے ارکانِ صوبائی و قومی اسمبلی اور سینیٹ نے قانونی جنگ بھی لڑی ہے، عوامی و سیاسی میدانوں میں بھی صوبے کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ البتہ حقوق کی اس آئینی و قانونی جنگ سے کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔ سیاسی احتجاج اور جدوجہد ایک عام رواج کی مانند تصور کیے جاتے ہیں جنہیں اسٹیبلشمنٹ معمول کا شور شرابا جان کر نظرانداز کرتی ہے۔ اِن دنوں صوبے کے اندر جعلی ڈومیسائل پر دوسرے صوبوں بالعموم سندھ اور بالخصوص پنجاب کے لوگوں کی بلوچستان کے کوٹے پر وفاقی ملازمتوں میں بھرتیوں کا معاملہ بہت گرم ہے۔ یہ مسئلہ حقیقی ہے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کا حق سب کے سامنے مارا جارہا ہے، مگر اس صریح زیادتی اور ڈاکہ زنی کو ماضی میں روکا جاسکا اور نہ اب اس تسلسل کو روکنے کے فی الواقع امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ اخبارات اور سوشل میڈیا پر خوب بیان بازی ہورہی ہے، اس باب میں بلوچستان کی سبھی جماعتیں متفق ہیں، اور تمام جماعتیں اور حلقے حکومت سے اقدام اٹھانے کے مطالبات اور قانونی چارہ جوئی پر زور دے رہے ہیں۔ تاہم یہ سارے حلقے خود قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے کردار نبھاتے دکھائی نہیں دیتے۔
دراصل قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی تجاوز کا یہ سلسلہ شروع ہوا ہے۔ دوسرے صوبوں سے سرکاری ملازمین کا تبادلہ بلوچستان میں کیا جاتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ بلوچستان میں تعلیم یافتہ اور سرکار کو مطلوب ملازمین موجود نہ تھے۔ تعلیم کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔ چناں چہ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ان ملازمین کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کا اجراء ہوتا جو تبادلے کے بعد بھی ان اسناد کے حامل رہتے، جس سے ان کی اولادوں کو بھی ڈومیسائل جاری کیا جاتا۔ یوں بلوچستان اور وفاق میں صوبے کے لیے مختص کوٹے پر بڑی آسانی سے ملازمتوں کے حامل ٹھیرتے، اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہا ہے جیسے یہ ان کا قانونی حق ہو۔ اس کے ساتھ جعلی ڈومیسائل کے اجراء میں بھی اضافہ ہوا۔ باہر کے لوگ رشوت کے ذریعے صوبے کے مختلف اضلاع کی انتظامیہ سے ڈومیسائل بنوا لیتے ہیں، حتیٰ کہ لوکل سرٹیفکیٹ تک حاصل کرلیے جاتے ہیں، جس کی بنیاد پر تعلیمی اداروں میں داخلے لے لیے جاتے ہیں۔ میڈیکل، انجینئرنگ، ایگریکلچرکی نشستوں سمیت اسکالرشپس بھی حاصل کرلی جاتی ہیں۔ گویا بلوچستان کے کوٹے پر سینکڑوں نوجوان اسکالر شپ لے کر بیرون ملک جاچکے ہیں۔ بلوچستان کے طلبہ جو دوسرے ممالک اسکالرشپ پر جاتے ہیں، بتاتے ہیں کہ بلوچستان کے کوٹے پر آنے والے طلبہ میں ایک بڑی تعداد پنجاب کے رہائشیوں کی ہوتی ہے۔ بلوچستان کے اندر بھی ایسے ملازمین کی کمی نہیں جنہوں نے جعل سازی کے ذریعے ڈومیسائل اور مقامی سرٹیفکیٹ حاصل کررکھے ہیں۔ ان میں اعلیٰ ملازمتوں پر بیٹھے لوگ بھی شامل ہیں۔ بلوچستان کے بعض موجودہ پارلیمنٹرینز کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جعل سازی کے ذریعے مقامی سرٹیفکیٹ حاصل کررکھے ہیں۔
الغرض یہ مسئلہ سینیٹ میں نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر میر کبیر محمد شہی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے اُٹھایا۔ یقیناً بلوچستان کے دوسرے سینیٹرز نے بھی اٹھایا ہے جو اس معاملے کو صوبے کے نوجوانوں کی حق تلفی سمجھتے ہیں۔
گورنر بلوچستان امان اللہ خان یاسین زئی نے حلف اُٹھانے کے بعد وفاقی محکموں میں بلوچستان کے کوٹے پر جعلی ڈومیسائل پر تعینات ہزاروں غیر مقامی افراد کا ریکارڈ منگوانے کی ہدایت کردی۔ صوبے کے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو جاری ڈومیسائل کی ازسرنو تصدیق کرانے کی ہدایت کی۔ چناں چہ اب تک مختلف اضلاع کی انتظامیہ بڑی تعداد میں غیر قانونی ڈومیسائل کی نشاندہی کرچکی ہے۔ ضلع مستونگ میں چار سو جعلی ڈومیسائل کی نشاندہی ہو ئی۔ کوئٹہ اور چند دوسرے اضلاع سے بھی بڑی تعداد میں جعلی ڈومیسائل بنوائے جاچکے ہیں۔ بلوچستان کے کوٹے پر وفاق میں ایسے افراد نے بھی ملازمتیں حاصل کررکھی ہیں جنہوں نے زندگی میں کبھی اس صوبے میں قدم نہیں رکھا۔ جبکہ صوبے کے اندر بھی کئی محکموں بالخصوص پولیس میں بڑی تعداد میں باقی صوبوں سے تعلق رکھنے والے ایسے ملازمین موجود ہیں جن کے اہل و عیال بھی یہاں نہیں رہتے۔ وہ ریٹائرمنٹ تک اکیلے یہاں رہائش اختیار کرتے ہیں، تنخواہ گھر بھجواتے ہیں، اور ریٹائرمنٹ کے بعد خود بھی آبائی صوبے چلے جاتے ہیں۔
ہونا یہ چاہے کہ صوبے کے اندر ڈومیسائل کی ازسرنو تجدید ہو، تمام ڈومیسائل منسوخ کیے جائیں خواہ ان کا تعلق بلوچستان ہی سے کیوں نہ ہو۔ کیونکہ یہاں کے قدیم غیر مقامی خاندانوں کی بھی حق تلفی ہورہی ہے۔ یہاں سکونت رکھنے والے افراد دوبارہ اپنے اپنے اضلاع میں اسناد کے لیے رجوع کریں۔ ساتھ ہی جن سینکڑوں افراد نے ڈومیسائل کے حصول کے لیے جعل سازی کی ہے اور ملازمتیں حاصل کی ہیں، ان کے خلاف مجاز اداروں سے رجوع کیا جائے۔ اس سلسلے میں نادرا کی بھی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ نادرا چند سال قبل بلوچستان حکومت کو ایک تجویز بھی دے چکی ہے، مگر اس میں وفاق اور صوبے دونوں کے اندر موجود بااثر بیوروکریٹ رکاوٹ ہیں، کیونکہ وہ خود یا ان کے عزیز و اقارب اس کی زد میں آئیں گے۔ وزیراعلیٰ جام کمال بھی اس ضمن میں اپنی تشویش ظاہر کرچکے ہیں۔ جعلی ڈومیسائل کی منسوخی کو موجودہ صوبائی حکومت نے اپنی نوعیت کا پہلا قدم قرار دیا ہے۔ جام کے مطابق پچھلی حکومتوں نے اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیا تھا۔ خیر ایسا بھی نہیں ہے، ون یونٹ کے خاتمے کے بعد جب صوبے میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت بنی، سردار عطاء اللہ مینگل وزیراعلیٰ بنے تو اُنہوں نے اس حوالے سے قدم اٹھایا، لیکن کامیابی نہ ملی، کیونکہ سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ختم کردی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ سردار عطاء اللہ مینگل کے اقدامات نے جائز اور قانونی کے بجائے غلط رخ اختیار کیا۔ یوں اس پر پیش رفت نہ ہوسکی۔
یقیناً بہت سارے ملازمین ریٹائر ہوچکے ہیں۔ چناں چہ ان کی تفصیلات بھی سامنے آنی چاہئیں۔سیاسی جماعتیں اور سماجی حلقے بیان بازی سے بڑھ کر اس زیادتی کے خلاف راست اقدامات اٹھائیں، عدالتوں سے رجوع کریں، اور اس عمل کی روک تھام کی ہر ممکن سعی کریں۔ حتیٰ کہ صوبے کا ہر شہری شخصی طور پر بھی اپنے اردگرد ایسے کسی فرد کو جانتا ہو جس نے جعل سازی کے ذریعے ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹ حاصل کررکھا ہے یا اس بنیاد پر ملازمت حاصل کرچکا ہے، اس کے خلاف متعلقہ ضلعی انتظامیہ سے رجوع کرے۔ صوبے اور اپنے لوگوں کا حق مارنے والوں سے یقیناً رعایت نہیں ہونی چاہے۔