۔26 اگست 1941ء کو لاہور میں پورے ہندوستان سے پچھتر افراد مفکرِ اسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دعوت پر اقامتِ دین کی جدوجہد کی خاطر ایک صالح جماعت قائم کرنے کے لیے جمع ہوئے، جس کا نام جماعت اسلامی رکھا گیا۔ حاضر افراد میں بہت سارے نامور علمائے کرام تھے، جدید تعلیم یافتہ افراد بھی مسلم شناخت والے تھے، صرف ایک شخص کا حلیہ سب سے مختلف تھا، جب اس نے چند نامور علما کے اعلانِ شمولیت کے بعد اپنے آپ کو جماعت اسلامی کی رکنیت کے لیے پیش کیا تو اکثریت نے مخالفت کی اور کہاکہ جس کا حلیہ ہی مسلمانوں جیسا نہ ہو وہ اسلام کی خدمت کیا کرے گا! تو درخواست گزار کے یہ کہنے پر کہ ’’مجھے محدود عرصہ اصلاح کے لیے دیا جائے، معیار اپنالوں تو رہنے دینا، اور نہ کرسکوں تو خارج کردینا‘‘ داعیِ تحریک نے بھانپ لیا کہ کوئی چلے نہ چلے یہ شخص اقامتِ دین کی جدوجہد میں اپنے آپ کو کھپادے گا۔ اور داعی کا گمان صد فی صد پورا ہوا، بڑے بڑے دعویدار مختلف عذرات کا سہارا لے کر میدان چھوڑ گئے، لیکن اعتراض کا نشانہ بننے والا مرتے دم تک عہد نبھاتا رہا۔ یہ حزب اللہ کے لیے اللہ کی طرف سے پہلا انعام تھا جس کو دنیا نے میاں طفیل محمد کے نام سے جانا، اور جس کو بانیِ جماعت کا جانشین اوّل بننا نصیب ہوا۔
۔1941ء کے اُسی مقدس ماہ میں جس میں جماعت اسلامی قائم ہوئی، دہلی کے ایک دین دار گھرانے میں ایک بچے نے جنم لیا جس کا نام والدین نے سید منور حسن رکھا۔ کاتبِ تقدیر کو چونکہ اس کی پیدائش کے وقت قائم ہونے والی جماعت اسلامی کے لیے اس کو بے مثال کارکن، قابلِ تقلید رہنما اور عظیم قائد بنانا تھا، اس لیے مسبب الاسباب نے آغاز سے ہی اس کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کردیا۔ والد دین دار استاد تھے، اپنے طلبہ کو دین و دنیا کی تعلیم سے آراستہ کرتے تھے۔ والدہ گھر میں بچوں کی تعلیم و تربیت کرنے کے ساتھ خواتین کی مذہبی محفلوں میں جاتی تھیں اور وہاں وعظ و تقلین کرتی تھیں۔ ننھا منا منور حسن بھی ساتھ ہوتا جو ذوق و شوق سے سرورِ کائنات کے حضور نعتیں پڑھتا تھا۔ اس معمول کی وجہ سے خوش اخلاقی اور عبادت کا شوق بچپن میں ہی پختہ ہوگیا۔
جوانی میں ابتدائی تربیت کی بدولت نماز روزے کی پابندی تو رہی، لیکن دینی شعور اور مقصدِ زندگی سے آگاہی عام مسلمانوں کی سی رہی۔ اللہ تعالیٰ سلطانِ کائنات نے اس کا بندوبست یوں کیا کہ پہلے دین بیزار جوانوں سے جوڑ دیا، اور نہ صرف یہ کہ ان کی تنظیم کا رکن بنادیا بلکہ ان کی قیادت پر بھی فائز کردیا، اور جب مقصدِ تخلیق کی تکمیل کے لیے جدوجہد کا وقت آیا تو ایک طرف اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان سے رابطہ کرادیا جو ایک مدت تک بغیر مطالعہ کیے کتب واپس ملنے کے باوجود مایوس ہوئے بغیر مسلسل لٹریچر بھی فراہم کرتے رہے اور رابطہ بھی قائم رکھا، اور جب ایک دن دین بیزار جوانوں نے اپنے صدر پر اعتراض کیا کہ ’’رہنما ہمارے ہو، جدوجہد کے لیے ہدایات ہمیں دیتے اور ساتھ ساتھ اجلاس چھوڑ کر مسجد میں جاکر نماز باجماعت ادا کرتے ہو، یہ کیا مذاق ہے؟‘‘
دین بیزار کارکنان کا اعتراض سن کر ان کے صدر کا سویا ہوا مسلمان بیدار ہوگیا کہ جب دین دشمن دورنگی کو پسند نہیں کرسکتے تو ایک مسلمان کس طرح دورنگی اختیار کرسکتا ہے؟
اس ذہنی تبدیلی کے بعد سید منور حسن نے سید مودودیؒ کی کتب کا بغور مطالعہ کیا اور اسلامی جمعیت طلبہ سے دلی تعلق جوڑ لیا، اور پھر چند ہی سال میں کراچی یونیورسٹی جمعیت کے ناظم، پھر کراچی کے ناظم اور تین سال مسلسل جمعیت کے ناظم اعلیٰ رہے، اور جمعیت سے فارغ ہوکر بغیر کسی وقفے کے جماعت اسلامی پاکستان کے رکن بن گئے۔ چونکہ رب نے پیدا ہی جماعت اسلامی کی تشکیل کے ساتھ کیا تھا اور اقامتِ دین کے لیے نہ صرف بطور کارکن بلکہ قیادت و سیادت کے لیے مطلوبہ جملہ اوصاف اور صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا، سید نے اپنی جدوجہد سے موجود صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر دو چار سال نہیں بلکہ پوری نصف صدی قیم جماعت اسلامی کراچی، امیر جماعت اسلامی کراچی، نائب قیم جماعت اسلامی پاکستان، قیم جماعت اسلامی پاکستان، پانچ سال امیر جماعت اسلامی پاکستان، اور عمر کے آخری چھے سال قائد جماعت اسلامی پاکستان کی حیثیت سے اللہ کے دین کی سربلندی، اقامت ِدین اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ تعالیٰ کا غلام بنانے کی جدوجہد کی، اور کروڑوں انسانوں کو اپنی عظیم جدوجہد کا گواہ بناکر شاداں و فرحاں اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
سید منور حسن کی وفات پر بے شمار قلم کاروں نے آپ کے تقویٰ، پرہیزگاری، جانی مالی ایثار، استقامت اور دنیا سے بے رغبتی کا تذکرہ کیا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ سید کا مقام بیان کردہ تفصیلات سے بھی زیادہ بلند تھا، لیکن دو صفات تو بہت ہی باکمال تھیں۔ منور حسن صاحب کو جمعیت کی قیادت سے جو مقام، عزت، وقار، اثر رسوخ اور تعلقات کا سرمایہ حاصل ہوا تھا، جمعیت سے فارغ ہوکر وہ معاشی میدان میں مذکورہ سرمائے سے دنیا کا ہر مادی مقام حاصل کرسکتے تھے، لیکن انہوں نے اپنے کارکنان کو جمعیت اور جماعت کو اپنا مستقبل بنانے کی تلقین کی اور خود بھی ساری زندگی اس پر عمل پیرا رہے، اور ایک دن بھی دنیا کی آسائشیں حاصل کرنے کے لیے معاشی میدان میں کوئی جدوجہد نہ کی۔ اس میدان میں ان کے سامنے میاں طفیل محمد کی مثال تھی کہ جو اقامتِ دین کی جدوجہد میں شریک ہونے کے لیے اپنی خوش حالی اور تابناک معاشی مستقبل کو لات مار کر جماعت اسلامی میں آئے اور پھر زندگی کے آخری لمحے تک جماعتی جدوجہد کے سوا کچھ نہ کیا۔ اسی طرح سید منور حسن نے بھی جمعیت میں آنے سے لے کر دمِ واپس تک معاشی میدان میں قدم رکھ کر نہ دیکھا۔
دوسری عظیم صفت سید کی خوش مزاجی، کارکنان، احباب، چھوٹے بڑے جماعتی غیر جماعتی افراد سے کشادہ روئی، ہنسی مذاق، چھیڑ چھاڑ اور اپنائیت کا مظاہرہ تھا۔ وہ زاہدِ خشک مزاج نہ تھے بلکہ ہر ایک یہ سمجھتا کہ شاید مجھ سے سب سے زیادہ بے تکلف ہیں۔ نکتہ آفرینی اور برجستہ جملے حاضرین کو متاثر کرتے تھے۔ ضرورت پر طنز کی کاٹ زبانی و تحریری سامعین اور ناظرین کو ہلادیتی تھی۔
راقم کے ساتھ سید کی شناسائی 1965ء سے تھی جب وہ ناظم اعلیٰ تھے۔ آخری وقت تک رابطہ رہا۔ ہمیشہ گرم جوشی اور بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے اور ساتھ یوں تحسین بھی کرتے کہ ’’مذاق کرنا آسان ہوتا ہے لیکن سہنا بہت مشکل‘‘۔ چند سال پیشتراسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی میں ملاقات ہوئی، ان دنوں ہفت روزہ ایشیا لاہور میں ’’کارکن کی ڈائری‘‘ کے عنوان سے میری یادداشتیں شائع ہورہی تھیں۔ میں نے پوچھا کہ ’’کبھی آپ نے ملاحظہ کی ہیں‘‘؟ بڑی حیرانی کے انداز میں کہا کہ ’’ایشیا کا معیار اب اتنا گرگیا ہے کہ تمہاری تحریریں بھی شائع ہورہی ہیں!‘‘ میں نے بھی برجستہ جواب دیا کہ ’’جب آپ نہیں لکھیں گے تو ایشیا کو ہم جیسوں پر گزارا کرنا ہوگا‘‘ تو بھرپور قہقہہ لگایا اور جواب کی تحسین کی۔ تواضع اور بے نفسی کی انتہا کہ جب واپس ہونے لگا تو نہ صرف اپنے کمرے سے، بلکہ مین گیٹ تک تشریف لاکر رخصت کیا اور جب تک سواری پر سوار نہ ہوگیا گیٹ پر کھڑے رہے۔ صحت کی کمزوری اور اعلیٰ مقامی کی بنا پر میں نے بہت اصرار کیا کہ وہ یہ اہتمام نہ کریں۔ لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ جس چیز کی تربیت وہ دوسروں کو دیں خود اس پر عمل نہ کریں! سید مرحوم کا مذکورہ اہتمام اُن کی عظمتِ کردار اور بے نفسی کا مظہر تھا۔
اللہ کے حضور حاضر ہوجانے والے کے لیے مغفرت اور بلندیِ درجات کی دعا کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اور اس سنت کی اتباع ہر مسلمان پر لازم ہے۔ ہم بھی سید مرحوم کے صد فی صد جنتی ہونے کا یقین رکھتے ہوئے اتباعِ سنت میں مرحوم کی مغفرت اور بلندیِ درجات کی دعا کرتے ہیں اور رب کی رحمت سے یقین رکھتے ہیں کہ سید مودودیؒ سے لے کر سید منور حسن تک جتنے خادمینِ دین اس کے حضور حاضر ہوچکے ہیں ان سے محبت اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی تمنا کی بدولت ہم بھی جنت میں ان کے ہم نشین ہوں گے۔ اِن شا اللہ العزیز۔