تاابد منور تیرا نام رہے

سید منور حسن 5 اگست1941ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور تقسیمِ برصغیر کے موقع پر اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی میں آبسے۔ دہلی سے جدائی کا قلق اور اس کی یادیں ان کے قلب و ذہن کو ہمیشہ دکھی رکھتی تھیں، کیونکہ اجڑنا بسنا تو دِلّی کے نصیب میں ہے۔ پہلے بھی سو بار اجڑی اور برباد ہوئی، مگر پھر نئے سرے سے آباد ہوکر نت نئے سنگھاروں سے سجتی سنورتی رہی تھی۔ مگر 1947ء کے انقلاب میں اس کا جس بے دردی سے حلیہ بگاڑا گیا ویسا پہلے کبھی نہیں ہوا، اور نہ اس آن بان کے ساتھ کبھی آگے کو بس سکتی ہے، کیونکہ یہ انقلاب انگیز تباہی محض لوٹ مار، قتل و غارت گری تک محدود نہ تھی، بلکہ سرے سے اس بساط کو ہی تہس نہس کردیا گیا جس پر جماجمی ہونے پر اس کے خصوصی نقش و نگار پھر ابھر آیا کرتے تھے۔
منور صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ دورِ طالب علمی میں پہلے پہل وہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ ہوئے اور اس کے صدر بھی رہے، مگر پھر مولانا مودودیؒ اور نعیم صدیقیؒ کی تحاریر سے متاثر ہوکر اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوئے اور تین مرتبہ ناظم اعلیٰ رہنے کا اعزاز حاصل کیا۔ جب انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق جوڑا تو یہ وہ دور تھا جب مولانا مودودیؒ کی تحریک برگ و بار لارہی تھی۔ سید مودودیؒ نے انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ اسلام محض عبادات کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ضابطۂ حیات ہے، جو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ اور ہر دائرۂ کار میں رہنما ہونا چاہیے۔ اسی کو اپناتے ہوئے وہ جمعیت سے جماعت اسلامی کا حصہ بنے اور مختلف ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے 2009ء میں امارت کے منصب پر فائز ہوئے۔ وہ جماعت اسلامی کے چوتھے امیر تھے اور اسی ترتیب سے رخصت ہونے والوں میں بھی چوتھے ہی ثابت ہوئے۔
پُرخلوص، بے لوث اور پُرتپاک انداز میں ملنا، سلام میں پہل کرنا، دوسروں کے دکھ درد میں شریک رہنا اور دل کے غموں کو کسی پر آشکار نہ ہونے دینا… کیا سلیقہ تھا جو انہوں نے اپنی زندگی میں اختیار کررکھا تھا۔ کہیں نام کو تصنع نہیں… بناوٹ سے بے نیاز، ظاہرداری سے دور… ریاکاری ان کو چھو کر بھی نہیں گزری تھی، جو دل میں ہوتا وہی ان کی زبان پر اور دل میں ہوتا۔ خلوص اور محبت کی ایسی کشش تھی ان کی شخصیت میں کہ جو بھی ایک بار مل لیتا سدا کے لیے ان کا گرویدہ ہوجاتا۔ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ لوگ پروانوں کی طرح ان کے گرد رہتے۔
یاد آتی ہیں ان کی وہ تقریریں جن میں ستھری زبان اور اساتذہ کا سا پختہ اندازِ تخاطب، نئے سے نئے افکار اور جو لفظ جہاں ہے نگینہ کی طرح جڑا ہے، سادہ مگر مترادف الفاظ، ضرب الامثال کا خوب صورت استعمال، تلمیح اور استعاروں کا حسین امتزاج، جو اُن کی شعلہ بیانی کو پُراثر بناتا تھا۔ بین السطور سمجھانے کے لیے بہت کچھ، اور جہاں ضرورت محسوس ہو لطیف سا تبسم، ایسا پُرکیف اور دل نشین انداز کہ محفل پر سحر طاری ہوجائے۔
آہ! وہ ہستی جو ہمارے درمیان موجود تھی، جس کی شگفتہ بیانی، بردباری اور متانت کے سب ہی قائل تھے۔وہ عظیم رہنما ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔ ان کی سادگی، متانت، وضع داری اور رکھ رکھائو رہ رہ کر یاد آتا ہے۔
انہوں نے اپنی زندگی تحریکِ اسلامی کے لیے تج دی تھی۔ چند سال پہلے کی بات ہے، جب امارت سے فارغ ہوئے تو میں نے گزارش کی کہ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ جب بھی کراچی میں ہوں گا آپ کے یہاں پروگرام میں ضرور آئوں گا، تو آج کل آپ کا قیام کراچی میں ہے۔ وعدے کو ایفا کرنے سیرت کانفرنس میں تشریف لائے، مگر ضعف و کمزوری غالب تھی، بولے کہ کھڑے ہوکر تقریر نہ کرسکوں گا اس لیے کرسی کا اہتمام کردیں۔ اور سیرت کے گوشوں کو اس خوبی سے نمایاں کیا کہ سینکڑوں خواتین و حضرات پر مشتمل مجمع ہمہ تن گوش نظر آیا۔ پروگرام کے اختتام پر تواضع کا اہتمام تھا، معذرت کرتے ہوئے بولے کہ میں پرہیزی کھانا کھاتا ہوں۔ مجھے رہ رہ کر خیال آتا رہا کہ کاش وعدے کو ایفا کرنے کے لیے کوئی بہانہ کردیتے، مگر اللہ کی راہ میں تبلیغِ دین میں مصروف ہمارے اسلاف اپنی ذاتی پریشانیوں کو بالائے طاق رکھ کر ملّتِ اسلامیہ کی رہنمائی کی خاطر سخت سے سخت حالات میں کھڑے نظر آئے۔ بلاشبہ انہوں نے زندگی کی چھے دہائیاں عملِ پیہم کے ساتھ گزاریں، یہ الگ بات کہ زمانے نے کبھی قدر نہ کی۔ جب شہر کراچی لسانی عصبیت کی رو میں بہہ رہا تھا، وہ استقامت کا پیکر تمام ظاہری کامیابیوں سے بے نیاز قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیتے رہے، پیغام حق دیتے رہے اور اہلِ کراچی کو یہ احساس دلاتے رہے کہ قیامِ پاکستان کا اصل مقصد لسانی عصبیت سے بالاتر تھا، یہ وطن اسلامی نظام کے نفاذ کی خاطر قائم کیا گیا تھا۔ ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے وہ کامیاب نہ ہوتے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہی سرخرو اور کامیاب رہے، اور ربِّ جلیل کے یہاں انہی کے لیے کامیابی کی نوید ہے۔ آج وہ منوں مٹی تلے جا سوئے اور ساتھ تلخ یادیں اور غم و آلام کی وہ ساری کہانیاں جو بظاہر دنیوی کامیابی سے عبارت ہیں۔ شرافت، نجابت اور اخلاق و مروت کی جو بھی اعلیٰ اقدار ان میں موجود تھیں وہ بھی انہی کے ساتھ پیوندِ خاک ہوگئیں۔
ان کا رہن سہن جس میں اوسط درجے کی آسائشیں بھی موجود نہ تھیں، لباس بھی درمیانے درجے کا، سر پر جناح کیپ، پائوں میں سادہ سے جوتے… یہ تھی ان کی کُل کائنات۔ اسی میں وہ خود کو خوش و خرم اور مگن رکھتے، عیش و عشرت سے دور، بہت دور…یہاں پر کہا جاسکتا ہے کہ عیش و نشاط کی وہ محافل جو جنت الفردوس میں عطا ہوں گی ان کی نگاہوں میں جم کر رہ گئی تھیں۔
ان کی وفات کے ساتھ ہی ایک عہد کا خاتمہ ہوا۔ کتنی یادیں ہیں جو ان ہی کے ساتھ دفن ہوگئیں۔ چھے دہائیوں پر محیط ان کا سیاسی سفر جس کا ابتدائی حصہ نشیب و فراز سے گزرا اور پھر انہوں نے استقامت کی وہ راہ اختیار کی جو عزیمت کی منزل کہی جاسکتی ہے۔ کتنی تحریکیں تھیں جن میں وہ شریک رہے۔ دورِ ایوبی کی آمریت کے خلاف وہ میرِکارواں تو نہ تھے، مگر ایک طالب علم رہنما کی حیثیت سے خاصی شہرت پاچکے تھے۔ ہاں مگر تحریک نظام مصطفیٰؐ میں وہ قائدین کے شانہ بشانہ نظر آئے، ضیا الحق کی آمریت کوبھی انہوں نے کبھی پسند نہ کیا اور جب جمہوریت کے نام پر آمرانہ پالیسیاں اختیار کی گئی تو بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں تمام تر حکومتی پابندیوں کے باوجود پارلیمنٹ کے سامنے سالارِ قافلہ کے طور پر نمودار ہوئے اور نماز کی امامت کی، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی پامردی پر انگشت بدنداں تھے۔ یہ مجاہد پرویزمشرف کی آمریت میں ببانگ ِ دہل حق گوئی و بے باکی کی راہ پر گامزن نظر آیا۔
منور صاحب کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ جدوجہد ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ وہ تھک کر بیٹھنا نہیں جانتے تھے، گفتار کے غازی نہ تھے بلکہ اپنے کردار سے ثابت کیا کہ وہ باعمل و پاک باز انسان تھے۔26 جون کو آناً فاناً قضا کے فرشتے نے اپنا کام کیا۔
بے شک جو اللہ کی طرف سے آیا ہے اسے اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔