۔22 جولائی کو منائے جانے والے عالمی یوم دماغ کو اِس مرتبہ پارکنسن یعنی رعشہ کے مرض کے حوالے سے آگاہی کا دن قرار دیا گیا ہے۔پارکنسن(رعشہ) ایک دماغی مرض ہے جس میں دماغ کا ایک کیمیکل ڈوپامین بنانے والے خلیوں کی کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ ڈوپامین (dopamine) جسم کی حرکات وسکنات کے لیے بنیادی جز اور اہمیت کا حامل کیمیکل ہے۔ اس کی کمی کی صورت میں جسم میں مختلف علامات ظاہر ہونا شروع ہوجایا کرتی ہیں۔
پارکنسن ایک پیچیدہ مرض ہے، اس مرض میں مبتلا مریضوں میں ایک مرتبہ پارکنسن ہونے کے بعد دیگر بہت سے non motor symptoms بھی ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
بروقت اور درست تشخیص اور ادویہ کے موزوں استعمال سے رعشہ کی علامات کو بہت حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس بیماری کا کوئی مستقل و دائمی علاج نہیں، مگر ادویہ کے مناسب استعمال کے ذریعے مریض سالہا سال موثر زندگی گزار سکتے ہیں۔
پارکنسن کا مرض عمومی طور پر آہستگی سے بڑھتا ہے، اگرچہ یہ بیماری جان لیوا نہیں، مگر اس کے نتیجے میں ہونے والی پیچیدگیاں اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔
ایشیا میں پارکنسن (رعشہ) کے مریضوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جن کی اکثریت انڈیا، پاکستان اور قریبی ممالک میں موجود ہے، لیکن بڑھتی ہوئی غربت کے باعث یہ بیماری بہت حد تک نظرانداز کردی جاتی ہے۔
پاکستان میں پارکنسن یا رعشہ کی بیماری میں مبتلا لوگوں کی صحیح تعداد کے متعلق مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں اس بیماری میں مبتلا لوگوں کی تعداد سات لاکھ سے زائد ہے۔
پاکستان میں پچاس فیصد سے زائد مریض ایسے بھی ہیں جو پارکنسن کے مرض میں مبتلا ہیں لیکن ان کے مرض کی صحیح تشخیص ہی نہیں ہوئی، اور نہ انہیں کبھی علاج کی سہولیات میسر آئیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں رعشہ کی بیماری اور اس کی تشخیص کے حوالے سے معلومات و مہارت میں کمی ہے۔ نہ صرف عام افراد بلکہ عمومی طور پر طب کے شعبے سے وابستہ افراد بھی اس کی علامات و تشخیص کے حوالے سے نابلد ہیں۔
پاکستان میں رعشہ کے مرض میں مبتلا افراد زیادہ تر 60 سال یا اس سے زائد عمر کے ہیں، لیکن اس بیماری میں 40 سے 50 سال کی عمر کے افراد بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر رعشہ کے مریضوں کی تشخیص صحیح طور پر یا بروقت نہیں ہوپاتی۔ عمومی طور پر اس بیماری کی علامات کو فقط بڑھاپے کا ہی ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔
رعشہ کے متعلق عوامی آگاہی بہت ضروری ہے جس میں جلد تشخیص اور مریضوں کو عام انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کے قابل بنایا جا سکے۔ یہ ایک بیماری ہے جو کہ بڑھاپے کا ردعمل نہیں، لیکن یہ ایک قابلِ علاج مرض ہے۔ یہ زندگی بھر رہنے والا مرض ہے، اور تمام عمر اس کا علاج جاری رہتا ہے، اور علاج کے نتیجے میں لوگ فعال زندگی گزار سکتے ہیں۔
پاکستان میں اوسط عمر 60 سے 65 سال تک پہنچ گئی ہے، ساٹھ سے پینسٹھ سال کی عمر کے لوگوں میں سے دو فیصد کو رعشہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس مرض کی تشخیص کے لیے کسی ٹیسٹ کی ضرورت نہیں۔ ماہر امراضِ دماغ و اعصاب جسے ہم نیورولوجسٹ کہتے ہیں، طبی معائنہ کرکے اور مریض کی حرکات و سکنات والی علامتوں سے بآسانی پارکنسن کے مرض کی تشخیص کرسکتا ہے ۔
اس بیماری کی نظر آنے والی عام طور پر پہلی علامت ایک بازو میں غیر ارادی رعشہ (tremors) ہے جسے Pin Rolling Tremors کہتے ہیں۔ یہاں سے یہ بیماری شروع ہوا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ جسم کے پٹھے اکڑپن (rigidity) کا شکار ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ حرکات و سکنات بھی سست روی کا شکار ہوجاتی ہیں۔
مختصراً پارکنسن کے مرض کی خاص علامات میں روزمرہ زندگی کی حرکات و سکنات کی رفتار میں آہستگی کا ہوجانا، رعشہ کا ہونا (بالخصوص جب جسم کے اعضاء حرکت میں نہ ہوں)، عضلات میں لچک کا ضیاع، توازن برقرار رکھنے میں دشواری، پٹھوں میں تنائو، چلنے کی رفتار میں کمی، چھوٹے چھوٹے قدم کے ذریعے چلنا اور چلتے وقت مڑنے میں دشواری و آہستگی کا شامل ہونا ہے۔
پارکنسن کی بیماری کے مسلسل بڑھتے رہنے کی وجہ سے مزید علامات ظاہر ہوتی رہتی ہیں جن میں چہرے کے تاثرات میں کمی، چہرے کا اترنا، رال ٹپکنا، چال کا منجمد ہونا، گرنا، تھکاوٹ، ہاتھ کی لکھائی کا چھوٹا ہوجانا، قبض کا ہونا، ذہنی تنائو، دبائو، جنسی نظام میں کمزوری، مثانہ میں کمزوری، چکر آنا اور جلد کا خشک ہونا وغیرہ شامل ہیں۔
پارکنسن کے علاج کے لیے دواؤں کے ساتھ ساتھ بحالیِ اعصاب یعنی neurorehabilitation کا اہم کردار ہے۔ نیورو ری ہیبلی ٹیشن کہ جس میں فزیو تھراپی، اسپیچ لینگویج تھراپی، آکوپیشنل تھراپی اور سائیکولوجی شامل ہیں، پارکنسن کے مرض کی تشخیص ہوتے ہی ادویہ کے ساتھ مرض کی ضرورت کے مطابق ضروری ری ہیبلی ٹیشن پر مریض کو آمادہ کرنا معالج کےلیے ضروری ہے۔ اس طرح سے مریض ممکن حد تک جسمانی و ذہنی طور پر فعال رہتا ہے۔
ادویہ اور ری ہیبلی ٹیشن کےساتھ ساتھ مریض کی نگہداشت و تیمارداری بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
پارکنسن کے علاج کے لیے تمام ادویہ بآسانی دستیاب ہیں۔
رعشہ قابلِ علاج ہے، اس مرض کی جلد تشخیص مریض کے لیے بہتر ثابت ہوتی ہے تاکہ مریض کو عام انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کے قابل بنایا جاسکے۔ یہ بیماری قطعاً بڑھاپے کا ردعمل نہیں ہے بلکہ قابلِ علاج مرض ہے۔
پارکنسن کے مرض کی درست تشخیص ماہرِ امراض و دماغ و اعصاب (نیورولوجسٹ)طبی معائنے سے کرتے ہیں۔ اس کی تصدیق کے لیے کسی قسم کے لیبارٹری ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔
پارکنسن کے مرض کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ادویہ میں ترمیم ضروری ہوجاتی ہے۔
مریض کے لیے ازحد ضروری ہے کہ وہ اپنی بیماری کے متعلق مکمل اور ٹھیک معلومات حاصل کرے۔ باقاعدگی کے ساتھ اپنے معالج کو دکھائے۔ نیز علامات کی تبدیلی پر کڑی نظر رکھے اور علامات کی تبدیلی کے نتیجے میں فوری معالج سے رجوع کرے۔ ہر مریض کے علاج کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ صحت مند غذا، ورزش اور ادویہ کا بروقت و موثر استعمال علاج کی بنیادی کنجی ہے۔ زیادہ سے زیادہ پانی، سبزیوں اور پھلوں کے استعمال سے مریض بہتر محسوس کرتا ہے۔ پارکنسن ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج ادویہ اور مثبت رویّے سے ممکن ہے۔
رعشہ کا علاج بنیادی طور پر ادویہ اور ری ہیبلی ٹیشن سے کیا جاتا ہے۔ بیماری کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ دوائیوں میں ترمیم ضروری ہے۔ بعض اوقات نیورو سرجری کی بھی ضرورت پڑ جاتی ہے ۔
رعشہ کے مریضوں کی روزانہ کی جسمانی سرگرمیوں کو زیادہ سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ باقاعدگی سے ورزش یا فزیوتھراپی سے مریضوں کی جسمانی حالت کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے اور وہ متحرک رہتے ہیں۔ نیورولوجی اویرنس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن (نارف) نے اس سلسلے میں مریضوں کی جسمانی ورزش کے حوالے سے ایک مربوط و آسان کتابچہ مرتب کیا ہے جو پارکنسن کے مریضوں کے لیے نہایت مفید ثابت ہوگا۔ دنیا بھر میں پارکنسز کے متعلق آگہی کا دن 11 اپریل کو منایا جاتا ہے، جبکہ اِس بار ہر سال منائے جانے والے عالمی یوم دماغ (جو کہ دنیا بھر میں 22 جولائی کو منعقد ہوتا ہے) میں دماغ کی جس بیماری کے حوالے سے آگاہی اجاگر کرنے کے لیے تجویز کیا گیا ہے وہ پارکنسن (رعشہ) ہے۔
۔2020ء کے لیے عالمی فیڈریشن آف نیورولوجی (WFN) نے پارکنسن کے متعلق آگاہی کا موضوع قرار دیا ہے۔ درج بالا مضمون اس تناظر میں تحریر کیا ہے۔
نارف کے تحت رعشہ کے علاج اور آگہی سے متعلق ملک بھر میں مختلف مواقع پر آگہی کے پروگرامات منعقد کیے جاتے رہے ہیں تاکہ معاشرے کو اس مرض کے متعلق آگہی دے کر مرض پر قابو پانے میں مدد کی جاسکے۔