کلام ِغالب کا لسانیاتی و اسلوبیاتی مطالعہ

زیر نظر گراں قدر تحقیق محترمہ نبیلہ ازہر کے پی ایچ ڈی کے مقالے پر مبنی کتابی صورت ہے۔ محترمہ نبیلہ ازہر تحریر فرماتی ہیں:۔
’’زمانے کا ارتقا تغیر و تبدل سے مشروط ہے۔ مسائلِ زیست کی نوعیت کے ساتھ ساتھ فکر و نظر کے زاویے اور سوچ کے پیرائے تبدیل ہورہے ہیں۔ نئے ادبی رجحانات اور تحقیقی و تنقیدی تناظرات متعارف ہورہے ہیں، بالخصوص لسانیات و اسلوبیات کی روشنی میں زبان و ادب کا مطالعہ سائنسی بنیادوں پر کیا جارہا ہے تاکہ ارتقائے زبان اور مسائلِ اُسلوب کی تفہیم بہتر طور پر کی جاسکے۔ ایسے میں غالبِ صد رنگ کے نئے رنگ دریافت کرنا اور انہیں لسانیات و اسلوبیات کے جدید تنقیدی تناظر میں پرکھنا ایک دلچسپ ادبی مشغلے سے کسی طور کم نہیں۔ بلاشبہ ہر عہد کا قاری اپنے ذوقِ تجسس اور علم اور تجربے کی روشنی میں کلامِ غالب کو ازسرِنو پڑھنا اور سمجھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ جب راقم الحروف کی کلاسیکی ادبیات و غالبیات سے دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے موضوعِ مقالہ یعنی ’’کلامِ غالب کا لسانی و اسلوبیاتی مطالعہ‘‘ تفویض ہوا تو خوشی کے ساتھ ساتھ یہ فکر بھی دامن گیر ہوئی کہ اس بسیط موضوع سے انصاف کیوں کر ہوسکے گا؟ کہیں گنجینۂ لفظ و معنی کی گرہ کشائی میں بات مزید الجھ نہ جائے، اشکال و ابہام کا عیب نہ درآئے، مقالہ بے جا ضخامت کی حدود میں داخل نہ ہوجائے… غالب جیسی دیوہیکل شخصیت کے سامنے اپنی کم مائیگی کا احساس کچھ اور بھی بڑھ گیا۔ اور ہوا بھی یہی کہ اس طلسماتی اندازِ بیان کی تہ تک پہنچنا مشکل ہوگیا۔ بارہا قدم ڈگمگائے اور مایۂ ناز غالب شناسوں کے چراغِ فکر سے اکتسابِ نور کیا، تاہم بہت کچھ جان لینے اور تحریر کرلینے کے بعد بھی تشنگی برقرار رہی۔ گویا:۔

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

کلامِ غالب کے لسانی و اسلوبیاتی مطالعے کے لیے جو پہلو منتخب کیے وہ سب اپنی جگہ اتنے بسیط و ہمہ گیر تھے کہ ہر پہلو جداگانہ اور مکمل تحقیق کا متقاضی نظر آیا۔ کلامِ غالب کی انہی مشکلات کے باعث اکثر یہ مفروضہ بھی سامنے آیا کہ غالب پر اس قدر شدومد سے تحقیقی و تنقیدی سرمایہ فراہم ہوچکا ہے کہ اب مزید کچھ کہنے سننے کی گنجائش موجود نہیں۔ لیکن میرے نزدیک مطالعۂ غالب کو کسی ایک منزل پر چھوڑ دینا تحقیقِ غالب کے امکانات کی راہیں مسدود کرنے اور غالب فہمی کے آگے بند باندھنے کے مترادف ہوگا۔ غالب کی شاعری میں فکرِ امروز سے زیادہ فکرِ فردا کی کارفرمائی ہے۔ اس لیے ہر زماں و ہر نسل کلامِ غالب کی سحرکاری کی تفہیم کا حق رکھتی ہے۔ وہ زندگی کے شاعر تھے اور زندگی کے بدلتے ہوئے منظرنامے میں ان کی شاعری بھی ایک نیا جنم لیتی محسوس ہوتی ہے۔
گزشتہ صدیوں کے آئینے میں دیکھیں تو مطالعہ غالب کا تناظر ہر دور میں تبدیل ہوتا رہا ہے اور غالب کی شاعری کو ہر عہد کے ادبی رویوں، رجحانات اور تحریکوںکے پسِ منظر میں پڑھا اور سمجھا جاتا رہا ہے۔ عہدِ سرسید میں اصلاحی تحریکیں زور پکڑ رہی تھیں اور ’’نیچرل شاعری‘‘ کی اصطلاح وضع کرکے شعر کو اصلاحِ معاشرہ کا وسیلہ ٹھیرایا جارہا تھا۔ چنانچہ حالی ’’یادگارِ غالب‘‘ میں اپنے استاد کی قدآور شخصیت سے مرعوب ہونے کے باوجود یہ کہتے نظر آئے کہ:۔
’’مرزا کی لائف میں کوئی مہتمم بالشان واقعہ ان کی شاعری و انشا پردازی کے سوا نظر نہیں آتا…‘‘ (حالی، یادگار غالب: ص 5)۔
انیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں غزل کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا، لیکن ہر زمانہ غالب کی ندرتِ تخیل و طرفگیِ اسلوب کا معترف رہا۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال نے بھی غالب کو اپنا روحانی پیشوا تسلیم کیا اور نظم ’’مرزا غالب‘‘ میں انہیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔
عبدالرحمٰن بجنوری نے دیوانِ غالب کو عظمت میں الہامی کتابوں کے ہم پلہ قرار دیا۔ رومانویت کے علَم برداروں نے غالب کی انا پرستی اور جدت پسندی کی روشنی میں انہیں رومانی گردانا، ترقی پسندوں نے نوائے غالب میں انقلاب کا آہنگ تلاش کیا، سیکولر ذہنیت کے حامل لوگوں نے غالب کی وسیع المشربی اور انسان دوستی کا راگ الاپا، تو وجودیوں کو غالب کی سخت کوشی اور تنہائی پسندی میں اپنا رنگ دکھائی دیا، صوفیہ نے ’’صریر خامہ‘‘ میں ’’نوائے سروش‘‘ اور ’’نالۂ ناقوس‘‘ کی صدائیں سنیں۔ نفسیاتی دبستانِ تنقید سے وابستہ ناقدین نے ان کی شخصیت کی نرگسیت اور اناپرستی کو موضوع بحث بناکر کلامِ غالب کی نئی توجیہات پیش کیں۔ علامت پسندی کی تحریک نے مقبولیت حاصل کی تو کلام غالب سے تشکیک، رمز و ایما اور ابہام کے پہلو تلاش کیے جانے لگے۔ لسانیات، اسلوبیات، ساختیات اور پسِ ساختیات جیسے علمی و تنقیدی رویّے مقبول ہوئے تو کلام غالب نقد و نظر کی اس جدید کسوٹی پر پرکھا جانے لگا۔ کلامِ غالب کی صوتیات کا تعین کرنے کے لیے اصوات شماری پر زور دیا جانے لگا تو کبھی لفظ شماری میں ذہنی توانائیاں صرف ہوئیں۔ الغرض دیوانِ غالب ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر دور کا متجسس قاری اپنے تفکر کا عکس دیکھنے کا خواہش مند نظر آیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ غالب شناسی کے تناظرات یونہی ہر دور میں تبدیل ہوتے رہیں گے، بقول ڈاکٹر شمس الرحمٰن فاروقی:۔
’’ہر زمانہ شعرائے سلف کو اپنے طریقے سے پڑھتا ہے۔ ہر زمانے کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں اور ہر زمانہ اپنے ذوق کے مطابق اشعار اور شعرا کی درجہ بندی کرتا ہے۔ بڑے شاعر کے اکثر اشعار پر ہر زمانے میں اتفاقِ رائے کے باوجود ان اشعار کی معنویت اور مختلف اشعار کے مابین قبولیت اور ترجیح بھی مختلف ہوتی ہے۔‘‘ (فاروقی، شمس الرحمٰن، غالب پر چار تحریریں)
صرف یہی نہیں بلکہ بعض اوقات ایک ہی موضوع پر لکھنے والے دو اشخاص کا اسلوب اور ترجیحات بھی یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ راقم الحروف نے اس تحقیقی مقالے کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ چونکہ اس مقالے کے کلیدی مباحث کا تعلق لسانیات اور اسلوبیات سے ہے، لہٰذا ابتدائی دو ابواب مبادیاتِ لسانیات و اسلوبیات پر مبنی ہیں۔
باب اوّل ’’لسان، لسانیات اور لسانیاتی تنقید‘‘ کے زیر عنوان قائم کیا گیا ہے جس میں لسانیات کے بنیادی مباحث یعنی لسانیات کے تصور کی توضیح، لسانی مطالعے کی حدود، منصب اور مقاصد، علمِ لسانیات کی مختلف شاخوں اور دیگر علوم سے تعلق و اشتراک کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زبان سے متعلقہ دیگر مسائل مثلاً روزمرہ و محاورہ، ضرب الامثال، مرادفات، لسانی و معنوی تغیرات، اشتقاقیات، متروک، دخیل اور غریب الفاظ اور دیگر صرف و نحوی امتیازات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ نیز اردو زبان و ادب میں لسانیاتی تحقیق و تنقید کی روایت کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے، تاکہ اس تجزیاتی مطالعے کی روشنی میں غالب کے لسانی کمالات کو بہتر انداز میں سمجھا جاسکے۔
باب دوم بعنوان ’’اُسلوب، اُسلوبیات اور اُسلوبیاتی تنقید‘‘ میں تصورِ اُسلوب کی توضیح کے ساتھ ساتھ تشکیلِ اُسلوب کے بنیادی عناصر، اُسلوبیاتی تنقید اور مطالعے کی حدود پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ نیز اُسلوبیاتی تنقید پر کیے جانے والے اعتراضات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ اس باب کے آخر میں اُسلوبیاتی تحقیق و تنقید کی ادبی روایت کا مختصراً جائزہ لیا گیا ہے۔
ابتدائی دونوں ابواب اصل موضوع تک رسائی کا سفر آسان بنانے میں پُل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھی مباحث کی روشنی میں غالب کے لسانی اجتہادات و اسلوبیاتی امتیازات کا تعین ممکن ہے، تاہم ان ابواب میں تفصیل کے بجائے اختصار سے کام لیا گیا ہے۔
باب سوم یعنی ’’کلامِ غالب کا لسانی مطالعہ‘‘ کے تین جزو ہیں۔ جزو ’’الف‘‘ میں عہدِ غالب کے لسانی پس منظر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی گئی ہے۔ جزو ’’ب‘‘ میں غالب کے غیر معمولی لسانی شعور کا تجزیہ مکاتیبِ غالب کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ غالب کے خطوط سے وہ اقتباسات اخذ کیے گئے ہیں جن سے غالب کی زبان دانی اور زبان سازی عیاں ہے، فرہنگ و فنِ لغت سے دلچسپی، معرکۂ قاطع برہان، قواعد زبان، صرف و نحوی مسائل، علمِ عروض، تذکیر و تانیث، واحد جمع، اسما و صفات، فصاحت و بلاغت، روزمرہ محاورہ اور عربی و فارسی کے لسانی امتیازات کی بابت غالب ایک واضح نقطہ نظر رکھتے تھے۔ جزو ’’ج‘‘ میں دیوانِ غالب کی روشنی میں غالب کے لسانی اجتہادات، روزمرہ و محاورہ، رمز و کنایہ، سابقے لاحقے، تشبیہات و استعارات، ترکیب سازی اور دیگر لسانی تشکیلات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
باب چہارم یعنی ’’کلامِ غالب کا اسلوبیاتی مطالعہ‘‘ اسلوبیات اور اسلوبیاتی تنقید کے جدید تر تناظر میں تحریر کیا گیا ہے۔ اسلوبیاتی مطالعے کے بنیادی مراحل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس باب کو مزید چار ذیلی ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی:
الف: لفظیاتِ کلام غالب (Morphological Study of Ghalib)۔
ب: معنیاتِ کلامِ غالب (Semantical Study of Ghalib)۔
ج: صوتیاتِ کلامِ غالب (Phonological Study of Ghalib)۔
د: صرفیات و نحویاتِ کلامِ غالب (Syntactical Study of Ghalib)۔
یہاں اسلوبیات کے مغربی تصور سے صرفِ نظر کرتے ہوئے مطالعۂ غالب کو محض لفظ و صوت شماری تک محدود کرنے اور ادب کو اعداد و شمار کی سائنس بنانے سے پہلوتہی کی گئی ہے، اور غالب کے مطالعۂ اسلوب کو مشرقی شعریات کی صدیوں پرانی روایات کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شمس الرحمٰن فاروقی جو مشرقی و مغربی شعریات پر گہری نظر رکھتے ہیں، مطالعۂ غالب کے سلسلے میں ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ :۔
’’مشرقی شعریات، مشرقی تہذیب اور مشرقی نظریۂ کائنات (Word View) سے ہمدردی اور واقفیت کے بغیر غالب کا مطالعہ ممکن نہیں ہوسکتا… غالب کے بارے میں بہت لکھا گیا ہے لیکن اس کا حق ادا ہونا اسی وقت شروع ہوگا جب انھیں کلاسیکی اور جدید دونوں تصورات کی روشنی میں بہ یک وقت پڑھا جائے‘‘۔ (فاروقی، غالب پر چار تحریریں، ص78)
غالب لفظ و معنی کے گہرے اشتراک پر یقین رکھتے تھے۔ الفاظ کی گنتی کی جاسکتی ہے لیکن ہر لفظ کے پسِ پردہ جو کثیرالمعنویت اور تہ داری ہے، تخیل کی بلند پروازی اور ذومعنویت ہے اس کا اعداد و شمار کیوں کر ممکن ہے! یہ تحقیقی مقالہ رقم کرتے ہوئے غالب کا درج ذیل شعر مفروضۂ تحقیق کے طور پر سامنے رہا:۔

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے

تفہیمِ غالب کے امکانات لامحدود اور طلسماتی اندازِ بیان کی خوبیاں بے پایاں ہیں۔ کفایتِ لفظی اور محذوف جملوں کے شوق میں غالب بنا الفاظ کے بھی بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ غالب اپنی شاعری میں لفظ کے استعمال کے نوع بہ نوع امکانات بروئے کار لائے ہیں۔ ’’لفظیاتِ کلام غالب‘‘ میں صنائع بدائع لفظی، رعایاتِ لفظی، کفایتِ لفظی، تلمیحی الفاظ کی جدت، کلیدی، تمثیلی اور علامتی الفاظ کا تجزیہ شعری حوالوں کے توسط سے کیا گیا ہے۔
غالب کے نزدیک شاعری قافیہ پیمائی نہیں بلکہ معنی آفرینی ہے، چنانچہ ’’معنیاتِ کلامِ غالب‘‘ میں اولاً صنائع بدائع معنوی کی نشان دہی کی گئی ہے جن کے استعمال سے غالب کے کلام کی فکری سطح اور معنوی گہرائی میں اضافہ ہوا ہے۔ وفورِ معنی کے لیے غالب نے مختلف پیرائے اختیار کیے ہیں، جدتِ مضامین، خیال بندی کے ساتھ ساتھ ذومعنویت سے کام لیا ہے، نت نئی تراکیب اختراع کی ہیں۔ غالب کے یہاں معنیاتی توسیع کا نظام اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ تشبیہات و استعارات ہوں یا سابقے لاحقے، محاورات و تلمیحات ہوں یا تہ داری و ذومعنویت یا دیگر لسانی مہارتیں… سب کا مقصد شعر کی معنوی سطح کو جدت و ندرت سے مالا مال کرنا ہے، یہاں قاری الجھ کر رہ جاتا ہے کہ کس کس پہلو پر گرفت کرے۔
اسلوبیاتی مطالعے کا جزو ’’ج‘‘ غالب کی صوتیات سے دلچسپی پر مبنی ہے۔ غالب آہنگِ شعر اور موسیقیت پر گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کی فنی بالیدگی کا ثبوت یہ ہے کہ وہ شاعری کے صوتی محاسن اجاگر کرنے کے لیے کہیں عروضی اجتہادات سے کام لیتے ہیں اور مترنم اوزان و بحور، ردیف و قوافی کی ہم آہنگی، تکرارِ لفظی اور الفاظ کے دروبست سے غنائیت و شعریت کا اہتمام کرتے ہیں۔ اکثر وہ ایسے غنائی مصوّتے بروئے کار لاتے ہیں کہ شعر پر نغمے کا گمان گزرتا ہے۔
اسلوبیاتی مطالعے کا جزوِ چہارم ’’صرفیات و نحویاتِ کلام غالب‘‘ پر محیط ہے۔ وہ شاعری کو قواعد کا تابع نہیں بناتے بلکہ صرفی و نحوی سطح پر نت نئی تبدیلیاں متعارف کرواتے ہیں۔ صرفیات یعنی مفرد الفاظ کی جدت سے لے کر نحویات یعنی مرکب جملوں کی ندرت تک کلامِ غالب گنجینۂ معنی کا ایک طلسم ہے۔ انہوں نے ایک پختہ کار ماہرِ لسان کی طرح اردو زبان کی ترقی کی رفتار کو تیز تر کردیا۔ ان کی شاعری کا ایک ایک مصرع اور ایک ایک لفظ بے شمار لسانی امکانات کا امین اور محتاجِ تحقیق ہے۔
باب پنجم ’’حاصلِ مطالعہ‘‘ کے زیر عنوان ہے، جس میں ابوابِ گزشتہ کے چیدہ چیدہ نکات کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے اور نتائجِ فکر کی نشاندہی کی گئی ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہ لسانی و اسلوبیاتی مطالعہ غالب کے اردو دیوان کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے۔ مقالے میں بطور مثال پیش کیے گئے تمام تر اشعار کے حوالے درج کیے گئے ہیں۔ اشعار کی صحت کا تعین کرنے کے لیے دیوانِ غالب بہ تصحیح متن و ترتیب مولانا حامد علی خاں اور دیوانِ غالب جدید المعروف نسخہ حمیدیہ سے مدد لی گئی ہے۔ جبکہ خطوط کے حوالہ جات کے سلسلے میں ’’خطوطِ غالب‘‘ مرتبہ غلام رسول مہر اور ’’غالب کے خطوط‘‘ مرتبہ ڈاکٹر خلیق انجم کی جلد اوّل تا پنجم سے استفادہ کیا گیا ہے۔
اس تحقیقی مقالے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں رب العزت کا فضل و کرم شاملِ حال رہا۔ والد کی علم دوستی اور ماں کی حوصلہ افزا دعائیں ہر لمحہ میرے ساتھ رہیں۔ صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، ڈاکٹر محسنہ نقوی اور ڈاکٹر نجیبہ عارف نے فراہمیِ کتب کے سلسلے میں بھرپور معاونت کی۔ میں تہِ دل سے سب کی مشکور ہوں۔
میں اپنی خوش قسمتی پر جس قدر ناز کروں کم ہے کہ مجھے اس مرحلۂ تحقیق و تدقیق میں ڈاکٹر تحسین فراقی جیسے معتبر غالب شناس اور عظیم المرتبت استاد کی رہنمائی کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپ نے اپنی بے پایاں علمی و ادبی اور پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوصف ہمیشہ نہایت فراخ دلی سے میرے سوالوں کے عالمانہ جوابات دیے، مجھے صحیح اور غلط کا شعور بخشا اور میری غلطیوں کی اصلاح کی۔ میری اس طالب علمانہ کاوش میں اگر آپ کا فیضانِ نظر شامل نہ ہوتا تو منزل تک رسائی ممکن نہ تھی۔ آپ کا بے حد شکریہ‘‘۔
فارسی میںکہتے ہیں ’’تصنیف را مصنف نیکوکند بیان‘‘ تصنیف کو مصنف ہی اچھی طرح بیان و واضح کرسکتا ہے۔ مندرجہ بالا خوبصورت، شائستہ و شستہ اور شگفتہ نثر میں لکھی ہوئی عمدہ تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ موضوع سے انصاف کی صلاحیت کی مصنفہ پوری طرح حامل ہیں۔ واقعی غالب خوش قسمت ہیں کہ ان کی طرف اتنے اعلیٰ دماغ متوجہ رہتے ہیں۔