قاضی فائز عیسیٰ کیس: شکست خوردہ حکومت فیصلے کا احترام کرے گی؟۔

ہفتہ 20 جون 2020ء کو کاوش (حیدرآباد اور سکھر سے شائع ہونے والے کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ) کے ادارتی صفحے پر معروف کالم نگار ابراہیم کنبھر نے اپنے زیر نظر کالم میں حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
………

’’سپریم کورٹ کی دس رکنی فل کورٹ نے عدالتِ عظمیٰ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تحریک انصاف کی حکومت کے داخل کردہ صدارتی ریفرنس کو خارج کردیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اس ریفرنس سے قبل اسی جج کے ایک فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست داخل کرائی تھی۔ آیئے اس سارے معاملے کے پس منظر کو دیکھیں۔
8 نومبر 2017ء کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان مولوی خادم حسین رضوی کی پارٹی ’’تحریک لبیک پاکستان‘‘ نے ڈینٹ زدہ نواز لیگ کی حکومت کو گرانے کے لیے ایک دھرنا لگاکر ساری انتظامی مشینری کو جام کرڈالا تھا۔ یہ دھرنا بالکل اسی دھرنے کی طرح تھا جو 2014ء میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے دیا تھا۔ اس دھرنے میں بڑی تعداد آتی رہی۔ دھرنے کو ہٹانے کے لیے پولیس آپریشن کیا گیا تو دکھائی نہ دینے والے ہاتھوں نے اس آپریشن کو ناکام کردیا۔ بعد میں دھرنے والوں میں پیسے بھی بانٹے گئے، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل ہوئی تھی۔ دھرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا اور یہ فیصلہ آج بھی موجود ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا تھا اور اسی کے حوالے سے ریفرنس کے آخری ایام میں کیس کی سماعت کے دوران منیر اے ملک نے یہ دلائل بھی دیے تھے کہ حکومت نے دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹانے کی نیت سے ریفرنس داخل کرایا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دھرنا کیس کا جو فیصلہ لکھا تھا وہ ایک سو صفحات کے لگ بھگ ہے، لیکن اس میں تین چار باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ دھرنے میں سیاسی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر حصہ لینے والے سیکورٹی اہلکاروں یا افسران نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کی وجہ سے عدالتی فیصلے میں یہ حکم دیا گیا کہ حلف توڑنے والے اہلکاروں کے خلاف آئین کے تحت کارروائی کی جائے۔ اسی فیصلے میں تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کا ذکر بھی ہے۔ تحریک انصاف کے حوالے سے عدالتی فیصلے میں ہے کہ ’’2013ء کے عام انتخابات کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن قائم کیا گیا۔ اس کمیشن نے اپنے فیصلے میں 2013ء کے الیکشن کو شفاف قرار دیا۔ اس کے باوجود تحریک انصاف نے پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کا گھیرائو کرنے والے 2014ء کے دھرنے پر قوم سے معافی نہیں مانگی ہے‘‘۔ اسی فیصلے میں ایم کیو ایم کی 12 مئی (2007ء) والی کارروائی کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ ’’کراچی میں ان دنوں 40 افراد کا قتل کیا گیا۔ ایم کیو ایم نے سارے شہر کو بند کردیا۔ اس قتل عام کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس لیے مولوی خادم حسین نے سمجھا کہ جب اتنے بڑے واقعے کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی تو پھر ہمارے اس دھرنے پر کوئی بھلا کیا ایکشن لے سکے گا!‘‘
اس فیصلے کے خلاف حکومت، تحریک انصاف، ایم کیو ایم، شیخ رشید سمیت دیگر اہم اداروں نے نظرثانی کی درخواستیں داخل کرائیں۔ نظرثانی کی یہ تمام درخواستیں جو محض فوٹو کاپی کی ہوئی ہیں، ان میں استدعا کی گئی ہے کہ جس جج نے فیصلہ سنایا ہے اسے ہٹایا جائے۔ یہی استدعا صدارتی ریفرنس میں بھی کی گئی جسے دس رکنی کورٹ نے رد کردیا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف داخل کردہ ریفرنس کو بالکل اسی طرح سے رد کردیا ہے جس طرح سے اس سے قبل جنرل پرویزمشرف کی حکومت کی طرف سے جسٹس افتخار چودھری کے خلاف داخل کردہ ریفرنس کو سپریم کورٹ نے رد کر ڈالا تھا۔ موجودہ حکومت یا پرویزمشرف کی حکومت میں خاصی مماثلت متعدد امور میں پائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کی سوچ، فکر، انداز اور خیالات سب یکساں ہیں۔ صدر ایوب ہمارے وزیراعظم کے بھی پسندیدہ ہیں۔ جنرل ضیا کے خلاف ہم نے کبھی ان کے منہ سے کوئی بات نہیں سنی ہے۔ جنرل پرویزمشرف (ریٹائرڈ) کو سزا دینے پر ان کی حکومت صدمے سے دوچار تھی۔ اب تو وزیراعظم صوبوں کے منتخب وزرائے اعلیٰ کو آمروں سے بھی کہیں زیادہ طاقتور قرار دے رہے ہیں۔
اس ملک کے ساتھ آمروں نے کیا کیا؟ آمروں نے آئین میں فرامین کے ذریعے کیا کیا تبدیلیاں کیں، یہ ایک الگ موضوع ہے، فی الوقت ہم اپنے موضوع پر آتے ہیں، اور موجودہ خارج ہونے والے ریفرنس کا موازنہ ماضی کے ریفرنس سے کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ماضی میں جسٹس افتخار چودھری کے خلاف ریفرنس بھیجنے والی وہی جنرل پرویزمشرف کی اتحادی پارٹیاں ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ فنکشنل تحریک انصاف کی حکومت میں بھی شامل ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ان پارٹیوں کے سربراہان کی گردنیں سابق صدر پرویزمشرف کے اشارۂ ابرو پر خم ہوجایا کرتی تھیں، اور اب یہ وزیراعظم عمران خان کے آگے خم ہیں۔ وہی محرکات اس ریفرنس کے بھی ہیں… عجلت، خوف، مستقبل، اختیار، امکانی محاسبہ، سوالات وغیرہ اور عدالتی فیصلہ بھی۔ عدالتی فیصلہ، مطلب یہ کہ اسٹیل مل کیس کے بعد جنرل پرویزمشرف نے افتخار چودھری کے خلاف ریفرنس کا فیصلہ جلد بازی میں کیا، اور یہاں پر دھرنا کیس کے بعد موجودہ حکومت نے ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس حکومت کے بھی اصل حاکم جج سے خوش نہیں تھے، موجودہ حکومت میں بھی اصلی حکمران جج صاحبان سے خوش نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ کے سامنے ریفرنس کے خلاف درخواست صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی کی نہیں تھی، بلکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل سمیت ملک کی تمام بارز کی کُل 29 درخواستیں تھیں، جن میں استدعا کی گئی تھی کہ ریفرنس کو خارج کیا جائے۔ ان سب درخواستوں کا نچوڑ یہ تھا کہ ریفرنس کا مقصد ایک ایسے جج کو ہٹانا ہے جس نے کبھی بھی اپنے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی ہے، اور اس جج نے اپنے اٹھائے گئے حلف کی ہمیشہ پاسداری کی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے جس کی بھی فرمائش پر جج کے خلاف ریفرنس دائر کیا ہے، لیکن اس ریفرنس کے خلاف درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ اس فیصلے سے جو شکست حکومت کو ملی ہے، شاید تفصیلی فیصلے سے ابھی اس کی مزید بے توقیری ہوگی۔ کیوں کہ حکومت نے ریفرنس میں پوری جانب داری سے کام لیا ہے۔ سپریم کورٹ کو ابھی وہ وجوہات بیان کرنی ہیں کہ اس نے جوڈیشل کونسل میں جاری ریفرنس کو اڑایاکس لیے ہے؟ کیوں کہ درخواست گزار کا مؤقف یہ تھا کہ ریفرنس بدنیتی پر مشتمل ہے۔ درخواست گزاروں کو مطمئن کرتے ہوئے وزیراعظم کے اثاثہ ریکوری یونٹ کے تشکیل والے فیصلے پر بھی سپریم کورٹ نے کُل 47 سماعتیں کی ہیں۔ کیس مختلف اتار چڑھائو سے گزرتا ہوا کل اپنے منطقی انجام تک پہنچ گیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پہلے روز جو بات اپنی درخواست میں کی تھی، وہ بات فیصلے میں بھی تسلیم کی گئی ہے کہ لندن کی جائداد جج کی اہلیہ یا بچوں کی ہے۔ ایف بی آر انہیں نوٹس دے کر معلومات حاصل کرے۔ حکومتی کیس میں سے جان تو جسٹس قاضی کے وکیل منیر اے ملک نے پہلے ہی روز یہ کہہ کر نکال دی تھی کہ حکومت نے بدلہ لینے کی خاطر ریفرنس داخل کرایا ہے۔ فروغ نسیم نے اپنے سیاسی، آئینی، قانونی، سماجی، مذہبی دلائل سے کیس کے غبارے میں ہوا بھر کر اسے اونچا اڑانے کی سعیِ بسیار کی، لیکن جب بنیاد ہی غلط پڑی ہو تو پھر اس عمارت کا ڈھانچہ کیسے اور کیوں کر مضبوط ہوگا؟ تحریک انصاف حکومت کے صدارتی ریفرنس کی کمزور دیوار کو آخری دھکا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے اُس وقت دیا جب انہوں نے کہاکہ جس پراپرٹی کی بات ہورہی ہے اس کی تفصیل تو انہوں نے ایف بی آر میں 2018ء کے انکم ٹیکس کے گوشواروں میں پہلے ہی جمع کروا دی تھی۔ اس بیان کے دوسرے روز عدالت نے اس اہم کیس میں فیصلہ دے کر اس صدارتی ریفرنس کو ردی کی ٹوکری کے سپرد کرڈالا ہے، جبکہ معمول کی کارروائی اور جوڈیشل کونسل کے کام کے آئینی امور کو چلانے کا راستہ بھی کھول دیا ہے کہ مبادا کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اداروں کو کام نہیں کرنے دیا جارہا ہے۔ اس کیس میں فروغ نسیم نے اپنے کردار کو جس انداز سے نبھایا ہے اس کی وجہ سے انہیں وقت کا شریف الدین پیرزادہ، اور اے کے بروہی چاہے کوئی بھلے سے نہ کہے، لیکن انہیں قانون کا مذاق اڑانے کا عادی شخص ضرور گردانا جائے گا۔ انہوں نے بارِ دگر یہ کیا ہے کہ جب چاہا قانون کی وزارت کا قلم دان چھوڑ کر اور کالا کوٹ پہن کر عدالت میں جاکھڑے ہوئے ہیں، اور جب من میں سمایا کالا کوٹ اتار کر وزیر کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔ آخر فروغ نسیم ہی کیوں؟ کیا حکومت کے ہاں دوسرے افراد موجود نہیں ہیں؟ یا حکومت کو کسی اور پر اعتبار ہی نہیں آتا؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں حکومت کو محض کل ہی شکست نہیں ہوئی ہے، بلکہ حکومت یہ کیس داخل کرتے وقت ہی ہار چکی تھی۔ ایک تو اس کیس نے وکلا کی کمزور آواز کو بلند کیا۔ انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ تمام بازر قاضی فائز عیسیٰ کی حمایت میں سامنے آگئیں۔ حکومت تو یہ کیس اسی وقت ہار گئی تھی جب سابق اٹارنی جنرل انور منصور نے دس رکنی بینچ کے ججوں پر نام لیے بغیر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے جسٹس قاضی کی معاونت کی ہے۔ جج کے خلاف کیس میں حکومت کی شکست اُس وقت بھی ہوئی جب کمزور کیس پیش کرنے پر اٹارنی جنرل کو صدارتی ریفرنس کی چلتی بس سے دھکا دے کر اتارا گیا اور خالد جاوید کو نیا اٹارنی جنرل بنایا گیا، لیکن حکومت کو دراصل بڑا دھچکا یہ سن کر لگا کہ اٹارنی جنرل اتنے بڑے کیس میں وفاق کی نمائندگی نہیں کریں گے۔ خالد جاوید نے اس کا عذر خوب صورت انداز میں پیش کیا۔ این ڈی خان کے لائق فرزند نے کہاکہ وہ کسی غیر آئینی اقدام کی حمایت نہیں کریں گے اور یہ ان کے رگ و پے اور خون میں شامل ہے۔ حکومت کے لیے یہ بڑی شکست تھی۔ وفاق کے وکیل نے اس کیس کو جیتنے کے لیے پہلے اسے مذہبی رنگ دیا، عدالت نے اس بات کو موقع پر رد کردیا، آخر میں انہوں نے قاضی صاحب کی ذات کو نشانہ بنایا، لیکن سپریم کورٹ کے ایک سو مرتبہ پوچھے گئے سوالات کے کوئی جوابات نہیں دیے۔ اس کی وجہ سے حکومت کے لیے بہترین مشورہ یہ ہے کہ وہ اس فیصلے کو دل سے قبول کرلے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اس سوال کا بھی جواب دے کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے وہ اس پر عمل درآمد بھی کروائے گی، یا کوئی اور منصوبہ سازی کرے گی؟‘‘