سن 1079عیسوی میں، عمر خیام نے سال کا عرصہ 365.24219858156ایام شمار کیا۔ یہ حیران کن طور پر چھٹے اعشاریہ تک بالکل درست تھا۔ بیسویں صدی میں اس عرصے کی درست پیمائش سے فقط سیکنڈ بھر کا فرق تھا، جبکہ بیسویں صدی کی اس پیمائش کے لیے ایٹمی گھڑی، کمپیوٹر، اور ہبل ٹیلی اسکوپ استعمال کی گئی تھی۔ اُس پر مستزاد یہ کہ نوسو سال کا طویل زمانہ بھی گزر چکا تھا۔ چند عظیم اکادمی کام جوسائنس، ریاضی، تمدن، قانون، اور فنونِ لطیفہ میں مسلمانوں نے انتہائی خوبی سے کیے، غیر مسلموں نے ان کاموں کوآگے بڑھایا، یا یوں کہہ لیجیے اُن کے کام میں جدید اضافہ کیا۔ اکثر مسلمان اسلامی فنون پسند کرتے ہیں۔ تاہم ایسا پہلی بار حال ہی میں ہوا کہ ایک نوجوان ماہر طبیعات نے ایک اہم دریافت کی، کہ قدیم مساجد میں فنِ تعمیر کے خوبصورت نمونے اُس پیچیدہ ریاضی پر خلق کیے گئے تھے، جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا رہا کہ یہ شماریاتی گتھیاں پہلی بار 1970ء کی دہائی میں سمجھی اور سلجھائی گئی ہیں۔
سن 2005ء میں ہارورڈ کے پی ایچ ڈی طالب علم پیٹر لو نے ازبکستان کا سفر کیا۔ اُس نے تاریخی مساجد میں فنی نمونوں کا مشاہدہ کیا، اور بے حد حیران ہوا۔ اُس نے دیکھا کہ مٹی کی سِلوں پر منقش ریاضیاتی نمونے وہی ہیں کہ جن سے آج کی دنیا Penrose Tilesجیسے ریاضی دانوں کے ذریعے واقف ہوئی۔ شروع میں اُسے یقین ہی نہ آیا کہ پانچ صدیوں پرانی پختہ مٹی کی سِلوں (Tiles) پر وہ پیچیدہ ریاضیاتی نقش ونگارہیں، جن کے بارے میں یہ یقین کیا جاتا ہے کہ پہلی بار سن1974ء میں آکسفورڈ کے ریاضی داں اور ماہر طبیعات راجر پینروز نے منکشف کیے ہیں۔
ہارورڈ واپسی کے بعد، پیٹرلو نے جامعہ پرنسٹن کے عالمی شہرت یافتہ ماہر طبیعات Paul Steinhardtکے اشتراک سے تحقیق شروع کی، کہ جس نے 1984ء میں پین روز ٹائلز میں تین جہتی مماثل کی موجودگی ظاہر کی تھی، اور جوہری سطح (Atomic Level) تک اس کی وضاحت کی تھی۔ اسٹین ہارڈٹ نے اسے quasi-crystals سانچہ کا عنوان دیا تھا۔ تاریخی اسلامی فن پچی کاری ونقش نگاری، اور قلمی نسخوں کا انتہائی باریکی سے ازسرنو مشاہدہ کرنے کے بعد، ان دونوں نے فروری2007ء میں امریکی تحقیقی جریدے ’’سائنس‘‘ میں ایک مقالہ شایع کیا، جس میں انھوں نے واضح کیا کہ مسلمان سائنس دان راجر پینروز سے پانچ صدیوں پہلے جیومیٹری میں وہ اہم دریافتیں کرچکے تھے کہ جنھیں انگریز ریاضی داں سے منسوب سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا کہ ’’… پندرہویں صدی تک پچی کاری کا فن خود مشابہ تغیرات سے مخلوط تھا، کہ جس سے عمدہ نیم بلوری نمونوں کی تیاری ممکن بنائی جاتی تھی، وہ نمونے جو آج پینروز (Penrose) نمونے کہلاتے ہیں، یہ ریاضیاتی نمونے مغرب سے پانچ سو سال پہلے مشرق میں وضع کیے جاچکے تھے۔‘‘
عام طور پر فن پچی کاری اور ٹائلنگ میں یہی سمجھا جاتا رہا ہے کہ یہ کئی صورتوں میں بنتے وہ متواتر نقش ہیں جن میں کہیں کوئی رخنہ نہیں، کہیں کوئی تجاوز نہیں۔ یہ مٹی کی ایسی چھوٹی سِلوں پر مشتمل ہوتے ہیں، جن پر پچی کاری کے نمونے خوبی سے دہرائے جاتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک نمونہ آسانی سے دوسرے نمونے کی نشاندہی کرتا ہے، اور یہ سب یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کی نشاندہی کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ بات بہت معروف ہے کہ سطحوں پر تین، چار، اور چھ کونوں والی سِلیں استعمال کی جاتی ہیں، جبکہ پانچ کونوں والی کوئی سِل استعمال نہیں کی جاسکتی۔
جبکہ راجر پینروز نے تحقیق سے یہ واضح کیا تھا کہ ایسی چھوٹی سلیں، کہ جو پانچ کونوں والی چھوٹی گردشی صورتوں پر بنی ہوں، عمدہ جیومیٹرک نمونے تشکیل دے سکتی ہیں، یہ کچھ ایسی صورتیں ہوں گی کہ اگرجن کا پانچواں حصہ دائرے میں خفیف سی گردش کرے تو سب ایک سے نظر آئیں، جیسا کہ پانچ کونوں والا ستارہ ہو، اور انعکاسی تناظر پیش کرے، وہ صورتیں کہ جن کا انعکاس نمونے ہی کی مانند ہوتا ہے۔ پینروز کے ٹائلز غیر متواتر نمونے تشکیل دیتے ہیں۔ خواہ کوئی ایسے ٹائلز پر کتنی ہی دور تک چہل قدمی کرے، ایک سا نمونہ دوبارہ نہیں ملے گا۔
سن 1982ء میں سائنس دانDaniel Shechtmanنے، جس کا تعلق یو ایس نیشنل بیورو آف اسٹینڈرڈز سے تھا، اعلان کیا کہ اُس نے ایک ایسا بلور دریافت کرلیا ہے جس کا نمونہ جوہری سطح (Atomic Level)پرپانچ کونوں والی صورت ظاہر کرتا ہے، جو پینروز ٹائلزکے نمونے سے مماثل ہے، اور یہ نمونہ غیر متواتر ہیئت کاہے۔تاہم اُس وقت تک سائنس دانوں نے یہی باور کیا تھا کہ بلو رمیں جوہری نمونے لازمی طورپرمتواتر طرز پر ہی مرتب ہوتے ہیں۔بلور(crystal)کی اس نئی دریافت کے اعلان پر، کہ جوسائنس کے عام یقین سے متضاد تھی، Shechtmanسے اُس کا عہدہ چھین لیا گیا۔ اس کے باوجود وہ سن 1984ء تک اپنا تحقیقی مقالہ شایع کروانے کے قابل ہوسکاتھا۔
سن 1987ء میں، Shechtmanکی دریافت کی تصدیق ہوگئی، سائنس دانوں نے ایکس ریز ٹیکنالوجی کے ذریعے سچائی جان لی تھی۔ اُسے سن 2011ء میں کیمسٹری کے نوبیل پرائز سے نوازا گیا۔ اس موقع پر اعلان میں کہا گیا کہ ’’بے قاعدہ پچی کاری، جیسا کہ ازمنہ وسطیٰ کے اسلامی فنِ تعمیر میں پائی گئی، اندلس کے الحمرا محل اور ایران کے دربِ امام مزار میں منقش ہے، نے سائنس دانوں کو یہ سمجھنے میں مدد دی کہ جوہری سطح پر نیم بلورکس طرح نظر آتے ہیں۔‘‘
سنہرے عہد کے مسلمان جانتے تھے کہ ایک سطح کو محض پانچ کونوں والی مٹی کی سلوں سے مزین نہیں کیا جاسکتا تھا۔ تاہم وہ پچی کاری کے ایسے نمونوں کی تیاری پر آمادہ نہ تھے کہ جن میں تین، چار اور چھے کونوں والی سلیں استعمال کی جائیں، وہ صرف پانچ کونوں والی سِلوں کی تیاری میں نت نئی جہتیں تراش رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تین، چار اور چھے کونوں والی سِلوں کے نمونے متواتر اور باقاعدہ تھے، جبکہ پانچ کونوں والی ٹائلیں بے قاعدہ تھیں، اس کے نمونے متواتر نہ تھے، ایک نمونہ دوسرے نمونے کی تقلید نہ کرسکتا تھا۔ لیکن وہ ایسا کیوں کررہے تھے؟ شاید اُن کے لیے پانچ کونوں والی یہ صورت اسلام میں ایمان کے پانچ ستونوں کی ترجمانی کررہی تھی، اور پانچ وقت کی نمازوں کوظاہر کررہی تھی۔ اور یا پھر شاید یہ عدم تسلسل انسان کی محدود اہلیت نمایاں کرتا تھا، یا نااہلی ظاہر کرتا تھا، کہ وہ مستقبل کی پیش بینی کا اہل نہیں ہے، کیونکہ یہ کام خدا کا ہے۔
پختہ مٹی کی ایسی سِلوں پر مخصوص پچی کاری کی اُن کے ایمان سے ہم آہنگی خوش کن بات ہے، چاہے اس کے لیے کتنی ہی پیچیدہ ریاضیاتی گتھیاں سلجھانے کی نوبت آئی ہو۔ یہ اُس دور میں ممکن تھا کیونکہ دو تہائی دنیا کے معروف ترین ریاضی داں، جو 650AD سے 1300Aکے درمیان حیات تھے، مسلمان تھے۔ ایمان اور حصولِ علم کے درمیان ایسی ہم زیستی (symbiosis)صدیوں قائم رہی ہے، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حصولِ علم جزوِ ایمان سمجھا جاتا تھا۔
(مصنف شعبہ مالیات سے متعلق ہیں، اور امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔ بشکریہ ڈان اخبار)