کورونا وائرس کی علامات صحت یابی کے کئی ہفتوں بعد بھی موجود رہ سکتی ہیں، ماہرین

اٹلی کے طبی ماہرین نے ناول کورونا وائرس سے شدید طور پر متاثر ہونے والے افراد کا مطالعہ کرنے کے بعد انکشاف کیا ہے کہ ایسے بیشتر مریضوں میں کورونا وائرس کی علامات، صحت یاب ہوجانے کے بھی کئی ہفتوں بعد تک موجود رہ سکتی ہیں۔ البتہ ایسے میں گھبرانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں، بلکہ احتیاط جاری رکھنا اور متعلقہ ڈاکٹروں سے رابطے میں رہنا چاہیے۔ یہ مطالعہ اپریل میں روم کے 143 اسپتالوں میں کورونا وائرس سے شدید متاثرہ مریضوں پر کیا گیا۔ واضح رہے کہ اس سال اپریل میں کورونا وائرس کی وبا اٹلی سمیت یورپ کے کئی ملکوں میں عروج پر تھی اور ان ممالک میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد بھی بہت زیادہ رہی۔ صحت یابی کے بعد بھی کورونا سے شدید متاثرہ مریضوں نے دیگر علامات کے ساتھ ساتھ سانس لینے میں دشواری اور تھکن کی بطورِ خاص شکایت کی تھی۔ روم کی پولی کلینک یونیورسٹی کے تحت کیے گئے اس مطالعے میں اسپتالوں سے شفایاب ہوکر گھر لوٹ جانے والے افراد سے سوالات کیے گئے۔ ان میں سے 87.4 فیصد شدید متاثرہ افراد نے صحت یابی کے پانچ ہفتے گزرنے کے بعد بھی کورونا وائرس کی کم از کم ایک علامت موجود ہونے کی شکایت کی۔ ان میں سب سے نمایاں علامت تھکن کی تھی، جس کی شکایت 53 فیصد ’’صحت یاب شدہ‘‘ مریضوں نے کی۔ 43 فیصد صحت یاب مریضوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا رہا۔ 27 فیصد کا کہنا تھا کہ ان کے جوڑوں میں اب تک درد ہے۔ جبکہ 22 فیصد کے سینے میں (کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے دوران پیدا ہونے والی) تکلیف نمایاں طور پر موجود تھی۔
معروف تحقیقی مجلے ’’دی جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (جاما)‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع شدہ اس تحقیق میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس سے چھٹکارا پانے کے بعد بھی اس کی علامات باقی رہ سکتی ہیں۔ تاہم ان سے گھبرانے کے بجائے ڈاکٹر سے مشورے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔

فیس بک پر سرچ نتائج میں ’’وکی پیڈیا‘‘ آپشن کا اضافہ

سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک میں لوگوں کی آسانی کے لیے نت نئے فیچرز کا اضافہ کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں اس میں سرچ بار کے نتائج کے ساتھ ایک پینل میں کھلنے والی معلومات ظاہر کرنا شروع کی ہے جس میں متعلقہ موضوع پر وکی پیڈیا کے صفحات سامنے آجاتے ہیں۔ اگر کسی مشہور شخصیت کا انسٹا گرام یا کوئی اور آفیشل اکائونٹ ہو تو وہ بھی سامنے آجاتا ہے۔ علاوہ ازیں موضوع سے متعلق دیگر معلومات بھی سامنے آجاتی ہیں۔ یہ فیچر2012ء میں متعارف ہونے والے گوگل نالج فیچر کی طرح ہے، اُس میں بھی وکی پیڈیا سے ہی معلومات لی جاتی ہے۔ اس طرح کے معلوماتی باکس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے ڈھونڈنے والی شے کا پس منظر مل جاتا ہے۔ فیس بک کے ذریعے خاص خاص معلومات تو آسانی سے پتا چل جاتی ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی فائیو جی سرچ کرتا ہے تو فیس بک اس سے وابستہ درست حقائق اور تمام سازشی نظریات پر مضامین اور دیگر معلومات سامنے لے آتا ہے۔ فیس بک پر اس وقت جعلی معلومات بہت زیادہ موجود ہے۔ اب چوں کہ فیس بک کا الگورتھم کچھ اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ ان ٹرینڈز اور رجحانات کو اہمیت دیتا ہے جہاں بہت زیادہ بحث چل رہی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ الگورتھم کا دھیان متنازع موضوع پر ہوتا ہے۔ تاہم فیس بک نے ابھی تک اس آپشن پر کوئی خاص معلومات جاری نہیں کی ہے۔

پاکستانی ماہرین نے آلو کی 7 نئی اقسام تیار کرلیں

پوٹیٹو ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ پنجاب کے ماہرین نے مقامی سطح پرآلو کی 7 اقسام تیار کی ہیں جن سے اعلیٰ کوالٹی کی معیاری اور زیادہ بہتر پیداوار حاصل ہوسکے گی۔
زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ آلو ایک مکمل غذا ہے کیونکہ اس میں کافی مقدار میں نشاستہ، وٹامن، معدنی نمکیات اور لحمیات پائے جاتے ہیں۔ آلو کی فصل عام اناج کے مقابلے میں خشک مادہ کی بنیاد پر 2 سے 3 گنا زیادہ پیداوار دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کو پورا کرنے، اور گندم پر دباؤ کم کرنے کے لیے آلوکی پیداوار میں اضافہ ازحد ضروری ہے۔ پوٹیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ریسرچ بورڈ پنجاب کے چیئرمین چودھری مقصود احمد جٹ کے مطابق ان کے ادارے نے مقامی طور پر آلو کی 7 اقسام تیار کی ہیں جن میں پی آر آئی ریڈ، روبی، صدف، سیالکوٹ ریڈ، ساہیوال ریڈ اور کوسمو شامل ہیں۔ ان میں سے پی آر آئی ریڈ کا بیج گزشتہ سال پنجاب سیڈ کارپوریشن کو دیا گیا تھا، جس نے پھر اس کی بڑے پیمانے پر تیاری کرکے کاشت کاروں کو دیا اوراس سے معمول کی فصل کے مقابلے میں زیادہ پیداوار حاصل کی گئی تھی۔ چودھری مقصود جٹ نے بتایا کہ آلو کی مزید چاراقسام کی پری کوالی فکیشن ہوچکی ہے، پاکستانی آلو کی بہتر کوالٹی کے باعث دنیا بھر میں مانگ ہے، بین الاقوامی منڈیوں کی مانگ کے مطابق سبزیوں بالخصوص آلو کے معیار کو بہتر بناکر اس کی برآمدات میں اضافہ وقت کا تقاضا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آلو کی پیداوار 40 لاکھ ٹن، جبکہ مقامی مجموعی کھپت25 لاکھ ٹن ہے۔ ملک میں طلب سے 15 لاکھ ٹن زائد آلو پیدا کیا جارہا ہے جس کی برآمد سے قیمتی زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔