بارخ سپی نوز، 1632ء میں ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوا، جو اسپین سے دینی احتساب سے بچنے کے لیے ایمسٹرڈم (ہالینڈ) میں چلا آیا۔ سپی نوزا نے اسی شہر میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ اس نے عبرانی زبان میں بائبل اور تلمود کا مطالعہ کیا۔ اپنے علم کی توسیع کے لیے لاطینی زبان بھی سیکھی۔ یہیں پر اسے ڈیکارٹ اور دوسرے جدید فلسفیوں کے مطالعے کی فرصت ملی۔ اس نے خدا اور بقائے دوام کے بارے میں ایسے نظریات پیش کیے جو پرانے عقیدہ پرستوں کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوئے۔ سپی نوزا نے دہریت اختیار کرلی۔ وہ عیسائی اور یہودی فہمائشوں کے باوجود ان پر سخت تنقید کرتا رہا۔ غربت کے باوجود اس کے حلقہ احباب میں بہت مقتدر اور نمایاں لوگ شامل تھے۔ لوئیس چہاردم نے کسی ایک کتاب کو اس کے نام سے منسوب کرنے پر وظیفے کی پیش کش کی۔ ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں اسے پروفیسر شپ بھی پیش کی گئی۔ اپنے استاد کی بیٹی سے محبت میں ناکامی کے نتیجے میں پھر ساری زندگی تنہائی میں بسر کردی۔ سپی نوزا نے فلسفہ میں ڈیکارٹ کے طریق کار کو اپنایا اور آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ سپی نوزا کے مابعدالطبیعی نظریات سے اقبال کو دلچسپی رہی اور اس ضمن میں اُن کی انگریزی اور اردو نثر میں اس یہودی فلسفی کے حوالے ملتے ہیں۔ سپی نوزا کے خیال میں کثرت وحدت سے نکلتی ہے، جس کے لیے اس نے شئون (Modes) کا نظریہ پیش کیا۔ وحدت وجود کے نظریات میں سپی نوزا اور ابن عربی میں بہت مماثلت ملتی ہے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
عذابِ شہادت
اصفہان کے ایک غسّال (مُردے نہلانے والا) کو ایک شہادت کے سلسلے میں حاجی کلباشی کی عدالت میں طلب کیا گیا۔ صبح سے شام تک اس کی شہادت ہوتی رہی۔ حاجی صاحب نے اتنی لمبی جرح کی اور بات بات پر غسّال کو ڈانٹ پلائی تو اس غریب کو غش پر غش آنے لگے۔ دوسرے روز وہ ایک مُردے کو غسل دینے کے بعد جب کفن پہنا چکا تو حاجی کلباشی پر نظر پڑ گئی، فوراً سر جھکا کر مُردے کے کان میں کچھ کہا۔ کسی نے پوچھا کہ کیا کہا ہے؟ کہنے لگا: ’’میں نے مُردے سے کہا ہے: مبارک ہو کہ حاجی کلباشی کی عدالت میں شہادت دینے سے پہلے تمہاری وفات ہوگئی ہے‘‘۔
(چشم بیدار،مارچ 2020ء)
(Criticism) تنقید
کسی فن پارے کے محاسن و معائب کو معیاراتِ فن کے مطابق پرکھنا، جانچ پڑتال ہے۔ اس کی تشریح و صراحت کرنا اور اندرونی حاسہ جمال کی مدد سے اس کی قدر و قیمت کا تعین کرنا ’’تنقید‘‘ ہے۔ تنقید انسان کے باطن میں ’’عملِ تخلیق‘‘ کا متصل ملکہ ہے، لیکن جب سے تاریخ میں ’’تنقید‘‘ نے ایک الگ فن کی صورت اختیار کی ہے اس نے تخلیق کے مقابل ایک اہم ذہنی اور فکری اہمیت حاصل کرلی ہے۔ قدیم یونان میں افلاطون اور ارسطو نے باقاعدہ تنقیدی خیالات کا اظہار کیا، اگرچہ متفرق آرا ان سے بھی پیشتر موجود تھیں۔ اس وقت فنی اسالیب کی طرح تنقید کے بھی مختلف راستے ہیں مثلاً تاثراتی تنقید، نفسیاتی تنقید، معاشرتی تنقید، مارکسی تنقید اور سائنسی تنقید وغیرہ۔ تنقید نے فنی مسائل سے بھی آگے بڑھ کر ’’تنقید ِ حیات‘‘ کے منصب تک رسائی حاصل کی ہے۔ تنقید کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے تخلیقی کارگزاریوں کو سمجھنے اور سمجھانے کے علاوہ اپنے احاطہ فکر میں مختلف علوم کے ارتباط کو ظاہر کیا ہے۔ اس نے صرف ابلاغ اور قدر شناسی کو ہی فروغ نہیں دیا بلکہ خود ’’عملِ تخلیق‘‘ کی ترقی و تبدیلی کے لیے بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
نظر
٭ ہر ایک بات جو ذکر سے خالی ہو، لغو ہے، ہر ایک خاموشی جو فکر سے خالی ہو سہو ہے، اور ہر ایک نظر جو عبرت سے خالی ہو لہو ہے۔(بو علی سینا)۔
٭نظر اُس وقت تک پاک ہے جب تک اٹھائی نہ جائے۔(بقراط)۔
٭باطن نگاہ حق ہے اور ظاہر پر خلق کی نظر پڑتی ہے۔ خدا کی نظر گاہ لازم ہے کہ زیادہ پاک و صاف ہو۔ بہ نسبت اس کے جسے صرف لوگ دیکھتے ہیں۔ (ابن عطار)۔
٭جس کی آنکھ میں عشق کا سرمہ لگا ہو اس کی نظر میں عرش سے تحت الثریٰ تک کوئی حجاب باقی نہیں رہتا۔ (بختیار کاکی)۔
٭جو کام حکمت سے خالی ہے وہ آفت ہے، جو خاموشی سے خالی ہے وہ غفلت ہے، جو نظر حکمت سے خالی ہے وہ ذلت ہے۔ (خواجہ حسن بصری)۔