این ایف سی ایوارڈ کا تنازع

حکومت نے شوگر مافیا کے بعد پیٹرول مافیا کے سامنے بھی ہتھیار ڈال دیے ہیں

رواں ہفتے حکومت اپنے دو سال مکمل کرنے والی ہے، وزیراعظم عمران خان ابھی تک ’’تبدیلی‘‘ لانے کی تیاری میں ہیں۔ ان کی گفتگو، تقریر، لب و لہجہ، بیانیے اور مکالمے سب کچھ پرانے ہیں، اور ہر گفتگو کا ہدف بھی وہی پرانے سیاسی گھرانے ہیں۔ عمران خان سے توقع یہ تھی کہ وہ اقتدار سنبھالتے ہی اپنے منشور پر عمل کرنا شروع کردیں گے، یعنی انتظامی اصلاحات، حکومت میں کرپشن کا خاتمہ اور احتساب کا شفاف عمل… مگر دو سال گزر گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ملک ترقی کرنے کے بجائے منفی شرح پیداوار کے باعث بیس سال پیچھے چلا گیا ہے۔ حکومت میں فیصلہ سازی کی صلاحیت ہی نہیں، اور نوکر شاہی پر گرفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ نوکر شاہی کی اپنی کرپشن کا بازار حسبِِ روایت گرم ہے، البتہ عمران خان کے خلاف ایسا کوئی الزام نہیں، مگر سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اُن کی آنکھوں کے سامنے اور ناک کے نیچے بہت کچھ ہورہا ہے، اور وہ کچھ نہیں کر پارہے۔ بنیادی طور پر حکومت کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی قائم کرے، عوام کو مضبوط معیشت فراہم کرے، اور اندرونی سلامتی کے ساتھ ساتھ بیرونی جارحیت سے بچائے۔ ان تینوں شعبوں میں حکومت ناکام نظر آرہی ہے۔ اس قدر معاشی نقصان کے باوجود حکومت ابھی تک اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ایک نئی حماقت یہ کی جارہی ہے کہ جب دنیا بھر کی مارکیٹوں میں مندی ہے تو حکومت پی آئی اے کا روز ویلٹ ہوٹل فروخت کرنے پر تل گئی ہے۔ یہ نیویارک میں پی آئی اے کا سب سے بڑا اور منافع بخش اثاثہ ہے۔ معاشی شعبے میں تحریک انصاف کی غلطیاں دیکھ کر عقل حیران ہے۔ ان دنوں متبادل کی بات چل رہی ہے، اور اگر یہ بات سنجیدہ انداز میں آگے بڑھ گئی تو حکومت کے خلاف چارج شیٹ میں تحریک انصاف کی قیادت کی معاشی ناکامی ہی سب سے بڑی غلطی شمار ہوگی۔ حکومت نے روپے کی قدر بھی کم کی اور مہنگائی بھی کنٹرول نہیں کرسکی۔ اس وقت حکومت کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق ملک کی نصف سے زائد معیشت خسارے میں جارہی ہے۔
اس معاشی اور سیاسی پس منظر میں تیسرے پارلیمانی سال کے آغاز پر صدرِ مملکت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ اہم مسائل جو اس وقت حکومت کے سامنے ہیں، اُن میں این ایف سی ایوارڈ اہم اور آئینی مسئلہ ہے۔ صدرِ مملکت نے این ایف سی ایوارڈ تشکیل دیا تھا، لیکن اس کے خلاف سندھ، بلوچستان اور کے پی کے سے آواز اٹھی، بلوچستان ہائی کورٹ نے تو اسے کالعدم قرار دے دیا ہے اور اپنے فیصلے میں صدرِ پاکستان کو آئین کے آرٹیکل 160کے تحت نئے ٹرمز آف ریفرنس جاری کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے آرٹیکل 160 کا جائزہ لیتے ہوئے وفاقی حکومت کو غیر آئینی کام کرنے سے روک دیا۔ مئی میں صدر نے دسویں نیشنل فنانس کمیشن کی تشکیل کی تھی جس کے خلاف بلوچستان، سندھ اور خیبر پختون خوا نے تحفظات ظاہر کیے، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے اس کمیشن کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ 10واں نیشنل فنانس کمیشن 18ویں ترمیم اور آئین کے آرٹیکل 160کے دائرے سے باہر تشکیل دیا گیا ہے، یہ بھی کہا گیا کہ وفاقی حکومت صوبوں کے اُس حصے میں کٹوتی کی کوشش کررہی ہے جو این ایف سی ایوارڈ کے تحت ان کا آئینی حصہ ہے۔ اس کمیشن کی تشکیل سے قبل افواہیں گردش کررہی تھیں کہ حکومت ایک مخصوص فارمولے کے تحت صوبوں کے لیے مقرر کردہ مالی حصے میں ایک بہت بڑی تبدیلی لانے کی کوشش میں ہے۔ صوبوں کے خدشات میں اُس وقت مزید اضافہ ہوا جب بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے نجی ممبر متعلقہ صوبوں کے بجائے باہر سے لیے گئے۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور وفاقی سیکرٹری خزانہ کو بھی دسویں کمیشن کا ممبر بنایا گیا۔ 10ویں نیشنل فنانس کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کے تحت مشیر برائے خزانہ کو وفاقی وزیر خزانہ کی غیر موجودگی میں این ایف سی کمیشن کی سربراہی کی بھی اجازت دی گئی تھی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم عمران خان کو ایک خط لکھا تھا کہ آرٹیکل 160کے تحت وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ نیشنل فنانس کمیشن کی صدارت نہیں کرسکتے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے وفاقی سیکرٹری خزانہ کی تقرری پر بھی خدشات ظاہر کیے ہیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے تفصیلی فیصلہ دیا ہے۔ اس نے ہر پہلو کا قانونی جائزہ لیا اور 10واں نیشنل فنانس کمیشن غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ عدالت نے یہ فیصلہ بار کے سابق صدر محمد ساجد ترین کی پٹیشن پر دیا ہے۔ پٹیشن میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئین کے تحت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے اخراجات وفاقی حکومت اپنے حصے سے ادا کرتی ہے، لیکن اگر وفاقی حکومت ان علاقوں کو مزید رقم دینا چاہتی ہے تو وہ بھی اپنے حصے سے ہی ادا کرے، صوبے اپنا حصہ کسی اور کو دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ درخواست میں یہ بھی مؤقف اپنایا گیا کہ جاوید جبار کا تعلق صوبہ بلوچستان سے نہیں ہے۔ پٹیشن دائر ہوجانے پر جاوید جبار کمیشن سے خود ہی الگ ہوگئے۔ بہرحال چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نذیر لانگو نے رٹ درخواست پر اپنا فیصلہ سنایا ہے اورمشیر خزانہ حفیظ شیخ اور وفاقی سیکرٹری خزانہ کی تقرری کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) نے اسپیکر اسمبلی اسد قیصر کو نج کاری کمیٹی سے تمام وفاقی مشیروں کو نکال دینے کے لیے ایک خط لکھا ہے۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ اور مسلم لیگ(ن) کا خط اس لیے اہمیت کے حامل ہیں کہ کوئی صوبائی اور وفاقی مشیر اپنے عہدے کا آئینی حلف نہیں اٹھاتے، لہٰذا انہیں آئینی اداروں میں ممبر کی حیثیت سے شامل نہیں کیا جاسکتا۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کے پاس سپریم کورٹ میں اپیل کا حق ہے، کیونکہ آئین اور قانون کی تشریح کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے، اسی لیے اسپیکر بھی عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کی جانب ہی دیکھیں گے۔ قومی اسمبلی میں دو سال میں اپوزیشن نے پہلی بار حکومت کو واقعی ایک مشکل میں ڈالا ہے۔ یہ ایک آئینی بحث ہے اور عدلیہ کا فیصلہ ہی مستقل طور پر یہ معاملہ حل کرے گا۔
این ایف سی ایوارڈ کے بعد ملک میں بجلی، گیس اور تیل کا بحران سر اٹھائے کھڑا ہے، ان دو سال میں بجلی اور گیس کی بلاتعطل فراہمی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے، جب کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ بجلی کی پیداوار اُس کی طلب سے زیادہ ہے۔ مگر گرمی کا موسم شدید ہوتے ہی ملک بھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ بجلی کی بندش کا دورانیہ 10سے 12 گھنٹے، اور بعض علاقوں میں تو 15گھنٹوں تک بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ لاک ڈائون کی وجہ سے ملک میں کاروباری سرگرمیاں پہلے ہی نہ ہونے کے برابر تھیں، اب لوڈشیڈنگ سے یہ بالکل ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ کے الیکٹرک کا حال سب سے برا ہے، اسے سوئی سدرن سے گیس، پی ایس او سے فرنس آئل اور نیشنل گرڈ سے بجلی تو مل رہی ہے لیکن کے الیکٹرک کتنی بجلی پیدا کررہا ہے، یہ کسی کو علم ہی نہیں۔ وزارتِ توانائی کا مؤقف ہے کہ بجلی کی پیداوار 25 ہزار میگاواٹ جبکہ طلب 23527میگاواٹ ہے اور بجلی کی تمام تقسیم کار کمپنیاں اپنی ضرورت کے مطابق سسٹم سے بجلی لے رہی ہیں۔ وزارتِ توانائی کے اس بیان کے باوجود بدانتظامی حکومت کی نااہلی کا ثبوت ہے۔
ملک میں سر اٹھائے ہوئے مسائل کے پس منظر میں وزیراعظم کہتے ہیں کہ ان کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ ایک حد تک یہ بات درست ہے، ان جیسا نالائق وزیراعظم ملک کی تاریخ میں نہیں آیا۔ جہاں تک چوائس کی بات ہے تو تحریک انصاف آخری چوائس نہیں ہے، اب مائنس کا کھیل شروع ہوچکا ہے، مگر یہ مائنس ون نہیں بلکہ مائنس تھری ہوگا۔ تحریک انصاف جس طرح اپنے گندے کپڑے میڈیا پر دھو رہی ہے یہ اس لیے ہے کہ تحریک انصاف میں یہ لوگ آئے نہیں بلکہ شامل کرائے گئے تھے، لہٰذا ان کا کوئی مشترکہ لائحہ عمل اور ایجنڈا نہیں ہے۔ حکومت اگر سنجیدہ ہوتی تو مرکز اور صوبے مل کرکورونا جیسی وبا کا مقابلہ کرتے۔ حکومت لاکھ دعوے کرے کہ اس نے سنجیدگی دکھائی ہے، لیکن جواب میں وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کی یہ گواہی کافی ہے کہ انہیں بھی ایک انجکشن نہیں مل رہا تھا۔ وفاقی وزیر کی اپنی ہی حکومت کے خلاف گواہی وقت آنے پر معتبر شہادت ثابت ہوگی۔ پارٹی مختلف گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے، جبکہ ان گروہوں کی اپنی سیاسی جڑیں نہیں ہیں، ان میں سیاسی بحران کو حل کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کے جن ارکان نے حکومت کی کارکردگی پر شدید تنقید کی اُن میں سے زیادہ تر کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے، جو جہانگیر ترین کی وجہ سے عام انتخابات سے کچھ پہلے تحریک انصاف کا حصہ بنے تھے، اور جہانگیر ترین کی عدم موجودگی کے باعث وزیراعظم کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کو پاکستان تحریک انصاف کا اتحادی بنایا گیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کے معاملات جہانگیرترین دیکھ رہے تھے، اس میں عمران خان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ بلوچستان کی مخصوص جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے مقتدرہ بھی وہاں کے معاملات کو دیکھ رہی ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)کے معاملات اور اس کے بھی تحریک انصاف کا اتحادی بننے سے عمران خان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ وزیراعظم عمران خان کے لیے جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے اتحادی اور متحدہ قومی موومنٹ قومی اسمبلی میں زیادہ مشکل صورت حال پیدا کرسکتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے متحد ہونے کے بھرم کو بھی خاصی ٹھیس لگی ہے۔ فیصل واوڈا نے وزیراعظم اور صدر ِمملکت سے بھی ون ٹو ون ملاقات کی۔ تحریک انصاف کے کچھ حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے سیاسی قد کاٹھ کا کوئی دوسرا لیڈر نہیں، مگر ان حلقوں کی یہ تھیوری حقائق کے برعکس ہے۔ دراصل وہ حلقے بھی گہری سوچ میں ہیں جن کے ہاتھ میں معاملات ہیں۔ بجٹ کی منظوری میں 18 حکومتی ارکان کی غیر حاضری حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ سب موسمی پرندے ہیں۔
دراصل اس وقت سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ عمران خان کی اپنی جماعت پر گرفت مضبوط نہیں رہی، اور انہیں انتظامی تقسیمِ کار کی اہمیت کا علم ہی نہیں ہے، اور نہ وہ کسی کے مشورے پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کے نوٹس لینے کے باوجود ملک میں مافیا مضبوط ہورہے ہیں، بلکہ حکومت مافیائوں کے کنٹرول میں معلوم ہوتی ہے۔ ملک میں آٹا، چینی، چاول، پیٹرول، ادویہ کی قیمتیں اس وقت منافع خور مافیا کے رحم و کرم پر ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اپنی معاشی ٹیم کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک پہنچانے کی ہدایات کرتے رہے، مگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں اس پر عمل درآمد نظر نہیں آیا، اور ناجائز منافع کی خاطر ذخائر چھپانے میں ملوث آئل کمپنیوں کے خلاف اقدامات بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوپائے، پھر یکایک پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرکے مہنگائی و بے روزگاری بڑھا دی گئی ہے۔ عجلت کا یہ عالم رہا کہ معمول کے طریقہ کار سے ہٹ کر نئی قیمتوں کے تعین کے لیے اوگرا کی سفارشات ضروری سمجھی گئیں اور نہ ہی نئے نرخوں کے نفاذ کے لیے نئے مہینے کے شروع ہوجانے کا انتظار کیا گیا، بلکہ وزارتِ خزانہ نے خود ہی نئی قیمتوں کا تعین کرکے یکم جولائی کے بجائے 26 جون کو ان قیمتوں کی منظوری دے دی اور اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا۔ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ اس قدر جلد بازی میں کیوں بڑھائے گئے؟ اس کی کوئی معقول وجہ تلاش کرنا مشکل ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت بڑھانے سے حکومت کو ٹیکس کی مد میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، سارا فائدہ پیٹرولیم کمپنیوں کو ہوگا۔ یہ فائدہ تین سو ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ دنیا میں تیل کی قیمتوں میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے، حکام نے آئل کمپنیوں کو سستا تیل خرید کر ذخیرہ اندوزی کا موقع دیا ہے، اور اب قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کرکے اور اس اضافے کو مقررہ وقت سے پہلے نافذ کرکے بھاری منافع کمانے کے راز کھول دیے ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ حکومت نے شوگر مافیا کے بعد پیٹرول مافیا کے سامنے بھی ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ یہ مافیا جب چاہتا ہے ملک میں مصنوعی قلت کا بحران کھڑا کردیتا ہے اور حکومت آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے دعوے کرتی رہتی ہے۔
چینی کا بحران ایک تلخ حقیقت ہے اور جس دیدہ دلیری سے عوام اور حکومت کو اندر ہی اندر دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا، اس کی مثال گزشتہ 72برسوں میں بھی نہیں ملتی۔ حکومت نے انکوائری کمیشن تشکیل دے کر تحقیقات کی روشنی میں حقائق سے پردہ تو اٹھا دیا، مگر معاملہ سدھرنے کے بجائے بگڑتا چلا جارہا ہے۔ اس وقت یوٹیلٹی اسٹورز پر چینی مہنگی فروخت ہورہی ہے۔ شوگر کمیشن کی رپورٹ میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام منظرعام پر آئے، تاہم شوگر ملز مالکان نے اس کے خلاف ملک کی اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرلیا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں اس کی سماعت ہوگی۔ فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیںکہ شوگر ملز ایسوسی ایشن تحقیقاتی رپورٹ سے جان نہیں چھڑا سکتی۔ عدلیہ دراصل یہ کہہ رہی ہے کہ کمیشن کو غیر قانونی قرار دے دیا جائے تو بھی رپورٹ ختم نہیں ہوسکتی۔ شوگر ملز مالکان نے عدلیہ کے روبرو کمیشن کی قانونی حیثیت کا سوال اٹھایا ہوا ہے، اب حتمی فیصلہ عدالت میں ہی ہوگا۔