مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل میں تاخیر نے پاکستان اور بھارت کو آج اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں وقت بند مٹھی سے ریت کی طرح ان کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے
ریاست جموں وکشمیر کے باشندوںکے ہاتھ سے کھیل اُس وقت نکل گیا تھا جب وادی کے مقبول لیڈر شیخ محمد عبداللہ، جموں میں گہرے اثر رسوخ کے حامل مسلمان لیڈر چودھری غلام عباس اور ریاست کے ہندو حکمران مہاراجا ہری سنگھ کے درمیان کوئی نقطہ ٔ اتصال واشتراک قائم نہ ہوسکا۔ نقطۂ اتصال تک پہنچنے میں اس ناکامی نے بہت سی ناکامیوں کی بنیاد رکھ دی۔ پہلی ناکامی یہی تھی کہ جس ریاست کے حکمران کے پاس اپنے عوام کے مقدر کا فیصلہ کرنے کا اختیار تھا، اور جن مسلمان لیڈروں کے ہاتھ عوام کی نبض پر تھے وہ پاکستان اور بھارت کے براہِ راست سامنے آنے پر حالات کے شجر سے خزاں گزیدہ پتّوں کی طرح جھڑتے چلے گئے۔ مہاراجا کی طاقت کی بنیادیں ہل گئیں اور وہ بھارت سے خود سپردگی پر مجبور ہوا۔ شیخ عبداللہ بھی اپنی انفرادیت ترک کرکے پنڈت نہرو کی چھتر چھائے میں جانے پر مجبور ہوئے، اور چودھری غلام عباس پاکستان کی طرف کھنچے چلے آئے۔ اس کے بعد سے کھیل ریاست جموں وکشمیر کے عوام کے ہاتھ سے نکل کر پاکستان اور بھارت کے پاس چلا گیا۔ 72 برس گزر گئے دوبارہ وہ لمحہ کبھی لوٹ کر نہ آسکا جب کشمیر کے لوگ خود اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے پر قادر ہوتے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لمحات روز نہیں آتے، ان لمحوں کا تعلق زمانے کے اُلٹ پھیر سے ہوتا ہے۔ جب وقت کا پہیہ ایک رخ پر چلنے کے بعد الٹے رخ چلنے لگے تو وقت اور حالات کا یہ سنگم فیصلہ کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اس موقع سے فائدہ نہ اُٹھانے والے حالات کے اسٹیشن پر کھڑے اگلی ٹرین کی سیٹی بجنے کا انتظار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ ٹرین کب آتی ہے؟کوئی نہیں جانتا۔
تقسیم کے بعد کلکتہ کے انگریزی اخبار ’’دی اسٹیٹسمین‘‘ کے ایڈیٹر مسٹر اسٹیفن جب دہلی اور کراچی سے ہوتے ہوئے چکوٹھی کے راستے سری نگر سے مظفرآباد پہنچے تو ایک زمانہ شناس مدبر اور اخبار نویس کے طور پر وہ یہ جان چکے تھے کہ کھیل کشمیریوں کے ہاتھ میں نہیں رہا۔ مسٹر اسٹیفن نے چودھری غلام عباس اور شیخ محمد عبداللہ سے بھی ملاقاتیں کیں اور اپنے سفرنامے میں لکھا کہ چودھری غلام عباس اور شیخ عبداللہ مل کر حالات کو صحیح سمت میں رکھ سکتے تھے مگر اب دیر ہوگئی ہے اور کھیل ان کے ہاتھ سے نکل کر دہلی اور کراچی کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔
پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکام ہوئے تو شاید حالات کی باگ دونوں کے ہاتھ سے نکل کر کسی اور ہاتھ میں جاتی نظر آرہی ہے، اور وہ طاقت دونوں ملکوں سے زیادہ بااثر ملک عوامی جمہوریہ چین ہے۔ چین کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی کہ کشمیری قیادت اس کے ساتھ رسم وراہ پیدا کرے، اور ایک بار چینی وزیراعظم چو این لائی نے الجزائر میں شیخ عبداللہ سے اہم اور خصوصی ملاقات میں گِلے کے انداز میں کہا تھا کہ حیرت ہے آپ نے ابھی تک چین کا دورہ نہیں کیا! چین تو آپ کا اس قدر قریبی ہمسایہ ہے کہ آپ اپنے مکان کی چھت سے اس کے پہاڑوں کی چوٹیاں گن سکتے ہیں۔ چو این لائی نے شیخ محمد عبداللہ کو انڈونیشیا کے راستے چین آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ اس ملاقات کی وجہ سے شیخ صاحب کو الجزائر سے واپسی پر بھارتی حکومت نے ایک بار پھر گرفتار کرلیا تھا۔
دہلی اور اسلام آباد میں سفارت کاروں کی بے دخلی کے بعد پاکستان اور بھارت کے سفارتی تعلقات تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ دونوں دو الگ براعظموں کے باسی ہیں نہ دو الگ دنیائوں کے مکین کہ یوں اپنے اپنے دائروں میں سمٹ کر رہیں۔ دونوں فقط تائی کوانڈو جیسی مہارت اور ڈنڈوں جیسے ہتھیاروں کے حامل بھی نہیں کہ ان کے یوں سمٹ کر رہنے سے دونوں سمیت کسی کو کوئی فرق نہ پڑتا ہو۔ دونوں پہلو بہ پہلو ہیں۔ دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ایک کے حالات دوسرے پر کسی نہ کسی طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ گویا کہ قربت اور ہمسائیگی ایسی کہ ایک دوسرے سے غافل رہنے کی کوشش کے باوجود غافل نہیں رہ سکتے۔ دونوں کے پاس ہتھیار اتنے ہلاکت خیز ہیں کہ بٹن دب جائے تو آنِ واحد میں خطہ کسی ویرانے اور کھنڈر کا منظر پیش کرنے لگے۔
دنیا میں ہمسایوں کے درمیان بھی اختلافات ہوتے ہیں، اور دوریوں میں بھی رنجشیں اور کدورتیں ہوتی ہیں۔ آج کے دور میں چین اور امریکہ، اور بیتے ہوئے کل میں سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان کھینچا تانی دوریوں میں رنجش کا سامان لیے ہوتی تھی۔ قربتوں میں ایسی دوری بہت کم دیکھی اور سنی گئی جو پاکستان اور بھارت کے معاملات میں دیکھی جا رہی ہے۔ حقیقت میں دونوں ملکوں کے تعلقات کو ’’کشمیر کا کورونا‘‘ لاحق ہوگیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل میں تاخیر نے پاکستان اور بھارت کو آج اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں وقت بند مٹھی سے ریت کی طرح ان کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ جب تک کھیل پاکستان اور بھارت کے ہاتھ میں تھا بھارت نے تکبر اور نخوت میں، اور پاکستان کی قیادتوں نے تساہل وتاخیر کے رویوں کی وجہ سے مواقع کو ضائع کیا۔ چین بھارت جنگ پاکستان کی طرف سے گنوایا جانے والا لمحہ تھا جو اس کے بعد دوبارہ نہ آسکا۔ چینی قیادت کو مدتوں اس کا قلق رہا اور وہ پاکستان کی قیادتوں سے یہ تاریخی موقع گنوانے پر تاسف کا اظہار کرتے رہے۔ چین مسئلہ کشمیر سے کبھی الگ اور غافل نہیں رہا۔ ہر اہم موڑ اور مقام پر چینی قیادت نے کشمیر کی متنازع حیثیت کو برسرِعام تسلیم کیا اور اس مسئلے کے حل کی ضرورت پر زور دیا۔ مسئلہ کشمیر پر چین کے مؤقف کی ایک پوری تاریخ ہے، جس میں1961ء کا وہ چینی اعلامیہ بھی شامل ہے جس میں کشمیر کے بھارت سے الحاق کوتسلیم کرنے سے انکار کیا گیا تھا، اور1964ء میں چو این لائی کا دورۂ پاکستان بھی ہے جس کے اختتام پر ایوب خان اور چو این لائی کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ ’’کشمیر کا تنازع کشمیری عوام کی مرضی سے حل کیا جائے‘‘۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا، معاملہ اُلجھتا چلا گیا، اور آج پاکستان اور بھارت سے زیادہ طاقتور کھلاڑی چین نے اس میدان میں قدم رکھ دیا ہے۔ چین نے صرف گلوان وادی میں اپنے وجود، کردار اور مزاج کی ایک جھلک دکھائی ہے۔ چین صرف گلوان وادی میں ہی آگے نہیں بڑھ رہا، بلکہ وہ اپنے جغرافیائی اور دفاعی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے پینگونگ جھیل کی طرف بھی مسلسل پیش قدمی کررہا ہے۔ بھارت اور امریکہ مل کر جنوبی چین کے جزائر کی طرف سے چین پر دبائو بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں، اور اس دبائو کا اصل مقصد چین کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر کسی سریع الحرکت کارروائی سے باز رکھنا ہے۔ اس صورتِ حال میں بھارت اور پاکستان کے سفارتی تعلقات کا 72 سالہ تاریخ کی کم ترین سطح پر آنا ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ بھارت نے کشمیر کو چین کی سلامتی کے لیے چیلنجز کھڑے کرنے کے لیے استعمال کیا، اور اب ان کوششوں کے ردعمل میں چین نے بھی کشمیر کا معاملہ براہِ راست اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ حریت کانفرنس کی ’’اوورہالنگ‘‘ سمیت کشمیر کے اندر اور باہر پیش آنے والے بہت سے واقعات کا تعلق کھیل اور کھلاڑیوں کے بدلنے اور اپ گریڈ ہونے سے ہے۔ اسے نئی صف بندی بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس عمل میں بہت سے حیرت انگیز مناظر بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ فقط پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔
پاکستان کو یہ گلہ ہے کہ پانچ اگست کے بعد جیلوں سے باہر رہنے والی قیادت نے مزاحمت کو اس انداز سے منظم نہ کیا جو بدلے ہوئے حالات کا تقاضا تھا، اور لامحالہ کشمیری قیادت کو یہ گلہ ہوگا کہ پاکستان نے ٹوئٹ اور تشویش سے بڑھ کر براہِ راست پنجہ آزمائی نہیں کی جو وقت کا تقاضا تھا۔ کشمیری اپنے حصے سے زیادہ بوجھ اُٹھائے ہوئے ہے، ان سے مزید بوجھ کی توقع زیادتی ہے۔ پانچ اگست کے بعد کا بوجھ ایک چھوٹی سے پٹی میں محصور اور مختصر سی آبادی نہیں اُٹھا سکتی، اس کے لیے ایک تازہ دم ریاست کا ہی کندھا درکار ہے اور اس سے مفر ممکن نہیں۔ نئی بنتی ہوئی اس تصویر میں پاکستان بھی ڈرائیونگ سیٹ سے ہٹ رہا ہے اور چین بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رہا ہے۔ چین اور بھارت کی کشمکش میں پاکستان ایک معاون کردار کی حیثیت اختیار کررہا ہے۔ اب بھارت کا واسطہ اپنے سے کئی گنا چھوٹی اور سیاسی طور پر منقسم اور بکھری ہوئی پاکستانی ریاست سے نہیں بلکہ ایک منظم اور مربوط چین سے ہے جو طاقت، آبادی اور وسائل میں بھارت سے کئی گنا بڑا اور برتر ہے۔ بھارت بھی اس بساط پر تنہا نہیں، ایک اور بڑی طاقت امریکہ شمال کی سمت سے نہ سہی مگر چین کے جنوب کی طرف سے بھارت کی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کو بھی حالات اس بات پر مجبور کررہے ہیں کہ وہ ڈرائیونگ سیٹ امریکہ کے ساتھ شیئر کرنے کی سمت جائے۔ یوں پہلے سے مجروح اور مذبوح کشمیر حالات کے ایک نئے’’کراس فائر‘‘ میں پھنستا نظر آرہا ہے۔