بارونق چہرے

اللہ تعالیٰ نے سورۃ الغاشیہ میں اُن ’بارونق چہروں‘ کا ذکر بڑے دلکش پیرائے میں کیا ہے جنہوں نے دنیا میں کامیاب زندگی بسر کی تھی۔ قرآنِ حکیم کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
’’کچھ چہرے اُس روز بارونق ہوں گے، اپنی کارگزاری پر خوش ہوں گے، عالی مقام جنت میں ہوں گے، کوئی بےہودہ بات وہاں نہ سنیں گے، اس میں چشمے رواں ہوں گے، اس کے اندر اونچی مسندیں ہوں گی، ساغر رکھے ہوں گے، گاؤ تکیوں کی قطاریں لگی ہوں گی اور نفیس فرش بچھے ہوں گے‘‘۔
ایک زمانہ تھا کہ ہمارے معاشرے میں یہ بارونق چہرے بڑی تعداد میں نظر آتے تھے جن کی بدولت اعلیٰ روایات کا گلزارِ کہکشاں کِھلا اور نیکیوں کی مہک ہماری بستیوں میں رچی بسی رہتی تھی۔ پھر استبدادِ زمانہ سے عظمت کے مینار سرنگوں ہونے لگے۔ اِس کے باوجود ہماری آنکھوں نے ایسے ایسے اہلِ عزیمت دیکھے ہیں جنہوں نے ہواؤں کا رُخ بدل ڈالا اور لاکھوں اِنسانوں کو صراطِ مستقیم پر چلنے کا حوصلہ دیا تھا۔ گزشتہ دنوں سید منور حسن کے انتقال کی خبر آئی تو یوں محسوس ہوا کہ ہم اپنے نہایت بیش قیمت علمی، فکری، دینی، سیاسی اور تہذیبی سرمائے سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ وہ ایک درویش صفت مجاہد اور ایک بیدار مغز سیاسی رہنما تھے جو دِہلی کے سید گھرانے میں 1941ء میں پیدا ہوئے۔ اُن کی والدہ ’لے کر رہیں گے پاکستان‘ کے نعرے لگاتیں اور اُن کے والد تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رہتے۔ وہ جب چھ سال کے ہوئے تو اُن کا خاندان ہجرت کر کے کراچی آ بسا تھا۔ منور حسن کے چھُٹپن میں دلّی تہذیب کی وضع داری ان کے تحت الشعور میں جاگزیں ہو گئی تھی۔ اُن کے والد کا اسمِ گرامی اخلاق حسن تھا جو حُسنِ اخلاق کا ایک دِلربا پیکر تھے۔ اُن کا یہ وصف سید منور حسن کی زندگی کا طرۂ امتیاز بن گیا تھا۔ پھر یہ عجب اتفاق ہوا کہ وہ گھر کی فضا کے علی الرغم این ایس ایف (نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن) میں شامل ہو گئے اور اپنی بےپناہ صلاحیتوں سےکراچی میں اِس تنظیم کی صدارت تک جا پہنچے۔ اِسی زمانے میں معراج محمد خاں اور نفیس صدیقی سے اُن کا یارانہ قائم ہوا جو نظریاتی تبدیلی کے باوجود پروان چڑھتا رہا۔ فطرت نےسید منور حسن کے دل میں نماز کی بروقت اور خشوع خضوع کے ساتھ ادائیگی کا ایک والہانہ شوق پیدا کر دیا تھا جو اُن کی زندگی میں ایک فیصلہ کُن عنصر کے طور پر جلوہ نما رہا۔ ایک روز وہ این ایس ایف کی میٹنگ میں شریک تھے کہ وقتِ نماز آگیا۔ وہ مسجد میں نماز ادا کرنے چلے گئے۔ واپسی پر ساتھیوں نے کسی قدر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ تب اُسی وقت راستے جدا ہو گئے اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کے لٹریچر سے متاثر ہو کر 1960ء کے لگ بھگ اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو گئے اور تمام کشتیاں جلا ڈالیں۔ جمعیت ان کی پہلی اور آخری محبت تھی جس کے وہ مسلسل تین سال ناظمِ اعلیٰ رہے اور پروفیسر خورشید احمد، جناب خرم جاہ مراد، ڈاکٹر اسرار احمد اور ڈاکٹر ظفر اسحٰق انصاری کی قیمتی میراث کو ایک نیا آہنگ اور ایک نیا شرارہ عطا کر گئے۔ وہ کراچی یونیورسٹی سے سوشیالوجی اور علومِ اسلامیہ میں ماسٹرز کرنے کے بعد جماعت ِاسلامی کے دامن سے وابستہ ہو گئے اور آخری لمحے تک اسی کا دم بھرتے اور اقامت دین کیلئے ہمہ تن سرگرداں رہے۔ وہ جماعت ِ اسلامی میں ہر سطح کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے پانچ سال تک منصب ِ امارت پر فائز رہنے کے ساتھ ساتھ عالمی اسلامی تحریکوں میں بہت فعال نظر آئے۔ اُن کی شخصیت کا اصل جوہر اُن کی باوقار درویشی، اُن کی حق شناسی، اُن کی مردانگی اور تعلق باللہ کی گہرائی تھی۔ وہ سیاسی معاملات میں فوجی کردار اور امریکی سامراج کے شدید مخالف اور اپنی رائے کے اظہار میں حد درجہ بےباک واقع ہوئے تھے۔ اُن کے وفورِ قناعت اور ضبطِ نفس کا یہ عالم تھا کہ زندگی کا بڑا حصہ چار مرلے کے مکان میں گزار دیا۔ دوستوں کے دکھ درد کا خاص خیال رکھتے اور اُن کے ساتھ بڑی اپنائیت سے پیش آتے۔ وہ فرد کے بجائے پورے خاندان کے ساتھ مراسم رکھنے کے قائل تھے اور دِلوں میں گھر بنانے اور برائی پر نشتر چلانے کا ہنر خوب جانتے تھے۔ اُنھیں شعر و ادب سے خاص لگاؤ تھا اور اُن کے رویوں میں بڑی شگفتگی اور اعلیٰ ظرفی پائی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے انتقال پر ایک دنیا ماتم کناں اور اُن کی خوبیوں کی رطب اللسان ہے۔ سید منور حسن، شاعرِ مشرق اقبالؔ کے اِس مصرع کی تصویر تھے۔ ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان۔ وہ اپنے تخلیقی مزاج کے مطابق یقیناً باغِ بہشت کی تزئین و آرائش میں شب و روز مصروف ہوں گے جہاں ان کے لیے گاؤ تکیوں کی قطاریں لگی ہوں گی اور نفیس فرش بچھے ہوں گے۔
(بشکریہ رونامہ جنگ کراچی)