وفاقی ادارۂ شماریات کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مہنگائی آٹھ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ایک سال میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 204 روپے مہنگا ہوا جس کی قیمت844/= روپے سے بڑھ کر1048/= روپے ہوگئی۔ چینی کی قیمت میں فی کلو 8 روپے سے زیادہ اضافہ ہوا، یہی حال سبزیوں، گوشت، دالوں، پھلوں، گھی، چائے جیسی بنیادی اشیائے خورو نوش کی قیمتوں کا ہے۔
مہنگائی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے لیے کسی تحقیقی و تفتیشی رپورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہر آدمی کا روزانہ کا تجربہ ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمراں، پالیسی ساز، اشرافیہ دولت میں اس طرح کھیل رہے ہیں جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، اس لیے مہنگائی کا مسئلہ ان کا ذاتی تجربہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ سنگ دلانہ فیصلے انتہائی آسانی سے کرلیے جاتے ہیں۔ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے کی سنگینی اس لیے بڑھ گئی ہے کہ پوری دنیا کورونا کی وبا میں مبتلا ہے۔ عالمی وبا کی وجہ سے پاکستان سمیت پوری دنیا لاک ڈائون جیسے تجربے کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ لاک ڈائون کی وجہ سے اقتصادی اور سماجی سرگرمیاں مفلوج ہوگئی ہیں جس کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقات تو معاشی بحران کا شکار ہوئے ہی ہیں، تاجر پیشہ حضرات کے لیے بھی دبائو برداشت کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اشیائے ضرورت یعنی کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ تو ہو ہی رہا ہے اس کے ساتھ حکومت نے ’’نامعلوم اسباب‘‘ کی بنا پر پیٹرول اور اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں بھی غیر معمولی اضافہ کردیا ہے جس کے مضر اثرات سے قوم سنبھلنے کی کوشش کررہی ہے۔ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات دیگر اشیاء پر بھی پڑنا شروع ہوچکے ہیں۔
جب سے کورونا کی وبا آئی ہے وزیراعظم اپنی تقریروں میں مسلسل عام آدمی، مزدور اور محنت کش کے سنگین حالات پر بات کررہے ہیں، لیکن حکومتی پالیسیاں مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ قوم کو یہ خوش خبری بھی مسلسل دی جاتی رہی ہے کہ سی پیک کے بارے میں چین کا منصوبہ پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا اور اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے عام آدمی کے لیے خوش حالی کا پیغام لے کر آئے گا، لیکن یہ ابھی تک قوم کے لیے ایک خواب ہی ہے۔ کورونا کی وبا کی وجہ سے عالمی سطح پر پیٹرولیم کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی ہوگئی، بجلی کی طلب میں بھی کمی ہوئی، لیکن ’’انقلابی‘‘ حکومت نے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی کے فائدے سے بھی عام اور غریب آدمی کو محروم کردیا ہے۔ اب ایک اور خبر یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے 450 ملین ڈالر کے قرض کی تیسری قسط حاصل کرنے کے لیے بجلی کے نرخوں میں 14 فیصد اضافہ کردے گی۔ اس کے ساتھ ہی کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے نرخوں میں بھی اضافہ کردیا جائے گا، یعنی حکومت زرِ تلافی کا نظام ختم کردے گی۔ وزارت ِخزانہ کے ذرائع کے مطابق 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارف کے نرخوں میں اضافہ کردیا جائے گا اور بجلی کا زرِ تلافی 50 یونٹ تک کردیا جائے گا۔ یعنی ایک انتہائی غریب آدمی کو جو رعایت ملتی ہے اس سے بھی محروم کردیا جائے گا۔
آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے وزیراعظم کی سربراہی میں پنجاب کے اعلیٰ حکام کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیراعظم نے ہدایت کی کہ عوام کو آٹا، چینی اور دوسری ضروری اجناس پرانی قیمتوں پر ملنی چاہئیں، منافع خوری کے لیے ذخیرہ اندوزی کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اجلاس میں چیف سیکرٹری نے بتایا کہ خفیہ اطلاعات پر پنجاب میں چھاپے مار کر ایک ارب دس کروڑ کی 16 ہزار ٹن سے زائد ذخیرہ کی گئی چینی برآمد کی گئی جو شوگر ملوں اور مافیا نے چھپا کر رکھی ہوئی تھی، اس کے علاوہ 716 ٹن گندم اور 2 ہزار ٹن چاول کا ذخیرہ بھی برآمد کیا گیا۔ ذخیرہ اندوزی ناجائز منافع خوری اور مصنوعی قلت پیدا کرنے کے لیے کی گئی تھی تاکہ قیمتوں میں مصنوعی طور پر اضافہ کیا جائے۔منافع خوری کے لیے ذخیرہ اندوزی بہت بڑا جرم ہے۔ اس جرم کی سب سے بڑی مجرم خود حکومت ہے۔ پیٹرول، بجلی، گیس جیسی بنیادی ضرورت پر حکومت اور بڑے سرمایہ داروں کو اجارہ داری حاصل ہے جس کی وجہ سے بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں کا تعین کرنے کا اختیار مارکیٹ فورس کی جگہ حکومت کو حاصل ہوگیا ہے۔ اور اب یہ طبقہ اتنا طاقتور ہوچکا ہے کہ حکومتوں کو بھی اپنا غلام بنا چکا ہے۔ اس طبقے کو قابو کرنے میں حکومت کی ناکامی بہت کچھ بتارہی ہے۔ وزیراعظم مسلسل یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ آٹے، چینی اور پیٹرول کا مصنوعی بحران پیدا کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے، لیکن حقائق یہ نظر آرہے ہیں کہ عوام کو فاقہ کشی میں مبتلا کرنے والی اس مافیا سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں۔ حکومت کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ عوام کو بنیادی اشیائے ضرورت بلا تعطل اور درست قیمت پر پہنچائے، لیکن حکومت یا تو ناکام ہے یا اپنے دعوے میں جھوٹی ہے۔ اس لیے کہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بجلی اور گیس کی قیمتوں میں جو اضافہ کیا ہے اس نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ مہنگائی کا وہ طوفان آچکا ہے جس نے شہریوں کے اعصاب کو سلامت رہنے نہیں دیا ہے۔ وائرس کی وبا اور طرزِ حکمرانی کی ناکامی نے حکومت کے تمام دعووں کی حقیقت عیاں کردی ہے۔ فوجی آمریت، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی ناکامی کے بعد ’’تبدیلی‘‘ کا تجربہ بھی ناکام ہوچکا ہے۔ یہ ناکامی غیر متوقع نہیں، البتہ عمران خان اور تحریک انصاف کے ناقدین کو بھی اتنی جلد ناکامی کی توقع نہیں تھی۔ اس ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ قومی امراض کی تشخیص غلط کی گئی تھی۔ ہمارے تمام مصائب کا سبب عالمی نظامِ باطل کی غلامی ہے۔ امریکی سیاسی غلامی، عالمی سرمایہ دارانہ اداروں کی اقتصادی غلامی اور مغربی اتحاد کی تہذیبی غلامی سے آزادی کی جدوجہد کیے بغیر حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی۔ حقیقی تبدیلی کے لیے ایک نظریاتی جماعت اور تحریک اوّلین شرط ہے۔