اسلام آباد میں مندر کی تعمیر

مغربی آقائوں کو خوش کرنے، بھارت سے دوستی اور دینی و مذہبی شعائر کی پامالی اور ان پر معذرت خواہانہ طرز عمل تینوں سیاسی جماعتوں تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں یکساں ہے

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور نے جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی کی تحریک پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پہلے مندر کی تعمیر فوری طور پر روکنے کا حکم دے دیا ہے۔ کمیٹی نے چترالی صاحب ہی کی درخواست پر مسجدِ توحید کے انہدام کا نوٹس لیتے ہوتے اسے سرکاری خرچ پر فوری تعمیر کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں پہلے مندر کی تعمیر کا تنازع ہر گزرتے دن کے ساتھ نیا رُخ اختیار کررہا ہے۔ ایک طرف ملک کی اکثریتی مسلم آبادی کے خدشات سامنے آرہے ہیں، تو دوسری جانب پاکستانی ہندو کمیونٹی اور دوسری اقلیتی برادریوں کا ردعمل بھی میڈیا پر نمایاں ہورہاہے۔ اس تنازعے کے سفارتی سطح پر کیا اثرات پڑیں گے، متعلقہ حلقے اس کا جائزہ لے رہے ہیں، جبکہ سیاسی اثرات کا اندازہ سوشل میڈیا پر لگائی گئی پوسٹوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ H-9 سیکٹر میں شری کرشنا نامی اس مندر کی چار دیواری کی تعمیر سی ڈی اے حکام نے روک دی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ مندر کا نقشہ سی ڈی اے میں جمع نہیں کرایا گیا، جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے یہ سوال رکھا ہے کہ کیا وفاقی دارالحکومت کے ماسٹر پلان میں مندر کے لیے جگہ رکھی گئی ہے؟ ہندو پنچایت کے صدر پریتم داس اور حکمران تحریک انصاف کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی لال چند ملہی کے مطابق بلڈنگ پلان یا نقشہ وزارتِ مذہبی امور نے وزیراعظم آفس کو بھجوادیا ہے۔ مندر کے پلاٹ کا قبضہ 2018ء میں ہندو پنچایت کو مل چکا ہے۔ لال چند ملہی کے مطابق مندر کی تعمیر کے لیے وزیراعظم سے 10 کروڑ روپے کی گرانٹ دینے کی استدعا کی گئی تھی جس کی وزیراعظم نے ابتدائی طور پر منظوری بھی دے دی تھی، لیکن علما اور دینی حلقوںکے شدید ردعمل کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کی ایڈوائس آنے تک اس پر فیصلہ مؤخر کردیا گیا ہے۔ وزارتِ مذہبی امور کا کہنا ہے کہ اُن کی وزارت غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی صرف مرمت (Renovation) کے لیے فنڈز جاری کرتی ہے، نئی عبادت گاہوں کی تعمیر کے لیے نہیں۔ اس معاملے میں علما اور دینی طبقات کا بھی یہی کہنا ہے کہ مسلم ریاست میں اقلیتوں کے حقوق، مذہبی آزادی اور جان و مال کے تحفظ کی ذمے داری ریاست کی ہے۔ جہاں اقلیتیں اپنی مذہبی عبادات اور رسوم و رواج کی ادائیگی اور اپنی عبادت گاہوں کا انتظام خود چلانے میں آزاد ہوتی ہیں، لیکن نئی عبادت گاہوں کی تعمیر سے مذہبی عقائد کے پرچار کا راستہ کھل جاتا ہے جس کے نتیجے میں نئے نئے فتنے سر اُٹھا سکتے ہیں، اس لیے اس راستے کو بندکیاگیا ہے۔ وہ اس سلسلے میں عہدِ صحابہ کی بعض نظیریں بھی پیش کرتے ہیں۔ دوسری جانب لبرل اور سیکولر طبقات کا کہنا ہے کہ اسلام اور آئینِ پاکستان دونوں اقلیتوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتے ہیں، اس لیے نئے مندروں یا عبادت گاہوں کی تعمیر میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس معاملے پر نظریاتی کونسل کی ایڈوائس کے بعد حکومت کیا مؤقف اختیار کرتی ہے اور عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے اس کا سب کو انتظار ہے۔
کہا جارہا ہے کہ مندر کی تعمیر کی منظوری نوازشریف حکومت نے 2017ء میں دی تھی، اور اب نوازشریف ہی کی پارٹی نے پنجاب اسمبلی میں اس مندر کی تعمیر کے خلاف قرارداد جمع کرادی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ملک کے اکثریتی عوام اور اقلیتی برادری دونوںکے ساتھ مسلسل کھلواڑ کررہی ہیں۔ اس کھلواڑ کے یقیناً درپردہ کچھ مقاصد ہیں، لیکن بظاہر وہ وقتی مفادات کی اس قدر اسیر ہیں کہ ماضی کے اپنے ہی اقدامات مسترد کرنے میں ذرہ بھر تامل نہیں کرتیں۔
پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا بعض نازک معاملات کے بارے میں رویہ ایک جیسا ہی ہے۔ صرف وقتی ضرورت کے تحت اس میں کچھ تبدیلی آجاتی ہے۔ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر تینوں جماعتوں کا رویہ سردمہری پر مشتمل ہے۔ بھارت سے دوستی تینوں کی دلی خواہش ہے۔ اپنے مغربی آقائوں کو خوش کرنے کے لیے دینی و مذہبی شعائر کی پامالی یا اُن پر معذرت خواہانہ طرزِعمل تینوں میں مشترک ہے، اور قادیانیوں کے لیے تینوں جماعتیں نہ صرف نرم گوشہ رکھتی ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً مذہبی رواداری کے نام پر انہیں اس طرح کے ریلیف دینے کی کوشش کرتی ہیں جن پر ملک کی غالب اکثریت کو تحفظات ہوتے ہیں۔ کشمیر کے معاملے پر تو فوج کے دوٹوک مؤقف کے باعث یہ جماعتیں اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتی ہیں، لیکن جب بھی موقع ملتا ہے اپنا ایجنڈا مکمل کرنے کی کوشش ضرور کرتی ہیں۔ بھارت سے دوستی کے معاملے میں تینوں جماعتیں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں رہتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے تینوں حالیہ ادوار میں فرد سے فرد کے رابطے کے نام پر ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم کے ذریعے پاک بھارت فرینڈ شپ، فخر زمان کی انٹرنیشنل پنجابی کانگریس کے ذریعے دونوں ممالک میں پنجابی زبان و ثقافت کے فروغ، اور عاصمہ جہانگیر کے ذریعے ’’دونوں جانب کے عوام ایک ہیں‘‘ جیسی کوششیں ہوچکی ہیں۔ بے نظیر بھٹو دور میں راجیو گاندھی کی آمد پر کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف بورڈ اور بینر اُتاردیے گئے۔ شاید اُسی دور میں کسی غیر مرئی اشارے پر اپوزیشن جماعتوں نے بے نظیر کو سیکورٹی رسک بھی قرار دیا۔ نوازشریف اس معاملے میں اتنے آگے بڑھے کہ اُن کے خاندان اور دوسرے کاروباری حمایتیوں کی بھارت میں شوگر ملوں کا تذکرہ ہوتا رہا۔ دوستی بس کے ذریعے اٹل بہاری واجپائی کا لاہور میں بھرپور سواگت کیا گیا۔ نریندر مودی کی تقریبِ حلف برداری میں بنا بلائے جانے کا اعلان کیا، بلکہ چلے بھی گئے۔ مظلوم کشمیریوں کے قاتل مودی سے فرانس میں غیر اعلانیہ، عملاً منصوبہ بند مگر ظاہری طور پر اتفاقی ملاقات کی۔ اپنی نواسی کی شادی میں نریندر مودی کو اُن کے لائو لشکر سمیت مدعو کیا۔ سچن جندال کو بغیر ویزا کئی بار پاکستان بلایا ۔ موجودہ حکومت اس سلسلے میں یہاں تک بڑھی کہ سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت کے لیے پہلے بھارت کو ووٹ دیا اور اب اُس کی مخالفت نہیں کی۔ آزاد کشمیر کے صدر کی جانب سے مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم اور کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے خلاف لائن آف کنٹرول پر مظاہرے کے اعلان کو خود وزیراعظم عمران خان نے روک دیا۔ قادیانیوں کا معاملہ یہ ہے کہ انہیں مذہبی اقلیت قرار دینے کا سہرا تو پیپلز پارٹی لیتی ہے لیکن ضیا دور میں اس آئینی ترمیم پر عمل درآمد کے لیے جو اقدامات کیے گئے اُن کی ہمیشہ مخالفت کرتی رہی۔ دیگر مواقع پر بھی قادیانیوں کے لیے عملی طور پر ایسے نرم رویّے کا اظہار کیا جس سے عام مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی تھی۔
جناب نوازشریف کے گزشتہ دور میں اسلام آباد یونیورسٹی کے شعبۂ طبیعات کا نام ہی کسی جواز کے بغیر قادیانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کردیا گیا۔ قومی اسمبلی میں انوشہ رحمان اور شاہد حامدکے ذریعے ختمِ نبوت کے حلف نامہ کو اقرار نامے میں تبدیل کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ اس معاملے میں تحریک انصاف کے شفقت محمود بھی ساتھ تھے۔ لیکن جب دبائو پڑا تو یہ تبدیلی واپس لے لی، اور جب اقتدار جاتا ہوا دکھائی دیا تو کیپٹن(ر) صفدر کے ذریعے اسلام آباد یونیورسٹی کے شعبۂ طبیعیات کے لیے ڈاکٹر عبدالسلام کا منسوب کردہ نام بھی واپس لے لیا۔ تحریک انصاف نے نہ صرف ایک قادیانی کو وزیراعظم کا اقتصادی مشیر مقرر کیا (بعد میں عوامی دبائو پر یہ نام واپس لے لیا گیا) بلکہ بعض دیگر مشکوک قادیانیوں کو حکومت میں ساتھ ملایا۔ مذہبی شعائرکے بارے میں بھی تینوں جماعتوں کا رویہ ایک سا ہے، البتہ عوامی جذبات کے سامنے کھڑے رہنے کی ان میں سے کسی میں جرأت نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کھلم کھلا حدود آرڈیننس، توہینِ رسالت آرڈیننس وغیرہ کی مخالف ہے، لیکن عوامی جذبات کے آگے مجبور ہے۔ وہ گستاخِ رسول آسیہ مسیح کی وکالت کرتی رہی ہے۔ تمام آزاد خیال طبقات کی حامی اور مذہب مخالف سرگرمیوں کی سرپرستی کرتی ہے۔ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ اور ویلنٹائن ڈے جیسی تقریبات میں اُس کی کسی نہ کسی سطح کی قیادت شریک ہوتی ہے۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل پر وہ عوامی جذبات کا سامنا تو نہ کرسکی مگر عملاً سلمان تاثیر (جو پیپلز پارٹی کے رہنما تھے) کے غیر قانونی اور غیر آئینی طرزِعمل کی اب بھی حامی ہے۔ نوازشریف اور ان کی حکومت کا اس معاملے میں رویہ انتہائی قابلِ مذمت رہا ہے۔ اُن کے دور میں سلمان تاثیر قتل کے ملزم ممتاز قادری کو عجلت میں سزا دی گئی۔ اُن کی پھانسی کی خبر نشر اور شائع کرنے سے میڈیا کو روکاگیا۔ اُن کے جنازے کے وقت کے بارے میں ابہام پیدا کیا گیا۔ جنازے کے دن وزیراعظم ہائوس میں نوازشریف اور مریم نواز نے دستاویزی فلموں کی آزاد خیال رائٹر اور ڈائریکٹر شرمین عبیدچنائی کو بلایا، سارا دن اس پروگرام کی ٹی وی چینلز پر تشہیر کرائی، لیکن سوشل میڈیا اور عوامی جذبات کے باعث ممتاز قادری شہید کا جنازہ اتنا بڑا تھا کہ خود حکومت پریشان ہوگئی۔ موجودہ حکومت نے اس معاملے میں آسیہ مسیح کو راتوں رات ملک سے فرار کرایا۔ مذہب بیزار لوگوں کو پارٹی اور حکومت میں بڑے عہدے دیے۔ کرتارپور راہداری کی کروڑوں روپے سے تعمیر کرائی، اور اب ایک پرانے ایشو کو زندہ کرکے مندر کی تعمیر شروع کرادی۔ لیکن تینوں پارٹیوں کو معلوم ہے کہ پاکستان کے 98 فیصد مسلم عوام اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرتے ہیں لیکن اپنے حقوق، مذہبی اقدار اور شعائرِ اسلامی پر سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ ہر بار ایسی حرکتوں پر شدید ردعمل آتا ہے اور ان حکومتوں کو جھاگ کی طرح بیٹھنا پڑجاتا ہے۔ اِس بار بھی ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا، کہ

یہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

اللہ پاک مسلمانوں کی دینی حمیت کو سدا سلامت رکھے۔