جو نقشِ کہن تم کو نظرآئے مٹادو

سیاہ فام جارج فلائیڈ کے بہیمانہ قتل کا ردعمل
نسلی امتیاز کے خلاف ایک منظم تحریک میں تبدیل

امریکی ریاست منی سوٹا (Minnesota) کے شہر منیاپولیس میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کے بہیمانہ قتل کے ردعمل میں برپا ہونے والا ہنگامہ اب نسلی امتیاز کے خلاف ایک منظم تحریک میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ میدانِ سیاست کے ساتھ کاروبار بلکہ کھیل کے میدانوں میں بھی تبدیلی بہت واضح ہے۔ مشہور فٹ بال ٹیم Redskins نے اپنا نام تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی دارالحکومت کی یہ فٹ بال ٹیم 1932ء میں قائم ہوئی تھی۔ یورپ سے آنے والے یورپی قدیم امریکی باشندوں المعروف ریڈ انڈین کو حقارت سے ریڈ اسکنز کہا کرتے تھے۔ تاریخ اور عمرانیات کے علما کا خیال ہے کہ یہ قدیم باشندے 1500سال پہلے ایشیا کے مختلف حصوں سے شمالی امریکہ آئے تھے۔ صدرٹرمپ کو نام کی تبدیلی پر سخت اعتراض ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بائیں بازو کے انتہا پسند تاریخی حقائق اور روایات کے بارے میں جھوٹ گھڑ کر امریکی عوام خاص طور سے نوخیز طلبہ کے دلوں میں احساسِ کمتری پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
اسی کے ساتھ امریکہ کے طول وعرض میں نصب امریکی مشاہیر کے مجسموں اور یادگاروں کو اکھاڑنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور اعتراض صرف باغی جرنیلوں اور کرسٹوفر کولمبس تک محدود نہیں، بلکہ اب لوگ اعلانِ آزادی کے مصنف ٹامس جیفرسن اور غلامی کے خاتمے کا اعلان کرنے والے ابراہام لنکن کے مجسموں کو گرانے یا کم از کم شاہراہوں اور چوراہوں سے ہٹاکر عجائب گھر منتقل کرنے پر اصرار کررہے ہیں۔ یہاں باغی جرنیلوں کے حوالے سے امریکہ کی اس مشہور خانہ جنگی کا ذکر ضروری ہے۔
1861ء میں صدارت کا حلف اٹھاتے ہی صدر ابراہام لنکن نے غلامی کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ اُس وقت امریکہ 34 ریاستوں پر مشتمل تھا۔ جنوب کی 7 ریاستوں نے غلامی کے خاتمے کو مسترد کرکے USAکے مقابلے میں کنفیڈریٹ اسٹیٹس آف امریکہ یا CSAکے نام سے آزادی کا اعلان کردیا۔ جلدی ہی 11 ریاستوں پر CSAکا پرچم لہرانے لگا۔ غلامی کے حامیوں کاکہنا تھا کہ ہم نے یہ غلام خریدے یا بزور بازو حاصل کیے ہیں۔ ملکیتی غلاموں کو آزاد کردینا ایسا ہی ہے جیسے کسی سے اُس کی جائداد چھین لی جائے۔ CSA نے جیفرسن ڈیوس کو صدر منتخب کرکے ریاست البامہ کے شہر منٹگمری کو اپنا دارالحکومت بنالیا۔ وفاق نے اسے غداری قرار دیتے ہوئے فوج کشی کا آغاز کیا اور چار سال جاری رہنے والی اس جنگ میں دونوں جانب کے 20 لاکھ سے زیادہ فوجی اور 10 لاکھ کے قریب شہری مارے گئے۔ اس جنگ میں سب سے بڑی آزمائش سیاہ فاموں کی تھی کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ان کی آزادی ہی بغاوت کا بنیادی سبب تھی۔ باغیوں نے جنگ کے دوران غلاموں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا اور پسپائی کی صورت میں اگر سارے غلاموں کو ساتھ لے کر بھاگنا ممکن نہ ہوتا تو فرار سے پہلے مریض، خواتین اور کمزور غلام ہلاک کردیے جاتے۔ زبردست مقابلے کے بعد وفاق نے جنگ جیت لی اور باغیوں کے ہتھیار ڈالنے کے ساتھ ہی شورش کا شکار تمام 11 ریاستوں نے غیر مشروط طور پر وفاق میں دوبارہ شامل ہونے کا اعلان کردیا۔ دوسری طرف خانہ جنگی سے لگے زخموں کو مندمل کرنے کے لیے تمام باغی جنگی قیدیوں کو باعزت رہا کردیا گیا۔ دونوں جانب کے ہلاک شدگان کو قومی شہدا کا درجہ عطا ہوا، اور باغی جرنیلوں کو معافی کے ساتھ ہیرو قرار دے دیا گیا۔ مئی کے آخری پیر کو امریکہ کے لیے قربانی دینے والوں کو خراجِ عقیدت کے لیے میموریل ڈے منایا جاتا ہے، اس میں باغی جرنیلوں کو بھی امریکی جانبازوں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا۔ امریکی فوجیوں کے 10 بڑے اڈے باغی جرنیلوں کے نام پر ہیں۔ کئی امریکی ریاستوں کے پرچم میں کنفیڈریٹ قومی جھنڈے سے مشابہت نظر آتی ہے۔
امریکہ کی وفاقی حکومت نے تو ہتھیار ڈالنے پر باغیوں کو محترمہ پروین شاکر کے مہربان کی طرح منصبِ دلبری پر بحال کردیا، لیکن سیاہ فام کنفیڈریٹ ریاستوں میں جس ذلت و اذیت سے گزرے ہیں وہ زخم ڈیڑھ صدی گزر جانے کے بعد بھی مندمل نہ ہوسکے۔ میموریل ڈے پر جنرل رابرٹ لی اور اُس کے قاتل ساتھیوں کو خراجِ تحسین ان مظلوموں کو اپنے زخموں پر نمک پاشی محسوس ہوتی ہے۔ یعنی کھِل گئے زخم کوئی پھول کھِلے یا نہ کھِلے
جارج فلائیڈ کی موت کے بعد Black Lives Matter تحریک نے امریکی تاریخ کی تدوینِ نو کے ساتھ معاشرے کی سیاسی و سماجی تطہیر کو اپنا ہدف بنا لیا ہے جس میں انھیں ابتدائی کامیابی بھی نصیب ہورہی ہے۔ موسمِ انتخاب کی وجہ سے ملک کی سیاسی قیادت کے لیے ان کے مطالبات کو یکسر نظرانداز کرنا بھی ممکن نہیں۔ سی این این نے نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے Sesame Street کی طرز پر بچوں کے لیے ایک تعلیمی پروگرام شروع کیا ہے جس میں کھیل اور کارٹون کے ذریعے انسانی مساوات اور برابری کا سبق دیا جارہا ہے۔ مائیکروسوفٹ، ایمیزون اور دوسرے اداروں نے اہم عہدوں پر اعلیٰ تعلیم یافتہ رنگ دار لوگوں کی بھرتی کے ساتھ نسلی امتیاز کے خلاف اپنے افسران کی تربیت کا ایک مربوط پروگرام شروع کیا ہے۔
تعمیراتی اداروں نے نسل پرست اصطلاحات پر نظرثانی شروع کردی ہے۔ امریکی گھروں میں منسلک غسل خانے سے مزین خواب گاہ کو ماسٹر بیڈروم کہا جاتا ہے۔ ماسٹر بیڈروم کا تصور دورِ غلامی کی یاد دلاتا ہے، چنانچہ اب ماسٹر بیڈروم کے بجائے اسے لگژری روم، مرکزی خواب گاہ اور اسی نوعیت کے دوسرے نام دیے جارہے ہیں۔
کرسٹوفرکولمبس امریکی سیاہ فاموں کے لیے نفرت کا استعارہ بنا ہوا ہے۔ 1492ء سے 1502ء تک اس اطالوی نژاد جہازراں نے ہسپانیہ سے بحراوقیانوس کے دوسرے کنارے پر ’نئی دنیا‘ کی تلاش میں سفر کیا۔ اس بارے میں پاکستان کے مشہور مزاح نگار جناب ابن انشا مرحوم نے ایک بار کہا تھا کہ کولمبس نے نئی دنیا دریافت کرکے باقی دنیا کو عذاب میں ڈال دیا۔
کولمبس پہلی بار تین جہازوں کے قافلے میں وسط امریکہ میں واقع ہسپانوی نوآبادی جزیرہ کنیری (Canary Island) پہنچا۔ اس جزیرے پر خوبصورت چڑیاں، پرندے اور نایاب نسل کی زرد بلبل یاCanaryپائی جاتی ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ شاید اس بلبل کی مناسبت سے اسے جزیرہ کنیری کہا جاتا ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ جزیرے پر عمدہ نوعیت کی شراب نتھاری جاتی ہے جسے کنیری وائن کہتے ہیں، اور یہی شرابِ خانہ خراب اس خوبصورت جزیرے کی وجہ تسمیہ ہے۔
بات شاید تھوڑی لمبی ہوجائے لیکن امریکہ میں نسل پرستی کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے نئی دنیا کی جانب کولمبس کے سفر کے پس منظر کا مختصر جائزہ ضروری ہے۔ کولمبس صاحب تھے تو اطالوی، لیکن اس مہم کی مالی اعانت ہسپانوی ملکہ ازابیلا (Isabella) نے کی تھی۔ اسی عرصے میں اندلس کی اسلامی ریاست کا خاتمہ ہوا اور ملکہ نے ایک حکم کے ذریعے کیتھولک مذہب کو ریاستی عقیدہ قرار دے کر غیر کیتھولک آبادی یعنی مسلمانوں اور یہودیوں کو ملک بدر کردینے کا حکم جاری کردیا۔ اسی کے ساتھ مساجد اور یہودی کنیسے نذرِ آتش یا کیتھولک عبادت گاہوں اور خانقاہوں میں تبدیل کردیے گئے۔ کچھ مسلمانوں اور یہودیوں نے جان بچانے کے لیے کیتھولک مذہب قبول کرلیا، لیکن ملکہ صاحبہ کے مذہبی مشیر نے انھیں بتایا کہ دین تو پیدائشی اعزاز ہے، کسی اور مذہب کا پیروکار کیتھولک نہیں بن سکتا۔ چنانچہ ان سارے ’’بدمذہبوں‘‘ کو زندہ جلادیا گیا۔ کیتھولک مسیحیت کا پیغام دے کر ہی ملکہ نے کولمبس کو نئی دنیا تلاش کرنے کا ہدف دیا تھا۔ سقوطِ غرناطہ اور تہذیبِ اندلس کا خاتمہ اسلامی تاریخ کا بدترین دور ہے، لیکن مسلم یہودی تعاون و اتحاد کا ایسا مخلصانہ مظاہرہ اس کے بعد کبھی نظر نہ آیا۔ شاید یہ اسی دور کا فیض ہے کہ قدامت پسند یہودی اب بھی خلافتِ عثمانیہ اور ترکی کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں۔
کنیری سے واپسی پر کولمبس نے ملکہ کو علاقے کی خوشحالی اور وہاں کے تنومند نوجوانوں کے بارے میں بتایا، جس سے توسیع پسند ملکہ صاحبہ کی باچھیں کھل گئیں، چنانچہ دوسرے سفر میں کرسٹوفر کولمبس 17 جہازوں میں 1200 ہسپانوی سپاہیوں کو لے کر گیا۔ انھیں سپاہیوں سے زیادہ اجرتی قاتل اور جرائم پیشہ کہنا درست ہوگا۔ قافلے میں انجیل کے علما اور پادری بھی تھے۔ اِس بار کولمبس جزیرہ کنیری پر اتر کر اُس طرف گیا جسے آج کل ڈومینکن ریپبلک کہا جاتا ہے۔ اس پورے علاقے پر قبضے اور ملکہ ازابیلا کا باج گزار بنانے کے بعد ہسپانیہ واپس جاکر اس نے یہاں سے پکڑے گئے سینکڑوں مقامی غلاموں کو شاہی خاندان اور ہسپانوی زعما کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیا۔ کولمبس اس کے بعد بھی دوبار وسط امریکہ آیا اور اس نے یہاں سے کچھ قافلے شمالی امریکہ (حالیہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ) کی جانب بھیجے۔ تاہم کولمبس کے خود امریکہ آنے کے بارے میں ابہام ہے۔ موصوف کی اس مہم کا مقصد سفید فام کیتھولک ریاست کا قیام تھا۔ امریکہ بھر کے نسل پرستوں کے لیے کرسٹوفر کولمبس ایک دیوتا کی حیثیت رکھتا ہے اور KKKجیسے دائیں بازو کے نسل پرست قدامت پسند اب تک ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ انتہا پسندوں کے علاوہ عام امریکی بھی اسے امریکہ کا دریافت کنندہ سمجھتے ہیں۔ امریکہ کے کئی بڑے شہر کولمبس کے نام پر ہیں اور بہت سے مقامات پر اس کے مجسمے نصب ہیں۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا جارج فلائیڈ کے وحشیانہ قتل کے بعد نسلی مساوات اور سماجی انصاف مہم کا کلیدی ایجنڈا امریکی تاریخ کی تدوینِ نو ہے۔ Black Lives Matterکا کہنا ہے کہ انسانیت کے ان دشمنوں کو بے نقاب کرنا ضروری ہے جنھیں بے ایمان تاریخ دانوں نے ہیرو اور نجات دہندہ کا روپ بلکہ بہروپ عطا کررکھا ہے۔ سیاہ فاموں اور ہسپانویوں میں کرسٹوفر کولمبس کے لیے سخت نفرت پائی جاتی ہے۔ حالیہ تحریک کے دوران واشنگٹن، نیویارک اور ہیوسٹن سمیت امریکہ میں کئی جگہ کولمبس کے مجسموں پر حملے ہوئے۔ اکثر جگہ انتظامیہ نے ان مجسموں کو تباہی سے محفوظ رکھا، لیکن لوگوں نے پولیس سے ہاتھا پائی کے دوران غلام بنانے والے کولمبس کے مجسمے کو سرخ رنگ سے لہولہان کردیا۔ 4 جولائی کو امریکہ کے یومِ آزادی پر دارالحکومت کے مضافاتی شہر بالٹی مور (Baltimore) میں عوام نے کولمبس کے مجسمے کوٹکڑے ٹکڑے کرکے دریا برد کردیا۔ کئی دوسرے شہروں میں بھی کولمبس کے مجسموں پر حملے کیے گئے۔
اس دوران ایک بڑامظاہرہ جنوبی ڈکوٹا میں جبل رشمور(Mount Rushmore)کے قریب ہوا۔ یہ پہاڑ صدیوں تک مقامی امریکیوں یا امریکی انڈینز کی عبادت گاہ سمجھا جاتا تھا۔ 1925ء میں پہاڑ پر امریکہ کے بانیوں کی مورتی تراشنے کا فیصلہ ہوا۔ مقامی لوگوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا، لیکن قوم پرستی کے سیلاب کے آگے ان بیچاروں کی ایک نہ چلی۔ یہی نہیں بلکہ اس پہاڑ کو ’جمہوریت کی خانقاہ‘ یا Shrine of Democracy قرار دے کر مقامی افراد کے مذہبی جذبات پر تیشہ چلادیا گیا۔ 1939ء میں یادگار مکمل ہوئی۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر جارج واشنگٹن، ٹامس جیفرسن، ابراہام لنکن اور صدر تھیوڈور روزویلٹ کی شبیہیں تراشی گئی ہیں۔
یوم آزادی کے موقع پر صدر ٹرمپ یہاں آتش بازی کا مظاہرہ دیکھنے آئے تو ہزاروں مقامی لوگوں نے ان کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے مظاہرین کو بائیں بازو کے ملک دشمن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ ملک کو قابلِ فخر ثقافتی ورثے اور تاریخی اثاثے سے محروم کردینا چاہتے ہں۔
نسلی امتیاز کے خلاف تحریک کے اثرات امریکہ سے باہر بھی محسوس ہورہے ہیں۔ 12 جون کو لندن میں ونسٹن چرچل کے مجسمے پر مظاہرین نے ’’چرچل نسل پرست تھا‘‘ لکھ دیا۔ دلچسپ بات کہ چرچل کے مجسمے کی درگت اُس وقت بنائی گئی ہے جب دوسری جنگِ عظیم کے اُس عظیم مرحلے کی یاد منائی جارہی تھی جسے D day کہتے ہیں۔ چرچل کے مجسمے کو عوامی انتقام سے بچانے کے لیے لکڑی کے بکس میں بند کردیا گیاہے۔ یہ بھی تجویز ہے کہ اسے چوک سے ہٹاکر عجائب گھر میں رکھ دیا جائے۔ جمہوریت کے اس نام نہاد علَم بردار نے بدترین قحط کے دوران ہندوستانیوں کے بارے میں کہا تھا ’’قحط سے کیا فرق پڑتا ہے! افزائشِ نسل کے معاملے میں ہندوستانی خرگوش سے کم نہیں‘‘۔
صدر ٹرمپ اپنے قدامت پسند ووٹروں کو نسلی مساوات کی تحریک سے ڈرا رہے ہیں۔ وہ ہرجگہ کہتے پھر رہے ہیں کہ بائیں بازو کے مظاہرین نے امریکہ کے چوراہوں اور شاہراہوں پر قبضہ کررکھا ہے۔ مقدمات میں الجھ کر قانون نافذ کرنے والے ادارے مفلوج ہوگئے ہیں۔ تھانوں کے گھیرائو سے پولیس افسران کے حوصلے پست ہیں۔ صدر ٹرمپ نے2016ء کا انتخاب مسلمانوں، رنگ داروں اور غیر ملکی تارکینِ وطن کے خلاف نفرت پھیلا کر جیتا تھا۔ تاہم گزشتہ بار سیاہ فام ووٹروں کی مایوسی نے صدر ٹرمپ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ان کی حریف ہلیری کلنٹن اپنے ووٹروں کو گھروں سے نکالنے میں ناکام رہیں۔ تاہم اِس بار صورت حال مختلف ہے۔ Black Lives Matter سارے امریکہ میں ووٹر رجسٹریشن کی مہم چلارہی ہے، اور عام خیال یہی ہے کہ بڑے شہروں میں اِس بار بھاری تعداد میں ووٹ ڈالے جائیں گے جس کا فائدہ جوبائیڈن کو ہوگا۔ دوسری طرف کورونا وائرس کے خلاف اقدامات پر عام سفید فام امریکی بھی خوش نہیں۔ جنوبی ریاستوں میں یہ وبا بے قابو ہوتی نظرآرہی ہے۔ صدر ٹرمپ متنازع بلکہ کسی حد تک نفرت انگیز گفتگو کرکے انتہاپسندوں کو اپنے گرد اکٹھا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حکمتِ عملی گزشتہ انتخابات میں سیاہ فاموں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کام کرگئی، لیکن توقع کے مطابق اگر اِس بار سیاہ فام اور ہسپانوی ووٹروں کا سونامی پھوٹ پڑا تو قصرِ سفید کے ساتھ امریکی سینیٹ پر بھی ری پبلکن پارٹی کی گرفت کمزور پڑسکتی ہے۔

………
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر
Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔