ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا اظہارِ خیال
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی اپنے انتخابی منشور اور اپنی دس نکاتی حکمت عملی پر جو 2018ء کے انتخابات سے کچھ دن پہلے جاری کی گئی تھی، عمل درآمد کرنے کے بجائے ٹیکس چوری کرنے والوں، قومی دولت لوٹنے والوں، اور ان رقوم سے ملک کے اندر اور ملک سے باہر اثاثے بنانے والوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ و مراعات اور ٹیکس ایمنسٹی دیے چلے جانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے قومی خزانے کو ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں کمی کا پورا فائدہ عوام کو منتقل نہ کرنے اور پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسوں کا ناروا بوجھ بڑھانے یا برقرار رکھنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ ان غیر دانش مندانہ معاشی پالیسیوں کی وجہ سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور عوام کی تکالیف بڑھتی چلی گئیں۔ موجودہ حکومت نے یکم جولائی 2020ء سے پہلے ہی 26جون 2020ء کو نصف شب کے بعد سے اچانک پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں زبردست اضافے کا جو حیران کن اور تکلیف دہ اعلان کیا ہے، وہ عملاً تیل کی مارکیٹنگ کمپنیوں کی غلط کاریوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے مترادف ہے، جبکہ اس اضافے کو حکومت اور ان طاقتور طبقوں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ بھی قرار دیا جارہا ہے۔
جون 2020ء سے تیل کی مارکیٹنگ کمپنیوں کے منفی رویّے کی وجہ سے اوگرا نے اظہارِ وجوہ کے نوٹس جاری کرنے کے بعد کچھ جرمانے بھی عائد کیے تھے، اور وفاقی وزیر توانائی کو تیل مافیا بھی قرار دیا تھا۔ یہی نہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان مارکیٹنگ کمپنیوں کی درخواست رد کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ ان کمپنیوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ بات پریشان کن ہے کہ اس ضمن میں قانونی کارروائی کے بجائے تحریک انصاف کی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں وقت سے پہلے ہی اضافہ کرکے ایک طرف ان کے مطالبات مان لیے، اور دوسری طرف پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں اپنے ٹیکسوں کی وصولی کے حجم میں اضافہ کرنے کا نسخہ بھی بنالیا۔ اس فیصلے سے تیل کی ان تمام مارکیٹنگ کمپنیوں اور پیٹرول پمپ مالکان نے بھی خوب ناجائز منافع کمایا جنہوں نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تیل کا ناجائز ذخیرہ کیا ہوا تھا۔ چند حقائق اس ضمن میں پیش ہیں:۔
-1 ماضی میں حکومتیں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی یا اضافے کا فیصلہ اوگرا کی سفارشات وصول ہونے کے بعد کرتی رہی تھیں، مگر تیل کی مارکیٹنگ کمپنیوں کے دبائو پر حکومت اس قدر عجلت میں تھی کہ اس نے جون 2020ء ختم ہونے کا انتظار کیے بغیر، اور اوگرا کی سفارشات ملنے سے پہلے ہی پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کا اعلان کردیا۔
-2 اب سے چند ماہ پہلے تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں ہی پیٹرولیم لیوی دس روپے فی لیٹر تھی، جسے بڑھاکر تیس روپے فی لیٹر کردیا گیا ہے۔ اسی طرح جنوری 2019ء میں ان مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 0.5 فیصد، دو فیصد، آٹھ فیصد اور تیرہ فیصد تھی، اب تمام مصنوعات پر سیلزٹیکس کی شرح حکومت نے 17روپے فی لیٹر کردی ہے۔ اس ضمن میں یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ اب سے پندرہ برس قبل اسٹیٹ بینک کے اُس وقت کے گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے جو آج بھی حکومت کا حصہ ہیں، کہا تھا کہ اگر ٹیکس کی چوری روک دی جائے تو جنرل سیلزٹیکس کی شرح کم کرکے پانچ فیصد، اور ہر قسم کے سرچارج مثلاً پیٹرولیم لیوی صفر کرنے کے باوجود ٹیکسوں اور جی ڈی پی کا تناسب بڑھے گا۔ مگر ہوا اس کے برعکس۔ سیلز ٹیکس کی شرح بھی بڑھ گئی، پیٹرولیم لیوی کئی گنا بڑھ گئی، اور ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب گر گیا، جبکہ حکومت کامیابی کے دعوے کررہی ہے۔ اس کو ہم ایک قومی المیہ ہی کہہ سکتے ہیں۔
-3اب سے بیس برس قبل جون 2008ء میں ایک ڈالر تقریباً 68 روپے کا تھا، جبکہ اب یہ شرح 167روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اب حکومت 167روپے کی شرح سے پیٹرولیم مصنوعات پر سیلزٹیکس وصول کررہی ہے، یعنی جوں جوں روپے کی قدر گرتی جائے گی ٹیکسوں کی مد میں حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس فی لیٹر کے حساب سے مقرر کیا جائے۔
-4 2005ء میں کہا گیا تھا کہ ٹیکس چوری روکنے کے بعد پیٹرولیم لیوی صفر ہوجائے گی، مگر اب موجودہ حکومت نے مالی سال 2020-21ء کا جو وفاقی بجٹ پیش کیا ہے اس میں پیٹرولیم لیوی کا ہدف 450 ارب روپے رکھا گیا ہے جو کہ پچھلے سال سے 75فیصد زیادہ ہے، جبکہ اب سے آٹھ برس قبل 2012ء میں اس مد میں صرف 60 ارب روپے وصول کیے گئے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پیٹرولیم لیوی دراصل حکومتی بھتہ ہے، اور حکومت اس مد میں وصولی تیزی سے بڑھا رہی ہے۔
-5یہ بات حیرانی سے پڑھی جائے گی کہ سپریم کورٹ میں جسٹس بھگوان داس کمیشن کی ایک رپورٹ جمع کرائی گئی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ 2002ء سے مارچ 2009ء تک پرویزمشرف حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات پر ایک ہزار 230ارب روپے سے زائد کا ٹیکس وصول کیا ہے، جبکہ اس مدت میں تیل کی مارکیٹنگ کمپنیوں اور تیل صاف کرنے والی ریفائنریز کو بھی غیر معمولی منافع کمانے کا موقع دیا گیا ہے۔ جسٹس بھگوان داس کمیشن میں کہا گیا تھا کہ پرویزمشرف حکومت نے چار سال تک اوگرا کو تیل کی قیمتوں کے تعین سے دور رکھا جو نہ صرف غیر قانونی بلکہ غیر اخلاقی اقدام بھی تھا، اور تیل کی قیمتوں کے تعین میں گڈ گورننس کا فقدان نظر آتا ہے اور بدعنوانی اور بدنیتی کا تاثر بھی ابھرتا ہے۔ یہی چیز اب تحریک انصاف کی حکومت میں جون 2020ء میں نظر آئی ہے۔ یہ بات انتہائی پریشان کن ہے کہ جسٹس بھگوان داس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اُس وقت کے وزیراعظم اور اُن کے مشیران نے جسٹس بھگوان داس کی رپورٹ ڈاکٹر عشرت حسین کو بھی ارسال کی تھی جس پر انہوں نے اپنی رائے میں اس رپورٹ کے بارے میں کہا کہ یہ بات درست ہے کہ اس ضمن میں غلطیاں اور جرائم کیے گئے تھے، مگر یہ غلطیاں اور جرائم نیک نیتی سے کیے گئے تھے جن میں سے کچھ سے بچا جاسکتا تھا۔
اب غلطیوں اور جرائم کونیک نیتی قرار دے کر معاملہ ختم کردیا گیا، اور اگر یہ نہ ہوتا تو جو کچھ آج ہورہا ہے یہ ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ اسی لیے قوم کو سوچنا ہوگا کہ پاکستان میں یہ سب کیا ہورہا ہے؟
پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کے ضمن میں ہم چند سفارشات پیش کرنے سے پہلے یہ بات کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات اور ٹیکسوں کے ضمن میں نہ صرف اپنے انتخابی منشور اور مروجہ ضابطوں سے صریحاً انحراف کیا ہے بلکہ اس کے اقدام اختیارات سے تجاوزکے زمرے میں آتے ہیں اورمالیاتی اور انٹی لیکچوئل کرپشن کی بدترین مثال ہیں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کا محور یہ ہے کہ معاشی فیصلے طاقتور طبقوں کے دبائو پر ان کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لیے کیے جائیں، نہ کہ معیشت کی بہتری کے لیے… اور کچھ دوسرے فیصلے عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کے تحت کیے جائیں، تاکہ قرضوں کی قسط ملتی رہے اور حکومت تن آسانی کا شکار رہے۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے۔
تیل کی قیمتوں کو مناسب رکھنے کے ضمن میں چند تجاویز:۔
-1پیٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح ساڑھے سات فیصد رکھی جائے اور پیٹرولیم لیوی ختم کردی جائے۔
-2پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکسوں کی شرح فی لیٹر کے حساب سے مقرر کی جائے، نہ کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرنے سے جو رقم آتی ہے اس پر کی جائے۔
-3جو کمیشن تیل کی مارکیٹنگ کمپنیوں، تیل صاف کرنے والی کمپنیوں اور پیٹرول پمپس کو دیا جاتا ہے، ان کو دیے جانے والے مارجن، منافع اور چارجز کو بھی مناسب سطح پر لایا جائے۔