حزبِ اختلاف عوام میں جانے کے بجائے ’’سلیکٹرز‘‘ سے ہی مطالبہ کررہی ہے کہ وہ عمران خان کی حمایت سے دست بردار ہوجائیں
پاکستان کی سیاست کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بحران کی پیدا کرنا اور اسے برقرار رکھنا سیاست کا اہم جزو محسوس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تواتر کے ساتھ سیاسی محاذ آرائی یا نئے نئے شگوفے چھوڑنا بھی سیاسی منظرنامے پر غالب نظر آتا ہے۔ اِس وقت بظاہر حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، مگر اسلام آباد کا سیاسی ماحول اور اس سے جڑے سیاسی یا میڈیا کے محاذ پر موجود سیاسی پنڈتوں کے بقول اسلام آباد کا سیاسی ماحول ایک بڑی تبدیلی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ’بڑی تبدیلی‘ سے مراد حکومت یا وزیراعظم کی تبدیلی ہے۔ باقی لوگ اس کھیل میں اپنا اپنا سیاسی رنگ بھرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس وقت سیاسی ماحول میں حزبِ اختلاف کی سیاست چار بنیادی نکات کے گرد گھوم رہی ہے:
(1) حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے، اور اس کی تبدیلی ناگزیر ہے۔
(2) ملک کے بحران کا واحد حل نئے منصفانہ اور شفاف انتخابات ہیں، کیونکہ ’’سلیکٹڈ حکومتی طبقہ‘‘ عوام کا نہ تو مینڈیٹ رکھتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی سیاسی، قانونی و اخلاقی ساکھ ہے۔
(3) جمہوری عمل چلنا چاہیے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وزیراعظم فوری طور پر مستعفی ہوں اوراپنی جگہ نئے قائدِ ایوان کا انتخاب کریں، تاکہ ملک جمہوریت کی پٹری سے نہ اترسکے۔
(4) جو لوگ سلیکٹڈ وزیراعظم اور حکومت کو لانے کے ذمہ دار ہیں وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں، اور اِس حکومت کی حمایت سے دست بردار ہوکر نئی حکومت کے لیے راستہ ہموار کریں۔
اگرچہ حزبِ اختلاف کی اپنی صفوں میں کسی ایک نکتے پر اتفاقِ رائے کا فقدان نظر آتا ہے اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں خود داخلی تضادات میں گھری نظر آتی ہیں، لیکن اِس وقت ایک سیاسی نکتہ ’’مائنس ون‘‘ کے فارمولے کے گرد گھوم رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان اپنی جگہ کسی اور کو وزیراعظم نامزد کردیں تو سیاسی بحران ٹالا جاسکتا ہے۔ جو لوگ مائنس ون فارمولے کی بات کررہے ہیں اُن کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان اس وقت تعلقات خراب ہیں۔ اس طبقے کے بقول مائنس ون فارمولا بھی اسی اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے جڑا ہوا ہے جو نئے سیاسی متبادل کی تلاش میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ دن سے حزبِ اختلاف کے رہنمائوں کے بیانات اور تقریروں میں وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ شدت سے دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ماضی میں بھی ہم جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویزمشرف کے دور میں مائنس ون فارمولے دیکھ چکے ہیں۔ جنرل ضیا الحق نے پوری کوشش کی کہ کسی طریقے سے پاکستان کی سیاست سے پیپلز پارٹی کو مکمل طور پر مائنس کردیا جائے، مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اسی طرح جنرل پرویزمشرف نے اپنے دور میں بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے مقابلے میں مخدوم امین فہیم اور شہبازشریف کو سامنے لانے کی کوشش کی، مگر وہ بھی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہماری سیاسی قیادتوں کا اپنی اپنی جماعتوں پر مضبوط سیاسی کنٹرول یا اجارہ داری ہے۔ دوسرے یہاں سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک افراد یا فرد کے گرد گھومتا ہے۔ آج بھی یہاں ووٹ نوازشریف، بھٹو خاندان اور عمران خان کا ہے۔ آپ ان افراد کو ان کی جماعتوں سے الگ کرکے دیکھیں تو ان جماعتوں کی حیثیت بہت کمزور نظر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی حکمران طبقہ بھی بزور طاقت کسی کو سیاست سے مائنس نہیں کرسکا۔ خود نوازشریف اگرچہ اس وقت عملی سیاست سے باہر ہیں، مگر نون لیگ کا ووٹ بینک ان ہی کے گرد گھومتا ہے۔
اسی طرح تحریک انصاف کی اصل شناخت عمران خان ہیں، اُن کے بعد کوئی ایسا فرد نہیں جسے عمران خان کے حامیوں کی غیر مشروط حمایت حاصل ہو۔ اس لیے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان کو نکال کر کسی اور کو وزیراعظم بنایا جاسکتا ہے، وہ غلطی پر ہیں۔ لوگوں کو یاد ہوگا کہ 2018ء کے انتخابات سے قبل بھی یہ شوشا چھوڑا گیا تھا کہ عمران خان کی جماعت کی مرکز میں حکومت تو بن سکتی ہے مگر وزیراعظم عمران خان نہیں، کوئی اورہوگا۔ یعنی عمران خان کو سونیا گاندھی بنانے کی بات کی گئی تھی۔ اُس وقت بھی یہی لکھا تھا کہ یا تو عمران خان کی سربراہی میں ان کی حکومت بنے گی، یا ان کی حکومت نہیں بنے گی۔ اگر عمران خان کو یہ اندازہ ہوگیا کہ بحران بہت بڑھ گیا ہے تو وہ کسی اورکی نامزدگی کے بجائے خود اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کا راستہ اختیار کریں گے۔
حزبِ اختلاف اگر سمجھتی ہے کہ عمران خان کی تبدیلی ناگزیر ہے اورملکی مفاد میں ہے تو یہ اُس کا سیاسی حق ہے۔ عمران خان کی تبدیلی کے عملی طور پر چار راستے ہیں:
(1) حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں مل کر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرکے ان کو گھر بھیج سکتی ہیں، اس طرح عمران خان کا جانا ٹھیر جائے گا۔
(2) عمران خان خود محسوس کریں کہ وہ عملی طور پر ناکام ہوگئے ہیں، یا ان کو حکومت چلانے میں دشواری پیش آرہی ہے تو وہ خود قبل ازوقت اسمبلیوں کو توڑ کر نئے انتخابات کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔
(3) حزبِ اختلاف ایک بڑی عوامی تحریک کی مدد سے حکومت یا وزیراعظم کو مجبور کرسکتی ہے کہ وہ گھر جائیں اور ملک میں نئے انتخابات کا راستہ ہموار کریں۔
(4) حزبِ اختلاف اگر اجتماعی طور پر قومی و صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہوجائے تو اتنی بڑی تعداد میں ضمنی انتخاب ممکن نہیں ہوگا اور نئے انتخابات کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ چاروں راستے حزبِ اختلاف کے لیے بہت مشکل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی حکومت ابھی تک حزبِ اختلاف کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھنے پر تیار نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حزبِ اختلاف بھی اچھی طرح سمجھتی ہے کہ عمران خان کی حکومت کو اگر گھر بھیجنا ہے تو اس کا راستہ کسی مؤثر جدوجہد کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے گھر کو ہی جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حزبِ اختلاف عوام میں جانے کے بجائے ’’سلیکٹرز‘‘ سے ہی مطالبہ کررہی ہے کہ وہ عمران خان کی حمایت سے دست بردار ہوجائیں۔ یعنی بنیادی نکتہ یہی ہے کہ عمران خان کی حمایت سے دست بردار ہوکر ہماری حمایت کی جائے، اور ہم اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں کہاں گئی جمہوری جدوجہد؟ کہاں گیا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘کا نعرہ؟ پارلیمنٹ کی بالادستی یا قانون کی حکمرانی سمیت اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت کے خلاف نعرے؟ اگر یہی کام حزبِ اختلاف آپس میں مل کر اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے کرنا چاہتی ہے تو پھر کیا تبدیل ہوا؟
مائنس ون کے فارمولے وہاں چل سکتے ہیں جہاں سیاسی قیادتوں کے مقابلے میں سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں، اور سیاسی قیادتیں اپنی جماعتوں کے سامنے جوابدہ ہوں۔ یہاں تو سیاسی جماعتیں عملی طور پر شخصیات کے ہاتھوں یرغمال ہیں، اور ایسے میں پارلیمنٹ سے مائنس ون کے فارمولے کی باتیں اپنے اندر وزن نہیں رکھتیں۔ کچھ لوگ یہ باتیں کررہے ہیں کہ مائنس ون فارمولے کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن فوری طور پر اس کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ شاہ محمود قریشی، فخر امام، یا محمد میاں سومرو کے متبادل نام کسی کی خواہش تو ہوسکتی ہے مگر سیاسی حقیقت نہیں، تحریک انصاف میں کیونکہ عمرا ن خان سواکسی کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں۔
عمران خان کی حکومت ناکام ہے تو یہ بات تو حزبِ اختلاف کے حق میں جاتی ہے، کیونکہ عمران خان کی ناکامی ان کے لیے سیاسی راستہ ہموار کرے گی۔ لیکن اگر عمران خان کو مصنوعی طریقے یا سازش کے تحت باہر نکالنے کی کوشش کی گئی تو اس سے خود اس جمہوری نظام پر بھی سوالات اٹھیں گے اور یہ کمزور سا جمہوری نظام پسِ پشت بھی جاسکتا ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ اس نظام کو چلنے دیا جائے، اور جب بھی انتخابات ہوں، اُن کی مدد سے نئی حکومت اورنئی قیادت کا انتخاب ہی جمہوری عمل کو آگے بڑھاسکتا ہے۔