تعزیتی ریفرنس بیادسید منور حسن

سینیٹر سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان کی صدارت میں عالمی و مقامی رہنمائوں اور زعمائے امت کا اظہارِ خیال

’’سید منور حسن ایک جسدِ خاکی نہیں ہے، سید منور حسن اللہ سے محبت کا نام ہے، نبیِ مہربانؐ کی شریعت کی اطاعت کا نام ہے۔

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی

علامہ اقبال نے جس مردِ مومن کا تذکرہ کیا ہے، سید منور حسن اس کی عملی تصویر ہیں۔ علامہ اقبال نے جس شاہین اور عقاب کا ذکر کیا تھا کہ آب اور دانے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، وہ عالمی ہوتا ہے، وہ آفاقی ہوتا ہے۔ علامہ نے فرمایا تھا ؎۔

تُو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
دے کے احساسِ زیاں، تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
موت کے آئینے میں دکھا کر تجھے رخِ دوست
زندگی تیری، تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
فتنۂ ملّتِ بیضا ہے، امامت اس کی
جو مسلمان کو سلاطین کا پرستار کرے

سید منور حسن نے جماعت کے کارکن کو حاضر و موجود سے بیزار کیا تھا، وہ موت کے آئینے میں رخِ دوست دکھانے والی شخصیت تھے۔ اور یہ چیز ان کی تقریروں میں نہیں، ان کی زندگی میں تھی، اور اس کی گواہی وہ خود نہیں دے رہے، ان کے دائیں بائیں رہنے والے ان کے قریبی ساتھی دے رہے ہیں۔ ساٹھ سال تک مسلسل چلتے رہے، لڑتے رہے، بڑھتے رہے، باطل کو للکارتے رہے۔ ملا علی قاری نے فرمایا ہے کہ ’’استقامت ہزار کرامت سے بہتر ہے‘‘۔ حق پر ڈٹنا، حق پر چلنا، حق پر مرنا… یہ ہزار ہا کرامت سے بہتر ہے، اور یہی صاحبِ کرامت تھے سید منور حسن صاحب!‘‘
یہ خراجِ عقیدت تھا، موجودہ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کا، اپنے سابق امیر کے لیے، جس کا اظہار وہ منصورہ آڈیٹوریم لاہور میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس میں کررہے تھے۔ ایسی مجالس جماعت اسلامی کی بھرپور روایت رہی ہے مگر کورونا کے حالات کے جبر کے تحت اس مجلس کا اہتمام محدود سطح پر کیا گیا تھا، تاہم اس لحاظ سے یہ ایک زبردست پروگرام تھا کہ اس میں صرف مقامی ہی نہیں بلکہ ایک سے بڑھ کر ایک قومی و بین الاقوامی اہمیت کی حامل شخصیات شامل تھیں، جن میں سے کسی کے براہِ راست، تو کسی کے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کا اہتمام کیا گیا تھا، کسی نے آڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا، تو کسی نے تحریر کے ذریعے مرحوم کو خراجِ عقیدت پیش کیا تھا۔ تقریب کی صدارت امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کررہے تھے، جب کہ میزبانی کے فرائض قیم جماعت امیرالعظیم صاحب کے ذمے تھے، جب کہ اظہارِ خیال کرنے والوں میں صدرِ مملکت عارف علوی، تحریک حریت کشمیر کے سابق چیئرمین، جہدو استقامت کے کوہِ گراں سید علی گیلانی، افغانستان کے سابق وزیراعظم، حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ گل بدین حکمت یار، آزادیِ فلسطین کی علَم بردار تحریک حماس کے سربراہ اور فلسطین کے سابق منتخب وزیراعظم اسماعیل ہانیہ، عالمی مجلس اتحاد العلماء کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر علی محی الدین قرواغی، مانچسٹر کے سابق لارڈ میئر اور برطانوی پارلیمنٹ کے رکن محمد افضل خان، امیر جماعت اسلامی ہند سعادت الحسینی، بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن، جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن، مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال، جمعیت علمائے پاکستان کے صدر پیر اعجاز ہاشمی، جامعہ اشرفیہ کے مہتمم اور شیخ الحدیث مولانا فضل الرحیم، ممتاز صحافی و کالم نگار سجاد میر، سید منور حسن مرحوم کے فرزندِ ارجمند سید طلحہ حسن، صوفی محمد اکرم اور مرحوم کے ڈرائیور محمد شوکت شامل تھے۔ جامع مسجد منصورہ کے خوش الحان قاری وقار احمد چترالی کی تلاوت سے مجلس کا آغاز ہوا، حافظ لئیق احمد اور سید اسد قریشی نے اپنے سابق امیر کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا، جب کہ پروگرام شیخ القرآن والحدیث، جمعیت اتحاد العلماء پاکستان کے سرپرست بزرگ عالم دین مولانا عبدالمالک کی پُرسوز دعا پر اختتام پذیر ہوا۔
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ جس طرح سورج کی روشنی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، اسی طرح اسلامی تحریک کو بھی ملکوں، رنگ و نسل، علاقے، زبان، ذات برادری اور قبائل وغیرہ کی سرحدوں میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا بھر میں اسلامی تحریک آج بھی ایک خاندان کی طرح ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج سید منور حسنؒ کی رحلت پر جس طرح جماعت اسلامی کے کارکن رنجیدہ ہیں، اور محسوس کرتے ہیں کہ جس طرح ان کا عزیز ترین رشتہ دار بلکہ ماں باپ کی طرح شفیق ہستی اس دنیا سے رخصت ہوگئی اسی طرح مشرق اور مغرب، جنوب اور شمال میں وہ تمام لوگ، اسلام کی روشنی سے جن کے دل منور ہیں، اسی طرح پریشان ہیں۔ جب جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر پر پابندی لگی اور پوری قیادت جیل میں چلی گئی اور وہاں ہمارے اسکول، کالج، مدارس، ہسپتال اور ہمارے تمام مراکز پر بھارتی فوج نے قبضہ کیا تو مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ جماعت اسلامی ایک نظریہ ہے اور آپ نظریے کو قتل نہیں کرسکتے، جماعت ایک روشنی ہے اور آپ روشنی کو گرفتار نہیں کرسکتے۔ یہی بات آج میں دہرا رہا ہوں کہ سید منور حسن ایک نظریہ ہے، ایک روشنی ہے، ایک جہدِ مسلسل ہے۔ سید منور حسن ایک مجاہد فی سبیل اللہ اور داعیِ الی اللہ ہیں، ان کو موت فنا نہیں کرسکتی، وہ لوگوں کے دلوں، نظروں، لفظوں، دعائوں، تمنائوں اور سوچوں میں زندہ ہیں۔ ہمارے مستقبل کے لیے ضرورت ہے کہ سید منور حسن، قاضی حسین احمد، میاں طفیل محمد اور سید مودودی کی زندگی پر، جو صرف ہمارا اثاثہ نہیں، دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کا اثاثہ ہیں پرتحقیق و جستجو کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ جب سید مودودیؒ فرما رہے تھے کہ لوگو! ایک وقت آنے والا ہے کہ کمیونزم کو ماسکو میں اور سرمایہ دارانہ نظام کو واشنگٹن میں جگہ نہیں ملے گی، اُس وقت لوگوں کو سید مودودیؒ کی یہ بات ایک دیوانے کی بڑ لگتی تھی، اس لیے کہ روس تو اُس وقت تیزی سے چھا رہا تھا، ہر طرف اس کا توتی بول رہا تھا، مگر آج کمیونزم آپ کو ماسکو کے عجائب گھر میں بھی نہیں ملے گا۔ یہی بات قاضی حسین احمد پشاور کے یادگار چوک میں فرما رہے تھے کہ افغانستان سوویت یونین کا قبرستان بنے گا تو ہمارے کچھ قوم پرست یہ تلقین کررہے تھے کہ ان کے ٹینکوں کا استقبال کریں۔ لیکن آج افغانستان صرف روس کے ٹینکوں ہی نہیں، نیٹو افواج کے جہازوں کا بھی قبرستان بن چکا ہے اور وہ غریب و فقیر مجاہدین سے واپسی کے لیے راستے کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ یہی بات سید منور حسن فرماتے تھے کہ ساری جنگ تمہاری نہیں ہے، چار دن قبل عمران خان صاحب نے قومی اسمبلی میں اسامہ بن لادن کے بارے میں کہا کہ وہ شہید ہیں تو میں نے کہا کہ یہی بات تو سید منور حسن فرماتے تھے کہ وہ محض شہید نہیں سو بار شہید ہے۔ ہمیں آج عزم کرنا ہے کہ سید منور حسن کی زندگی سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو نبیؐ مہربان کی سیرت کے تابع کریں گے، خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی قناعت اور صبر کا سبق پڑھائیں گے۔ ہمیں اپنے دلوں کو بھی روشن کرنا ہے، روزانہ پانچ وقت تکبیر اولیٰ سے نماز، قرآن حکیم کی تلاوت، دنیا سے بے پروائی اور آخرت کو اپنی منزل اور مقصد بنانا ہے۔ کیونکہ اس وقت بھی ظلم، جبر، آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی غلامی کا نظام نافذ ہے۔ یہاں شیطانی، منافقت پر مبنی، جاگیرداروں اور وڈیروں کی غلام سیاست چل رہی ہے۔ ہمیں اس نظام کو چیلنج کرنا ہے۔ یہ بڑی منافقت ہے کہ اس نظام میں اپنے لیے کوئی عزت کا مقام تلاش کیا جائے۔ یہ ممکن نہیں۔ اس کا علاج انقلاب اور صرف انقلاب ہے، یہی سید منور حسن کا پیغام ہے ؎۔

جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روح کی حیات، کشمکش انقلاب

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ویڈیو لنک کے ذریعے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اقرار کیا کہ ان کی شخصیت اور اخلاق و کردار میں جو اچھی چیزیں پائی جاتی ہیں، ان میں سید منور حسن کا بہت زیادہ حصہ ہے۔ ’’انہوں نے میری کردار سازی میں بہت مثبت کردار ادا کیا۔ کبھی کبھی وہ سخت لہجہ بھی اختیار کرتے اور ہمارے درمیان تلخ باتیں بھی ہوتیں، مگر ان سے محبت کا رشتہ کبھی کمزور نہیں ہوا۔ میں نے 1977ء کے انتخابات میں سید منور حسن صاحب کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا، وہ ہمارے گھر بھی تشریف لاتے، میرے والد صاحب سے ان کا قریبی تعلق رہا، پھر جب وہ اسلامی ریسرچ اکیڈمی میں بیٹھا کرتے تھے تو میں اپنے دوستوں ظہیرالاسلام اور سیف الدین کے ہمراہ ان کے پاس جاتا رہا اور ان سے بین الاقوامی تعلقات، عالمِ اسلام خصوصاً امتِ مسلمہ کے حالات پر تفصیلی گفتگو ہوتی، ملک کے سیاسی حالات میں اونچ نیچ بھی زیر بحث آتی، سید صاحب کے تجزیے بڑے جان دار ہوتے تھے، کیونکہ وہ بڑی باعلم شخصیت کے مالک تھے اور حالات پر ان کی نظر بہت گہری ہوتی تھی۔ اسلامی دنیا کے اتحاد اور اسلامی ریاست کے قیام کے بارے میں ان کا تصور بہت واضح تھا، ہم نے بچپن اور جوانی اکٹھے گزاری، وہ جس بات کو حق سمجھتے تھے، اس پر ڈٹ جاتے تھے۔ میں اکثر دینی اور سیاسی معاملات میں ان سے رہنمائی لیتا۔ مجھے اسلامی کتب پڑھنے کا شوق تھا اور میری والدہ نے مجھے مولانا مودودیؒ کی کتب پڑھنے کے لیے دیں۔ سید منور حسن صرف جماعت اسلامی ہی نہیں بلکہ پوری امت کے لیے ایک قیمتی ہیرا تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کے اہلِ خانہ اور تحریکی ساتھیوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔‘‘
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے ویڈیو لنک خطاب میں کہا کہ سید منور حسن کی وفات ایک بڑا سانحہ ہے، وہ اپنے مقاصد اور نظریات کے لیے ہمیشہ متحرک رہتے، متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے ہمیں ان کی صلاحیتوں کے قریب سے مشاہدے کا موقع ملا۔ اپنے مؤقف کے حق میں ان کی گفتگو کی روانی اور دلائل کا تسلسل ان کی شخصیت کو مزید حسن بخش دیتا تھا۔ آج ہم ان کی جدائی کو شدت سے محسوس کررہے ہیں، تاہم اللہ تعالیٰ کا اپنا ایک نظام ہے۔ وہ اپنے رب کے حضور پیش ہوچکے، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمتوں سے نوازے۔
مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بناتے ہوئے ہمارے بزرگوں نے پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی فلاحی مملکت بنانے کا جو خواب دیکھا تھا، سید منور حسن تمام عمر اس خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ وہ ہمیشہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور ریاستی جبر کے خلاف کھل کر صدائے احتجاج بلند کی، کیونکہ ریاستی قوت کے بل بوتے پر ملک نہیں چلا کرتے، جس ریاست میں انصاف کا قتل ہو وہ کبھی کامیاب ریاست نہیں بن سکتی۔ آئینِ پاکستان واحد دستاویز ہے جس پر پوری قوم کو متحد کیا جا سکتا ہے۔ سید منور حسن حق بات ڈنکے کی چوٹ پر کہتے تھے۔ ان کی وفات سے ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے۔
جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ پیر اعجاز ہاشمی نے اپنے پیغام میں کہا کہ سید منور حسن سے ملّی یکجہتی کونسل کے قیام کے موقع پر قریبی تعلق رہا۔ انہوں نے جس طرح شب و روز امت کے اتحاد کے لیے کام کیا اس سے ملک میں امن کا راستہ ہموار ہوا اور نظام مصطفیٰ کی جدوجہد آگے بڑھی۔ جامع اشرافیہ کے مہتمم مولانا فضل الرحیم نے کہا کہ سید منور حسن کی رحلت ملتِ اسلامیہ کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے، قحط الرجال کے اس دور میں وہ ایک روشن چراغ کی حیثیت رکھتے تھے، ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سید منور حسن کے سفر اور حضر کے ساتھی ان کے ڈرائیور محمد شوکت نے اپنی مختصر گفتگو میں بتایا کہ سید منور حسن سفر میں بھی ہمیشہ باجماعت نماز کا خاص خیال رکھتے تھے اور اس مقصد کے لیے وہ روانگی سے قبل ہی راستے کے مختلف شہروں کی مساجد میں باجماعت نماز کے اوقات معلوم کرکے نوٹ کرلیتے تھے تاکہ باجماعت نماز میں شامل ہو سکیں۔ مرحوم کے فرزند سید طلحہ حسن کو تعزیتی ریفرنس میں خود شریک ہونا تھا مگر گھر پر دور و نزدیک سے تعزیت کے لیے آنے والے احباب کی وجہ سے ان کا بھی آڈیو پیغام ہی سنایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد ایک مثالی انسان تھے جو خود بھی ہمیشہ حق کے ساتھ کھڑے رہے اور ہمیں بھی اسی بات کی تلقین کرتے رہے۔
عالم اسلام کی ممتاز شخصیات نے بھی سید منور حسن کے انتقال پر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ تحریک حریت مقبوضہ کشمیر کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے کہا کہ سید منور حسن ایک راست گو، بے باک اور نڈر جرنیل تھے، آزادیِ کشمیر کی جدوجہد میں ان کی خدمات بے مثال ہیں، انہوں نے کشمیر کے مسلمانوں کے حقِ رائے دہی کے لیے ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کی اور ان کی تائید و حمایت ہمیشہ ہمیں حاصل رہی۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔
افغانستان کے سابق وزیراعظم گل بدین حکمت یار نے اپنے پیغام میں کہا کہ میں انتہائی معزز، نامور اور محترم رہنما کی وفات پر جماعت اسلامی کے ارکان، قائدین اور ان کے دین دار گھرانے کے تمام احباب سے دلی تعزیت کرتا ہوں، وہ زندگی بھر امتِ مسلمہ کی آزادی کی تحریکوں کی جدوجہد کے پشت پناہ رہے۔ اس وقت پورا عالمِ کفر اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف برسرِ پیکار ہے، تمام جنگیں مسلمانوں کے خلاف اور مسلمانوں کے ملکوں میں ہورہی ہیں، ان حالات میں سید منور حسن جیسے قائدین کی شدید ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا اپنے فضل و عنایت سے مجاہد صفت شخصیات سے پُر فرمائے جو سید منور حسن کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دے سکیں۔
امارتِ اسلامی افغانستان نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ سید منور حسن جس نصب العین کے لیے جدوجہد کررہے تھے اس میں شکست کا تصور نہیں۔ اسلامی تعلیمات کی ترویج اور اصلاحِ امت کے لیے ان کی خدمات نمایاں ہیں۔ راست گوئی، درویشی اور جرأت ان کی زندگی کے نمایاں اوصاف تھے، ان کی رحلت سے امت ایک حقیقی ولی سے محروم ہوگئی ہے۔
امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت حسینی نے اپنے پیغام میں کہا کہ سید منور حسن کی وفات فی الحقیقت اسلامی تحریکات کا ایک عظیم نقصان ہے، میں بچپن سے ان کی تقریروں اور تحریروں سے مستفید ہوتا رہا ہوں۔ سید منور حسن نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ بامقصد گزارا، اور اصل زندگی تو یہی ہے۔ جانوروں کی طرح شکم پروری زندگی کا مقصد نہیں۔ زندگی تو وہی ہے جو کسی واضح مقصد کے تحت گزاری جائے۔ سید منور حسن نے 78 برس تک صرف سانس نہیں لیا بلکہ ہر ہر لمحہ اپنے مقصد اور مشن کی خاطر جدوجہد میں بسر کیا ہے، اور اسی جدوجہد میں زندگی کی مہلت مکمل کرکے وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے ہیں۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے اپنے پیغام میں سید منور حسن کی خدمات کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ حقیقی معنوں میں امتِ مسلمہ کا ایک اثاثہ تھے، وہ صرف جماعت اسلامی پاکستان اور پاکستان کے عوام ہی کے رہنما نہیں تھے بلکہ امتِ مسلمہ کے قائد تھے۔
فلسطین کے سابق وزیراعظم اور حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے اپنے پیغام میں کہا کہ سید منور حسن کی رحلت دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کا عظیم نقصان ہے، وہ ہمارے فکری اور نظریاتی قائد تھے، اللہ تعالیٰ اسلامی تحریک کو ان کا بہتر نعم البدل عطا فرمائے۔ مانچسٹر کے سابق لارڈ میئر اور برطانوی پارلیمنٹ کے رکن محمد افضل خان نے اپنے ویڈیو خطاب میں کہا کہ میں سید منور حسن کو 32 برس سے جانتا تھا، وہ جب بھی یورپ آتے تو ان سے تبادلۂ خیال کا موقع ملتا تھا۔ ان کی گفتگو میں بہت گرمجوشی ہوتی تھی، ان کا جینا مرنا صرف اللہ تعالیٰ کے لیے تھا، انہوں نے خود کو اپنے مقصد کے لیے وقف کردیا تھا، انہیں جو بھی ذمہ داری ملی، ہر حال میں سو فیصد اخلاص کے ساتھ نبھائی۔
ممتاز اخبار نویس، ٹی وی میزبان، کالم نویس اور دانشور سجاد میر نے کہا کہ میرا مرحوم سے ذاتی تعلق تھا، برسوں ہم نے ظہر کی نماز اکٹھے ادا کی، وہ میرے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر کراچی کی گلیوں محلوں میں تحریک کی خدمت اور تنظیم کے لیے گھومتے رہتے، وہ سید مودودیؒکے چہیتے، پروفیسر خورشید کی روایات کے امین، پروفیسر عبدالغفور احمد کے جونیئر پارٹنر، اور اسلامی جمعیت طلبہ کے بانی ثانی تھے، ان کی زندگی سادگی کی مثال تھی۔ درویشی، فقیری اور پارسائی ان کے نمایاں اوصاف تھے۔ وہ ہمیں بہت کچھ دے گئے، بہت کچھ سکھا گئے۔ جس خلوص سے انہوں نے تحریک کا کام کیا، اللہ تعالیٰ وہ سب کو نصیب کرے۔