عظیم قومی رہنما سید منور حسن

ناقابل فراموش یادیں اور باتیں

اناللہ واناالیہ راجعون! جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر سید منور حسن کا انتقال ہوگیا۔ لیکن اس میں حیرت کی کیا بات ہے! ہر نفس کوموت کا مزہ چکھنا ہے۔ میری اپنی ہی 52 سالہ صحافتی زندگی میں کئی سیاسی و مذہبی پارٹیوںکے سربراہوں کا انتقال ہوا جن سے میں نے انٹرویو بھی کیا تھا، یا ملاقاتیں ہی رہی تھیں۔ میری یادداشت کی حد تک جمعیت العلماء پاکستان کے سربراہ علامہ شاہ احمد نورانی، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ نواب زادہ نصراللہ خان، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ سردار شیر باز خان مزاری، تحریک استقلال کے سربراہ ائیر مارشل (ر)اصغر خان قابلِ ذکر ہیں۔ جبکہ قومی سطح کے سیاست دانوں اور وفاقی وزرا کی فہرست بہت طویل ہے جن سے ملاقاتیں رہیں یا انٹرویوزکیے ہیں۔ جب کہ اس موقع پر مفکرِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا تذکرہ دانستہ نہیں کررہا، کیونکہ اس طرح کا پاکستان تو کیا برصغیر پاک و ہند میں کوئی عالم دین، مفسرِ قرآن، مترجم قرآن اور اسلام و عالم اسلام کی راہنمائی کے لیے ان کی جیسی معرکۃ الآراء کتابوں کا مصنف اکیسویں تو کیا بیسویں صدی میں بھی نہیں گزرا۔ میری مولانا مودودیؒ سے کئی یادگار ملاقاتیں ہوئیں اور ان کے انٹرویو کرنے کا بھی شرف مجھے حاصل ہوا ہے۔
میں سید منور حسن مرحوم کے بارے میں اپنے تعلق کے حوالے سے کچھ لکھنے سے قبل یہ حقیقت واضح کردوں کہ میں جماعت اسلامی میں کبھی شامل نہیں ہوا۔ گو کہ میرے والد مرحوم رئیس محمد خان قیام پاکستان سے قبل ہی نہ صرف جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے تھے بلکہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ پر دل وجان سے فدا ہوچکے تھے۔ انہوں نے مولانا مودودیؒ کے مخالف اپنے قریبی عزیز واقارب سے بھی رشتہ توڑ لیا تھا۔ اور یہ بھی واضح کردوں کہ میں اسلامی جمعیت طلبہ میں ضرور شامل تھا، اور یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ مجھے جمعیت میں اسلامی جمعیت طلبہ مغربی پاکستان کے ناظم اعلیٰ تسنیم عالم منظر 1967-68ء میں لائے تھے، اور اب مجھ میں جمعیت شامل ہے، اس کو نکالا نہیں جا سکتا۔
میری منور بھائی (سید منور حسن) سے پہلی ملاقات بھی یادگار ہے۔ یہ 1975ء کی بات ہے کہ میں ہفتہ وار ’چٹان ‘ لاہور کا کراچی میں وقائع نگارِ سیاسی تھا۔ سید منور حسن عموماً میرے والد صاحب سے ملاقات کے لیے آتے تھے۔ کبھی کبھی جماعت اسلامی خواتین کے اجتماعات میرے غریب خانہ 409۔ A بلاک سی نارتھ ناظم آباد پر ہی ہوتے تھے۔ اس کی گواہی شاید سید منور حسن کی اہلیہ عائشہ آپا بھی دیں گی۔ عائشہ منور صاحبہ (بعدازاں رکن قومی اسمبلی و سیکرٹری جنرل، جماعت اسلامی خوا تین) دراصل میرے والد کے دوست مطاہرنقوی صاحب کی صاحبزادی ہیں جو ہمارے ہی قریب ایک مکان میں رہتی تھیں۔ مطاہر نقوی صاحب جماعت اسلامی کے سرگرم رکن تھے اور انتہائی شریف النفس انسان تھے۔ قرآن پاک کے دفاع میں ایک بار جیل بھی جا چکے تھے۔ ایک دفعہ منور حسن صاحب حسب ِمعمول مطاہر نقوی صاحب کے گھر پر تشریف فرما تھے اور ہفتہ وار ’چٹان ‘ لاہور کا مطالعہ کررہے تھے، اور خاص طور پر ’چٹان‘ میں شائع ہونے والی میری ہی کوئی رپورٹ ان کے زیر مطالعہ تھی۔ اس پر مطاہر نقوی صاحب نے ان سے کہا کہ جلیس سلاسل ہماری جماعت کے ہی رئیس محمد خان صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ منور حسن صاحب نے ان سے کہا کہ میری جلیس سلاسل صاحب سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی، تو کیسے ہوسکتی ہے؟ اس پر مطاہر نقوی صاحب نے کہا کہ آپ ابھی رئیس صاحب کے گھر تو جارہے ہیں، ممکن ہے وہ گھر پر ہوں اور ان سے بھی ملاقات ہوجائے۔ پھر اس کے بعد جب منور حسن صاحب میرے والد صاحب سے ملاقات کے لیے میرے غریب خانہ پر آئے تو انہوں نے میرے والد صاحب سے کہا کہ جلیس سلاسل صاحب اگر گھر پر ہیں تو ان سے ملوائیے۔ میرے والد نے منور حسن صاحب سے کہا کہ اِس وقت تو گھر پر نہیں ہیں لیکن جیسے ہی آتے ہیں میں ان کو آپ سے ملاقات کے لیے مطاہر نقوی صاحب کی طرف بھیج دوں گا۔ اتفاق سے تھوڑی دیر کے بعد جب میں واپس آیا تو والد نے حکم دیا کہ تم فوراً مطاہر نقوی صاحب کے گھر جاؤ، منورحسن صاحب آئے ہوئے ہیں تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں فوراً ہی مطاہر نقوی صاحب کے گھر گیا اور منور حسن صاحب سے ملاقات کی۔ یہ میری منور حسن صاحب سے پہلی ملاقات تھی۔ پہلی ملاقات میں مختصر سی گفتگو ہوئی، کہنے لگے کہ اتنے عرصے سے آپ کی تحریریں ’چٹان‘ میں پڑھ رہا ہوں، حیرت ہے کہ اب تک ملاقات نہیں ہوئی تھی، آج مطاہر نقوی صاحب کے توسط سے ملاقات ہوگئی، اب رابطے میں رہیں۔ میں نے کہا کہ مطاہر نقوی صاحب میرے چچا ہیں، میرے والد کے دوست ہیں، مجھ سے بڑی شفقت سے پیش آتے ہیں، آپ کو جب بھی میری ضرورت ہو، مجھے بلاسکتے ہیں۔ آپ میرے بڑے بھائی کی طرح ہیں اس لیے مجھے حکم دے سکتے ہیں۔ مایوس نہیں کروں گا۔ یہ دوسری بات ہے کہ منور حسن صاحب کو مجھ سے کبھی کوئی ضرورت نہیں پڑی گو کہ میں ان کے حکم کے مطابق براہِ راست رابطے میں رہا۔ لیکن مجھے ان کی ضرورت کئی بار پڑی اور انہوں نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ میں اس سلسلے میں دوچار واقعات کا ہی اختصار کے ساتھ تذکرہ کروں گا۔ میں’’عالمی اسلامی ڈائجسٹ‘‘ کا ایک یادگار شمارہ ’قومیت نمبر‘ کے عنوان سے نکالنے کی سعی کررہا تھا۔ اس کے لیے پاکستان کے نامور ادباء، علماء اور دانش وروں کی نگارشات حاصل کرلی تھیں۔ جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد اور فیڈل شریعت کورٹ پاکستان کے چیف جسٹس گل محمد خان کے خصوصی انٹرویوز بھی کرلیے تھے۔ یہاں تک کہ کمپوزنگ بھی کروا لی تھی۔ لیکن اب بھی اس کی اشاعت کے لیے ایک لاکھ سے کچھ کم کی رقم درکار تھی۔ میں نے منور بھائی (منور حسن) کو فون کیا کہ آپ سے ایک ضروری کام ہے، کب اور کیسے ملاقات ہوسکتی ہے؟ منوربھائی نے فرمایا: کل اسلامک ریسرچ اکیڈمی آجائیں۔ میں وقتِ مقررہ پر فیڈرل بی ایریا اکیڈمی پہنچ گیا۔ میں نے ان کو’’عالمی اسلامی ڈائجسٹ‘‘ کے قومیت نمبرکا مسودہ دکھایا اور کہا کہ اس کے لیے کچھ رقم کی ضرورت ہے جو میرے پاس نہیں ہے۔ جواباً صرف اتنا کہا کہ کل صبح مجھے فون کیجیے گا۔ میں نے حسب ِحکم دوسرے روزفون کیا۔ فوراً کہا: ادارہ نورحق جاکر فلاں صاحب سے مل لیجیے، وہ آپ کو مطلوبہ رقم دے دیں گے۔ میں ان کی ہدایت کے مطابق وہاں پہنچ گیا، اور اتفاق سے وہاں غالباً افتخار احمد صاحب (سابق رکن صوبائی اسمبلی) نظرآگئے۔ ان کے پاس بیٹھ گیا اور گپ شپ کرنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد سید منور حسن صاحب بھی پہنچ گئے، مجھے دیکھتے ہی میرے پاس آئے اور پوچھا: آپ نے اپنا کام کرلیا؟ میں نے نفی میں سر ہلایا۔ فوراً کہا: آپ پہلے اپنا کام کریں، پھر آرام سے بیٹھ کر باتیں کریں۔ میں ان صاحب کے پاس گیا، اپنی مطلوبہ رقم وصول کی۔ ’’عالمی اسلامی ڈائجسٹ‘‘ کا قومیت نمبر شائع کیا۔
اس نوعیت کا ایک اور واقعہ بیان کردوں۔ امریکہ کے زرخرید وفادار غلام صدر مملکت جنرل پرویزمشرف کو پاکستان پر مسلط ہوئے آٹھ سال سے زائد عرصہ ہوچکا تھا، اور وہ بھی اپنے گلے سے امریکہ کا پٹہ اتارنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ میں نے ماہنامہ ’’الجسٹس ڈائجسٹ‘‘ کا ’جنرل پرویزمشرف نمبر‘ نکالنے کا فیصلہ کیا، جس میں جنرل پرویزمشرف کے غیر آئینی، غیر قانونی، غیر اسلامی، غیر اخلاقی احکامات و اقدامات کا آٹھ سالہ جائزہ تھا۔ یہ پورا جنرل پرویزمشرف نمبر تحقیقات پر مشتمل تھا، اور مکمل حوالوں کے ساتھ تھا۔ 500صفحات پر مشتمل یہ شمارہ بھی کمپوز ہوچکا تھا۔ اس شمارے میں اس سے پہلے نکلنے والے انسانی حقوق نمبر پر سیاست دانوں، صحافیوں، دانش وروں و قانون دانوں کے تبصرے بھی شامل تھے جن میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل سید منور حسن اور ’فرائیڈے اسپیشل‘ کے ایڈیٹر یحییٰ بن زکریا کا تبصرہ بھی قابل ذکر ہے۔ خیر میں نے پھر سید منور حسن صاحب کو فون کیا کہ آپ سے ملاقات کرنی ہے، ضروری کام ہے، اگر آپ حکم کریں تو لاہور آجاؤں؟ انہوں نے فرمایا کہ میں اسی ہفتے کراچی آرہا ہوں، آپ کو لاہور آنے کی زحمت کی کیا ضرورت ہے! میں پہنچ کر رابطہ کرتا ہوں۔ کراچی آتے ہی دوسرے روز فون کیا اور کہا کہ ادارہ نور حق آجائیں۔ اور وقت بتادیا۔ میں وقتِ مقررہ سے پہلے ہی پہنچ گیا۔ ادارہ نور حق پہنچ کر ان کا انتظار کررہا تھا کہ وہ وقتِ مقررہ پر پہنچ گئے اور مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے: پہلے آپ سے بات کرلوں پھر باقی کام نپٹاؤں گا۔ انہوں نے کسی صاحب سے پوچھا: کوئی کمرہ خالی ہے؟ مجھے تخلیہ میں بات کرنی ہے۔ انہوں نے آگاہ کردیا۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: ہاں کیا مسئلہ ہے؟ میں نے ان کو ’’الجسٹس ڈائجسٹ‘‘ کے ’جنرل پرویزمشرف نمبر‘ کا مسودہ دکھایا کہ اس کو چھپوانا ہے، اس کے لیے80 ہزار روپے درکار ہیں۔ انہوں نے تحمل سے میری بات سنی اور فرمایا کہ آپ مجھے اپنا بینک اکاؤنٹ نمبر لکھوا دیجیے گا۔ میں نے دوسرے روز بینک اکائونٹ نمبر لکھوا دیا، انہوں نے مطلوبہ رقم میرے اکائونٹ میں ٹرانسفر کروا دی۔ میں نے اس مسودے کی کمپوزنگ وغیرہ کروائی اور اشاعت کے لیے پریس بھی بھیج دیا۔ لیکن ٹائٹل، پرنٹنگ وغیرہ کے لیے پھر 20ہزار روپے کم پڑگئے۔ میں نے ان کو کراچی گھر پر فون کیا۔ معلوم ہوا لاہور میں ہیں۔ میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر محمد حسین محنتی کے پاس گیا۔ وہ ہمارے دور میں جمعیت کے ناظم تھے۔ میرے رفیقِ قلم بھی ہیں۔ میں نے محمد حسین محنتی سے کہا: بھائی آپ مجھے 20ہزار روپے عنایت کردیں، میں منور بھائی (سید منور حسن) سے دلوادوں گا، فی الحال وہ لاہور میں ہیں اور میرا ان سے رابطہ نہیں ہورہا۔ محمد حسین محنتی صاحب نے لاہور فون پر سید منور حسن صاحب سے بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ جلیس سلاسل صاحب کو رقم ذاتی اکائونٹ سے دی ہے، میں کل کراچی آرہا ہوں، ان سے کہیں میں بھجوا دوں گا۔ سید منور حسن صاحب نے وعدے کے مطابق کراچی پہنچتے ہی فون کیا اور کہا کہ آپ اپنا اکائونٹ نمبر لکھوا دیں، میں طلحہ (اپنے بیٹے) سے کہوں گا کہ وہ 20ہزار روپے آپ کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کردیں۔ میں نے کہا: آپ طلحہ صاحب سے کہیں وہ مجھے کیش کرواکر دے دیں۔ کہنے لگے ٹھیک ہے، طلحہ آپ سے رابطہ کریں گے۔ تھوڑی دیر کے بعد طلحہ صاحب کا فون آیا کہ آپ کو رقم کہاں پہنچائی جائے؟ میں نے کہا: آپ کہاں ہیں وہ بتادیں۔ کہنے لگے: میں بیت المکرم میں جمعہ کی نماز کے لیے آرہا ہوں۔ میں نے کہا: میں آپ سے پہلے پہنچ جائوں گا، آپ گیٹ پر ہی دے دیجیے گا، میں قریب ہی ہوں۔ اس طرح طلحہ صاحب نے نقد رقم دے دی۔ میں نے شکریے کے ساتھ وصول کی، اور ڈائجسٹ کی اشاعت کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ ان دونوں میں کہیں بھی مرحوم منورحسن کا سرپرست یا ادارت میں کوئی نام نہیں ہے۔ یعنی مرحوم نام ونمود، منصب، شہرت کی خواہش سے مبرا تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات و نیکیوں کو صدقۂ جاریہ بنائے۔
ویسے تو مجھ پر ہمیشہ اللہ کا فضل و کرم ہی رہا، اپنی زندگی میں جتنی بھی شخصیات کے انٹرویو کیے ان سے رابطے بھی براہِ راست کیے اور کسی سے انٹرویو کے سلسلے میں کسی کی سفارش کی ضرورت نہیں پڑی۔ لیکن یہ 1990ء کی بات ہے کہ میں ہفتہ وار ’’فوجی ٹائمز‘‘ کراچی کا ’’کشمیر نمبر‘‘نکالنے کی تیاری کررہا تھا، اس کے علاوہ کشمیر پر اہم قلم کاروں سے مضامین حاصل کرچکا تھا اور آزاد کشمیر کے صدرِ مملکت سردار عبدالقیوم، نواب زادہ میجر جنرل شیرعلی خان پاٹودی(ہلال جرات)، میجر جنرل اکبر خان کے خصوصی انٹرویو بھی کرچکا تھا، لیکن اس دوران راولپنڈی گیا تو راجا بازار کے پاکیزہ ہوٹل میں قیام تھا۔ اتفاق سے اس کے قریب ہی جماعت اسلامی کا دفتر دیکھا تو ملاقات کے لیے چلا گیا۔ میں نے ان سے باتوں ہی باتوں میں کہیں یہ تذکرہ کردیا کہ میں ’’فوجی ٹائمز‘‘کراچی کا کشمیر نمبر نکال رہا ہوں اور اسی سلسلے میں راولپنڈی آیا ہوں، تو دفتر کے ہی کسی صاحب نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر سے سیاسی تنظیموں کے مشترکہ سربراہ پروفیسر اشرف صراف اور مجاہدین تنظیموںکے مشترکہ سربراہ غلام محمد صفی آئے ہوئے ہیں اور آج ہی سردار عبدالقیوم سے ملاقات کے لیے گئے ہوئے ہیں، کل صبح واپس مقبوضہ کشمیر چلے جائیں گے۔ بس میں نے اتنا سنا اور فوراً ان کے پاس سے اُٹھ گیا۔ پاکیزہ ہوٹل سے اپنا بریف کیس اٹھایا، لیاقت باغ آیا، بس میں بیٹھا اور مظفرآباد (آزاد کشمیر) روانہ ہوگیا۔ بس اسٹاپ پر اترتے ہی سردار عبدالقیوم کے پاس پہنچا، ان سے ملاقات کی اور اپنا مدعا بیان کیا۔ انہوں نے غور سے میری طرف دیکھا اور فرمایا: افسوس کہ آپ کو دیر ہوگئی، وہ راولپنڈی جا چکے ہیں، اب صرف ایک ہی صورت ہے کہ آپ رات میں ان سے ملاقات کرکے انٹرویو کرلیں، کیونکہ وہ صبح سے پہلے واپس مقبوضہ کشمیر کے لیے نکل جائیں گے، آپ پنڈی میں دفتر جماعت اسلامی سے رابطہ کرلیجیے گا، باقی راہنمائی وہ آپ کی کردیں گے۔ میں نے کہا: میں ابھی واپس جاتا ہوں۔ سردار عبدالقیوم صاحب کہنے لگے کہ آپ اتنا لمبا سفر کرکے آئے ہیں، بھوک لگ رہی ہوگی، پہلے کھانا وغیرہ تو کھالیں۔ میں نے کہا: آپ کا بہت بہت شکریہ۔ کھانے سے زیادہ ملاقات ضروری ہے۔ میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا۔ واضح رہے کہ سردار عبدالقیوم صاحب سے پہلی ملاقات 1970ء میں ہوٹل جبیس کراچی میں ہوئی تھی جب وہ وزیراعظم آزاد کشمیر تھے۔ اُس وقت میرے ہمراہ سید مظفرالحق تھے، اور دوسری ملاقات بھی ’’فوجی ٹائمز‘‘ کے ہی کشمیر نمبر کے انٹرویو کے سلسلے میں اسلام آباد میں ہوئی تھی، اس موقع پر سینئر صحافی، میرے قدیم دوست سعود ساحر موجود تھے۔ خیر میں جب واپس راولپنڈی دفتر جماعت اسلامی پہنچا تو رات کے 11بج چکے تھے۔ ان لوگوں نے کہا کہ آپ کو پروفیسر اشرف صراف صاحب اور غلام محمد صفی صاحب سے ملاقات کے لیے دفتر جماعت اسلامی لاہور (منصورہ) سے رابطہ کرنا ہوگا۔ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ مجھے جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹر منصورہ سے فون پر بات کروا دیجیے۔ انہوں نے فون کیا تو ٹیلی فون آپریٹر نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو کس سے بات کرنی ہے؟ میں نے مختصراً اپنا مدعا بیان کیا اور کہا کہ میری سید منور حسن صاحب سے بات کروا دیجیے، وہ میرے کرم فرما ہیں۔ واضح رہے کہ منور بھائی اُن دنوں جماعت اسلامی کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل تھے۔ انہوں نے جواباً کہاکہ وہ اس وقت آرام کررہے ہوں گے، آپ کسی اور سے بات کرلیجیے۔ میں نے کہا کہ چودھری صفدر علی صاحب سے بات کروا دیجیے۔ انہوں نے چودھری صفدر علی سے بات کروائی۔ میں نے مدعا بیان کیا تو کہنے لگے: چلیے کسی بہانے سے ہی سہی ایک طویل عرصے کے بعد آپ سے ملاقات نہ سہی، بات تو ہوئی۔ میں شرمندہ ہوگیا اور معذرت کی۔ واقعی ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور میں تو ملاقاتیں رہیں، پھر سلسلہ منقطع ہوگیا۔ خیر انہوں نے کہا کہ ابھی سید منور حسن صاحب سے بات کرواتا ہوں۔ اب رات کے تقریباً 12بج رہے تھے۔ منور بھائی نے کہا: خیریت ہے؟ تو میں نے اُن کو بھی تمام رام کہانی سنائی۔ انہوں نے کہا کہ بے فکر رہیں، پنڈی کے دفتر جماعت میں جو صاحب موجود ہیں ان سے بات کروائیں۔ جو صاحب فون پر میری بات کروا رہے تھے، وہ کسی دوسرے ذمہ دار شخص کو بلا کر لائے تو منور بھائی نے ان کو ہدایت دی کہ آپ جلیس سلاسل صاحب کو پروفیسر اشرف صراف صاحب اور غلام محمد صفی صاحب سے ابھی لے جاکر ملوائیں، اور ان دونوں کو میرا حوالہ دے دیجیے گا۔ اور ہاں جلیس سلاسل صاحب کو دونوں کے انٹرویو کرنے کے بعد واپس بھی ساتھ لے کر آئیے گا۔ وہ صاحب منور بھائی کی ہدایت کے مطابق ان کے پاس لے گئے، جو کسی تاریک گلیوں میں تہہ خانے موجود تھے۔ دونوں حضرات بڑی محبت سے ملے اور کہا کہ ہمارے پاس وقت کم ہے، آپ فوری طور پر انٹرویو شروع کریں۔ پھر کہنے لگے: آپ کے پاس تو کاغذ قلم بھی نہیں ہے، کیا ٹیپ ریکارڈر ہے؟ میں نے کہا کچھ بھی نہیں ہے، لیکن آپ مطمئن رہیے مجھے کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں پڑتی، آپ جو کچھ کہیں گے وہی چھپے گا، آپ کی بات کو من وعن شائع کیا جائے گا۔ بہرکیف میں نے دونوں کا خصوصی طور پر انٹرویو کیا۔ ابھی رات تاریک ہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی کوئی خاطر نہیں کرسکے، معذرت چاہتے ہیں، یہ قرض رہی۔ میں نے دونوں کا شکریہ ادا کیا اور جواباً کہا کہ آپ نے مجھے سیرحاصل انٹرویو دے کر جو خاطر کردی ہے، یہ یادگار رہے گی۔ خیر میرے عزیز بھائی سید منور حسن کے توسط سے یہ تاریخی ملاقات اور انٹرویوز ممکن ہوسکے۔ اس طرح یہ زندگی کے پہلے اور آخری انٹرویو ہیں جو کسی کے بھرپور تعاون و سفارش سے لے سکا۔ میں منور بھائی کی اس محبت و خلوص کو بھی آج تک فراموش نہیں کرسکا۔ یہ دونوں انٹرویوز اور دیگر انٹرویوز اور مضامین 24 اگست 1990ء کے ہفتہ وار ’’فوجی ٹائمز‘‘ کے کشمیر نمبر میں شائع ہوئے، جو آج بھی ملک کی کسی قومی لائبریری میں مل جائیں گے۔ ورنہ آئی، ایس، پی، آر اور سینٹرل ڈیفنس لائبریری راولپنڈی میں مل جائیں گے۔
اب میں یہ بات بھی واضح کردوں کہ میں نے کبھی اپنے مفادات کے لیے کوئی رقم نہیں لی، اور نہ ہی کسی سے ذاتی مفاد کا کوئی کام لیا۔ جبکہ ’’عالمی اسلامی ڈائجسٹ‘‘ کا ’قومیت نمبر‘ اور ’’الجسٹس ڈائجسٹ‘‘ کا ’جنرل پرویزمشرف نمبر‘ قارئین کو فروخت کے لیے نہیں بلکہ اعزازی طور پر دینے یا ڈاک سے ارسال کرنے کے لیے رقم لی، اور اس کو باقاعدہ قومی اسمبلی وسینیٹ کے اراکین، یونیورسیٹوں کے مختلف شعبوں کے سربراہوں اور سیمینارز لائبریریوں کے علاوہ ملک کی اہم قومی لائبریریوں، صحافیوں، ادیبوں، قانون دانوں کو فراہم کیے گئے جو آج بھی لوگوں کے پاس ایک دستاویز کی حیثیت سے مل جائیں گے۔ سید منور حسن کی ایک خوبی اور سن لیجیے جس کی کوئی دوسری مثال قومی سطح کے کسی لیڈر کے پاس تو درکنار، ایک علاقائی سطح کے سیاسی کارکن کے پاس بھی مشکل سے ملے گی،کہ آپ اُن کو فون کرلیں خواہ آپ کوئی بھی ہوں۔ وہ ضرور اٹھائیں گے اور بات کریں گے۔ اگر اس وقت مصروف ہوں یا سورہے ہوں تو مس کال کے نمبر دیکھیں گے اور فرداً فرداً فون پر رابطہ کریں گے۔ کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے، غلط وعدہ نہیں کریں گے۔ ان کے میرے ساتھ ہی اس قسم کے رویّے نہیں رہے۔ چونکہ میں نے اپنے حوالے سے یہ مضمون لکھا ہے اس لیے یہ حقائق لکھے ہیں، ہزاروں لوگوں کے ساتھ ایسے ہی رویّے ملیں گے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے ان کی نماز جنازہ کے بعد ایک تاریخی خطبہ دیا، جس میں فرمایا: ’’سید منور حسن ہمارے لیڈر ہی نہیں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کے جانشین بھی تھے‘‘۔
جب امیر جماعت اسلامی پاکستان کی حیثیت سے سید منور حسن نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’’پاکستان کے تمام مسائل کا حل اس خطے سے امریکہ کے نکل جانے میں مضمر ہے، پاکستان میں تبھی امن وامان ہوگا اور پاکستان و افغانستان کے مسائل حل ہوں گے ‘‘۔ میں نے اُس وقت سے امریکہ کی پاکستان میں کارگزاریوں کی تاریخ مرتب کرنا شروع کردی تھی اور یہ فیصلہ کیا تھا کہ مکمل ہوجائے تو سید منور حسن صاحب ہی سے اس کا مقدمہ لکھوائوں گا۔ یقیناً اس حقیقت سے کوئی اور واقف نہیں ہوگا۔ میںنے اس سے متعلق ہزاروں اخبارات وجرائد اور سیکڑوں کتابیں حاصل کیں، ان کا مطالعہ کیا، اور اگر کسی صاحب کے پاس امریکہ کی پاکستان میں کارگزاریوں اور ہمارے حکمرانوں کی خودغرضیوں و مجبوریوں کے حوالے سے کوئی کتاب یا اخبار ہو تو اس کی فوٹو کاپی کتاب یا اخبار کا نام وتاریخِ اشاعت اور مصنف یا مقرر کا نام لکھ کر مجھے ارسال کردیں، جس کے لیے میں بہت شکر گزار ہوں گا،اس کتاب کا انتساب مجاہدِ ملّتِ اسلامیہ سید منور حسن کے نام ہوگا، اِن شاء اللہ۔ میرے رب نے چاہا تو اس مجوزہ کتاب کا سہرا بھی اللہ تعالیٰ اپنے اس نیک وجرات مند بندے اور رحمت العالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی سید منور حسن کو ہی روزِ قیامت دیں گے، اور میر ی بھی یہ آخری کتاب ہوگی۔
عشقِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ آفتاب 5 اگست 1941ء کو دہلی میں طلوع ہوا۔ 26 جون 2020ء بروز جمعۃ المبارک 12بجے کراچی میں غروب ہوگیا۔ اللہ مرحوم کو قیامت کے روز رحمت اللعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے (آمین)، اور ان کی اہلیہ عائشہ منور صاحبہ، ان کے بیٹے طلحہ منور حسن اور فاطمہ منور حسن کو صبر جمیل سے نوازے، اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آخر میں ایک اور واقعہ گوش گزار کرتا ہوں۔ میری کتاب جو ’معمارانِ جلیس‘کے نام سے مختلف نامور شخصیات کے خاکوں کا مجموعہ ہے، 2018ء کی آخری سہ ماہی میں منصۂ شہود پرآئی، وہ میں ان کو فیڈرل بی ایریا میں واقع اسلامک ریسرچ اکیڈمی میں دینے کے لیے گیا، تو پوچھا: اس کے بعد کون سی کتاب آئے گی؟ میںنے کہا: اس کے بعد میں ’’ قرآنی فلاحی قوانین‘‘ کے نام سے ایک کتاب لانا چاہتا ہوں، تحقیق وتدوین ہوگئی ہے، پانچ سو سے زائد قرآنی آیات ہیں، اس میں ترجمہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا لگانا چاہتا ہوں، بس وہ تالیف باقی رہ گئی ہے۔ میں چاہتا ہوں وہ مجوزہ کتاب سینیٹ وقومی اسمبلی کے اراکین کو فراہم کی جائے اور سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ضلعی عدالتوں کے ججوں کو بھی مطالعے کے لیے دی جائے، لیکن اس کی اشاعت کا مسئلہ ہنوز باقی رہے گا۔ کہنے لگے کہ اس کی تالیف کا کام بھی جلد از جلد مکمل کرلیں، اگر مناسب سمجھیں تو کسی اور سے تالیف کا کام کروالیں تاکہ جلد پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے، اصل کام تحقیق وتدوین کا ہے، آپ بتارہے ہیں کہ وہ آپ خود کرچکے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ وہ کتاب یقیناً اہمیت کی حامل ہوگی اور وقت کا تقاضا بھی ہے، آپ اس کتاب کی اشاعت کی بالکل فکر مت کیجیے، اس کتاب کے مکمل ہونے کے بعد مسودہ مجھے اکیڈمی میں ہی پہنچا دیجیے گا، اِن شاء اللہ شائع بھی ہوجائے گی۔
اب میرا اپنے قارئین سے سوال ہے کہ کسی مسلم ملک میں قیادت کے لیے کن اوصاف کا ہونا ضروری ہے؟ ایمان، انکسار، بصیرت، جرات، صداقت، فراست، شرافت، دیانت، ریاضت، علم وعمل۔ کیا اس کے علاوہ بھی کوئی خوبی ہے جس کا ہونا ضروری ہے؟ اب آپ غور کیجیے اور بتائیے کہ یہ خوبیاں پاکستان کے کس قومی راہنما میں پائی جاتی ہیں؟ اگر آپ نہیں جانتے تو مجھے کہنے دیجیے… میرے وطن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اپنے جس بندے میں یہ ودیعت کی تھیں اس کا نام سید منور حسن ہے۔
بقول علامہ اقبا ل

جوہرِ انسان عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں