کس کس کی جدائی کا نوحہ لکھیں، کس کس کی اچانک موت کا غم برداشت کریں! مگر سید منور حسن کا سفرِ آخرت ایسا کوئی غیر متوقع نہیں رہا تھا، کیونکہ مرض الموت نے انہیں کئی مہینوں سے گرفت میں لے رکھا تھا۔ بہت دنوں سے کھٹکا لگا ہوا تھا۔ ان کی شخصیت اور مثالی زندگی اپنے پیچھے ایسی یادیں چھوڑ گئی ہے جن کی خوشبو میری زندگی کی آخری سانسوں تک مشام جاں کو معطر کرتی رہے گی۔ چالیس برس کا تعلق تھا۔ ان کی ذات اور کردار اسلامی تہذیب اور مسلم کلچر کی پیدا کردہ شائستگی کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ وہ بولتے تھے تو ان کے دماغ سے آیاتِ قرآن کی گونج سنائی دیتی تھی۔ ان کا قریہ حاصل ہوتا تھا تو شخصیت ایسے صوفی کا مرقع معلوم ہوتی تھی جس نے برسوں کی ریاضت کے بعد توبہ الیہ اللہ کی منازل طے کی ہوں۔ پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام ان کی زندگی کا مطمح نظر تھا۔ جوانی اور بڑھاپے کا ہر لمحہ اس منزل کے حصول کی خاطر جدوجہد میں گزار دیا۔ مولانا مودودیؒ ان کے ذہنی قائد اور جماعت اسلامی اوڑھنا بچھونا تھی۔ مولانا کی تعلیمات اور اسلام کے بارے میں ان کی تشریحات کو اپنے دل ودماغ اور کردار میں اس طرح سمو لیا تھا کہ ان کی کرنیں ان کی گفتگو، تقریروں اور نشست و برخاست سے پھوٹ پھوٹ کر نکلتی تھیں اور فضا میں روشنی بکھیر دیتی تھیں۔ جس سے تحریکی تعلق قائم ہوتا تو محبت بھی ٹوٹ ٹوٹ کر کرتے تھے۔ تعلقات کا پیمانہ دنیوی اغراض یا مادی لین دین کے معاملات نہیں ہوتے تھے۔ اسلام اور اسلامی نظام کے قیام کے لیے آپ کی وابستگی ہوتی تھی۔ اس سلسلے میں ہم جیسوں کی کوتاہیوں سے صرفِ نظر کرتے تھے، لیکن جب ہمیں راہِ حق سے بھٹکا ہوا پاتے تو غصہ بھی شدید ہوتا تھا۔ زندگی قرآنی فکر اور سنتِ رسولؐ اللہ کی آئینہ دار تھی۔ اسی فکر و خیال کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ 1972ء میں مولانا مرحوم و مغفور نے دورِ ماضی کے اذہان و قلوب کو متاثر کرنے والی تفسیر کلام الٰہی تفہیم القرآن مکمل کی تو لاہور کے ایک ہوٹل کے لان میں تعارفی تقریب منعقد ہوئی۔ چوٹی کے قانون دان اور صفِ اوّل کے وکیل اے کے بروہی نے اس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مولانا مودودی نے صرف اپنی شاندار تصنیفات کو اسلامی تعلیمات کے مرقع کے طور پر پیش نہیں کیا، اس کے ساتھ انہوں نے جماعت کے جو کارکن تیار کیے ہیں، جس اعلیٰ طریقے سے ان کی تربیت کی ہے وہ بھی مولانا کی چلتی پھرتی تحریریں اور تصانیف ہیں۔ سید منور حسن اپنے کردار کے لحاظ سے بلاشبہ مولانا کی شاہکار تصنیفات میں سے ایک تھے۔ قیام پاکستان کے وقت ان کا خاندان دہلی سے ہجرت کرکے لاہور سے ہوتا ہوا کراچی میں آباد ہوگیا۔ منور حسن اسی شہر کی فضائوں میں پروان چڑھے، تعلیم حاصل کی۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں کراچی کے اندر طلبہ تحریکوں کا زورتھا۔ اُن دنوں بائیں بازو کی تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کا بڑا نام تھا۔ منور صاحب بھی عنفوان شباب میں سوشلسٹ نظریات سے بڑے متاثر تھے۔ این ایس ایف میں شمولیت اختیار کی، اس کے عہدیدار بنے۔ مقابلے میں اسلامی جمعیت طلبہ بھی اپنا رنگ جما رہی تھی۔ مولانا مودودیؒ کا لٹریچر اثرات دکھا رہا تھا۔ کالجوں اور یونیورسٹی کے طلبہ کے اذہان و قلوب کی تسخیر ہورہی تھی۔ منور صاحب کی نگاہ مولانا کی کتابوں پر پڑی، پڑھتے چلے گئے، جیسے کوئی پیاسا پانی کے گھونٹ غٹا غٹ پی جاتا ہے۔ دماغ مسخر ہوچکا تھا۔ دل میں آیاتِ قرآنی کی حکمرانی غالب آگئی۔ آنکھوں میں اسلام کے نورِ بصیرت کی چمک پیدا ہوئی۔ فیض کی جانب سے مولانا مودودیؒ کی تحریک اسلامی کو ایک بہترین کارکن عطا ہوا جس کا اسلامی نظام کے قیام کی خاطر جوش اور ولولہ دیکھا نہ جاتا تھا۔ یہ نوجوان اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوگیا۔ پھر ایسا متحرک ہوا کہ اسی میں نام اور مقام پیدا کیا۔ پاکیزہ دماغوں اور اسلامی تعلیمات میں دھلے ہوئے ساتھیوں کی صحبتیں نصیب ہوئیں۔ سید منور حسن صاحب جلد جمعیت کراچی کے ناظم کے عہدے پر فائز ہوئے، پھر جلد ملک بھر کی تنظیم کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ میں ان کی مثال حضرت عمرؓ کے کردار سے دیا کرتا ہوں۔ کس طرح جذباتیت ان پر غالب آگئی تھی، حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے دشمن بن گئے، پھر قرآن کے اوراق پر نظر پڑی۔ کلام الٰہی کی تلاوت نے کچھ اس طرح دل و دماغ کو مسخر کر لیا کہ دینِ حق قبول کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جید صحابہ میں شمار ہونے لگے، اسلام کی ننگی تلوار بن گئے۔ حضرت ابوبکرؓ کی وفات پر مسندِ خلافت پر فائز ہوئے۔ اسلامی سلطنت کی حدود وسیع تر ہوگئیں۔ رہتی دنیا تک وہ اثرات چھوڑے کہ تاریخ دانوں سے ان کا تذکرہ فراموش نہیں ہوپاتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار اور اسلام کے نام لیوا یعنی دنیا بھر کے مسلمان آج تک ان کی مثال پکڑتے ہیں اور جذبہ ایمانی حاصل کرتے ہیں۔ چودہ سو برسوں سے مسلمانوں کے لیے رول ماڈل کا درجہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔ منور صاحب ظاہر ہے حضرت عمرؓ کے مقام و مرتبے کو نہیں چھو سکتے، مگر ان کی کوہ ہمالیہ سے اونچی اور بلند مرتبہ و عظیم شخصیت کی ادنیٰ درجے کی مثال ضرور ہیں۔ ساٹھ کی دہائی کے وسط میں سید منور حسن اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ منتخب کرلیے گئے۔ پھر ان کی تحریکی زندگی میں ایسی قوتِ محرکہ پیدا ہوئی کہ اس طلبہ تنظیم کی شاخوں کو ملک کے ہرکالج اور ہر یونیورسٹی تک پہنچا دیا۔ مشرقی پاکستان کے کئی دورے کیے۔ جمعیت وہاں بھی مقابلے کی طلبہ تنظیم بن کر ابھری۔ حسنِ بیان اور دلآویز شخصیت کی وجہ سے اپنے ہم عصر حلقوں میں مقبولیت اور پذیرائی کے نئے جھنڈے گاڑے۔ جمعیت نے جلد پاکستان کے طلبہ کی سب سے بڑی اور منظم ترین تحریک کی حیثیت سے اپنا تشخص منوایا۔
جمعیت سے فارغ ہوئے تو فطری طور پر اگلی منزل جماعت اسلامی تھی۔ رکنیت اختیار کی، کراچی شہر کے نظم میں شامل ہوگئے، درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے امیرِ شہر کے منصب تک جا پہنچے۔ تھوڑا کھاتے، زیادہ توجہ بروقت اور باجماعت نمازوں کی ادائیگی پر صرف کرتے، کیونکہ دن کا سارا وقت اور رات کا زیادہ حصہ تنظیمی سرگرمیوں میں گزر جاتا تھا۔ کراچی جیسے بڑے شہر کے چکر لگتے تھے، اس لیے وہاں پر قائم ہر مسجد کے اوقاتِ نماز ان کو ازبر تھے۔ ان کے ساتھی بتاتے ہیں کہ تکبیر اولیٰ کی سعادت سے محروم نہ رہتے۔ 1970ء کے انتخابات میں کارکن کی حیثیت سے اپنی جماعت کے امیدواروں کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کردیے۔ کراچی سے دو جمع ایک امیدواروں کی کامیابی نے پورے ملک کی جماعت کا بھرم رکھ لیا۔ بقیہ مغربی پاکستان سے ڈیرہ غازی خان کے ڈاکٹر نذیر احمد کو سرخروئی حاصل ہوئی۔ مشرقی پاکستان کا نتیجہ صفر تھا۔ ہار نہ مانی گئی، جماعت اپنے نصب العین کے حصول کے لیے زیادہ متحرک ہوگئی۔ بھٹو کا دور آگیا۔ نئی مہمیز ملی۔ 1977ء کے انتخابات میں پاکستان قومی اتحاد جس کی جماعت رکن تھی، کے امیدوارکی حیثیت سے منور حسن صاحب میدان میں اترے۔ کراچی کی فضائیں ان کے نام سے گونج اٹھیں۔ مشہور شاعر، دانشور اور دہلی کے ہی ایک خانوادے کے چشم و چراغ جمیل الدین عالی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر مقابلے میں تھے۔ حبیب جالب کے مذاقِ سخن اور حریت پسندی نے منور صاحب کی مہم کو چار چاند لگا دیے۔ حالانکہ عالی صاحب کو بائیں بازو کے عناصر کی کھلی حمایت حاصل تھی۔ نتیجہ سامنے آگیا، منور صاحب نے پاکستان بھر کے کسی بھی حلقے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ ان کی شخصیت کی چمک دیکھی نہیں جاتی تھی۔ مگر اس کے ساتھ ہی ایسے معاملات سے واسطہ پڑا کہ کراچی جماعت کی سیاست بدل کر رہ گئی۔ اس کے اثرات پوے ملک پر بھی پڑے۔ منور حسن کی شخصیت عجیب مقابلے سے دوچار ہوئی۔ دہشت گردی نے شہرِ قائد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ خون کی ندیاں بہنے لگیں۔ بھتہ خوری نے پورے شہر کو نچوڑ کر رکھ دیا اور خوفزدہ کردیا۔ منور حسن اور ان کے جماعتی ساتھی پیارے کارکنوں کے لاشے اٹھاتے رہے۔ الطاف حسین جیسے درندے نے جسے نہ جانے کن کن خفیہ قوتوں کی حمایت حاصل تھی، پے درپے انتخابات چھین لیے، اپنے امیدوار کامیاب بنائے۔ قربانی کی کھالیں تک قبضے میں لے لی جاتی تھیں۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ صدائے احتجاج بلند کرتا۔ منور صاحب اور ان کی جماعت اُس کے عتاب کا سب سے بڑا نشانہ تھے۔ انہوں نے حوصلہ مگر نہ ہارا، ڈٹے رہے۔ 1990ء کی دہائی کے آغاز پر قاضی حسین احمد امیر جماعت مقرر ہوئے، انہوں نے منور صاحب کو لاہور بلا کر سیکرٹری جنرل کا عہدہ سپرد کیا۔ جماعت اسلامی کی سیاست میں نئی تبدیلی آگئی۔ جہادِ افغانستان اور جہادِ کشمیر نے اسے ایجنسیوں اور مقتدر قوتوں کے بہت قریب کردیا۔ اس حد تک تو بات درست تھی، مگر اس کے اثرات سیاسیاتِ ملکی پر بھی بہت پڑے۔ جماعت کا طرز بدل گیا۔ 1993ء میں بظاہر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلامی محاذ قائم ہوا۔ یہ تجربہ بری طرح ناکام ہوا۔ پی پی پی کو اس کا فائدہ پہنچا۔ وقتی سیاست کے تحت ایجنسیاں خوش ہوگئیں مگر جماعت کا روایتی حصہ بڑا مایوس ہوا۔ ووٹ بینک نے سکڑنا شروع کردیا۔ آج تک حالت پتلی سے پتلی ہوئی جارہی ہے۔ قاضی صاحب کے بعد منور بھائی امیر جماعت اسلامی منتخب ہوئے۔ ان کے لہجے میں تلخی اور مزاج میں سختی آگئی تھی۔ میں نے بطور صحافی اس پالیسی سے سخت اختلاف کیا۔ کھل کر لکھا بھی۔ منور صاحب کی ناراضی دیکھی نہ جاتی تھی۔ مگر وہ ہنس کر ٹال دیتے تھے۔ ایک مرتبہ نوازشریف صاحب نے مجھ سے پوچھا: منور صاحب اتنے برہم کیوں ہو جاتے ہیں؟ میں نے جواب دیا: کراچی میں آگ اور خون کے جس دریا سے گزرے ہیں اس کے اثرات ہیں۔ 2009ء میں قاضی صاحب کی جگہ امیر جماعت منتخب ہوئے تو انہیں احساس و ادراک ہوگیا، جماعت ان قوتوں کی جکڑ بندی میں آگئی ہے۔ زوردار بیانات، امورِ سیاست میں فوج کی مداخلت قبول نہ کی جائے گی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ 2014ء میں امیر جماعت کے انتخابات میں منور صاحب کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، حالانکہ روایت یہ ہے کہ ایک امیر دوسری بار ضرور منتخب ہوتا ہے، لیکن منور بھائی کو ایک سے زیادہ مرتبہ موقع عنایت نہ فرمایا گیا۔ خبر گرم ہوئی کہ اراکینِ جماعت میں سے پانچ ہزار فیصلہ کن ووٹ کہیں غائب کردیے گئے ہیں۔ وہ کیا ہوئے، بات ابھی تک سربستہ راز ہے۔ ملک کی منظم ترین اور سب سے پڑھی لکھی جماعت کے ساتھ نجانے کیا ہاتھ ہوگیا، آج تک پتا نہیں چل پایا۔ سراج الحق صاحب نئے امیر جماعت منتخب ہوئے، تا ایں روز خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ منور صاحب نے ہنسی خوشی انہیں کامیابی کی خبر سنائی اور خود کراچی میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے دفتر میں جا بیٹھے۔ احتجاج زبان پر نہ آیا البتہ انہیں قلق ضرور تھا جسے چھپا کر رکھنے کی حتی المقدور کوشش کرتے۔ اب یہ برگزیدہ بندۂ منور مٹی میں دب کر اپنے مالک کے حضور حاضر ہوچکا ہے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
(بشکریہ ’’نئی بات‘‘ 28جون2020ء)