اگرچہ سید منور حسن بیمار تھے، مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ رب کے حضور پیش ہونے والے ہیں۔ موت برحق ہے اور سب کو ہی اس عارضی دنیا سے حقیقی دنیا کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔سید منور حسن بھی وہیں چلے گئے جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔لیکن کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی موجودگی اور غیر موجودگی دونوں کا احساس غالب رہتا ہے۔ جو لوگ بھی سید منور حسن کو جانتے ہیں وہ اس بات کی گواہی دل سے دے سکتے ہیں کہ سید صاحب کیا کمال درویش صفت فرد تھے۔ایک ایسا درویش جس کے سامنے زندگی کا ایک بڑا نصب العین تھا اور اللہ تعالی کی خوشنودی کا حصول ا ن کی ذات کا بنیادی مقصد تھا۔ زندگی کو ایک بڑے مقصد کے تحت گزارنا ہی ان کی زندگی تھی اوراس پر ہی زندگی کے آخری سانس تک قائم رہے۔
سید منور حسن کمال کی گفتگو کرتے تھے۔ دلیل اور شواہد کے ساتھ بات کرنا ان کی خوبی تھی۔ اس انداز سے گفتگو کرتے کہ لوگ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے۔بہت ہی شفیق طبیعت کے مالک سید منور حسن جس سے بھی ملتے تو محبت کا عمل ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا تھا۔ مجھے سید منور حسن سے کئی بار براہ راست ملنے کا موقع ملا۔ برادرم لیاقت بلوچ، امیر العظیم اور قیصر شریف وقتا فوقتا مجھ سمیت کئی صحافیوں کو ملنے کا موقع فراہم کرتے تھے۔بہت تحمل اور خندہ پیشانی سے تلخ سے تلخ سوالات اورشکایات یا تحفظات کو سنتے اور بڑی عاجزی و مدلل انداز میں اپنا جواب اورمقدمہ پیش کرتے تھے۔بغیر کسی ہچکچاہٹ یا لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی بات کرتے۔ زبان میں جہاں شائشتگی تھی وہیں ان کے لہجے میں بعض حساس معاملات پر اپنی رائے دیتے ہوئے تلخی بھی پیدا ہوتی، لیکن جلد ہی مسکراکر محفل کو خوش گواربنانا بھی ان کی بڑی خوبیوں کا بڑا حصہ تھا۔
نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن سے طلبہ حقوق کی جدوجہد کرنے والے سید منور حسن جلد ہی مولانا مودودی کے علمی و فکری دانش سے متاثر ہوئے اور جوانی میں ہی اسلامی جمعیت طلبہ کے عام کارکن سے اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلی تک کا سفر اور پھر جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے پہلے جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل اور پھر امیر جماعت اسلامی منتخب ہوئے۔یہ ایسے فرد کی کہانی ہے جو کبھی بھی طاقت یا اقتدار کی سیاست کے خواہش مند نہیں تھے۔عہدوں یا اقتدار سے زیادہ ان کی توجہ کا بنیادی نکتہ اسلامی دنیا میں موجود اسلامی تحریکوں کا مطالعہ ،جماعت اسلامی اوردعوت دین کی تبلیغ تھی۔وہ بنیادی طور پر فکری آدمی تھے اورسیاست کو بھی وہ فکری یا نظریاتی بنیادوں پر دیکھتے تھے۔ ان کے بقول جب سیاست محض اقتدار یا طاقت کا حصول بن جائے تو پھر اس کی بھاری قیمت نظریاتی وفکری سیاست کو ادا کرنا پڑتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کی سیاست سے وہ دور ہی رہتے تھے اورسیاست کو عملی طور پر ایک بڑے خواب یا تصوراتی بنیادوں پر دیکھتے تھے۔
میرے مرحوم والد عبدالکریم عابد صاحب سے ان کی کمال کی دوستی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ میرے والد گرامی کی صحافت کا ایک بڑا حصہ کراچی میں ہی گزرا جہاں ان کی اورمنور حسن صاحب کی خوب بنتی تھی۔ جب بھی سید منور حسن صاحب لاہور آتے تو وہ والد صاحب سے ملنے گھر آتے اور یہ محفل کئی گھنٹوں تک کئی موضوعات کا احاطہ کرتی تھی۔ مجھے بھی ان مجالس میں بیٹھنے کا موقع ملتا اور زیادہ ان دونوں صاحب علم کی باتیں سنتااور کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا تھا۔میرے ساتھ ان کی شفقت کی ایک بڑی وجہ یقینی طور پر میرے والد گرامی ہی تھے۔ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ مجھ سمیت سب کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور ہمیشہ کہتے تھے جو زندگی اللہ تعالی نے آپ کو دی ہے اس کا مقصد بھی واضح ہونا چاہیے اوراپنے حصہ کے کام کو پوری دیانت داری، لگن، شوق اورمحنت سے کرنا چاہیے۔
سید منور حسن بنیادی طو رپر جدوجہد کے آدمی تھے اور زندگی کے آخری سانس تک کام کرتے رہے۔ اگرچہ ابتدائی جوانی میں وہ کارل مارکس، ٹراٹسکی اور لینن کے افکار سے متاثر ہوئے اور اسی کو اپنا مستقبل سمجھا، لیکن جب مولانا مودودی کا لٹریچر پڑھا تو پھر وہ اس فکر سے صرف متاثر ہی نہیں ہوئے بلکہ اپنی پوری زندگی اسی فکر کو وقف کردی۔ کمال کے مقرر تھے اورسیاسی میدان میں ان کی تقرریں ہمیشہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھیں۔ لہجہ میں جہاں گھن گرج ہوتی وہیں ان کے لفظوں میں جذبات کا پہلو بھی نمایاں ہوتا اورایسا محسوس ہوتا تھا کہ واقعی وہ دل سے بات کرتے ہیں، جو لوگوں کے دلوں پر لگتی تھی۔سید منور حسن عملی طور پر ایک بھرپور مطالعہ رکھتے تھے اورانہیں کثیر المطالعہ شخصیت کا فرد کہا جاسکتا ہے۔ دائیں اوربائیں بازو دونوں فکر کا مطالعہ ان کا شوق تھا۔ خاص طور پر دنیا میں اسلامی تحریکوں پر ان کی گہری نظر تھی، تاریخ، سیاست، ادب، لٹریچر اور سماجی موضوعات پر ان کی گرفت تھی اور گفتگو میں شاعری کا استعمال بھی خوب کرتے تھے۔
جو لوگ سید منور حسن کو جانتے ہیں وہ اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ مزاح بھی ان کا خوب ہوتا تھا۔ہمیشہ کوئی ایسی بات یا جملہ کہتے جس سے سب کو مسکرانے کا موقع ملتا تھا۔جہاں ان کی شخصیت میں سنجیدگی نظر آتی تھی وہیں بہت ہی مجلسی آدمی تھے اورجو بھی ان کی محفل میں ہوتا تھا وہ وقت کی قید سے آزاد ہوتا اورکئی گھنٹوں تک مجلس جاری رہتی۔ عاجزی اتنی زیادہ کہ سب کو دروازے تک چھوڑنے آتے اوربہت ہی سادہ زندگی ان کا شیوہ تھی۔نمود نمائش، شہرت، بے جا کسی زعم میں بھی مبتلا نہیں تھے۔ لباس، کھانا بہت ہی سادہ ایسے درویش آج کی اس دنیا میں دیکھنے کو بہت کم ملتے ہیں۔زندگی کا ایک بڑا حصہ دو کمروں کے کرائے کے گھر پر ہی گزاردیا۔امیر جماعت بنے تو مہمان خانے کے ایک کمرے میں ہی وقت گزارتے تھے۔
سیاسی معالات میں ان کی بہت سی باتوں سے اتفاق نہیں کیا اوربعض معاملات پر ان کے سخت موقف پر اپنے تحفظات بھی ان کے سامنے پیش کیے، مگر اس کے باوجود ان کے ساتھ احترام کا رشتہ ہمیشہ قائم رہا۔امیر جماعت سے فراغت کے بعد جب بھی وہ لاہو رآئے تو ان سے بہت دفعہ ملاقات ہوئی۔ طبیعت بھی ان کی پہلی جیسی نہیں رہی تھی، مگر گفتگو کرتے تو خوب کرتے تھے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی پر ان کی بہت سی گفتگو یا سوچ وفکر نے بہت سے لوگوں کو ناراض بھی کیا، مگر کیونکہ سید منور حسن ڈنکے کی چوٹ پر اپنی بات کرنے کا ہنر رکھتے تھے اورکسی ڈر اور خوف کے بغیر اپنی بات کرنا اپنا حق سمجھتے تھے۔ سیاست میں اسٹیبلیشمنٹ سمیت ہر سطح کی داخلی اور خارجی مداخلتوں کے خلاف تھے اور اس پر ان کا موقف بڑا واضح اور شفاف تھا۔مولانا فضل الرحمن نے بڑی کوشش کی کہ متحدہ مجلس عمل کو دوبارہ بحال کیا جائے مگر مولانا فضل الرحمن کی سیاست اورطریقہ کار سے اختلاف کی وجہ سے وہ ہی متحدہ مجلس عمل کی بحالی میں بڑی رکاوٹ بنے۔ نواز شریف کی سیاست کے بھی وہ بڑے ناقد تھے اور ان کی کوشش تھی کہ جماعت اسلامی اتحادی سیاست سے باہر نکل کر اپنی شناخت اور علیحدہ تشخص کی بنیاد پر انتخابات یا سیاست میں حصہ لینا چاہیے۔ ایک بار انہوں نے مجھے خود بتایا کہ اتحادی سیاست سے لوگوں نے تو ہم سے بہت فائدہ اٹھایا، مگر جماعت اسلامی کو مجموعی طور پر اس کا نقصان ہوا اور اس کی اپنی شناخت متاثر ہوئی۔کراچی میں ایم کیو ایم کی پرتشددسیاست کے خلاف ایک مضبوط آواز اپنی بھرپور جدوجہد کے ساتھ بغیر کسی ڈر اور خوف کے جو موجود رہی ان میں ایک نام سید منور حسن کا بھی تھا۔
وہ واقعی ایک رومانوی کردار تھے اور زندگی میں انہوں نے جو کچھ کیا اس میں ان کا رومانس بھاری نظر آیا۔بہت سے لوگوں کے بقول سید منور حسن ہماری رائج الوقت سیاست کے کردار نہ تھے۔ ایسے علمی،فکری، اصولی، نظریاتی اور سچے آدمی اپنی بے پناہ خوبیوں کے باوجود مفاداتی کاروبار زندگی ان کی زندگی نہ تھی۔اسی لیے انہوں نے اپنے آپ کو دنیاوی ترقی یابہت کچھ سمیٹ لینے کی خواہش کے مقابلے میں خد ا کو ہی راضی کرنے کی جنگ لڑی اور خود کو دنیاوی آسائشوں سے دوررکھا۔برحال سید منور حسن جیسے باکمال لوگ بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیںاور وہ ہمیشہ اپنی کئی خوبیوں اور صلاحیتوں کی وجہ سے اپنی یاد دلاتے رہیں گے۔