ظلم پھر ظلم ہے…!۔
طبقاتی جنگ کی داستان
ہاورڈزن /ترجمہ:ناصر فاروق
سن 1776ء کے آس پاس شمالی امریکہ کی انگریز نوآبادیوں کے چند اہم افراد نے ایک اہم دریافت کی، جو اگلی دو صدیوں میں بہت مفید ثابت ہوئی۔ وہ جان چکے تھے کہ ایک قوم، علامت، اور قانونی اتحاد کی تخلیق ناگزیر ہوچکی تھی، اس دریافت کو انھوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ پکارا۔ اس طرح وہ سلطنتِ برطانیہ کے چہیتوں سے زمین، دولت، اور سیاسی قوت ہتھیا سکتے تھے۔ اس سارے عمل میں وہ باغیوں اور بغاوتوں کے خدشات بھی ختم کرسکتے تھے، اور انھیں متحد کرکے اتفاقِ رائے سے نئی مقبول قیادت کی پیروی پر مائل کرسکتے تھے۔ جب ہم اس زاویے سے امریکی انقلاب پر نظرکرتے ہیں تو لگتا ہے کہ یہ واقعی ذہانت کا کام تھا، اور بانیانِ امریکہ اس حوالے سے قابلِ ستائش ہیں۔ انھوں نے دورِ جدید کا سب سے مؤثر قومی نظام حکومت قائم کردکھایا تھا، اور نئی نسل کی قیادتوں پر واضح کردیا تھا کہ متحدہ قومی حکومت کے کس قدر فوائد ہیں۔
اُس وقت تک صورتِ حال یہ ہوچکی تھی کہ ورجینیا میں بیکن کی بغاوت کے ساتھ ساتھ 18 ایسی شورشیں اٹھی تھیں، جن کا مقصد نوآبادیاتی حکومتوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنا تھا۔ اس کے علاوہ جنوبی کیرولائنا سے نیویارک تک سیاہ فام غلاموں کی 6 بغاوتیں ہوئیں، اور مختلف النوع 40 پُرتشدد فسادات بھی برپا ہوئے تھے۔
یہ وہ وقت تھا کہ جب بقول جیک گرین ’’مستحکم، متحد، مؤثر مقامی سیاسی اور قابلِ قبول معاشرتی اشرافیہ وجود میں آچکی تھی‘‘۔ یہ قابلِ قبول اشرافیہ باغیوں کی ساری توانائی انگلینڈ اور اُس کے نوآبادیاتی حکام کے خلاف استعمال کررہی تھی۔ یہ کوئی شعوری سازش نہ تھی بلکہ صورت حال سے بننے والے وہ مواقع تھے جن سے فائدہ اٹھانا ہی اس اشرافیہ کی صلاحیت کا امتحان تھا، جس میں وہ کامیاب بھی ہوئی۔
سن 1763ء کے بعد، اب جب کہ انگلینڈ سات سالہ جنگ میں فرانس کو پچھاڑ چکا تھا، اسے شمالی امریکہ سے بے دخل کرچکا تھا، امریکی قیادت کے لیے فرانس کا خطرہ ازخود ٹل گیا تھا۔ اب اُس کے سامنے دو ہی حریف باقی بچتے تھے: انگلش اور انڈینز۔ یعنی صرف انگریزوں سے نمٹنا تھا، ریڈ انڈینز سے بعد میں آسانی سے نمٹا جاسکتا تھا۔ ایک بار پھر بلا سوچی سمجھی حکمت عملی ازخود بن گئی تھی۔
فرانسیسیوں کی ہزیمت کے ساتھ ہی انگلینڈ نے نوآبادیوں پر توجہ دی، ان پر اپنی گرفت سخت کی، کیونکہ اسے یہاں سے حاصل ہونے والے محصولات اور آمدنی کی ضرورت تھی، تاکہ جنگی اخراجات پورے کیے جاسکیں۔ اس کے علاوہ نوآبادیوں کی تجارت انگلینڈ کی معیشت کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع بخش ہوتی جارہی تھی، یہ منافع سن 1700ء میں پانچ لاکھ پاؤنڈ تھا، جو1770ء تک اٹھائیس لاکھ پاؤنڈ پر پہنچ گیا تھا۔ لہٰذا اب امریکی قیادت کو انگلینڈ کی نہیں بلکہ انگلینڈ کو امریکی نوآبادیوں کی ضرورت تھی۔ تصادم کے عناصر پیدا ہوچکے تھے۔
یہ جنگ جنرلوں کے لیے سنہرا دور، تاجروں کے لیے دولت اور بے روزگاروں کے لیے غربت لائی تھی۔ جب فرانسیسیوں سے سات سالہ جنگ ختم ہوئی، نیویارک میں پچیس ہزار لوگ آباد تھے۔ ایک اخبار کے مدیر نے ان دنوں کا نقشہ یوں کھینچا: ’’یہ شہر آج کل بھکاریوں اور بے کار غریبوں کی آماج گاہ بن چکا ہے‘‘۔ اس دور کے اخبارات میں شایع ہونے والے مراسلوں میں دولت کی تقسیم پر کڑی تنقید کی جارہی تھی: سڑکوں پر ہزاروں ٹن آٹے کی تجارت ہوتی نظر آرہی تھی، اور یہیں پڑوس میں لوگ بہ مشکل ہی بھوک مٹا پارہے تھے۔ محصولات کی فہرستوں کے مطالعے کے بعد، گیری نیش ہمیں بتاتا ہے کہ 1770ء کی دہائی میں بوسٹن کے سب سے بڑے پانچ فیصد ٹیکس دہندگان وہ تھے جو شہر کی قابلِ محصول دولت میں 49 فیصد کے مالک تھے۔ فلاڈلفیا اور نیویارک میں بھی اکثر دولت چند امراء تک محدود تھی۔ عدالتی ریکارڈ بتاتا ہے کہ ان شہروں میں مرنے والے امراء بیس بیس ہزار پاؤنڈ کی وصیتیں کررہے تھے۔ (یہ رقم آج کے تقریباً پچاس لاکھ ڈالر بنتے ہیں)
بوسٹن میں نچلے طبقات نے ٹاؤن اجلاسوں میں اپنے دُکھڑے سنانے شروع کیے۔ میسا چیوسٹس کے گورنر نے لکھا کہ ان ٹاؤن اجلاسوں میں ’’ان کمتر گھٹیا ترین لوگوں نے مسلسل حاضری سے مہذب اشرافیہ، تاجر، اور دیگر اعلیٰ طبقات کی رائے کو بُری طرح متاثر کیا ہے‘‘۔ لگتا کچھ یوں ہے کہ بوسٹن میں اعلیٰ طبقے کے اُن چند وکلا، تاجروں، اور مدیروں نے جوانگلینڈ کے قریبی حاکم طبقے سے تعلق نہ رکھتے تھے، جیسا کہ جیمس اوٹس اور سیموئل ایڈم نے ایک “Boston Caucus” سیاسی گروہ منظم کیا، اس کے لیے تقریروں اور تحریروں سے مدد لی گئی، اور مزدور طبقات کی فکری تربیت کی گئی، ہجوم کو متحد کیا گیا، اور اس کا رویہ تبدیل کیاگیا۔ گیری نیش جیمس اوٹس کی بابت لکھتا ہے کہ ’’وہ بخوبی واقف تھا کہ کم نصیبوں کو، اور ان کی ناراضی کوکس طرح ’مقبول رائے عامہ‘ میں ڈھالنا ہے‘‘۔
یہاں ہمارے پاس امریکہ کی سیاسی تاریخ کی پوری پیش بینی موجود ہے کہ کس طرح اپنے مفادات کے لیے اعلیٰ طبقات کے سیاست دانوں نے نچلے طبقات میں تحریک پیدا کی۔ یہ خالص دھوکا دہی نہ تھی، اس میں جزوی طور پر نچلے طبقے کے دکھوں سے آگاہی موجود تھی، اور اسی آگاہی نے صدیوں تک سیاسی حکمت عملی کو مؤثربنایا۔ گیری نیش کہتا ہے: جیمس اوٹس، سیموئل ایڈم، روئے ٹائیلر، اور دیگر میزبان بوسٹونین نے مزدور اور فنکار طبقے سے رابطے مضبوط بنائے، اور اُن میں یہ خیال پختہ کیا کہ وہ اور دیگر محنت کش سیاسی عمل میں حصہ لینے کے اہل ہیں، اور سیاسی عمل میں اُن کے خیالات کی شراکت داری بالکل جائز ہے۔
اُن دنوں بوسٹن میں بھرپور طبقاتی کشمکش موجود تھی۔ سن 1763ء کا بوسٹن گزٹ کہتا ہے ’’چند طاقت ور لوگ ایسے سیاسی ایجنڈے کی حمایت کررہے ہیں کہ جس کے تحت غریبوں کو قابو میں رکھا جاسکے، تاکہ وہ تابعدار رہیں۔ امراء کے خلاف بوسٹن کے غریبوں کا غم وغصہ بڑھتے بڑھتے پھٹ پڑا، سن 1765ء کے اسٹیمپ ایکٹ کے بعد ہنگامہ آرائی بڑھ گئی۔ اس ایکٹ کے ذریعے انگلینڈ حکومت نے امریکی نوآبادیوں پر فرانسیسی جنگ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے نئے محصولات مسلط کردیے تھے، جبکہ نوآبادکار امریکی پہلے ہی اس جنگ میں خاصی تکلیفیں اٹھا چکے تھے۔ اُس سال موسم گرما میں ایک موچی جس کا نام ایبی نیزر میکلنٹوش تھا، ایک ہجوم کو لے کر بوسٹن کے ایک بیوپاری اینڈریو اولیور کے مکان پرچڑھ دوڑا۔ دو ہفتوں بعد ایک اور ہجوم برٹش اشرافیہ کے اہم رکن تھامس ہچنسن کے گھر پر حملہ آور ہوا، کلہاڑیوں سے اُس کے مکان کی اینٹ سے اینٹ بجادی، اور سارا سامان لوٹ کر لے گیا۔ انگلینڈ کو موصول ہونے والی نوآبادکار حکام کی رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ چھوٹے موٹے واقعات ایک بڑے منصوبے“A War of Plunder, of general levelling and taking away the Distinction of rich and poor.” کا حصہ تھے، کہ جس کے تحت پندرہ امراء کے مکانات پر حملوں کے ذریعے امیر غریب کی تفریق کا خاتمہ کرنا ’’ہدف‘‘ تھا۔
یہ وہ لمحات تھے جب امراء کے خلاف غم وغصے کی لہر وہ حد بھی پار کر گئی تھی کہ جہاں امریکی سیاست دان رُک جانا چاہتے تھے۔ کیونکہ نئے سوال خدشات پیدا کررہے تھے کہ آیا یہ نفرت کیا صرف برٹش اشرافیہ تک ہی محدود رہے گی؟ یا قوم پرست امریکی اشرافیہ بھی اس کی لپیٹ میں آسکتی تھی؟ نیویارک میں، بوسٹن کے مکانات پرحملوں والے سال، کسی نے نیویارک گزٹ کولکھا ’’کیا یہ عدل ہے کہ 999 کی جگہ 99 لوگ امراء کی پُرتعیش زندگی کی قیمت ادا کریں، خاص طور پر اُس وقت جب یہ سمجھا جارہا ہو کہ امراء کی دولت پڑوسیوں کی غربت کا حاصل ہے؟‘‘ انقلاب کے کرتا دھرتا رہنماؤں کے لیے ایسے جذبات پرقابو پانا خاصا پریشان کن مرحلہ تھا۔
گیری نیش کے مطابق بالخصوص فلاڈلفیا میں نچلے طبقوں کا سیاسی شعور اس نکتہ پر پہنچ گیا تھا کہ جہاں سلطنتِ برطانیہ کے وفادار حکام اور انقلابی رہنما دونوں ہی سوچنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ انھیں کس طرح زیر کریں: ’’سن 1776ء کے وسط میں الیکٹورل سیاست کی ناکامی کے بعد مزدور، فنکار، اور چھوٹے تاجر ماورائے قانون اقدامات اٹھارہے تھے، اور معاملات اُن کی گرفت میں تھے‘‘۔ غرض اکثر ریاستوں اور شہروں کی قانون سازی میں امراء کی حوصلہ شکنی کا ’بیانیہ‘ سامنے آرہا تھا۔
مضافاتی علاقوں میں جہاں اکثریت آباد تھی، امیر غریب کا تنازع تھا، جسے سیاسی رہنما انگلینڈ کے خلاف استعمال کررہے تھے، تھوڑے بہت فائدے غریب باغیوں کو پہنچائے جارہے تھے، جبکہ بہت زیادہ فائدے خود سمیٹے جارہے تھے۔ سن 1740ء کی دہائی میں نیوجرسی میں لگان داروں نے شورش برپا کی، اور اگلی دو دہائیوں میں نیویارک کے مزارعین نے بغاوت کی۔ یہ طویل المدتی معاشرتی تحریکیں ثابت ہوئیں، یہ بھرپور طور پر منظم تھیں، اور حکومتوں کے مقابل آگئی تھیں۔ یہ جیلوں سے اپنے قیدیوں کوچھڑا لیتے تھے، اور شیرف کو مارتے پیٹتے تھے۔
سن 1766 ء سے1771ء تک شمالی کیرولائنا میں سفید فام کسانوں نے طاقت ور تحریک چلائی، جس کا مقصد دولت مند بدعنوان حکام کی جڑیں اکھاڑنا تھا، یہ وہی سال تھے کہ جب شمال مشرقی شہروں میں برٹش سرکارکے خلاف بغاوت بھڑک رہی تھی، لوگ طبقاتی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ شمالی کیرولائنا کی یہ تحریک ’’ریگولیٹر‘‘ کہلائی۔ یہ ریگولیٹرز خود کو ’غریب صنعت کار کسان‘، ’مزدور‘، اور ’مظلوم‘ کہتے تھے، کہ جو طاقت ور امراء کے جبر کا شکار تھے۔ ریگولیٹر دیکھ رہے تھے کہ شمالی کیرولائنا میں دولت اور سیاسی طاقت کا گٹھ جوڑ کرنے والے حکمران بنے بیٹھے تھے۔ انھوں نے ایسے حکام کی مذمت کی جو ہر وقت دولت جمع کرنے کی فکر میں رہتے تھے۔ وہ محصولات کے نظام سے نالاں تھے، جس نے غریب کی کمر توڑکر رکھ دی تھی، بیوپاری اور وکلا قانونی رستوں سے کسانوں کو ہراساں کرتے تھے، اور اُن کا خون پسینہ نچوڑتے رہتے تھے۔ تاہم یہ ریگولیٹرز غلاموں کی ترجمانی نہیں کررہے تھے۔
اورنج کاؤنٹی کی ریگولیٹر تحریک کے بارے میں ایک ہم عصر لکھتا ہے: ’’اورنج کاؤنٹی کے شیرف نے لوگوں کی ہتک کی، مجسٹریسی اور سیاسی نمائندوں نے انھیں لوٹا اور پامال کیا، اُن سے غفلت برتی، اُن سے بھاری محصولات وصول کیے، اور ان ساری برائیوں سے نجات کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ جو چند لوگ یہاں کے حاکم و مالک بنے بیٹھے تھے، وہ قانونی رستوں سے مظالم ڈھارہے تھے، اور مزدوروں کا خون نچوڑ رہے تھے۔ سن1760ء کی دہائی میں ریگولیٹرز نے اس کاؤنٹی میں بھاری محصولات کا رستہ روکنے کی منظم کوشش کی اور جائدادوں کی جبری ضبطی میں مزاحمت کی، جس پر حکام نے اس عمل کو ’’خطرناک رجحان‘‘والی شورش کا عنوان دیا، اور فوجی ہتھکنڈوں سے اسے کچلنے کی منصوبہ بندی کی۔ صورت حال یہ ہوئی کہ سات سو مسلح کسانوں نے دو ریگولیٹرز رہنماؤں کو رہائی دلائی۔
ایک اور کاؤنٹی میں مقامی ملیشیا کے کرنل اینسن نے شکایت کی کہ یہاں کی بغاوتیں بہت زیادہ طاقت ور ہوچکی ہیں، اور انھیں کچلنا مشکل ہورہا ہے۔ ایک اور موقع پر سوباغیوں نے کاؤنٹی کی عدالت میں قانونی کارروائی تہس نہس کردی تھی۔ سن1770ء میں ہلزبورو شمالی کیرولائنا میں بڑے پیمانے پر شورش برپا ہوئی، باغیوں نے ایک عدالتی کارروائی سبوتاژ کردی، یہاںکے جج کو بھاگنا پڑا، تین وکلا اور بیوپاریوں کی بہت پٹائی ہوئی، اور یہاں کی دکانیں بھی لوٹ لی گئیں۔ ان ساری کارروائیوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ اسمبلی میں چند معتدل اصلاحات منظور کی گئیں، مگر ساتھ ہی ایک ایکٹ بھی منظور کیا گیا جس میں بغاوتیں روکنے کی حکمت عملی طے کی گئی، اور گورنر نے انھیں کچلنے کے لیے عسکری تیاری بھی کی۔ مئی 1771ء میں ایک فیصلہ کن جنگ لڑی گئی، جس میں کئی ہزار ریگولیٹرز شکست کھاگئے اور فوج میدان مارگئی۔ چھ ریگولیٹرزکوپھانسی دے دی گئی۔
اس تلخ تنازعے کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ریگولیٹرز کی کاؤنٹیز میں معمولی سی اقلیت ہی ’امریکہ کی انقلابی جنگ‘ میں حصہ لے سکی تھی۔ اکثر غالباً غیر جانب دار ہی رہے۔ خوش قسمتی سے انقلابی جنگ کا مرکزی محاذ شمال میں تھا، جبکہ یہاں ان شہروں میں سفید فام آبادی بستی تھی، امریکی انقلابی مکینکس کو ساتھ ملاسکتے تھے، جو متوسط طبقہ تھے، انگلینڈ کے خلاف سرگرم تھے، اور انگریز صنعت کاروں سے مسابقت میں تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ وہ بے جائداد، بے روزگار، اور بھوکے لوگ تھے، جو فرانسیسی جنگ کے بعد سے بوجھ بنے ہوئے تھے۔
بوسٹن میں غریبوں کے معاشی تحفظات اُس غم و غصے میں اضافہ کررہے تھے جوانگریزوں کے خلاف اُبل رہا تھا، اور غصیلے ہجوم کی صورت میں سامنے آرہا تھا۔ تحریکِ آزادی کے رہنما اس غصے کی پوری توانائی انگلینڈ کے خلاف جھونک دینا چاہتے تھے، مگر اسے اس حد تک قابو میں بھی رکھنا چاہتے تھے کہ کہیں پلٹ کر اُن سے ہی بڑے بڑے مطالبے نہ کیے جانے لگیں۔
سن 1767ء میں جب بوسٹن میں اسٹیمپ ایکٹ کے خلاف بغاوت ہوئی، شمالی امریکہ میں انگلش فوج کے جنرل تھامس گیج نے لکھا: بوسٹن میں باغیوں کے ہجوم نے بڑی تباہی مچائی، مکانات کو لوٹا اور تباہ کیا، لوگوں کا یہ غصہ اور دہشت بے سمت اور بے قابو تھی، اور اب ہر کوئی ڈر رہا تھا کہ کہیں وہ اگلا نشانہ نہ ہو! خوف کی یہ فضا دیگر صوبوں میں بھی پھیل رہی تھی۔ اب لوگوں میں جوش ابھارنے سے زیادہ انھیں قابو میں رکھنا اہم ہوچکا تھا۔ گیج کے تبصرے سے لگتا ہے کہ اسٹیمپ ایکٹ کے خلاف تحریک کے رہنما اب یہ سوچ کر خوف زدہ ہورہے تھے کہ کہیں یہ غم وغصہ اُن کی ’’دولت‘‘ کا رخ نہ کرلے۔ یہ وہ وقت تھا جب بوسٹن کے دس فیصد امراء کے پاس 66 فیصد دولت اکٹھی ہوچکی تھی، جبکہ تیس فیصد غریب ترین طبقہ قابلِ محصول جائداد سے عاری تھا، اور کوئی بے جائداد شخص ووٹ دے سکتا تھا اور نہ ہی قصبے کے اجلاسوں میں شریک ہوسکتا تھا۔ ان میں ماہی گیر، جہازراں، ملازم، اور غلام وغیرہ شامل تھے۔
سن 1768ء کے بعد بوسٹن میں انگلینڈ نے دوہزار فوجی تعینات کیے۔ عوام اور فوجیوں کے درمیان کشمکش اور ٹکراؤ بڑھتا چلا گیا۔ یہاں پہلے ہی بے روزگاری عام تھی، فوجیوں کی آمد سے صورت حال مزید بگڑ گئی۔ نوآبادکاروں کی جانب سے انگلش مصنوعات کے بائیکاٹ کے بعد مکینک اور دکان دار طبقہ بہت متاثر ہوا، سارا کاروبار ٹھپ ہوگیا۔ 1769ء میں بوسٹن حکومت نے ایک کمیٹی بنائی، جس نے چند ایسے طریقے متعارف کروائے جن سے غریبوں کے روزگار کا کوئی بندوبست ہوسکے۔ 5 مارچ 1770ء کے دن محنت کش انگریز فوجیوں سے لڑگئے۔ کسٹم ہاؤس کے سامنے ایک مجمع لگ گیا، اور فوجیوں کو اشتعال دلایا۔ فوجیوں نے فائرنگ کردی جس میں چند مزدور ہلاک ہوئے۔ اس واقعے کو’’بوسٹن قتلِ عام‘‘ کا نام دیا گیا۔ انگلینڈ کے خلاف نفرت تیزی سے بڑھتی چلی گئی۔ اس صورتِ حال نے انگلینڈ کو مجبور کردیا کہ بوسٹن سے فوج ہٹائے اور ماحول پُرسکون بنانے کی کوشش کرے۔ اس قتلِ عام کی پشت پر جبرتھا، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر طرف فسادات چھڑ گئے۔ سن1760ء کی دہائی میں نیویارک، نیوپورٹ، اور رہوڈ آئرلینڈ میں سیکڑوں ماہی گیروں، غریب نوجوانوں، اور نیگروز نے بوسٹن واقعے کے پانچ ہفتے بعد ہنگامے شروع کردیے تھے۔
ورجینیا میں پڑھا لکھا طبقہ سمجھ رہا تھا کہ انگلینڈ کے خلاف کامیاب انقلاب کے لیے نچلے طبقے کو قائل کرنا ہوگا، اور اس کے لیے کچھ نہ کچھ ’’ٹھوس‘‘ کرنا ضروری ہوگا۔ ورجینیا کے ایک باسی نے اپنی ڈائری میں لکھا: ’’یہاں کا نچلا طبقہ بوسٹن سے ملنے والی خبروں کے باعث بے چین ہے، ان میں سے کئی یہ توقع کررہے ہیں کہ انھیں انگریز فوج کے خلاف جبراً لڑنے مرنے پر مجبور کیا جائے گا‘‘۔ یہاں کے ایک پُرجوش مقرر نے غریبوں کو مخاطب کرکے کہا تھا: ’’کیا اشرافیہ بھی اُسی مٹی سے نہیں بنے کہ جس سے غریبوں کی تخلیق ہوئی…؟ ایسے کسی نظریے پر کان نہ دھرو کہ جو ہمیں تقسیم کرے، بلکہ بھائیوں کی طرح ہاتھ میں ہاتھ ڈالے آگے بڑھو…‘‘ پیٹرک ہینری ان غریبوں کا باصلاحیت رہنما ثابت ہوا۔ رائس آئزک کے مطابق ’’وہ اشرافیہ کی دنیا سے قریبی تعلق رکھتا تھا‘‘، لیکن غریبوں کے لیے وہ زبان استعمال کرتا تھا کہ جسے ورجینیاکے سفید فام غریب سمجھ سکتے تھے۔ اس کی تقریروں سے طبقاتی کشمکش میں بہت کمی آگئی تھی، اور برٹش سرکار کے خلاف یکجہتی بڑھ گئی تھی۔ یہ وہ بیانیہ تھا جو سارے انقلابی طبقات کے لیے پُرکشش تھا۔ یہ باغیوں کو وطن پرست بنارہا تھا۔
ٹام پین کی شہرۂ آفاق تصنیف Common Sense، جو 1776ء کے آغاز میں سامنے آئی، اور امریکی نوآبادیوں کا مقبول ترین پمفلٹ بن گئی۔ یہ ’’آزادی‘‘ کے حق میں پہلی جرأت مندانہ دلیل تھی۔ اس کی صاف ستھری نثرہر پڑھے لکھے شخص کے لیے آسان فہم تھی: ’’ہر ریاست میں منظم معاشرہ باعثِ برکت ہوتا ہے، لیکن حکومت اپنی بہترین حالت میں بھی ناگزیر برائی بن چکی ہے…‘‘ پین برٹش بادشاہت کے ’’الوہی حق‘‘ پر ضرب لگارہا تھا۔ وہ انگلینڈ کے ساتھ رہنے یا علیحدگی دونوں صورتوں پر عملی فوائد اور نقصانات واضح کررہا تھا۔ وہ معیشت کی اہمیت سے واقف تھا: ’’میں چیلنج کرتا ہوں کہ مصالحت کا سب سے پُرجوش وکیل مجھے کوئی ایک فائدہ بتادے کہ جوانگلینڈ سے براعظم شمالی امریکہ کو پہنچتا ہو۔ میں چیلنج دہراتا ہوں، کوئی ایک بھی ایسا فائدہ نہیں کہ جوانگلینڈ سے اس خطے کو پہنچتا ہو۔ ہماری مکئی یورپ کی کسی بھی منڈی سے اپنی قیمت حاصل کرسکتی ہے۔‘‘ اُس نے نوآبادکاروں کو توجہ دلائی کہ انگلینڈ کی جنگوں سے امریکیوں کو صرف جانی و مالی نقصان پہنچا ہے، فائدہ کچھ بھی نہیں۔ انگلینڈ کی وجہ سے امریکیوں نے اُن قوموں سے جنگ مول لی ہے جن سے دوستی کی جاسکتی تھی، اور فائدے اٹھائے جاسکتے تھے۔
ٹام پین نے دھیرے دھیرے جذبات ابھارے: وہ سب کچھ جو درست اور معقول تھا، علیحدگی کا تقاضا کرتا تھا۔ مقتول کا لہو، فطرت کی سسکتی ہوئی آواز، یہ سب کہتے ہیں کہ الگ ہونے کا وقت آگیا ہے۔
سن 1776ء میںکتاب Common Senseکے پچیس ایڈیشن شائع ہوئے اورلاکھوں کاپیاں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئیں۔ نوآباد امریکہ کے تقریباً ہر خواندہ شخص نے یہ کتاب پڑھ رکھی تھی، یا وہ کم از کم اس کے مواد سے واقف تھا۔ پمفلٹ کا تشہیری طریقہ انگلینڈ سے تعلقات پر بحث کا عوامی ذریعہ بن چکا تھا۔ سن 1750ء سے 1776ء تک چار سو مختلف پمفلٹ سامنے آچکے تھے جو اسٹیمپ ایکٹ، بوسٹن قتلِ عام، اور ٹی پارٹی کی اس جانب یا دوسر ی طرف کی حمایت میں دلیل دیتے نظرآتے تھے، سول نافرمانی پر بھی رائے عامہ معلوم کی جارہی تھی، حکومت سے وفاداری اور حقوق وغیرہ پر سوالات چھیڑے جارہے تھے۔ ٹام پین کا پمفلٹ نوآباد امریکیوں کی فکر پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوا تھا، تاہم اس نے اشرافیہ میں بھی زلزلہ پیدا کردیا تھا، جان ایڈم جیسے وطن پرست نہیں چاہتے تھے کہ بات اتنی دور نکل جائے کہ جمہوریت پر بات آجائے۔ پین نے امراء اور عوام کی مشترکہ طرزِ حکومت کو’’دھوکا‘‘ قرار دیا تھا، اور نمائندگان کے ایک ہی ایوان کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔ ایڈم نے پین کے منصوبے کو یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ یہ ’’بہت زیادہ جمہوری‘‘ تھا۔
ٹام پین خود بھی انگلینڈ کے اُن غریب تارکین وطن میں سے تھا، جنھیں جہازوں میں بھر بھرکر شمالی امریکہ لایا گیا تھا۔ وہ ایک ٹیچر اور ٹیکس آفیشل تھا۔ وہ 1774ء میں فلاڈلفیا پہنچا، کہ جب نوآبادیوں میںانگلینڈ کے خلاف غم و غصہ شدید ہوچکا تھا۔ فلاڈلفیا کے مزدور سیاسی طور پر باشعور ملیشیا تشکیل دے رہے تھے۔ پین نے وضاحت اور قوت سے ان کے سامنے سیاسی حقوق اور مقاصد رکھ دیے تھے۔ وہ جائداد پر ووٹنگ کے حق کے خلاف، اور متوسط طبقے کی فلاح کے لیے پُرزور دلائل پیش کررہا تھا۔
جب انقلاب اپنے رستے پر آچکا تھا، ٹام پین اس بات پر زیادہ سے زیادہ زور دے رہا تھا کہ یہ ہجوم کی صورت میں نچلے طبقے کا ’’ایکشن‘‘ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ متوسط طبقے کی سیاسی پیش رفت ہونی چاہیے۔ وہ پنسلوانیا کے انتہائی مال دار شخص رابرٹ موریس کا معاون اور اُس کے ’بینک آف نارتھ امریکہ‘ کا حامی بن چکا تھا۔ بعد میں آئین کے تنازعے پر، پین نے پھر مستحکم مرکزی حکومت کے حامیوں کی ترجمانی کی۔ لگتا ہے اُسے اس طرح کی حکومت سے فلاح عام کی پوری امید تھی۔ یوں وہ پوری طرح انقلاب کی دیومالائیت پرایمان لاچکا تھا، اور یہ سب کچھ متحد امریکیوں کے نام پر ہورہا تھا۔ اعلانِ آزادی اس دیو مالائیت کو کمالِ بلاغت وفصاحت سے بیان کررہا تھا۔ تھامس جیفرسن نے اسے لکھا تھا۔ 2جولائی کوکانگریس میں پیش کیا گیا تھا، اور 4 جولائی 1776ء کوسرکاری طورپر اس کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا تھا۔
اُس وقت تک امریکہ کی آزادی کا جذبہ عروج پر پہنچ گیا تھا۔ مئی کے مہینے میں کئی قراردادیں شمالی کیرولائنا کی اسمبلی میں پیش کی جاچکی تھیں، جن میں انگلینڈ سے آزادی کا اعلان کیا گیا تھا۔ ہر جانب برطانوی قوانین کالعدم قرار دیے جارہے تھے، اور ممکنہ جنگی تیاریاں کی جارہی تھیں۔ میساچیوسٹس کے ایوانِ نمائندگان کے ارکان اعلانِ آزادی پر اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے، اور ایک آواز ہوکر اس کی حمایت کررہے تھے۔ اب سب بتدریج سلطنتِ برطانیہ کو الوداع کہہ رہے تھے۔
اس آئینِ آزادی کا دوسرا پیراگراف ایک جان دار فلسفیانہ بیان دیتا ہے کہ، چند سچائیاں جو ناقابلِ انکار ہیں، وہ یہ کہ سارے مرد پیدائشی طور پر برابر ہیں، اور انھیں ان کے خالق کی جانب سے یقینی حقوق بخشے گئے ہیں، جن میں سے زندگی گزارنے کا حق، آزادی، اورخوشی کی جستجو کا حق بنیادی ہیں۔ یہ آئین انسانوں کے حقوق کا محافظ ہے، انسانوں کے درمیان حکومتوں کی ادارتی صورت گری کرتا ہے، ان کی آراء کو اُن کی منظوری سے حکومتی ذریعے سے قوت عطا کرتاہے۔
اس کے علاوہ سلطنتِ برطانیہ کی استعماریت کے خلاف پوری چارج شیٹ پیش کی گئی ہے، جس میں نوآبادیاتی مظالم کی تفصیل بیان کی گئی ہے، اور لوگوں کو اس بات کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اس قسم کی حکومت کومنسوخ کریں، اور نئی طرزِ حکومت قائم کریں۔
تاہم کچھ امریکی ’’اعلانِ آزادی‘‘ کے متحدہ مفادات کے دائرے سے واضح طور پر باہر کردیے گئے: یہ ریڈ انڈین، سیاہ فام غلام، اور عورتیں تھیں۔ درحقیقت اس کا ایک پیراگراف انگلینڈ کے بادشاہ پر ایک الزام یہ بھی عائد کرتا ہے کہ اُس نے غلاموں کی بغاوتوں اور انڈینز کے حملوں کو بھڑکایا تھا، اوریہاں کی داخلی شورشوں کو اکسایا تھا، اور اس بات کی بھرپورکوشش کی تھی کہ سرحدی آبادیوں کے باشندے اور بے رحم ہندی وحشی ہر جانب تباہی وبربادی مچائیں۔
تھامس جیفرسن نے ایک پیراگراف میں بادشاہ پریہ الزام لگایا کہ وہ افریقا سے غلاموں کی کھیپ امریکی نوآبادیوں میں منتقل کررہا تھا اور’’ہر اُس قانونی کوشش کوکچل رہا تھا، جو اس گھناؤنے کاروبارکی راہ میں حائل ہوسکے‘‘۔ یہ غلامی کے خلاف ایک اخلاقی جرات نظر آتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جس دن تھامس جیفرسن مرا، اُس کے ذاتی غلام سیکڑوں میں تھے۔ جیفرسن کا یہ پیراگراف کانٹی نینٹل کانگریس نے بعد میں خود ہٹوادیا تھا، کیونکہ بہت سارے امراء اور حاکم ’’غلامی‘‘ کا ہرگز خاتمہ نہیں چاہتے تھے۔
جہاں تک اس جملے ’’تمام مرد پیدائشی طورپر پر برابر ہیں‘‘کا تعلق ہے، غالباً جان بوجھ کر’’عورتوں‘‘ کی کمتر حیثیت کے بارے میںاسے واضح کیا گیا ہے۔ عورت کو اس قابل ہی نہیں سمجھا گیا کہ اس ذکر میں شامل کیا جائے۔ وہ سیاسی طورپر بالکل غائب تھی۔ اُس کا سیاسی، انتظامی اور شہری زندگی میں کوئی کردار نہیں تھا۔ اعلانِ آزادی اپنی ہی زبان کے تناظر میں واضح طورپرصرف سفید فام مردوں کی آزادی اور خوشی کے لیے تھا۔
اس اعلان کا فلسفہ، کہ لوگوں کے ذریعے لوگوں کی حکومت کا قیام، کہ جس سے آزادی اورخوشی کا تحفظ کیا جاسکے، جان لاک کے خیالات سے ماخوذ ہے، جواُس نے حکومت کی بابت دوسرے مقالے میں لکھے تھے۔ یہ 1689ء میں شائع ہوا تھا جب انگریز عوام بادشاہوں کے خلاف بغاوت کررہے تھے اور پارلیمانی نظام حکومت منظم کررہے تھے۔ جان لاک کا دوسرا مقالہ بتاتا ہے کہ حکومت اورسیاسی حقوق کیا ہوتے ہیں، اورکس طرح ادا ہوتے ہیں، لیکن عملی طورپرجان لاک نے جائداد میں عدم برابری کونظر انداز کیا تھا، اور دولت کی تقسیم میں بڑے بڑے تفاوت کے بعد کس طرح یکساں حقوق کی کوئی عملی صورت بیان کی جاسکتی تھی؟ جان لاک خود بہت دولت مند آدمی تھا، اور اُس نے ریشم اورغلاموں کی تجارت میں بھاری سرمایہ کاری کررکھی تھی، وہ ایک بڑا قرض خواہ اورکرایہ وصول کرنے والا تھا۔ وہ بینک آف انگلینڈ کے پہلے اسٹاک کے اجراء میں بڑی سرمایہ کاری کرنے والوں میں سرفہرست تھا، اور اس سے چند سال قبل ہی اُس نے ’’لبرل جمہوریت‘‘ پر دوسرا مقالہ رقم کیا تھا۔ کیرولائناز انتظامیہ کے مشیر کے طور پر اُس نے مشورہ دیا تھا کہ ایسی حکومت قائم کی جائے جو دولت مند جاگیرداروں کی مٹھی میں ہو، اور اسے ’’غلام رکھنے والے آقا‘‘ چلائیں۔ دراصل لاک کا ’’لوگوں کی حکومت‘‘ والا بیان انگلینڈ میں بیوپاری کے سرمایہ دارانہ نظام کی آزادانہ ’’ترقی‘‘ کی خاطر تھا۔
انگریز مؤرخ کرسٹوفر ہلThe Puritan Revolution میں لکھتا ہے: ’’یہاں بلاشبہ قانون کی حکمرانی اوربالادستی سے فائدہ سمیٹنے والے بیشتر متمول صاحبِ جائداد لوگ تھے۔‘‘ جان لاک کے خوش ذائقہ جملوں میں چھپی وہ حقیقت کوئی بھی دیکھ سکتا ہے جوطبقاتی نظام حکومت کی ترجمانی کرتی ہے۔ جوں جوں امریکہ کا ماحول جذباتی تناؤ کی زد میں آرہا تھا، انگلینڈ میں فسادات اور ہڑتالوں کا سلسلہ زور پکڑ چکا تھا۔ مزدور مہنگائی اور معاشی بدحالی سے انتہائی بیزار ہوچکے تھے۔
سن 1768ء کے موسم بہار اورگرمیوں کے واقعات کا سالانہ رجسٹرکہتا ہے: بے چینی عام تھی، نچلے طبقے شدید تناؤ کا شکار تھے۔ یہ مریضانہ ماحول مہنگائی اور دیگر افسوس ناک وجوہات کے باعث خراب سے خراب تر ہورہا تھا۔ فسادات زور پکڑ رہے تھے، اور المناک نتائج سامنے لارہے تھے۔
وہ لوگ جو لاک کی تھیوری کے مطابق اقتدارِ اعلیٰ کا سرچشمہ تھے، اُن کی وضاحت اُس وقت کے ایک رکنِ پارلیمنٹ نے یوں کی: ’’میرا مطلب ہجوم نہیں… میری مراد متوسط درجے کے انگریز، صنعت کار، تاجر، اور شرفاء ہیں۔‘‘
امریکہ میں الفاظ کے عقب میں چھپی حقیقت اس سے کچھ بھی مختلف نہ تھی (اعلانِ آزادی کا اجراء اُسی سال ہوا جس سال ایڈم اسمتھ نے ’’اقوام کی دولت‘‘ شائع کی)، یہ اہم لوگوں کے اعلیٰ طبقے کی وہ جدوجہد تھی، جس میں انگلینڈ کو کچھ یوں شکست سے دوچار کرنا تھا کہ نوآبادیاتی دور میں، یعنی ڈیڑھ سو سال سے قائم دولت اور طاقت کے تعلقات اور معاملات بہت زیادہ متاثر نہ ہوں۔ کیسی تلخ حقیقت ہے کہ ’’اعلانِ آزادی‘‘ پر دستخط ثبت کرنے والے 69 افراد نوآبادیاتی دور کے وہ حکام تھے، جو انگلینڈ کے تحت کام کرتے تھے۔ جب یہ اعلانِ آزادی بوسٹن ٹاؤن ہال کی بالکونی سے پڑھا گیا، تھامس کرافٹس نے بھرپور بلاغت کا مظاہرہ کیا، جو لائل نائن گروپ کا رکن تھا۔ اس واقعے کے چار روز بعد بوسٹن کمیٹی آف کورسپونڈنس نے لوگوں کو حکم دیا کہ فوج کے لیے خدمات پیش کریں۔ امراء متبادلات کی ادائیگی کرکے اس حکم سے استثنیٰ حاصل کرسکتے تھے، مگر غریبوں کے لیے یہ فوجی خدمات لازمی تھیں۔ یہ متنازع حکم حالات کو فسادات کی جانب لے گیا، اوراس شور میں کوئی چلاّیا ’’ظلم پھر ظلم ہے… چاہے کوئی بھی کرے!‘‘