سیرۃ سیدنا ابراہیم علیہ السلام

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی پُرنور سیرت کا دلآویز اور ایمان افروز تذکرہ

زیر نظر کتاب اسلامی دین و تاریخ کی بنیادی کتابوں میں سے ہے جس سے آگاہ ہونا ہر مسلمان پر فرض ہے، کیونکہ دعوتِ توحید کا پرچم جس زور شور سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بلند کیا تھا وہ قیامت تک اپنے نورانی اثرات بکھیرتا رہے گا۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اس انوکھی داستان کو آبِ زر سے تحریر کردیا ہے۔ جناب محمد طاہر نقاش لکھتے ہیں:۔
’’سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات پوری بنی نوع انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ دینِ اسلام دینِ ابراہیم کی ہی دوسری شکل و تشریح ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اللہ کریم کے وہ بزرگ پیغمبر ہیں کہ جن کو ہر سال مسلمان باقاعدگی سے دو یا تین دن تک مسلسل یاد کرتے ہیں اور ان کے اسوۂ (ابراہیمی) پر عمل پیرا ہوکر قربانی کی سنت ادا کرتے ہیں۔ یوں ان کی زندگیوں میں اپنے پروردگار کی خاطر قربان ہوجانے اور کچھ کرجانے کا جذبہ پہلے سے شدت و تیزی سے پروان چڑھتا ہے اور وہ اپنے مولا کریم کو خوش کرنے کی کوششوں میں سرگرم ہوجاتے ہیں، اور ہمہ وقت دینِ اسلام اور حاملینِ اسلام کے لیے قربان ہوجانے کے جذبات لے کر ایک بار پھر کارگاہِ حیات میں مصروفِ عمل ہوکر آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
اللہ کریم کے اس اولوالعزم پیغمبر جناب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کی ضوفشانیوں سے فیض یاب ہونے کے لیے ابھی تک اردو زبان میں کوئی خاص مستند و جامع کتاب نہیں مل رہی تھی۔ اس موقع پر دارالابلاغ کو یہ سعادت حاصل ہورہی ہے کہ وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی پُرنور سیرت مستند انداز میں اہلِ پاکستان کے سامنے پیش کررہا ہے۔ اس کتاب میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے متعلق اٹھائے گئے کچھ اعتراضات و غلط فہمیوں کی تسلی و تشفی بھی کردی گئی ہے۔ یوں اس کتاب کی افادیت و اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ اس عالیشان تصنیف کے مصنف جناب مولانا رضی الاسلام ندوی جو کہ درجنوں تحقیقی کتب کے مصنف ہیں اور بہت بڑے اسکالر ہیں، کی اس کاوش کو قبول فرما کر جنتوں میں ان کے لیے محل بنائے، آمین۔ اور بندۂ ناچیز کے لیے بھی ثواب کا باعث بنائے۔ آمین یا رب العالمین‘‘۔
علامہ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی حفظہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ آپؑ کا تذکرہ قصص الانبیا اور قصص القرآن نامی کتابوں میں بھی ہے اور مستقل کتابیں بھی تصنیف کی گئی ہیں۔ مگر ان میں محض زمانی ترتیب سے آپ کی حیاتِ طیبہ کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ ملّتِ ابراہیمی اور اسوۂ ابراہیمی کے موضوعات کم ہی زیربحث آئے ہیں۔ اس سلسلے کی معلومات یکجا اور مربوط انداز میں نہیں ملتیں۔ زیر نظر کتاب انہی پہلوئوں کو نمایاں کرکے پیش کرنے کی ایک ادنیٰ کوشش ہے۔
کتاب کے ایک باب میں ملّتِ ابراہیمی پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ قرآنی بیانات کی روشنی میں اس کے عناصر کی نشان دہی کی گئی ہے۔ پھر اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ یہود و نصاریٰ نے ملّتِ ابراہیمی کے بعض عناصر کو فراموش کردیا تھا، اس موضوع سے مفصل بحث کی گئی ہے کہ اسلام میں ملّتِ ابراہیمی کے تمام عناصر باقی رکھے گئے ہیں۔ ایک باب میں قرآن میں مختلف مقامات پر مذکور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اوصاف و شمائل کو یکجا کیا گیا ہے، اور ان کی روشنی میں ’’اسوۂ ابراہیمی‘‘ کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک باب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت پر بعض قدیم و جدید اعتراضات کے تنقیدی جائزے کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ موضوع کی مناسبت سے شروع میں ایک باب ’’عہدِ ابراہیم علیہ السلام‘‘ پر، اور دوسرا ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ‘‘ پر شامل کیاگیا ہے۔
اس کتاب کا بیشتر حصہ سہ ماہی ’تحقیقاتِ اسلامی‘ علی گڑھ اور بعض دوسرے مجلات میں شائع ہوچکا ہے۔ میرے لیے باعثِ اطمینان امر یہ ہے کہ یہ پورا مسودہ میرے استاذ گرامی محترم مولانا سید جلال الدین عمری مدظلہ العالی صدر ادارۂ تحقیق و تصنیفِ اسلامی علی گڑھ کی نظر سے گزر چکا ہے اور ان کے قیمتی مشوروں کی روشنی میں مَیں نے اس میں ترمیم و اضافہ بھی کیا ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اس کتاب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کا محض تاریخی مطالعہ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اس میں آپ کی دعوت اور پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کی تالیف میں سب سے زیادہ استفادہ قرآن و حدیث سے کیا گیا ہے۔ بائبل، کتبِ تاریخ و سیرت اور کتب قصص الانبیا وغیرہ سے بھی ضروری حد تک فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ البتہ یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ان کتابوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جانب منسوب واقعات کا کوئی استناد نہیں ہے۔
دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو ملّتِ ابراہیمی کے اتباع اور راقم سطور کو خدمتِ دین کی سعادت بخشے۔ وماتوفیقی الاباللہ‘‘۔
کتاب سفید کاغذ پر خوب صورت طبع کی گئی ہے۔ مجلّد ہے، رنگین سرورق سے آراستہ ہے۔