کورونا وائرس ہوا کے ذریعے پھیل سکتا ہے، طبی ماہرین کا دعویٰ

۔30 سے زائد ممالک کے سیکڑوں سائنسدانوں نے عالمی ادارہ صحت پر زور دیا ہے کہ وہ نوول کورونا وائرس کے ہوا سے پھیلنے کے امکانات کو سنجیدگی سے لے کیونکہ کووڈ 19 کے کیسز دنیا بھر میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
239 سائنسدانوں کے دستخط سے جاری کھلے خط میں کہا گیا کہ ایسے شواہد سامنے آرہے ہیں کہ یہ وائرس ہوا کے ذریعے چار دیواری کے اندر پھیل سکتا ہے اور تنگ مقامات میں سابقہ اندازوں سے زیادہ متعدی ہوسکتا ہے۔ابھی کورونا وائرس سے تحفظ کے لیے سماجی دوری کے اقدامات، اکثر ہاتھ دھونے اور منہ یا ناک سے خارج ہونے والے ذرات سے بچنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، مگر اس خط میں سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ہوا کے ذریعے وائرس کے پھیلنے کے امکانات پر طبی اداروں جیسے ڈبلیو ایچ او کی جانب سے سنجیدگی سے کام نہیں کیا جارہا۔ان سائنسدانوں میں سے ایک میری لینڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈونلڈ ملٹن کا کہنا تھا کہ یہ کوئی راز نہیں مگر ایسا نظر آتا ہے کہ طبی ادارے وائرس کے ہوا سے پھیلنے کے بارے میں بات کرنے سے خوفزدہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہوا کے ذریعے اس کا پھیلاؤ ممکن ہوسکتا ہے، مگر لاتعداد بین الاقوامی اور مقامی طبی اداروں کی جانب سے توجہ ہاتھ دھونے، سماجی دوری برقرار رکھنے اور منہ یا ناک سے خارج ہونے والے ذرات سے بچاؤ پر دی جارہی ہے۔سائنسدانوں نے لکھا کہ عالمی ادارہ صحت سمیت دیگر طبی اداروں نے ہوا کے ذریعے وائرس کے پھیلاؤ کو شناخت نہیں کررہے، ہاتھوں کو دھونا اور سماجی دوری کے اقدامات مناسب ہیں، مگر ہماری نظر میں ہوا میں وائرس کے ننھے ذرات سے تحفظ کے لیے حوالے سے اقدامات ناکافی ہیں۔ڈونلڈ ملٹن کا کہنا تھا ‘ہمیں توقع ہے کہ عالمی ادارہ صحت آگے بڑھ کر ہوا سے پھیلنے والے ذرات کی اہمیت کو تسلیم کریں، چاہے وہ اسے ہوا سے پھیلنے والا قرار دیں یا نہ دیں.
انہوں نے کہا کہ ہمارا گروپ ائیربورن کے لفظ کی اہمیت کم کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کا استعمال لوگوں میں خوف نہ پھیلا سکے ‘وہ ہوا سے پھیلاؤ کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس سے لوگ خوفزدہ ہوسکتے ہیں.انہوں نے مزید کہا ‘خوف کے خلاف بہترین ویکسین علم اور لوگوں کے اندر اپنا خیال رکھنے کا شعور اجاگر کرنا ہے، میں چاہتا ہوں کہ لوگ سمجھیں کہ ہاتھوں کو دھونا کیوں ضروری ہے، فیس ماسک کا استعمال کیوں اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ اس سے ہوا میں موجود ذرات بلاک ہوتے ہیں۔یہ وائرس کسی متاثرہ فرد کے منہ اور ناک سے خارج ہونے والے ذرات میں موجود ہوتا ہے اور ان کا حجم مختلف ہوسکتا ہے، بڑے حجم کے ذرات سطح پر تیزی سے گرتے ہیں اور انگلیوں پر آسکتے ہیں جہاں سے وہ آنکھوں، ناک یا منہ کو چھونے پر جسم میں چلے جاتے ہیں، چھوٹے ذرات ہوا میں دیر تک موجود رہتے ہیں اور سانس کے ذریعے پھیپھڑوں کی گہرائی میں پہنچ جاتے ہیں۔سائنسدانوں نے اپنے خط میں لکھا ‘ایسا واضح امکان ہے کہ انتہائی ننھے ذرات مختصر سے درمیان فاصلے تک پھیل جاتے ہوں اور ہم ہوا سے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے حفاظتی تدابیر پر زور دیتے ہیں۔انہوں نے کہا ‘متعدد تحقیقی رپورٹس دریافت کیا گیا ہے کہ بات کرنے، کھانسی اور سانس لینے کے دوران خاراج ہونے والے انتہائی ننھے ذرات ہوا میں تیرتے رہتے ہیں اور ایک سے 2 میٹر سے دور بھی کسی کو متاثر کرسکتے ہیں.ان سائنسدانوں نے تحفظ کے لیے چند تجاوز بھی فراہم کیں یعنی سماجی دوری اور فیس ماسک کے استعمال کے ساتھ ساتھ عوامی عمارات میں ہوا کی آمد و رفت کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔زیادہ لوگوں کے اجتماع خصوصاً پبلک ٹرانسپورٹ اور عوامی عمارات سے گریز۔گھروں میں کھڑکیاں اور دروازے کھلے رکھنے کو ترجیح دی جائے۔

پاکستان میں آن لائن گیم پب جی پر پابندی

پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ملک میں مقبول آن لائن گیم پلیئر ان نون بیٹل گراؤنڈز (پب جی) پر عارضی پابندی عائد کردی ہے۔ پی ٹی اے کو اس گیم کے خلاف لاتعداد شکایات موصول ہوئی تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ یہ گیم اپنا عادی بنادیتا ہے، وقت کے ضیاع اور بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر سنگین منفی اثرات کا باعث بنتا ہے۔
پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ حالیہ رپورٹوں کے مطابق پب جی گیم کے حوالے سے خودکشی کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں، جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے بھی پی ٹی اے کو شکایت کرنے والوں سے بات کرکے اس معاملے کو دیکھنے اور فیصلہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ پی ٹی اے نے آن لائن گیم کے حوالے سے لوگوں کی رائے جاننے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور عوام کو 10 جولائی تک consulatation-pubg@pta.gov.pk پر رائے دینے کا کہا ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ ماہ کے دوران پب جی کھیلنے کے عادی تین نوجوانوں نے خودکشیاں کرلی تھیں۔
ایک واقعہ حال ہی میں پیش آیا، ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اٹھارہ سالہ شہریار کو چھت کے پنکھے سے لٹکا پایا گیا، اور اس کے پاس خودکشی کا ایک نوٹ بھی موجود تھا جس میں اس نے پلیئر ان نون بیٹل گراؤنڈ (پب جی) کو ’قاتل آن لائن گیم‘ قرار دیا تھا۔ کینٹ ڈویژن کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) فرقان بلال نے ڈان کو بتایا کہ لڑکے نے ایک نامعلوم لڑکی کو انتہائی قدم اٹھانے کے مناظر دکھانے کے لیے ویڈیو کال بھی کی تھی۔ ایس پی نے بتایا کہ لڑکا اپنے بھائی کے ساتھ پنجاب ہاؤسنگ سوسائٹی میں کرائے کے کوارٹر میں رہتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب لڑکے نے خودکشی کی اُس وقت اس کا بھائی گھر پر نہیں تھا۔ پولیس افسر نے کہا کہ پولیس نے فرانزک تجزیہ کرنے کے لیے اس کا مبینہ خودکشی کا نوٹ اور موبائل فون ضبط کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہریار کا بھائی ایک سیلزمین ہے اور پولیس اس لڑکی تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے جسے لڑکے نے خود کو پھانسی پر لٹکانے سے قبل ویڈیو کال کی تھی۔ ایس پی نے مزید کہا کہ ”ہم ایک دکان دار سے بھی تفتیش کریں گے جو پب جی گیم میں اس کا پارٹنر تھا“۔ مبینہ خودکشی کے نوٹ میں لڑکے نے اپنی موت کی ایک وجہ پب جی کو بتایا تھا اور اس نے غلطیاں کرنے پر دکان دار سے معافی مانگی تھی۔
آن لائن گیم پر پابندی کے لیے لاہور پولیس نے پہلے ہی انسپکٹر جنرل پولیس کے ذریعے اعلیٰ حکام کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (آپریشنز) اشفاق احمد خان کی سفارشات پر لاہور سٹی پولیس آفیسر نے اس سلسلے میں ایک خط بھی لکھا تھا۔ خیال رہے کہ چند ماہرین کے مطابق پب جی بچوں کی ذہنی صحت کو متاثر کررہا ہے۔ ان کے مطابق متعدد ممالک اسی طرح کی شکایات پر اس کھیل پر پابندی لگانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل ایک اور ’بلیو وہیل چیلنج‘ نامی آن لائن ’خودکشی پر ابھارنے والے گیم‘ کی اطلاع دی گئی تھی جس کے ذریعے نوجوانوں کو 50 روز کے لیے 50 ٹاسک دیے جاتے تھے۔