حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں سے ہم کلام ہونے کی قدرت رکھتے تھے۔ پرندوں نے جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو زبان دان اور محرمِ راز پایا تو انہوں نے اپنی چوں چوں ترک کی اور پیغمبرِ خدا کی صحبت اختیار کرلی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں کیا چرند کیا پرند، سبھی حکمت و دانائی کی باتیں کرتے۔
ایک دن دربار لگا ہوا تھا کہ معمول کے مطابق حاضرین، دربار میں اپنی اپنی زبان میں باتیں کررہے تھے۔ تجربے اور دانائی کی نہریں رواں تھیں۔ اس روز پرندے اپنی صفات اور ہنر بیان کررہے تھے۔ آخر میں ہُدہُد کی باری آئی، اس نے کہا: ’’اے علم و حکمت کے بادشاہ! مجھ میں ایک خوبی ہے جو عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ دانائوں نے کہا ہے کہ مختصر کلام ہی فائدہ مند ہوتا ہے۔ میں اڑتے ہوئے بلندی سے زیرِ زمین پانی کا اندازہ لگالیتا ہوں کہ کتنی گہرائی میں ہے۔ پانی کی خاصیت کیا ہے۔ زمین سے نکل رہا ہے یا پتھر سے رِس رہا ہے‘‘۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہُد ہُد کی اس خوبی کی بہت تعریف کی اور اجازت عطا فرمائی کہ ’’بے آب و گیاہ صحرائوں میں سفر کے دوران تُو ہمارے ہراول کے ساتھ رہا کر، تاکہ پانی کا کھوج لگاتا رہے‘‘۔
زاغ بدنیت نے جب سنا کہ ہُد ہُد کو ہراول میں شریک رہنے کا اعزاز عطا ہوا ہے تو مارے حسد کے انگاروں پر لوٹنے لگا۔ فوراً پیغمبرِ خدا علیہ السلام کے سامنے آکر کہنے لگا: ہُدہُد نے آپ علیہ السلام کے حضور سخت گستاخی کی ہے اور جھوٹا دعویٰ کیا ہے۔ اسے اس کذب بیانی کی سزا دی جائے۔ اس سے پوچھیے کہ تیری نظر ایسی تیز ہے کہ پاتال میں چھپے ہوئے پانی کی خبر دیتی ہے تو پھر تجھے زمین پر بچھا ہوا جال کیوں نہیں نظر آتا، جو شکاری تجھے پھانسنے کے لیے لگاتا ہے۔ ایسا ہنر رکھتا ہے تو جال میں گرفتار کیوں ہوجاتا ہے؟ آسمان کی بلندیوں سے وہ جال کیوں نہیں دیکھ لیتا؟‘‘ زاغ بدنیت (کوّے) کی بات سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہُدہُد سے کہا: ’’دعوے کی صداقت کا ثبوت پیش کر‘‘۔
ہُد ہُد نے بے خوف ہوکر عرض کیا: ’’اے بادشاہ سلامت! اگر میرا دعویٰ صحیح نہ ہو تو یہ گردن حاضر ہے۔ یہ صفت مجھے قدرت نے عطا کی ہے۔ جب قدرت ہی یہ صفت سلب کرلے، جب فرمانِ قضا و قدر جاری ہو اور میرا آخیر وقت آجائے تو نگاہ کی خوبی کیا کرے! ایسے موقع پر عقل کام نہیں کرتی، چاند سیاہ ہوجاتا ہے اور سورج گہن میں آجاتا ہے‘‘۔
درسِ حیات: اللہ تعالیٰ اپنی مصلحت کے مطابق تدبیروں کو توڑ دیتا ہے۔ قضا کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔
(Poetry,Poem)نظم
نظم ایک شعری اصطلاح ہے جس سے مراد پرونا، ترتیب، تشکیل، صنعت یا انتظام ہے۔ کسی بے ترتیب اور بکھرے ہوئے مواد کو موزوں اور مرتب شکل میں پیش کرنا نظم کہلاتا ہے، لیکن نظم کی یہ تعریف ایک اعتبار سے گمراہ کن رہے گی جب تک اس میں تخلیقیت، تخیل اور غنائیت کے عناصر کو شامل نہ کیا جائے۔ مشاہدے، یاد، جذبات، لفظی مصوری، تفکر اور صنعت کے عمل (Process) سے گزر کر ایک نیا اور خوب صورت پیکرِ الفاظ وجود پاتا ہے، شعری اصطلاح میں اس کا نام نظم ہے۔ گویا نظم وہ صنعت ہے جس میں روح پھونکنے والی طاقت ’’تخیل‘‘ ہے۔ نظم انسان کی وہبی اور فطری صلاحیت کی وہ معجز نمائی ہے جس کے عملی عناصر کو تلاش کرنا ناممکن ہے۔ ہم آسانی سے اسے تخلیق اور تخیل کی کارفرمائی کا نام دے سکتے ہیں جس میں زبان اور ہیئت ’’آلات‘‘ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ نظم کی تخلیقی صنعت کاری کے عناصر کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔
نظم شاعری کی بنیادی صنف ہے جو مختلف بندوں کو Stanzas کی صورت میں لکھے جانے سے تعلق رکھتی ہے۔ نظم کا شجرہ ہیئت اور موضوع میں تقسیم ہوکر مختلف صورتیں پیدا کرتا ہے۔ مسدس، مخمس، مثمن، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ، رباعی، قطعہ، ترکیب بند، ترجیع بند، نظمِ معرا، نظمِ آزاد، سانیٹ وغیرہ نظم کی مختلف قسمیں ہیں۔
عقل و حکمت
ایک پیاسا کوّا پانی کی جستجو میں پھرتا تھا۔ دیکھا کہ ایک گھڑا ہے، اس کے پیندے میں ذرا سا پانی ہے۔ ہرچند کوشش کی مگر چونچ پانی تک نہ پہنچی۔
کوّے کی سیانپت تو مشہور ہے۔ بہت سے کنکر پتھر گھڑے میں ڈالنے شروع کیے، یہاں تک کہ پانی اوپر آگیا اور اُس نے اپنی پیاس کی قدر پی لیا۔
حاصل: مشکل کام عقل و حکمت کے زور سے آسان ہوجاتا ہے۔
(نذیر احمد دہلوی۔منتخب الحکایات)
ہمسایہ
٭وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کا پڑوسی اس کی آفتوں سے محفوظ نہ ہو۔ (مسلم شریف)۔
٭وہ مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے۔(مشکوٰہ شریف)۔
٭تیرا پڑوسی غریب ہے، تیرے متعلقین حاجت مند ہیں، تیرے پاس ضرورت سے زیادہ مال ہے اور تجھ پر زکوٰۃ واجب ہے، اس پر بھی اُن کو کچھ نہ دینا درحقیقت یہی معنی رکھتا ہے کہ تُو ان کے افلاس پر خوش ہے اور یہی سب سے زیادہ ایمانی کمزوری ہے۔ (امام غزالیؒ)۔
٭ہمسائے سے ملنے والی تکلیفوں پر صبر کرنا بڑے حوصلے کا کام ہے، لیکن اس پر اجرِ عظیم ہے۔
٭موجودہ نظام میں دوسرے کی جیب خالی کیے بغیر کوئی شخص اپنی جیب نہیں بھر سکتا۔ (ٹالسٹائی)۔