لومڑی بولی: ’’بابا یہ مسخرہ پن نہ کر اور سچ سچ کہہ کہ تیرا یہ حال کیسے ہوا اور تیری دُم کیا ہوئی؟‘‘ گیدڑ بولا: ’’میں اس کی وضاحت کرچکا۔ اگر زیادہ بڑھ بڑھ کر بولوگی تو میں تمہیں بددعا دوں گا اور تم اچانک دھواں بن کر اڑ جائوگی‘‘۔
لومڑی بولی: ’’خیر، اس کا ہم سے کیا تعلق۔ تُو خود جانتا ہے کہ ہم تیرے مخلص بھی ہیں اور تجھ سے دعا کی درخواست بھی کرتے ہیں‘‘۔
رنگیلے گیدڑ نے دیکھا کہ معاملہ اچھا نبھا۔ اب وہ بھاگ جانے والے گیدڑ کے گھر گیا اور اپنی خود ساختہ داستان اسے سنائی اور بولا: ’’تم نے دیکھا، کہا تھا نا میں نے۔ میں جانتا تھا کہ ٹیلے میں شیر رہتا ہے، لیکن اللہ نے مجھ پر فضل فرمایا اور اب میں بڑا خوش ہوں کہ مجھ پر کسی کا فیض ہے اور میرا نام ’’گیدوس‘‘ ہے‘‘۔
بھگوڑے گیدڑ نے پوچھا: ’’گیدوس یعنی چہ؟‘‘
رنگیلے گیدڑ نے کہا: ’’یعنی وہ گیدڑ جو طائوس کی طرح ہے اور کسی کا فیض یافتہ ہے‘‘۔
بھگوڑا گیدڑ بولا: ’’عجیب بات ہے لیکن مجھے یقین نہیں آتا‘‘۔
رنگیلا گیدڑ بولا: ’’اپنی بات کہنے میں محتاط رہو۔ اگر آئندہ اس طرح کی جسارت کروگے تو میں تمہیں بددعا دوں گا اور اچانک تم دھویں میں تحلیل ہوکر فضا میں اڑ جائو گے‘‘۔
بھگوڑا گیدڑ ڈر گیا۔ بولا: ’’نہیں، میں جانتا ہوں کہ تم جو کہتے ہو سچ کہتے ہو۔ اب تم یہیں رہنا، میں دوسرے گیدڑوں کو اطلاع دیتا ہوں۔‘‘
اب گیدڑ جمع ہوئے۔ انہوں نے رنگیلے گیدڑ کو مبارک باد دی، اُس کو اُس کی بزرگی کے ساتھ قبول کرلیا اور بولے: ’’اب ہمیں کیا کرنا ہے؟‘‘
رنگیلا گیدڑ بولا: ’’تمہارا فرض یہ ہے کہ محتاط رہنا، کیوں کہ وہ جو انگوروں کا بڑا باغ تھا، اب میری ملکیت ہے اور کسی گیدڑ کو حق نہیں کہ وہ اس باغ میں قدم رکھے‘‘۔
گیدڑ بولے: ’’کیا یہ بات بھی کسی خضر جیسے نے کہی؟‘‘
رنگیلا بولا: ’’تم سب کی بھلائی اسی میں ہے۔‘‘
گیڈر بولے: ’’بہت خوب، اگر ایسا ہی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں‘‘۔
رنگیلا بولا: ’’ہاں، ایسا ہی ہے۔ اور ہاں ہر ہفتے ایک چاق چوبند اور موٹا تازہ مرغ میرے لیے لانا ہوگا‘‘۔
گیدڑ بولے: ’’بسرو چشم، کوئی اور فرمائش بھی ہے؟‘‘
رنگیلا بولا: ’’نہیں، مجھے اور کچھ نہیں کہنا، لیکن جو مرغ لائو اگر وہ موٹا ہو تو خود تمہارے لیے بہتر ہے‘‘۔
گیدڑ بولے: ’’اُس وقت تم ہمارے لیے کچھ نہیں کروگے؟‘‘
رنگیلا بولا: ’’کیوں نہیں۔ میں بھی تمہارا بھلا چاہتا رہوں گا، دعا کرتا رہوں گا‘‘۔
گیدڑ بولے: ’’کس طرح؟‘‘ وہ بولا: ’’اس طرح: خدایا، بارِ الٰہا ان گیدڑوں کو کتے کے شر سے محفوظ رکھنا۔ خدایا یہ کسی وقت بھی شکار گیر میں نہ پھنسیں۔ خدایا انگوروں کو میٹھا کردے۔ خدایا پرندوں اور مرغوں کو موٹا اور گوشتالو کردے اور ان گیدڑوں کو خوش بخت فرما‘‘۔
گیدڑ بولے: ’’بہت خوب۔ ہم سب خوش ہیں۔ ہم مرغے بھی لایا کریں گے اور بڑے باغ میں قدم بھی نہیں رکھیں گے۔ ہم بڑے خوش ہیں کہ گیدوس ہمارا سرور، ہمارا آقا ہے‘‘۔
جب گیدڑ باہر آگئے تو ایک گیدڑ بچہ بولا: ’’مجھے ان باتوں پر یقین نہیں۔ کیا حضرت خضر بے کار ہیں کہ آکر گیدڑ کو رنگ کریں اور اسے دعا یاد کرائیں؟‘‘
گیدڑ بولے: ’’خوب، لیکن ایک چیز ہے جو سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ رنگ اور یہ باتیں بے سبب نہیں‘‘۔
گیدڑ بچہ بولا: ’’ یہ رنگ بے سبب نہ سہی لیکن ان کا حضرت خضر سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ میرے خیال میں یہ باتیں اس کی خودساختہ ہیں‘‘۔
گیدڑ بولے: ’’اچھا اگر ایسا ہی ہے تو سبز، زرد اور سرخ رنگ کہاں سے آگئے؟ اور یہ کہ اس کی دُم کیا ہوئی؟‘‘
گیدڑ بچہ بولا: ’’مجھے کیا پتا۔ شاید اس کی دُم پھندے میں آگئی ہو۔ شاید اس نے رنگ ریز کی دکان پر خود کو رنگ کرلیا ہو!‘‘
گیدڑ بولے: ’’ رنگ ریز غافل تو نہ بیٹھا ہوگا کہ گیدڑ وہاں خود کو رنگ کرتا پھرے‘‘۔
گیدڑ بچہ بولا: ’’آخر یہ بات سوچنے کی ہے اور میرے لیے حیرت کا باعث ہے کہ اگر یہ واقعی طے تھا کہ کوئی نجات دہندہ کسی ایک حیوان کو نجات عطا کرے تو کیا حیوانوں کا قحط تھا؟ کیا یہ وہی بدفطرت گیدڑ نہیں کہ لوگوں کے انگوروں کو مسلتا اور خراب کرتا تھا؟‘‘
گیڈر بولے: ’’یہ ایک بھید ہے، اور کوئی کسی کو نہیں پہچانتا۔ ممکن ہے اس نے کوئی ایسا اچھا کام کیا ہو جس کے سبب یہ فیض اور نجات کا مستحق قرار پایا ہو‘‘۔
گیدڑ بچہ بولا: ’’تسلیم کرلیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوگا لیکن وہ شخص جس کی مرادیں برآتی ہوں، یہ آرزو کیوں نہیں کرتا کہ پرندے خود ہی اس کی طرف کھنچتے چلے آئیں۔ وہ تم سے پرندوں کی بھیک کیوں مانگتا ہے؟ اگر وہ سچا ہے تو ٹھیک ہے خود پرندوں کو بلائے اور کھائے‘‘۔
گیدڑ بولے: ’’ارے میاں! خاموش رہو، اسی میں ہماری عافیت ہے۔ اگر اس نے جھوٹ بولا ہے تو وہ خود اپنی جان کو مصیبت میں ڈالے گا‘‘۔
رنگیلے گیدڑ نے اسی نہج پر دو ہفتے تک مزے اور عیش کی زندگی گزاری۔ گیدڑ اس کے لیے کچھ پرندے بھی پھانس لائے۔ انگور کے باغ کے مالک کو بھی کوئی شکایت پیدا نہ ہوئی۔ وہ کہتا تھا: ’’جب سے یہ رنگیلا گیدڑ ظاہر ہوا ہے ہم دوسرے گیدڑوں کے شر و فساد سے محفوظ ہوگئے ہیں‘‘۔
لیکن ایک روز رنگیلا گیدڑ انگور کے باغ کے کنویں میں جاگرا اور قصہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
(ختم شد)