میڈیا، ثقافت اور خارجہ پالیسی

طارق جان
میں اس سوچ میں حق بجانب ہوں کہ اگر آپ کسی قوم کے سماجی نظام کے ثقافتی عنصر کو تبدیل کردیں تو انجامِ کار آپ اس کی خارجہ پالیسی بھی بدل کر رکھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں کام دو سطحوں پر ہورہا ہے: ایک تو نظری یا تصوراتی سطح ہے، جبکہ دوسری ثقافتی سطح ہے۔ اوّل الذکر سطح پر چند تصورات غالب ہیں، جن کا ہمارے صحافتی حلقوں میں تسلسل سے ذکر ہورہا ہے۔ مثلاً:
٭ہندوستان کی جگہ بھارت کے لفظ کا استعمال۔
٭ برصغیر ہند کے تصور کو سیاق و سباق کے طور پر استعمال کرنا۔
٭ایسی نقشہ نویسی جس میں پاکستان اور ہندوستان کو یکجا دکھاتے ہوئے ’’ہندو پاک نقشہ‘‘ کا سرنامہ دیا جاتا ہے۔
٭ آزادی کے بجائے تقسیمِ ہند کی ترکیب کا استعمال۔
٭سندھ اور گنگا کی تہذیبوں کو ایک ہی سلسلہ دکھانے پر زور۔
٭جغرافیائی اور تاریخی حقائق کو برصغیر کے چوکھٹے میں بیان کرنا۔
٭’’السلام علیکم‘‘ کی جگہ ’’آداب عرض‘‘ کی ترویج۔
٭بدترین حرکت یہ ہے کہ اسلام کو فرسودہ نظام بتایا جاتا ہے۔ اسلام کے مساواتِ انسانی کے پہلو کی تحسین، لیکن اسی سانس میں اس کے سماجی، معاشی اور سیاسی نظریات کو ازمنہ وسطیٰ کی وحشت قرار دینا۔
ہماری صحافت ماسوائے چند استثنائی مثالوں کے اس غلیظ مہم میں مسلسل جتی ہوئی ہے۔ قدروں کے حوالے سے ایک ایسی ثقافت پروان چڑھائی جارہی ہے، جو اجتماعِ ضدّین ہے، اور جو اپنی اصل میں شہوت و ہوس کا مرقع اور ہندی یورپی ثقافتوں کا مرکب ہے۔
اس صحافتی مہم پر مستزاد الیکٹرانک میڈیا کے اثرات ہیں۔ ابلاغ کا یہ ذریعہ چونکہ تاثر پذیری کا حامل اور ناظرین کے سامنے باربار محض امثالات (Imagery) لاتا ہے، اس لیے یہ ہمارے باطن کی صورت گری کرتا ہے۔ اس سے ہمارے جذبات اور میلانات کا رخ بدلتا ہے اور ہماری قوتِ متخیلہ دھندلاتی بلکہ مکدر ہوتی رہتی ہے۔
سماج اور نفسیات کے ماہرین کسی ذہن و سوچ کو منظم کرنا یا منتشر کرنا چاہیں، یا کسی کی بات اخذ کرنے کی اہلیت متاثر کرنا چاہیں تو معاملے کا سیاق و سباق اُن کا سب سے طاقتور آلہ ہوتا ہے۔ خیالات کی شدتِ تاثیر ایک مخصوص سیاق و سباق میں بڑھائی جاسکتی ہے۔ چنانچہ پاکستان کو برصغیر ہند میں رکھ کر دیکھنے کا مطلب ہے کہ اس کا تعارف ایک ایسے ملک کے طور پر ہو جو برصغیر ہند میں واقع اور اسی سے متعلق ہے۔ یہ ایک عیارانہ اور شاطرانہ مشق ہے، جو اس امرِ واقع پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے کہ پاکستان اور ہندوستان دو قطعی مختلف اقوام کے مسکن ہیں۔
اسی طرح ہندوستان کی جگہ بھارت نام استعمال کریں تو یہ 1947ء کی مابعد کی صورت حال کو ایک اور بَل دینے کے مترادف ہے۔ انڈیا کی جگہ بھارت کہیں تو یہ حال کی جغرافیائی اور سیاسی حقیقت سے صرف ِنظر کرتے ہوئے برصغیر ہند کو بطور جغرافیائی اکائی برقرار رکھنا ہے۔ مثلاً جب 1947ء میں تحریک ِآزادی کے نتیجے میں برطانوی ہند کی تقسیم ہوئی اور پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تو یہ اچانک کہیں خلا سے وجود میں نہیں آیا تھا، بلکہ برصغیر پر مسلمانوں کے کم و بیش ہزار سالہ دورِ حکمرانی کا جاری تسلسل ہے۔ آج ہمارا صحافتی حلقہ ہمیں باور کرا رہا ہے کہ جغرافیہ کی نفی نہیں ہونی چاہیے۔ اور یہ کہ برصغیر ہند ایک اکائی ہے۔ نیز یہ کہ 1947ء نے دو ممالک کو وجود میں آتے دیکھا جن میں سے ایک بھارت تھا اور دوسرا پاکستان۔ مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی مشکل پیش نہیں آرہی کہ یہ دراصل ہندوستانی ہیئت ِ مقتدرہ کا نظریہ ہے، جو ایک مخصوص ذہن بنانے کے لیے ہمارے پریس میں آموختے کی طرح دہرایا جارہا ہے۔
اسی طرح کسی پاکستانی مسئلے پر کلام کرتے ہوئے بعض مقالہ نگار روانی میں اس مسئلے کو برصغیر کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھنے لگتے ہیں۔ مثلاً پاکستان میں غربت کا سوال زیربحث ہو تو تمہید کچھ یوں باندھی جاتی ہے کہ غربت برصغیر کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ حالانکہ یہ قطعاً بے جوڑ موضوعِ گفتگو ہوتا ہے۔ اس تمہید کے بعد پاکستان میں غربت کی بحث چھیڑ دی جاتی ہے۔ لیکن یہ عمل بے سوچے سمجھے نہیں ہورہا، یہ ایک جانی بوجھی حرکت ہے جس کا مقصد قارئین کے ذہن میں کچھ مخصوص خیالات بٹھانا ہوتا ہے۔ ان کو یقین دلانا ہوتا ہے کہ وہ کسی آزاد اور مختلف پاکستان میں نہیں رہ رہے، بلکہ برصغیر ہند نامی سیاسی جغرافیائی حقیقت کا حصہ ہیں۔
ثقافتی سطح پر ’’السلام علیکم‘‘ کی جگہ ’’آداب عرض‘‘ کا رواج عام کیا جارہا ہے۔ تلک، جو خاص طور پر نسوانیت کا ہندی مذہبی نشان ہے، پاکستانی خواتین میں فیشن بنتا جارہا ہے۔ بالخصوص فلموں میں اس کی نمائش عام ہے اور سیکولر ذرائع ابلاغ اس کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ خواتین کی عریاں کمر بھی دوبارہ فیشن بن گئی ہے۔ یہ بات تو کسی کو یاد نہیں رہی کہ ساتر لباس کے معاملے میں اسلام کتنا حساس ہے۔ ثقافت کا ایک ملغوبہ تیار ہورہا ہے۔ فلموں اور ٹی وی ڈراموں کے کردار چند انگریزی الفاظ اپنے مکالموں میں عام استعمال کررہے ہیں: ’’تھینک یو‘‘، ’’سوری‘‘، ’’ایکسکیوزمی‘‘، ’’اوکے‘‘ وغیرہ ہماری علاقائی اور قومی زبانوں میں اب عام اور معروف الفاظ ہیں۔ لباس میں چند تبدیلیاں نمایاں نظر آتی ہیں جن میں دوپٹہ یا اوڑھنی سکڑتے سکڑتے دھجی بن چکی ہے۔ بلکہ بیشتر صورتوں میں یہ اب ہمارے نسوانی لباس کا جزو بھی نہیں رہا۔ نمود و نمائش، جو مادی ثقافتوں کی شان اور پہچان ہیں، ہماری خواتین کے طرزِ حیات میں در آئے ہیں۔ اوپر سے بات کھلے گلے اور سینہ سے شروع ہوئی، جبکہ نیچے سے روایتی شلوار کے پائنچے اٹھتے چلے گئے۔ لڑکیاں چست قمیص کے ساتھ تنگ جین (پتلون) میں نظر آنا شروع ہوگئی ہیں، جبکہ ’’بیوٹی پارلر‘‘ کے پھیرے عورتوں کی زندگی کا لازمی حصہ بنتے جارہے ہیں۔
سوچنے سمجھنے والوں کو یہ جان کر حیرت نہیں ہوگی کہ مافیا کے انداز میں ایک زیرزمین کلچر بھی ہے جس کا مطمح نظر ایک ظاہر دارانہ زندگی، اسراف و تبذیر، بازاری پن اور شراب و کباب سے عبارت ہے۔ اس ذوقِ اکل و شرب کے ساتھ ساتھ ایسے اخبارات اور صحافی بھی ہیں جو ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ یہ دونوں گروہ حدود قوانین کا خاتمہ چاہتے ہیں، حالانکہ ان قوانین کا ملک میں کہیں بھی اطلاق ہوتا نظر نہیں آیا۔ اس پر بھی یہ قانون لادینوں کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہا ہے۔ ایسے لوگ دو متضاد باتوں کو یکجا کرنا اپنا ایمان بنائے بیٹھے ہیں۔
ان حضرات کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ایک نظریاتی اور عقیدے پر مبنی ثقافت، کسی لذت پسند اور حِسّی ثقافت کے ساتھ مل کر کیا کوئی ایسا نامیاتی کُل بنا بھی سکتی ہے جس سے سوسائٹی میں بہتری آئے؟ انہیں کوئی کھٹکا نہیں کیونکہ طاقت اور اختیار کی باگیں ان کے ہاتھ میں ہیں۔ انگلش میڈیم اسکول ان کے گہوارے ہیں، اخباری اور الیکٹرانک میڈیا ان کے نقارچی، بیورو کریسی ان کے دست و بازو اور عام شہری ان کی بے مغز رعایا ہیں، جنہیں ہر مسئلے پر ابہام میں رکھا اور اُلّو بنایا جاسکتا ہے۔ وہ لوگ جو دستور کی اسلامی دفعات کا عملی نفاذ چاہتے ہیں، ان کے دشمن ہیں۔ مسلم امت ان کی نظر میں ایک من گھڑت لاشہ ہے۔ اسلام کو ایک فرسودہ نظریہ کہتے اور مُلاّ کی سازش بتاتے ہیں۔ طاقت کے ایک ہیکل کے طور پر مسلمان ممالک کا بلاک ان کے خیال میں ایک جنونی تصور ہے کہ جس کا مضحکہ اڑایا جائے۔ یہ ہیں اس بھونڈے امتزاج کے اثرات و نتائج۔ اگر اسی ڈھنگ کے لوگ ہماری سوسائٹی پر حاوی رہے تو ملک کی خارجہ پالیسی کا کچھ بھی حشر ہوسکتا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کی تاثر پسندانہ نوعیت مسئلے کو اور بھی زیادہ گمبھیر بنارہی ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ابلاغ کا یہ ذریعہ ایک ایسا پیکر تخلیق کرتا ہے، جو اپنی ساخت میں قومی کم اور بین الاقوامی زیادہ ہے۔ اس سے ناظرین کا زاویہ نظر عالمی پردیسی رنگ لیتا جارہا ہے۔ یہ ہماری اپنی سوچ اور فکر کی ٹوٹ پھوٹ کا وہ عمل ہے جو اس وسیع پیمانے پر اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ چونکہ یہ سارا عمل بہت عیارانہ ہے، اس لیے بظاہر کسی کو تشویش لاحق نہیں ہورہی۔ کیونکہ اصل پیغام کو تفریحی پروگراموں میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔
(”سیکولر ازم۔۔۔ مباحث و مغالطے“)

بیادِ مجلس اقبال

وہی جہاں ہے ترا، جس کو تُو کرے پیدا
یہ سنگ و خشت نہیں، جو تری نگاہ میں ہے

علامہ اقبال معرفت ِ خودی کا پیغام دے کر ہر انسان کو درس دیتے ہیں کہ اپنے افکار و عمل کی روشنی میں جدوجہد کرکے اپنا جہان خود پیدا کرو۔ اسی معنی میں علامہ کا مشہور شعر ذہن میں لایئے: ’’اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے۔ سرِ آدم ہے ضمیر کُن فکاں ہے زندگی‘‘۔ اپنے جہان یا اپنی دنیا کی تخلیق ہی تمہاری زندگی کا ثبوت ہے۔