مسلمانوں کی زندگی کا مقصد

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔’’جس وقت تم میں سے کوئی ایک غصے میں ہو، اگر وہ کھڑا ہے بیٹھ جائے، اور اگر غصہ جاتا رہے اچھا ہے، وگرنہ لیٹ جائے‘‘۔ (احمد، ترمذی)۔

۔”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہ ظالم ہوں گے۔ اے نبی کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جدوجہد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کریں، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ (التوبہ:23۔24)
سورۃ التوبہ کی یہ دو آیتیں اپنے معانی میں جس قدر صاف، واضح اور متعین ہیں، مفہوم کے اعتبار سے بھی اسی قدر دل نشین، فیصلہ کن اور انقلابی ہیں۔
ان میں یہ تعلیم ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد اور نصب العین اعلائے کلمۃ اللہ کے سوا کچھ اور نہیں ہونا چاہیے… یہ کام محبت سے کیا جائے، چاہے تبلیغِ دین سے، چاہے سعی وجہد کے دوسرے ذرائع سے، چاہے حرب و ضرب اور قتال سے۔۔۔ مگر ہونا اور ہوتے رہنا چاہیے۔ اور ایک مسلمان کو اسی مقصد کے لیے جینا اور اسی مقصد کے لیے مرنا چاہیے۔
یہ آیات اس حقیقت کا واضح طور پر تعین کرتی ہیں کہ جب کافر و مشرک کے بجائے کسی مسلمان کے گھر میں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی پیدائش میں قدرت کا یہ راز پوشیدہ ہوتا ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا ایک نیا سپاہی آیا ہے۔۔۔ لڑکا، لڑکی۔ چنانچہ جنم سے لے کر جوانی تک پرورش کرنے والے والدین اور جنم پاکر جوانی تک پہنچنے والے مرد اور عورت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے مقصد ِ وجود کو سمجھے اور زندگی کے نصب العین کو جانے اور پہچانے۔ اور ماحول کا یہ فریضہ ہوتا ہے کہ اس حقیقت تک لے جانے میں اس کا معین و مددگار ہو۔ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا۔
ان آیات کے مطابق ایک مسلمان کے ایمان کی بنیاد یہ ہے کہ اگر اس نے دین کو اتفاقی یا حادثاتی یا محض مسلمان گھرانے میں پیدا ہوجانے کی وجہ سے غیر شعوری طور پر قبول نہیں کیا ہے بلکہ شعور و احساس کے ساتھ قبول کیا ہے… اور اس کے ماں باپ اور عزیز و اقارب ایمان کے بجائے کفر پر قائم ہیں، یا کافرانہ عمل پر مُصر ہیں تو ایک مسلمان کے اپنے ان کفر پسند عزیزوں کے ساتھ گہرے، قلبی دوستانہ اور رفیقانہ تعلقات نہیں ہوں گے، اور نہ ہونے چاہئیں۔ البتہ عام انسانی حقوق اور آداب میں حسنِ سلوک کا رویہ رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
دوسری بات جو واضح ہے وہ یہ کہ ایک مسلمان کے نزدیک اوّل و آخر اللہ کے مشن کی تکمیل، یا اس تکمیل کے لیے جان کی بازی تک لگا دینا ہی ہونا چاہیے۔ اس راہ میں دنیا اور اس کی وجاہتوں، ماں باپ اور اولاد کی محبتوں کو حائل نہیں ہونا چاہیے۔ رشتے داریاں اور خاندانی تعلقات اپنی جگہ، لیکن مقصد اور نصب العین ہی کو ہرحال میں اوّلیت حاصل ہونی چاہیے۔ تجارت و زراعت، سامانِ عیش و راحت اور مال و متاع میں کمی و نقصان کا خوف و خطرہ اس کام سے باز رکھنے نہ پائے۔ بلکہ اس مقصد کے حصول کے لیے جان بھی دے دینی پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہیے، ورنہ ان کا شمار ظالموں اور فاسقوں میں ہوجائے گا۔
تیسری بات یہ کہ جب کبھی اور جہاں کہیں مسلمان بحیثیت قوم ظالمانہ اور فاسقانہ رویّے کے حامل ہوجائیں تو سمجھ لیں کہ ان کا وجود ناکارہ اور اصل حیثیت گم ہوچکی ہے اور کسی بھی وقت کوئی خدائی فیصلہ ان کے خلاف صادر ہوسکتا ہے۔ اللھم حفظنا۔
چہارم یہ کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ کفار و مشرکوں کو تو تادیر سنبھلنے اور بدلنے کی مہلت مل سکتی ہے لیکن ’’مومن نما‘‘ بداعمال لوگوں کو عزت و سلامتی کے مقام پر فائز نہیں رکھا جاسکتا۔
یہ حقیقت تو ہر شخص کی سمجھ میں آجانے والی ہے کہ باغ میں مالی اسی لیے رکھا جاتا ہے کہ وہ پھول اور پودوں کی دیکھ بھال اور ان کی آبیاری کرے۔ اگر وہ یہی کام نہ کرے تو مالک اس کو کب تک گوارا کرتا رہے گا! آخر ایک نہ ایک دن اس کی چھٹی ہونی ہے، سو ہوجائے گی۔
اسی حقیقت کو سورۃ التوبہ کی آیت 38 اور 39 میں زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا، ارشاد ہے۔ ’’مسلمانو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سرو سامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا‘‘۔
یعنی آج جس وجہ سے اور جن چیزوں میں پڑ کر مقصدِ زندگی اور نظریہ حیات کو فراموش کربیٹھے ہو، کل یہ چیزیں تمہارے پچھتاوے کا سبب بن جائیں گی اور دنیا میں بھی سزا کے مستحق ٹھیرو گے۔ ’’تم نہ اٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا، اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا‘‘۔ یہ صاف اعلان ہے کہ جب اور جس وقت راہِ خدا میں جہاد کے لیے نفیر عام ہوجائے جو تمہارے مقصد ِ حیات کے عین مطابق ہے، تو پھر تم کو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر میدانِ کارزار کی طرف نکل آنا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں کرو گے اور اپنے مقصد، عظیم کے لیے نہیں اٹھو گے تو پھر خدا کو تمہاری ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔ خدا کا کام کچھ تم پر منحصر نہیں ہے کہ تم کرو گے تو ہوگا، ورنہ نہ ہوگا۔ درحقیقت یہ تو خدا کا فضل و احسان ہے کہ وہ تمہیں اپنے دین کی خدمت کا زریں موقع دے رہا ہے۔ اگر تم اپنی نادانی سے اس موقع کو کھو دوگے تو خدا کسی اور قوم کو اس کی توفیق بخش دے گا اور تم نامراد رہ جائو گے۔ ’’اور تم خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔ اس دھمکی اور تنبیہ کو سورہ محمدؐ کی آخری آیت میں دہرایا گیا ہے: ’’مسلمانو! اگر تم راہِ حق میں مال خرچ کرنے اور جان لڑانے سے جی چرائو گے اور منہ موڑوگے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا، اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان اس عظیم حادثے سے گزر چکے ہیں۔ 1099ء میں صلیبیوں کے سیلاب نے مسلمانوں کو تاخت و تاراج کیا۔ شام کے ساحلی علاقے برباد ہوئے۔ یروشلم ہاتھ سے گیا۔ مسجد اقصیٰ کی حرمت بھی پامال ہوئی اور لاکھوں مسلمان تہِ تیغ ہوئے۔ اور اس حادثے سے مسلمان ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ تاتاریوں کا سیلاب آیا جس کے دوران کروڑوں مسلمان قتل ہوئے۔ یہاں تک کہ 1208ء میں بغداد کی تباہی کے ساتھ خلافتِ عباسیہ کا چراغ بھی ہمیشہ کے لیے گل ہوگیا۔ پھر سورہ محمدؐ کی اس آخری آیت کے مطابق کہ مسلمانو اگر تم راہِ حق میں مال خرچ اور جان لڑانے سے جی چرائوگے اور منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے… کے عین مطابق انہی تاتاریوں کو نہ صرف یہ کہ اسلام کی توفیق دے دی، بلکہ عالم اسلام کی قیادت بھی انہی کے حوالے کردی۔ اس طرح بقول علامہ اقبال

ہے عیاں فتنہ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

انہی تاتاری، سلجوتی… ترکاں صفوی، تیموری اور عثمانیوں کے ذریعے مسلمانوں کو وہ اقبال مندی حاصل ہوئی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ پورے جنوبی ایشیا، شمالی افریقہ اور مشرقی یورپ تک زیرنگیں آگئے۔
اسلام رہا۔ اسلام نے ترقی کی۔ اللہ کی کبریائی قائم رہی۔ قرآن قائم ہوا، سنتِ رسولؐ قائم ہوئی… البتہ وہ مسلمان نہ رہے جو خدا فراموش بن کر خود فراموش بن گئے تھے۔
(52 دروس قرآن، انقلابی کتاب، حصہ دوئم)