سید منورحسنؒ مدبر سیاست دان،باعمل انسان، جرأت مند قائد

مدبر سیاست دان، باعمل انسان اور جرأت مند قائد سید منورحسن بھی دائیں ہاتھ میں اپنا نامۂ اعمال تھامے اور آنکھوں میں عجزو نیاز کے آنسو لیے ایک سرخرو بندۂ عاجز کے طور پر اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے ہیں۔ نفاست، وضع داری، عاجزی، جرأت، عبادت گزاری، استقامت، تدبر، علمی گہرائی، حالات پر نظر، مقصد سے عشق کی حد تک لگن اور کردار میں قرونِ اولیٰ کی مثال سید والا تبار ایک فرد اور ادارہ نہیں ایک چلتی پھرتی اکیڈمی اور تربیتی انسٹی ٹیوشن تھے۔ جو ان سے چھو کر گزر جاتا، پارس ہوجاتا۔ جو ساتھ رہتا، کندن بن جاتا۔ جو مخالف تھے وہ دانتوں میں انگلیاں دبائے گھنٹوں سوچتے کہ اتنا عاجز و منکسر بندہ اس قدر حوصلے اور جرأت کا حامل کیسے ہے! جو تقریر سنتا، گھنٹوں سر دھنتا۔ جو تحریر پڑھتا، برسوں یاد رکھتا۔ جو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا، عش عش کر اٹھتا۔ اور جو کام کرتے ہوئے پاتا، حیران و پریشان ہوجاتاکہ ایسا قلاش شخص اتنا اچھا منتظم کیسے ہے اور اپنے وقت کا اتنا اعلیٰ استعمال کیسے کرتا ہے! ۔
یہ 1970ء کی دہائی کا کوئی سال تھا، اسلامی جمعیت طلبہ لاہور نے اسلامیہ کالج کینٹ میں تین روزہ تربیت گاہ کا انتظام کیا، جس کے منتظمین محترم سمیع اللہ بٹ اور جنٹلمین بسم اللہ اور جنٹلمین الحمدللہ والے اشفاق حسین تھے، جبکہ شرکاء میں جاوید ہاشمی، احمد بلال محبوب، اکمل جاوید اور ڈاکٹر اعجاز شامل تھے۔ پروگرام کے دوسرے روز سید منورحسن کو درسِ قرآن دینا تھا۔ وہ ایئرپورٹ سے سیدھے تربیت گاہ پہنچے تھے۔ سفید ململ کے کرتے، کھلے پائنچے کے پاجامے، سر پر سفید کلف لگی ٹوپی اور چہرے پر سجی چھوٹی چھوٹی داڑھی کے ساتھ انہوں نے درس شروع کیا تو محفل پر ایک سحر طاری ہوگیا۔ وہ ٹھیر ٹھیر کر قرآن اس طرح پڑھتے کہ دلوں پر اترتا ہوا محسوس ہوتا۔ ابتدا میں وہ لمبا توقف کرتے مگر پھر بے تکان بولتے چلے گئے۔ عربی اور اردو کے ساتھ انگریزی زبان پر ان کی دسترس بہت جلد واضح ہوگئی۔ بر موقع مصرعوں کے استعمال سے ان کے اعلیٰ ذوق کا اندازہ بھی ہورہا تھا۔ سوالوں کے وقفے میں ان کی علمی وجاہت، موضوع پر گرفت اور جواب دینے کے سلیقے اور شائستگی نے مجھ سمیت سب کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ ان کی تقریر میں ایک عجیب نغمگی تھی (بہت بعد میں معلوم ہوا کہ وہ موسیقی کے اسرارو رموز سے بھی آشنا تھے اور ہمارے ایک مرحوم ترقی پسند دوست تو انھیں علم موسیقی کا عالم گردانتے تھے)۔ یہ میری اُن سے پہلی ملاقات یا آمنا سامنا تھا جس میں مَیں ان کی شخصیت کے سحر میں اس قدر کھو گیا تھا کہ آگے بڑھ کر مصافحہ بھی نہ کرسکا تھا۔
اس کے بعد اسلامی جمعیت طلبہ کے پروگراموں اور جماعت اسلامی کی تقریبات میں بار بار ان سے ملاقات کا موقع ملا۔ بطور صحافی بھی گفتگو کے مواقع میسر آئے، لیکن ان سے پہلی ملاقات کا سحر آج بھی ذہن پر نقش ہے۔ ان سے آخری ون ٹو ون ملاقات دارالضیافہ منصورہ میں ہوئی، جب وہ جماعت کی امارت سے فراغت پا چکے تھے۔ دراصل کبھی منصورہ یا پریس کلب میں ان سے مختصر سی ملاقات ہوتی اور میں عقیدت سے سلام کرتا تو وہ روایتی انداز میں کہتے: بھئی کسی وقت آئیے گا… یہ ان کی محبت کا ایک انداز تھا۔ یہ جملہ وہ مجھے کئی بار کہہ چکے تھے۔ جس روز سراج الحق صاحب نے بطور امیر جماعت حلف اٹھایا، جامع مسجد منصورہ میں نمازِ مغرب کے بعد سرِراہ ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنا یہی جملہ ذرا مختلف انداز میں پھر دہرایاکہ ’’بھئی اب تو آجائے نا‘‘… میں نے عرض کیا کہ ’’آپ کا وقت بہت قیمتی ہے اس لیے گریز کرتا ہوں‘‘۔ کہنے لگے ’’آپ کو ملاقات کے لیے کتنا وقت چاہیے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’میرے لیے تو آپ کے ساتھ پانچ منٹ کی ملاقات بھی سعادت ہے‘‘۔ مسکرا کر کہنے لگے ’’اسے چار منٹ کرلیجیے‘‘۔ میں نے بخوشی ہامی بھر لی۔ گھر آکر یہ سوچتے ہوئے کہ منور صاحب کے یہ چار منٹ بھی بچا لینا زیادہ اچھا ہے، میں نے انھیں ایک خط لکھ دیا کہ میں آپ کی زیارت اور مصافحہ کرکے ثواب کما لیتا ہوں، اس سے زیادہ کی کوئی خواہش بھی نہیں ہے، آپ کے یہ چار منٹ بہت قیمتی ہیں اس لیے انہیں کسی اچھے کام میں صرف کرلیجیے، مجھے خوشی اور ثواب ہوگا۔
چند روز بعد میں یونیورسٹی آ ف گجرات میں ایک میڈیا ورکشاپ میں شریک تھا کہ منور صاحب کے سیکرٹری جناب ابرار صاحب کا فون آگیا کہ آج شام کو منور صاحب سے ملاقات کرلیں ۔ یہ وہی دن تھا جس دن حامد میر پر کراچی میں حملہ ہوا تھا۔ میں نے بتایا کہ میں کل تک گجرات میں مصروف ہوں، اس کے بعد حاضر ہوسکتا ہوں۔ لاہور پہنچا تو شاید اگلے ہی روز ابرار صاحب نے یاددہانی کرادی اور بعد نمازِ عصر ملاقات کا وقت طے کردیا۔ میں احترام اور عقیدت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ مقررہ وقت پر دارالضیافہ پہنچ گیا۔ منور صاحب چند منٹ بعد آئے۔ پوچھا ’’کب آئے؟‘‘ میں نے بتایا ’’مقررہ وقت پر‘‘… کہا ’’آپ وقت کے بہت پابند لگتے ہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’آپ سے عقیدت اور احترام کا یہی تقاضا تھا‘‘۔ میں نے پوچھا ’’ہمارے پاس کتنا وقت ہے؟‘‘ مسکرا کر کہنے لگے ’’ابھی کافی وقت ہے‘‘۔ میرے بچوں کے بارے میں تفصیل سے پوچھا، ان کی تعلیم پر بات کی۔ گفتگو شروع ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ان کے امیر جماعت منتخب ہونے سے پہلے کے امارت کے انتخاب میں مجلسِ شوریٰ نے جو تین نام تجویز کیے تھے ان میں ان کا نام بھی شامل تھا۔ یہ خبر شائع ہونے کے بعد حامد میر کا فون آیا کہ وہ ملنا چاہتے ہیں اور یہ کہ کہیں تو میں لاہور آجاؤں۔ اگر آپ اسلام آباد آنے والے ہوں تو وہاں مل لیتے ہیں۔ منور صاحب نے انہیں بتایا کہ وہ اگلے روز اسلام آباد آرہے ہیں۔ چنانچہ اگلے روز ملاقات ہوئی تو حامد میر نے بتایا کہ فوج کے اعلیٰ حلقوں سے انہیں معلوم ہوا ہے کہ شوریٰ کے تجویر کردہ ناموں میں پہلے نمبر والے جماعت کے رہنما امیر منتخب ہوجائیں تو ٹھیک۔ دوسرے نمبر والے بھی قابلِ قبول ہیں مگر منور حسن ہارڈ لائنر ہیں۔ یہ کہہ کر منور صاحب نے گیند میری جانب اچھال دی کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ میں نے کہہ دیا کہ میری نظر میں وہ آپ کو خبر دینے نہیں پیغام دینے آئے تھے۔ منور صاحب کے تاثر سے لگا کہ وہ میری رائے کو کچھ وزن دے رہے ہیں۔ اسی ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ سلیم صافی کے متنازع انٹرویو کے بعد بعض عسکری افسران ملاقات کے لیے کراچی میں ان کی رہائش گاہ تشریف لائے اور تجویز دی کہ تنازع مناسب نہیں، اگر آپ اپنا بیان واپس لے لیں تو یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوسکتا ہے۔ جس پر منور صاحب کا جواب تھا کہ یہ تنازع اس سے بھی زیادہ آسانی سے حل ہوسکتا ہے اگر اپنا بیان واپس لے لیں۔ یہ بات انہوں نے بالکل عمومی انداز میں اور انتہائی سادگی سے بتائی، اور مجھے اندازہ ہوا کہ کوئی فقیر منش شخص ہی ایسا مدبرانہ اور جرأت مندانہ جواب دے سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بعض معاملات پر اُس وقت ڈٹے رہے جب سب سپر ڈال چکے تھے۔
ان کی عظمتِ کردار کا یہ عالم تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ دور کے گورنر شام محمد بن عروہ کی طرح جو جس اونٹ پر شام پہنچے تھے دورِ گورنری مکمل ہونے پر اسی پر سوار ہوکر واپس مدینہ لوٹ گئے۔ سید منور حسن بھی منصورہ جس سوٹ کیس کے ساتھ آئے تھے اسی کے ساتھ واپس کراچی لوٹ گئے۔ اپنے بیٹے اور بیٹی کی شادی میں لوگوں کو تحائف لانے سے منع کردیا۔ اس سادہ سی تقریب میں جو لوگ تحائف لے آئے وہ تمام جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرا دیئے۔ ان کا واحد اثاثہ شادمان ٹائون کراچی کا 100 گز کا وہ گھر تھا جو ان کی اہلیہ کے نام ہے۔ جبکہ اپنے معاملات چلانے کے لیے وہ اکثر مقروض رہتے۔
منور حسن میں نفاست ایسی تھی کہ وضو کرکے نکلتے تو کپڑوں پر ایک چھینٹ نہ ہوتی۔ مسجد میں سب سے پہلے پہنچتے اور اس خشوع و خضوع سے نماز ادا کرتے کہ لوگ رشک کرتے۔ وضع داری کا یہ حال کہ جمعیت و جماعت کے کارکنوں کے علاوہ دیگر جماعتوں کے کارکنان سے بھی پوری اپنائیت کے ساتھ ملتے۔ دینی، سیاسی، تحریکی اور سماجی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے ایسے ایسے نکات نکال لیتے کہ عقل دنگ رہ جاتی۔ گفتگو کی اس خوبی اور وسیع مطالعہ نے انھیں ہمیشہ اپنے حلقوں میں نمایاں رکھا، لیکن اطاعتِ نظم کے ایسے پابند تھے کہ قاضی حسین احمد کے ساتھ سیکرٹری جنرل ہوتے ہوئے ہمیشہ انہیں آگے رکھتے اور خود میڈیا اور تشہیر کے دوسرے لوازم سے دامن بچانے میں مصروف رہتے۔
سید منور حسن کی شخصیت کا ایک خاصہ ان کی بزلہ سنجی تھی۔ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے برجستہ جملوں سے محفل کو ہلکا پھلکا کردیتے تھے۔ بائیں بازو کے معروف صحافی زبیر رانا مرحوم نے ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا، جناب امیرالعظیم کے ذریعے ملاقات طے ہوگئی۔ زبیر رانا تو نہ پہنچ سکے مگر ہمیں منور صاحب سے استفادہ کا موقع مل گیا۔ اس ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ اسی ہوٹل میں حسین حقانی سے کچھ عرصہ قبل ملاقات ہوئی تو حسین حقانی کہنے لگے: منور صاحب 1970ء کی دہائی اور آپ کی انتخابی مہم کے دوران ہم لوگ جو کچھ کرتے تھے کیا اب اس پر شرمندگی سی نہیں ہوتی؟ منور صاحب نے برجستہ جواب دیا: میاں خاطر جمع رکھو، جوکچھ اب کررہے ہو اس پر کچھ عرصے بعد زیادہ شرمندہ ہوگے۔
ایک ایسا شخص جس کی مقبولیت کا یہ عالم ہو کہ ایک زمانے میں پورا کراچی ’’صبح منور، شام منور… روشن تیرا نام منور‘‘ کے نعروں سے گونجتا ہو، اس کے عاجزانہ مزاج اور درویشانہ بے نیازی کا یہ حال تھا کہ 1977ء کے انتخابات میں وہ پیپلزپارٹی کے جمیل الدین عالی کو ہرا کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور ان انتخابات میں انہوں نے ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے، مگر یہ انتخاب جیتنے اور ریکارڈ ووٹ لینے کا انہوں نے زندگی بھر کبھی تذکرہ نہیں کیا۔ انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کو بہترین طریقے سے چلایا اور جماعت اسلامی میں بنیادی اہمیت کے حامل اقدامات کیے۔ اپنی امارت کے دوران انہوں نے چوکے چھکے تو نہ لگائے مگر وکٹ پر مضبوطی سے جمے رہے اور ایک اننگز مکمل کرکے اپنے واحد اٹیچی کیس کے ساتھ واپس اپنے 100 گز کے گھر چلے گئے۔ وہ میڈیا سے مرعوب ہونے والے رہنما نہیں تھے۔ چنانچہ میڈیا انہیں بار بار متنازع بناتا رہا۔ وہ اپنے رب کے حضور پیش ہوچکے اور باقی سب کو پیش ہونا ہے۔ انہوں نے جن سوالات کو اٹھایا تھا جن پر انہیں متنازع بنایا گیا، کیا ان کے جوابات آ چکے ہیں؟ اور اگر نہیں آئے تو کیا پوری قوم اور پوری ملتِ اسلامیہ کے ذمے ان سوالات کے جوابات اب بھی قرض نہیں ہیں؟ اللہ پاک اس نفیس، درویش منش اور جرأت مند رہنما کی قبر کو نور سے بھر دے جس نے مرتے دم تک اقامتِ دین کا جھنڈا اٹھا ئے رکھا اور تندیِ بادِ مخالف سے گھبرانے کے بجائے دھیمے قدموں کے ساتھ منزل کی جانب بڑھتا رہا۔ ان کے جانے سے قحط الرجال کے سائے مزید گہرے ہوگئے ہیںکہ بقول اقبال: ۔

ملّا کی شریعت میں فقط مستیِ گفتار
صوفی کی طریقت ہے فقط مستیِ احوال
شاعر کی نوا مُردہ و افسردہ و بے ذوق
افکار میں سرمست، نہ خوابیدہ نہ بیدار
وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کی رگ و پے میں فقط مستیِ کردار