مردِ حق، مردِ قلندر ۔سید منورحسن ؒ۔

نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان

مخدومی، سیدی، مربی و محسن سید منورحسن داعیِ حق کو لبیک کہہ گئے۔ شاندار اور کامیاب زندگی والے، نفسِ مطمئنہ سید منورحسن دنیا سے رخصت ہوگئے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ سابق امیر جماعت اسلامی سید منورحسن نے پاکیزہ، غلبہ دین کی جدوجہد کی زندگی گزاری۔ وہ نہایت پاکباز انسان تھے، اُن کی نماز، عبادات، تقویٰ اور فقر بے مثال تھا، اذان ہوتے ہی بلکہ پہلے مسجد کی طرف جانا اور سب سے آخر میں باہر آنا ہمیشہ کا معمول تھا، ہمیشہ نماز میں تکبیر اولیٰ کے حصول کے لیے بے قرار رہنا اُن کی طبیعت کا خاصا تھا۔ پاکستان، دینی و سیاسی محاذ ایک دیانت دار، جری اور بہادر قیادت سے محروم ہوگیا۔ وہ ہم جیسے لاکھوں افراد کے مربی، محسن رہنما اور تین نسلوں کو راہِ حق دکھانے والے تھے۔
سید منورحسن نے اتحادِ امت، اقامتِ دین، دفاعِ پاکستان کے محاذ، کشمیر، افغانستان، مشرقی پاکستان کی حفاظت کے لیے شمشیر بے نیام کا کردار ادا کیا۔ مشرقی پاکستان کو جدا کرنے کی اندرونی نااہلیوں اور بیرونی سازشوں کا مرحلہ تھا، افغانستان پر روس کے قبضے کے خلاف جہاد کا میدان درپیش ہوا، پھر کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضے اور بھارتی ظلم و جبر کی داستان کا آغاز ہوا تو سید منورحسن ہر مرحلے، ہر موڑ پر حق اور سچ کی آواز بن کر پوری استقامت سے کھڑے ہوگئے۔ امریکہ نائن الیون کی آڑ میں افغانستان پر قابض ہوا اور خطے میں مداخلت کا آغاز ہوا تو انہوں نے ”گوامریکہ گو“ تحریک کے ذریعے مجاہدانہ کردار ادا کیا۔ ریاست پاکستان کو امریکی عزائم کے سامنے جنرل پرویز مشرف نے سرنڈر کردیا تو سید منورحسن نے ڈنکے کی چوٹ پر حق اور سچ کا عَلم بلند کیا۔
سید منورحسنؒ اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کی فکری، نظریاتی، انقلابی سیاست کے امین تھے۔ لاتعداد جلسوں، تحریکوں، تربیت گاہوں، مذاکروں، تنظیمی اجلاسوں کے ذریعے کارکنان میں دعوت، جنت کی طلب اور راہِ حق میں استقامت، ایثار و قربانی کے جذبے پیدا کیے۔ انہوں نے مارشل لاؤں کے خلاف، فوجی آمروں کا مقابلہ کیا اورجمہوریت کی بحالی کے لیے لازوال کردار ادا کیا۔ 1970ء کے انتخابات میں اُن کے جوہر ابھرے اور پھر بھٹو کے آمرانہ اسلوبِ حکمرانی کے خلاف نظام مصطفیٰ تحریک، تحریک تحفظِ ختمِ نبوت، نفاذِ شریعت، ملّی یکجہتی کونسل، متحدہ مجلس عمل، دفاعِ پاکستان کونسل میں بڑا ہی جاندار قائدانہ کردار ادا کیا۔ تمام قائدین کے لیے وہ بہت ہی محترم تھے۔ تحریک اسلامی میں اطاعت و وفا، وقت کی پابندی، بات سننا اور موثر جواب دینا اُن کا خاصہ تھا۔ بہت ہی خوشگوار مزاج تھا، الفاظ کے موتی بکھیرتی تھے اور ایسا لگتا تھا جیسے الفاظ ہاتھ جوڑ کر اُن کے ساتھ چلتے تھے۔ موچی دروازے میں ایک جلسے میں اِس قدر شاندار خطاب کیا کہ قاضی حسین احمدؒ نے اٹھ کر ان کے ماتھے کا بوسہ دیا۔ کیا خدا مست اور توکل والے انسان تھے۔ کراچی سے لاہور آئے اور 22 سال ایک کمرے میں ہی سارا وقت گزار دیا۔ کم کھانا، کم سونا اور زیادہ وقت اللہ کے دین کے کام اور عبادت میں گزار دینا ہی اُن کی زندگی کا مشن تھا۔
سید منورحسن حقیقت میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ، خرم مرادؒ، پروفیسر خورشید احمد، پروفیسر غفور احمدؒ، محموداعظم فاروقیؒ، چودھری غلام محمدؒ، حکیم اقبال حسینؒ، حکیم صادق حسینؒ کے تربیت یافتہ اور بااعتماد ساتھی تھے۔ کراچی میں دعوت و تربیت، خطابت و تقاریر کے ذریعے خوب ڈنکا بجایا اور بڑا نام پیدا کیا۔ اُن کے طرزِ خطابت اور اسلوبِ تقریر کے کئی افراد پر گہرے اثرات ہیں۔ حقیقی معنوں میں وہ مولانا مودودیؒ کی فکر کے مرجع الخلائق تھے۔ 1977ء کی تحریک اور انتخابات میں دلوں پر راج کیا، انتخابات میں ریکارڈ ووٹ حاصل کیے۔ جماعت اسلامی کی فکر، نظریے اور تنظیم کی حفاظت کے لیے اُن کا رول، رہنما رول ہی رہے گا۔ امارتِ جماعت کے منصب پر نہ رہے لیکن اپنے سے کہیں جونیئر امیر جناب سراج الحق صاحب کی اطاعت، احترام اور شفقت دیدنی تھی۔ سید منورحسنؒ پر اسلامی تحریک کو ہمیشہ فخر رہے گا۔ اُن کی رحلت ہم سب کا مشترکہ غم اور صدمہ ہے۔ ان شاء اللہ جنت میں ضرور ملیں گے۔