سنڈے میگزین میں ایک شاہین صفت مضمون نگار نے بہت معروف اور دلکش شعر کو داغ دار کردیا ہے۔ شعر یوں چھپا ہے:۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمی سو گئے داستاں کہتے کہتے
یہ ’’ہمی‘‘ کیا ہوتا ہے؟ شاعر زندہ ہوتا تو پھڑک کر رہ جاتا۔ لیکن یہ غلطی عام ہورہی ہے۔ آزاد کشمیر کے بہت اچھے شاعر احمد عطا اللہ نے بھی یہی غلطی کی ہے۔ اُن کا شعر ہے:۔
جب غزل پھر رہی تھی سر کھولے
یہ ہمی تھے جنہوں نے در کھولے
شعر اچھا ہے لیکن لغت میں ’’ہمی‘‘ کا وجود نہیں۔ یہ ’ہم ہی‘ کا مخفف ہے، لیکن اس کی جگہ ’ہمیں‘ لکھنے میں کیا پریشانی ہے؟ اس سے مصرع کا وزن بھی متاثر نہیں ہوتا کیوں کہ نون غنہ شمار میں نہیں آتا۔ اوپر کے شعر میں بھی شاعر نے ’’ہمیں سوگئے‘‘ کہا تھا۔ متعدد شاعروں نے ہمیں کا استعمال کیا ہے مثلاً:۔
ہمیں جب نہ ہوں گے تو کیا رنگِ محفل
کسے دیکھ کر آپ شرمایئے گا
یا ’’نظریں بھی ہمیں پر، پردہ بھی ہمیں سے‘‘۔ احمد عطا اللہ دبنگ شاعر ہیں، ’ہمیں‘ لکھتے ہوئے نہ گھبرائیں۔ ’ہمیں‘ میں میم بالکسر ہے، ’ہمیں‘ کا ایک مطلب ’’یہیں‘‘ بھی ہے۔ کشمیر کے بارے میں بادشاہ جہانگیر سے منسوب یہ شعر:۔
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
ہم بہت سے انگریزی الفاظ کا مخفف بے سوچے سمجھے استعمال کررہے ہیں، مثلاً اے ٹی ایم مشین۔ اس میں M مشین ہی کے لیے ہے۔ کئی جگہ کراچی کے علاقے کو پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی لکھا دیکھا، جبکہ اس میں S سوسائٹی ہی کے لیے ہے۔ ایک اخبار میں ایم پی پوزیشن اسکیل شائع ہوا ہے۔ یہ ’’مینجمنٹ پوزیشن‘‘ کا مخفف ہے، اور جب P آگیا تو ’پوزیشن‘ لکھنا نادانی ہے۔ اب تو ATC کورٹ بھی لکھا جارہا ہے، جب کہ اس میں C کورٹ ہی کے لیے ہے۔ اس کا اردو متبادل موجود ہے یعنی انسداد دہشت گردی عدالت۔ لیکن اردو میں لکھنے سے شاید عدالت مؤثر نہ رہے اور دہشت گردی کا انسداد نہ ہوسکے۔ کچھ عرصہ پہلے ’’سام‘‘ میزائل کا بڑا چرچا رہا۔ یہ سرفیس ٹوائر یا زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل ہے، لیکن سام کے ساتھ میزائل لکھنا ضروری ہے ورنہ بات چچا سام کی طرف چلی جائے گی۔
ورقی اور برقی ذرائع ابلاغ میں بڑے ثقیل قسم کے انگریزی الفاظ دخیل ہوتے جارہے ہیں، مثلاً ایک اخبار کی سرخی ہے ’’فلاں مسئلے کی جڑوں کو ایڈریس کرنا ضروری ہے‘‘۔ ہماری تو اردو بھی کمزور ہے اور انگریزی تو حاکموں کی زبان ہے۔ ہمیں اتنا معلوم ہے کہ ایڈریس کا مطلب یا تو پتا ہے یا خطاب۔ اب یہ جڑوں سے خطاب کیسے ہوگا؟ اور اگر یہاں پتا کرنا مراد ہے تو اس کے لیے جڑیں کھودنا پڑیں گی جسے بیخ کنی بھی کہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سرخی اردو میں ہوتی مثلاً ’مسئلے کی جڑیں تلاش کرنا ضروری ہے‘۔ اب تو ایک خبر میں کیپسٹی (CAPACITY) پڑھنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ارے بھائی، ’گنجائش‘ لکھنے میں کیا خرابی ہے! صحافی حضرات ابھی سے توجہ دیں، ورنہ اردو انگریزی میں دب کر رہ جائے گی۔
اور اب پروفیسر غازی علم الدین سے مزید استفادہ کرتے ہیں:۔
استفادہ حاصل کرنا
اس کی درست صورت استفادہ کرنا یعنی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ استفادہ میں تحصیلِ فائدہ کا مفہوم چونکہ ازخود شامل ہے اس لیے استفادہ کرنا، لغوی اور معنوی اعتبار سے قائل کے مفہوم کا صحیح ترجمان ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ لفظ ’حاصل‘ کا اضافہ محض تحصیلِ لاحاصل ہے، یعنی ایسی چیز کی جستجو یا خواہش کرنا جو پہلے ہی ہمارے پاس موجود ہے۔
اس کام کا آغاز شروع ہوگیا
’آغاز‘ کے بعد ’شروع‘ لکھنا سنگین غلطی ہے۔
اشکوں کا سیلاب
سیلاب اصل میں ’سیلِ آب‘ کا مرکب ہے جس کا معنی ہے ’پانی کا ریلا‘۔ ’اشکوں کا سیلاب‘ کی جگہ ’سیلِ اشک‘ یا ’اشکوں کا سیل‘ ہونا چاہیے۔
اشیائے ضرورت کی چیزیں
ایک معروف اخبار کی خبر ہے: ’’اشیائے ضرورت کی چیزیں سستی کی جائیں‘‘۔ اشیاء اور چیزوں کو یکجا کردینا بے خبری کی انتہا ہے۔
اعلیٰ ترین، ادنیٰ ترین، افضل ترین
اعلیٰ، ادنیٰ اور افضل… افعل التفضیل ہیں۔ ’ترین‘ بھی تفضیلِ کُل ہے۔ لہٰذا اعلیٰ، ادنیٰ اور افضل کے ساتھ ’ترین‘ کی یکجائی خلافِ قواعد ہے۔
امن وامان
’’ملک میں امن وامان قائم ہوگیا ہے‘‘۔ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس ترکیب میں کوئی فالتو لفظ تو نہیں ہے؟ کیا یہاں دونوں لفظوں کی ضرورت ہے یا ایک ہی کافی ہوگا؟ ’امن‘ اور ’امان‘ میں بظاہر معنوی یکسانی محسوس ہوتی ہے، مگر ان دونوں میں معنیٰ کے اعتبار سے فرق ہے۔ ’امن‘ سے مراد ہے فساد کا نہ ہونا، اور ’امان‘ کا مطلب کسی کی پناہ میں ہونا۔ جملہ اتنا ہی کافی ہے: ’ملک میں امن قائم ہوگیا ہے‘۔
اُن کا موضوعِ سخن سیاست ِحاضرہ ہے
اس جملے میں ’موضوعِ سخن‘ کے بجائے ’موضوع‘ ہونا چاہیے۔ موضوعِ سخن شاعری کے متعلق ہوتا ہے۔
اہلِ زبان لوگ
ماہ نامہ ’نیرنگِ خیال‘ راولپنڈی میں، ایک نیم مزاحیہ مضمون کا عنوان ہے ’’اہلِ زبان لوگ مچھلی کیوں پسند کرتے ہیں؟‘‘ لفظ ’اہل‘ کے سابقے میں ازخود جمع کا مفہوم شامل ہے۔ ’’اہلِ زبان‘‘ لکھنے کی صورت میں یہ مفہوم بہت واضح ہے، اس پر لفظ ’لوگ‘ کا اضافہ ناجائز اور ناروا ہے۔ ’اہل‘ جمع کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً اہلِ علم (علم والے لوگ)، اہلِ شہر (شہر کے باشندے) اور اہلِ وطن (وطن کے لوگ) وغیرہ۔ کسی ایک شخص کو صاحب ِعلم، صاحبِ رائے اور صاحبِ قلم لکھا جاتا ہے۔
اہلِ عشاق
۔’اہل‘ جمع کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے بعد والا اسم جمع نہیں، واحد ہوتا ہے۔ نظم و نثر میں ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں اس قاعدے کی خلاف ورزی نظر آتی ہے:۔
انقلاب آئے نہ آئے ہمیں کچھ غم تو نہیں
اہلِ عُشّاق تو خوش ہیں کہ مری جان ہے تو
۔’اہلِ عشاق‘ کی ترکیب ’اہل‘ کی متحمل نہیں ہوسکتی، کاش شاعر کو علامہ اقبال کا یہ شعر نظر آیا ہوتا:۔
آئے عُشّاق گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
ایصالِ ثواب پہنچانا
’’یہ کارِ خیر مرحوم کو ایصالِ ثواب پہنچانے کے لیے انجام دیا گیا ہے‘‘۔ ’ایصالِ ثواب کے لیے‘ یا ’ثواب پہنچانے کے لیے‘ درست ہے۔ ’ایصال‘ اور’ پہنچانے‘ کو یکجا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایصال کا معنیٰ ہی پہنچانا ہے۔
ایک مہینے بھر سے
’مہینے بھر سے‘ یا ’ایک مہینے سے‘ کہنا چاہیے۔ ’ایک‘… اور ’بھر‘ کو اکٹھے نہیں کیا جاسکتا۔
اے لوگو! میری بات غور سے سنو
درست جملہ اس طرح ہوگا: ’’لوگو! میری بات غور سے سنو‘‘… مخاطب کرکے ’لوگو‘ کہا جائے تو اس میں ’اے‘ کا مفہوم موجود ہوتا ہے۔ بعض لکھنے والے ’لوگو‘ کے ساتھ نون غنہ کا اضافہ کرکے غلط طور پر’ لوگوں‘ اور ’اے لوگوں‘ کردیتے ہیں۔