اسد احمد
اصل مسئلہ کسی کو شہید یا ہلاک تسلیم کرنے کا نہیں تھا۔۔ طالبان کی حمایت یا مخالفت کا سوال بھی غیر اہم ہے۔۔ اصل سوال یہ ہے کہ 2007ء میں امریکہ کو پاکستان میں جمہوریت کی مکمل واپسی میں اس قدر دلچسپی کیوں تھی؟ نیگرو پونٹے اور رچرڈ آرمٹیج جیسے امریکی پہلوانوں کا سیاسی عمل میں کیا کردار تھا؟ کونڈو لیزا رائس کیوں بے نظیر بھٹو کو جلد از جلد واپس پاکستان میں دیکھنا چاہتی تھی؟ این آر او کے ضامن کون سے ممالک اور اعلیٰ شخصیات تھیں؟ دراصل جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کی جنگ تو خوب لڑی، مگر قاف لیگ اس جنگ کی سیاسی اونرشپ نہ لے سکی اور پنجاب میں رائے عامہ ہموار کرنے میں ناکام رہی۔۔ دوسری طرف کے پی کے اور بلوچستان میں ایم ایم اے کی حکومت تھی جو اس جنگ کے خلاف تھی۔۔ البتہ سندھ میں الطاف حسین یا ایم کیو ایم کی کارکردگی ”لاجواب“ تھی۔۔ 2008ء کے انتخابات قریب آئے تو بین الاقوامی سطح پر پہلی ترجیح یہ قرار پائی کہ پاکستان میں ایک ایسی حکومت بنائی جائے جو ”وار آن ٹیرر“ کے حق میں رائے ہموار کرسکے اور ڈنکے کی چوٹ پر اس جنگ کو پاکستان کی جنگ تسلیم کرے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے بے نظیر بھٹو اور پرویزمشرف کے درمیان مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔ بین الاقوامی طاقتیں اس عمل کا حصہ بنیں۔ بالآخر ”ڈیل“ ہوگئی۔ اگلے پانچ سال پیپلزپارٹی کے نام لکھ دیے گئے۔ گزشتہ خدمات کے صلے میں ایم کیوایم اور قاف لیگ کو بھی نئے سیٹ اپ میں حصہ دیا گیا۔ انتخابات سے پہلے اے این پی قیادت نے طویل دورئہ امریکہ کیا۔ اے این پی کو اگلے پانچ سال کے پی کے میں حکومت سونپ دی گئی۔ مولانا فضل الرحمان جو خود بھی ایک مرحلے پر وزیراعظم بننے کے لیے لابنگ کررہے تھے، کے پی کے حکومت سے محروم ہوئے تو مرکزی حکومت میں آصف علی زرداری کے اتحادی بن گئے۔ مسلم لیگ (ن) جو دراصل الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکی تھی، نہ صرف آخری مراحل میں ٹرین میں سوار ہوگئی بلکہ پنجاب حکومت حاصل کرکے وفاق میں اپنی ”باری“ کے انتظار میں بیٹھ گئی۔ عمران خان کے پاس اُس وقت نہ تنظیم تھی نہ اسٹریٹ پاور، نہ دولت کی ریل پیل اور نہ میڈیا کوریج۔۔۔ مگر بہرحال وہ 2001ء میں پرویزمشرف کی حمایت پر نادم تھے اور جلد وار آن ٹیرر کے مخالف بن گئے، لیکن تب ان کے لیے جلسہ تو کیا کارنر میٹنگ کرنا بھی ایک امتحان تھا۔ ٹاک شوز میں وسیم اختر، بابر اعوان، شیخ رشید اور بابر غوری انہیں ٹف ٹائم دینے کے لیے تیار رہتے۔ نئے سیاسی سیٹ اپ کی طرح میڈیا کو بھی ”وار آن ٹیرر“ کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کا ٹاسک سونپنے کا فیصلہ ہوا۔ کیری لوگر بل اور کولیشن سپورٹ فنڈ کے ذریعے ملک کو امریکی امداد کی فراہمی اور یوایس ایڈ پروگرام کے ذریعے امریکہ کی امیج بلڈنگ کا کام شروع ہوا۔ حکومت اور میڈیا ایک پیج پر آگئے۔ آنے والے دنوں میں امریکی سفیر کیمرون منٹر کی کارکردگی ابھر کر سامنے آئی۔ ہلیری کلنٹن پاکستانی نیوز اینکرز کی مہمان بنیں۔ ماہر سفارت کار رچرڈ ہالبروک کا دورئہ پاکستان معمول تھا۔ مگر ٹھیک اسی وقت پاکستان میں ایک اہم تبدیلی آئی اور رائٹ ونگ کو بیانیہ فراہم کرنے والی اسلامی تحریک جماعت اسلامی کی امارت قاضی حسین احمد سے سید منور حسن کو منتقل ہوگئی۔ معروف امریکی اسکالر اور یو ایس اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سابق اہلکار ڈاکٹر ولی رضا نصر نے بہت پہلے ہی اپنی ایک رپورٹ میں یہ پیش گوئی کردی تھی کہ اگر قاضی حسین احمد کے بعد سید منور حسن جماعت اسلامی کے امیر بنے تو وہ زیادہ شدت سے امریکی پالیسیوں کی مخالفت کریں گے۔ سید منور حسن نے جماعت اسلامی کی امارت سنبھالتے ہی دوٹوک الفاظ میں خطے میں امریکی مداخلت کو مسائل کی جڑ قرار دینا شروع کردیا۔ انہوں نے ملک میں ”گو امریکہ گو“ مہم کا آغاز کردیا اور شہر شہر جلسوں اور ریلیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ انہوں نے میڈیا پر باقاعدہ نام لے کر کیانی، گیلانی اور زرداری ٹرائیکا کو ہدفِ تنقید بنانے کا آغاز کیا۔۔۔ ریاست سے مطالبہ کیا کہ امریکی ایما پر اپنے لوگوں سے لڑنا بند کرو، امریکی جنگ سے باہر آؤ، قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بند کرو اس لیے کہ یہاں انتقام لینے کی روایت ہے، نیٹو سپلائی کا سلسلہ ختم کرو اور لاپتا افراد کو سامنے لاؤ۔ ریاست، میڈیا اور امریکہ تینوں کے لیے یہ مؤقف ناقابلِ قبول تھا، مگر پاکستان میں جماعت اسلامی کی مضبوط جڑوں کی وجہ سے اس کے امیر کی آواز کو دبانا یا نظرانداز کرنا آسان نہیں تھا۔ دراصل سید منور حسن خدانخواستہ خودکش حملوں کے حامی نہیں تھے بلکہ وہ امریکی مداخلت کے مخالف اور خطے میں اس کی موجودگی کو فساد کا سبب قرار دے رہے تھے۔ وہ بار بار یہ کہتے تھے کہ مشرقی پاکستان میں آپریشن کے نتائج سے سبق سیکھا جائے، 1958ء سے بلوچستان میں آپریشن جاری ہے، کیا حاصل کرلیا اب تک؟ مگر مسئلہ یہ تھا کہ امریکی مفادات کے ساتھ پاکستان میں بہت سی قوتوں کا مفاد جڑا ہوا تھا۔۔۔ تعلقات صرف دو ریاستوں کے درمیان نہیں بلکہ بااثر افراد کے درمیان بھی تھے۔ امریکہ، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی اصل پریشانی یہ تھی کہ سید منور حسن جو مؤقف اختیار کرتے پھر مولانا فضل الرحمان کو بھی اس پر بات کرنا پڑتی۔ نواز لیگ اور پی ٹی آئی بھی لب کشائی کرتے۔ یوں منور حسن پورے رائٹ ونگ کو نہ صرف بیانیہ فراہم کررہے تھے بلکہ رائے عامہ تقسیم کرنے کا باعث بن رہے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی سرمایہ کاری اگر پوری طرح ڈوبی نہیں تو مطلوبہ نتائج بھی نہ مل سکے۔ سید منور حسن سے رابطے بھی کیے گئے اور ملاقاتیں بھی۔۔ مگر منور حسن نے یوٹرن لینے یا سیز فائر سے انکار کردیا۔۔۔ انہیں شدید مخالفت اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، بھرپور میڈیا ٹرائل بھی ہوا، مگر چند ہی سال گزرے تھے کہ ڈو مور کا امریکی مطالبہ زور پکڑنا شروع ہوا… 70ہزار سے زائد پاکستانیوں کی قربانی اور 100ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان بھی امریکہ کو راضی نہ کرسکا۔ آخرکار امریکہ نے امداد بھی بند کردی۔ کچھ ہی عرصے بعد نواز لیگ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف امریکہ پر برستے نظر آئے۔ آج امریکہ پر تنقید اور ٹرمپ کا مذاق اڑانا پاکستان میں فیشن ہے۔ پاکستان کا سرکاری مؤقف اب اعلانیہ یہی ہے کہ ہم آئندہ کسی دوسرے کی جنگ نہیں لڑیں گے، اور یہی سید منور حسن کی کامیابی ہے۔ سید منور حسن نے اسی عرصے میں لبرلز کا بھی گھیرا تنگ کیے رکھا اور کراچی میں ایک بڑے جلسے سے خطاب میں لبرلز کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا نام ”اقلیتوں“ کے ساتھ درج کروالیں۔ یہ بیان شہ سرخیوں کی زینت بنا تو نام نہاد لبرلز کو سخت ناگوار گزرا کہ انہیں مسلمانوں سے کاٹ کر اقلیتوں کے ساتھ کیوں نتھی کیا گیا؟ پاکستانی میڈیا میں بلیٹنز میں بھارتی گانوں کا تڑکا لگانے کا سلسلہ شروع ہوا تو سید صاحب نے بیان دیا کہ اب تو خبرنامہ بھی فیملی کے ساتھ نہیں دیکھ سکتے… سید منور حسن کا یہ بیان نیوز رومز میں بحث کا موضوع بنا۔ سید منور حسن جانتے تھے کہ جماعت اسلامی صرف ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ اس کا ایک نظریاتی کردار اور تشخص بھی ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ جماعت اسلامی اپنی شناخت پر کمپرومائز کرنے کے بجائے اپنے جھنڈے اور نشان پر الیکشن لڑے۔ اسی لیے 2013ء میں جماعت اسلامی نے 1970ء کے بعد پہلی بار اپنے پرچم اور نشان کے تحت انتخابات میں حصہ لیا۔