سید منور حسنؒ ایک علمی و تاریخی تناظر

ڈاکٹر معین الدین عقیل
ہماری حالیہ قومی وسیاسی زندگی میں کتنی ایسی شخصیات ہمارے شمار میں آتی ہیں کہ جو قومی معاملات و مسائل کا شعور بھی رکھتی ہوں اور ان کی اصلاح و ترقی و بہتری کے لیے اپنی خدمات پیش کرتی اور اپنا معاشرتی کرداد بھی ادا کرتی ہوں؟سیاست اگر حوالہ یا وسیلہ ہوتو اس کی کارگاہ میں سیاست داں ہی نمایاں رہتے ہیں اور وہ بھی اگر وہ صفِ اول میں سرگرم ہوں اور خود کو نمایاں کرنے کی ان میں صلاحیت اور قدرت بھی ہو۔ آج کے معاشرے میں حالات اخلاقی اعتبار سے کچھ ایسے زوال پذیر ہیں کہ یہ قدرت انفرادی کاوشوں کے سبب شاذ ہی کسی میں نظر آتی ہے، جب کہ اگر ایک سیاسی جماعت یا حلقہ و گروہ ان کے ساتھ یا پسِ پشت ہوتو ان کے نمایاں رہنے یا نظر آنے کے امکانات قوی رہتے ہیں۔لیکن یہ شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان کا وجود اور ان کی کارکردگی اور سرگرمیاں اگر وہ تنہاہی اپنے معاشرے اور پیش آمدہ حالات و واقعات سے نبرد آزما ہوں تب بھی، اور جب وہ کسی حلقے یا گروہ اور ان سے بڑھ کر کسی فعال سیاسی جماعت میں شامل یا شریک رہ کر اپنے عزائم و حوصلوں کے اظہار کے لیے آمادہ و سرگرم ہوں، تو ایک اجتماعی وابستگی حاصل ہوجانے کے باوجود اپنے مذکورہ شخصی اوصاف کو کہیں کسی صورت اوجھل ہونے نہیں دیتے اور ہردوصفات کے ساتھ معاشرے اور قوم کی تعمیر وترقی کے لیے اپنی حد تک اپنی خدمات وقف کیے رکھتے ہیں۔
منور حسن میرے لیے ایسی ہی شخصیات کی ایک مثال ہیں، جو تن تنہا بھی اور ایک جماعت کے سرگرم کارکن اور رکن بن جانے کے بعدبھی ’فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں اپنا‘ کے مصداق ہمیشہ مستعد و کارگر ہی نظر آئے۔ان کی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی کے دور کی ان کی سرگرمیوں کا تذکرہ میں نے خود اپنے زمانۂ طالب علمی میں بارہا سنا تھا لیکن جب ایک معاملے میں ان سے ملاقات ہوئی جو پہلی ملاقات تھی تو ان کے شخصی اوصاف کے کچھ ایسے پہلو سامنے آئے جو میرے لیے ناشنیدہ تھے اور جن سے میں ناآشنا تھا۔یہ جنوری سنہ ۱۹۷۰ء کی بات ہے، جب ملک میں قومی انتخابات کا غلغلہ تھا اور ہر طرف انتخابات کی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ میں اسی عرصے میںچند ماہ قبل اپنی تعلیم (ایم اے) مکمل کرکے پی ایچ ڈی کی تیاریوں میں تھا۔ مجھے قومی سیاسی انتخابات سے دل چسپی تو شدید تھی لیکن کسی عملی شرکت کا نہ مزاج تھا نہ فرصت اور وقت۔یہ دونوں وقف تھے میری لکھنے اور پڑھنے کی دل چسپیوں کے لیے، اور ایم اے کی تکمیل کی ایک ذاتی خواہش کے تحت امتحانی تقاضے کے ضمن میں مَیں نے ایک مقالہ بعنوان:’’تحریک ِ پاکستان کا لسانی پس منظر‘‘ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی صاحب کی نگرانی میں تحریر کیا تھا جس نے مجھے بڑا اعتماد اورحوصلہ بخشا اور جس کے طفیل میری حوصلہ افزائی بھی بہت ہوئی تھی۔اس مقالے کی تحریر کے دوران مجھے ہندوستانی مسلمانوں کی طویل قومی و سیاسی جدوجہد، اس کا پس منظر اور اس کے احوال و مسائل کو، تمام ہی ممکنہ اور دستیاب مآخذ کی روشنی میں پڑھنے کا موقع ملاتھا اور ہندوستانی مسلمانوں کی قومی و سیاسی تحریکات کا علی الخصوص مطالعہ کرنا پڑاتھا۔اسی ضمن میں تحریک پاکستان اور اس سے منسلک اکابر علمأ،رہنماؤں اور قائدین کے افکار و خیالات کو جانچنے پرکھنے کا بھی خوب موقع میسر آیا۔چناں چہ اسی حوالے سے مجھے سید ابوالاعلیٰ مودودی کے افکار و خیالات، ان کی علمی و تصنیفی خدمات اور ان کی جدوجہد بوسیلۂ جماعت اسلامی بھی میرے ضمنی مطالعے میں آئی،جب کہ دوسری جانب اس وقت کے سیاسی انتخابات کے دوران مختلف مکاتب فکر کے باہمی بحث و مباحثے بھی میرے سامنے کی باتیں تھیں۔اس ضمن میں مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے خلاف بھی علمأ و سیاسی رہنماؤں کی خلافِ واقعہ مخالفت ایک جانب زورو شور سے جاری تھی، جس کا مجھے بے حد افسوس تھا کہ اس حوالے سے شدید غلط فہمیاں نہ صرف علمائے عصر میں نمایاں تھیں بلکہ وہ غلط سلط حوالوں کے توسط سے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی پر تحریک و قیام پاکستان کے بارے میں ناجائز الزامات کا طومار باندھ رہے تھے۔ میں اس وقت ابھی ابھی اپنے مذکورہ مقالے کی تصنیف و تکمیل سے فارغ ہوا تھا اور مطالعہ بھی ان موضوعات پر تازہ تازہ کررکھاتھا، چناں چہ میں نے ان مذکورہ غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے مناسب سمجھا کہ ’’تحریک ِ پاکستان اور مولانا مودودی‘‘کے عنوان کے ذیل میں ایک کتاب لکھوں،لہٰذا میں نے یہ کتاب لکھ ڈالی۔جب اس کی اشاعت کا مرحلہ پیش آیا تو میرے ایک دوست نے مشورہ دیاکہ اسے تو اس وقت فوری چھپ جانا چاہیے اور چوں کہ انتخابات سر پر ہیں اور ان میں جماعت اسلامی بھی بھرپور طریقے سے شریک ہے، اس لیے اسے جماعت اسلامی کے اہتمام سے چھپنا چاہیے۔ پھر وہ دوست اس کی اشاعت کے لیے سرگرم بھی ہوئے اور مناسب رابطوں کے بعد پتا چلا کہ انتخابات کا کراچی کی حد تک سارا نظم اور اس کے تحت نشرواشاعت منور حسن صاحب کی ذمے داریوں کے تحت ہے۔ اس لیے کسی قسم کی اشاعت کے لیے ان کی منظوری ضروری ہے۔چناں چہ مسودہ منورحسن صاحب تک پہنچا تو فوری طور پر موصوٖف نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، جو میرے لیے خوشی کا باعث تھی۔ ملاقات آرام باغ کے قریب ایک گلی میں جماعت اسلامی کے دفتر میں، جہاں بعد میں کچھ عرصے کے لیے اخبار’’ جسارت‘‘کا دفتربھی تھا جس میں اس کا میگزین مرتب ہوتاتھا اور جس کا ادبی صفحہ’’ ادب و ثقافت‘‘ مرتب کرنا میری ذمے داری تھی، چناں چہ میں کچھ عرصہ اسی دفتر میں جاکریہ صفحہ مرتب کیاکرتاتھا۔برادرم ثروت جمال اصمعی ’’جسارت ‘‘کے میگزین ایڈیٹرہوتے تھے۔منور حسن صاحب میرا مسودہ پڑھ چکے تھے جس پر انھوں نے میری خاصی حوصلہ افزائی کی اور بعض مشمولات کے تعلق سے، ان کی تفہیم و وضاحت کی خاطر خاصے سوالات بھی کیے اور مطمئن ہوئے۔ چناں چہ ان ہی کی سفارش پر وہ کتاب اشاعت کے لیے بھیج دی گئی اور چند ہفتوں میں ایک نجی اشاعتی ادارے کے اہتمام سے شائع ہوگئی۔
منور حسن صاحب سے اس ملاقات اور ان سے اس کتاب کے موضوع اور میری مزید دل چسپیوں اور کاوشوں سے متعلق ان کے سوالات نے مجھے بہت حیران کیا۔ میں نہیں سمجھتاتھا کہ منور صاحب کا مطالعہ تحریک ِ پاکستان اور اس کے قائدین کے بارے میں اتنا وسیع اور گہراہے !اس ملاقات میں عصری ادب بھی موضوع گفتگو بنا اور ان دنوں اسلامی سوشلزم کی بحث اور اس میں پاکستان کے نامی گرامی ’ترقی پسندوں‘ کی ’’سرخ دوستی‘‘بھی کچھ دیر کے لیے موضوعِ گفتگو رہی۔یہ منور صاحب سے میری پہلی ملاقات تھی جو بہت خوش گوار اور یادگار رہی۔ بعد میں کبھی کبھی کہیں ان سے ملاقات یا کم از کم علیک سلیک ہوتی تو وہ ضرور مجھ سے میرے تصنیفی منصوبوں کے بارے میں سوالات کرتے اور دل چسپی ظاہر کرتے جو خالص ادبی موضوعات پر نہیں قومی و تاریخی موضوعات کے منصوبوں پر ہوتی۔ میرے تحقیقی منصوبے برائے پی ایچ ڈی، بعنوان :’’تحریکِ آزادی میں اردو کا حصہ‘‘میں انھیں بہت دل چسپی رہی، چناں چہ وہ اس کی اشاعت کے منتظر رہے اور چھپنے پر اسے کسی طرح حاصل کیا اور مجھے اطلاع بھی دی اور پسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔
ملاقاتوں کا منور صاحب سے کوئی تسلسل تو نہ رہا اور نہ بہت تفصیلی ملاقاتیں ان سے بعد میں کہیں ہوتی رہیں،لیکن جب بھی ملے ہیں نہایت محبت و دل جمعی اور گرم جوشی کے ساتھ ملے ہیں۔ملاقاتوں کے مواقع کا امکان کسی تقریب یا محفل میں کسی طرح ہوتا رہا ہے۔ میری اپنی ہمیشہ کی شدیدمصروفیات، پھر بیرونی ممالک کے میرے اسفار اور قیام اور پھردل چسپیوں کی ذاتی وانفرادی نوعیت نے اس طرح کے مواقع کم ہی فراہم کیے، لیکن ایسے مواقع کم ہی میسر آئے کہ سیر حاصل ملاقاتوں کی متواتر خوشیاں نصیب ہوتیں۔آج کل میں اپنے نام بزرگوں، دوستوں اور احباب و رفقا کے خطوط برائے ترتیب و اشاعت مرتب کررہاہوں تو یکایک دیکھا کہ منور صاحب کا ایک خط میرے نام دستیاب ہوا جو انھوں نے میانوالی جیل سے رہائی کے فوری بعد ۵؍ اپریل ۱۹۹۹ء کومجھے لکھا تھا جب میں ٹوکیو جاپان میں رہتاتھا۔یہ خط اگر چہ میرے نام ہے اور کچھ ذاتی نوعیت ہی کا ہے لیکن ان کی شخصیت کے تعارف، ان کے ذوق و شوق اور باہمی روابط کی ان کی اخلاقیات کو دیکھنے، سمجھنے اور سیکھنے کے لیے یہ مفید ہوسکتا ہے، اس لیے میرے خیال میں اسے ملاحظۂ عام کے لیے یہاں پیش کرنا کچھ کم مفید نہ ہوگا، اس لیے پیشِ قارئین ہے:۔
برادرم ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہٗ
آپ کا ۲۲ مارچ (۱۹۹۹ء) کاخط مجھے ۵؍اپریل کو اُس وقت ملا جب میں میانوالی جیل سے ایک چکر کاٹ کر آرہا ہوں، طبیعت بے حد خوش ہوئی۔ آپ نے کمال اپنائیت کے ساتھ وہ سب باتیں تحریر کر دیں جنھیںجاننا میرے لیے ضروری تھا… یوں میری معلومات میں اضافہ ہوا، الحمدللہ چھ سال جاپان میں گزار دینا بجائے خود بڑی ہمت بلکہ تزکیہ و تربیت کی بات ہے۔ اس سے آپ کے بارے میں میری رائے مزید پختہ ہوئی کہ آپ محنت و عرق ریزی سے کام کرنے والے کارکن ہیں، اور ہدف کے حصول کی دھن اور لگن آپ کو ہر مشقت اٹھانے کے لیے آمادہ و پیکار کرلیتی ہے۔ اللّٰہم زدفزد!!
جامعہ کراچی میں آپ کی ملازمت کا برقراررہنا بھی خوش آئند ہے، مجھے معلوم نہیں لیکن اندازہ ہے کہ وہاں بھی اَب آپ کو پندرہ بیس سال تو ہو گئے ہوں گے… وقت کی رفتار ہمارے اندازے سے کچھ زیادہ ہی ہے، کیا عجب کہ ایک ربع صدی بیت گئی ہو… صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے، گویا ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا اور بات پہنچی تری جوانی تک!!۔
ایک مدت آپ سے قریبی تعلق رہا ہے، بعد میں آپ کی مصروفیات بھی بدل گئیں اور گردشِ ایام بھی کچھ اس طرح رہی کہ رابطہ کم ہوگیا، وگرنہ دل میں آپ کے لیے ایک تعلق اور ایک رشتہ ہمیشہ موجود رہا، اس لیے جب یہ سنا اور معلوم ہوا کہ آپ جاپان میں ہیں تو یہ سوچ کر کہ وہاں تنہائی اور فرصت کے کچھ لمحات میسر ہوں گے میں نے ماضی کے دریچوں میں دخل در معقولات کرنا مناسب جانا… اس لیے جیل سے واپسی پر ڈاک تو بہت تھی، لیکن آپ کا خط سب سے بھلا لگا… اللہ تعالیٰ ہمارے اس تعلق کو اپنی خاطر قبول فرمائے، آمین
مطالعہ کا بھی خوب خوب وقت ملتا ہوگا، ایک تو جاپانی معاشرہ کا مطالعہ ہے، اس کے باسیوں اور مکینوں کا مطالعہ و مشاہدہ ہے، لیکن دلچسپی کے موضوعات پر کتب میسر آجاتی ہوں گی، وگرنہ بلاتکلف مجھے لکھیں، میں یہاں سے حسب خواہ رسائل و کتب بھجوانے کی کوشش کروں گا، ان شاء اللہ۔ اس بارے میں کسی تکلف سے چنداں کام نہ لیجیے گا۔
اہلِ خانہ کی رہائش آج کل کس علاقہ میں ہے، بچے کتنے ہیں اور کیا کر رہے ہیں، کبھی موقع ملے تو کہیے گا، ان کے حوالے سے بھی اگر کسی رابطہ کی ضرورت ہو تو بتائیے گا۔ میرا کراچی جانا رہتا ہے، خود میرے اہلِ خانہ بھی ابھی وہیں ہیں۔
معلوم نہیں ملک کا پریس آپ تک پہنچ پاتا ہے یا نہیں! بیانے شب و روز،اس خواہش کے باوجود کہ کل سے بہتر آج ہو اور آج سے بہتر کل۔ وہی چال بے ڈھنگی سے عبارت ہیں، اللہ تعالیٰ اپنافضل فرمائے، آمین۔
میں نے کچھ زیادہ ہی لکھ دیا، امید ہے بخیر ہوں گے، اللہ اچھا رکھے، اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ہم سب سے وہ کام لے لے جس سے وہ راضی ہو جائے، آمین۔
والسلام
خاکسار
منور حسن
۲۷؍جولائی ۱۹۹۹ء