آصف محمود
سید منور حسن بھی چل دیے ۔اتفاق دیکھیے ، میری ان سے ایک ملاقات بھی نہیں اور آج ان کی رحلت کی خبر سن کر یہ سمجھ بھی نہیں آ رہی کہ تعزیت کس سے کی جائے؟ اول خیال آیا جماعت اسلامی ہی سے تعزیت کر لی جائے ، جناب سراج الحق سے یا جناب فرید پراچہ سے ، پھر کچھ ایسے ناگفتہ بہ واقعات نے قدم روک دیے جن کا تذکرہ ، ڈر ہے کہیں ، سجدوں سے سجی جبینوں پر شکنیں نہ ڈال دے۔ سید منور حسن ، میری رائے میں سیاست کی دنیا کے آدمی ہی نہیں تھے۔وہ اپنی ہی دنیا کے آدمی تھے۔ غالب کے الفاظ مستعار لوں تو ’’ بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا‘‘۔بحر اور بیاباں کے بیچ کوئی مقام انہیں عمر بھر راس نہ آیا۔ وہ اپنی پوری مثالیت پسندی کے ساتھ جیے۔ این ایس ایف سے نکلے تو اسلامی جمعیت طلبہ میں جا کھڑے ہوئے۔ کمیونزم کا علم رکھا تو اسلامی انقلاب کا پرچم تھام رکھا۔ لہو میں امنگ دوڑ رہی تھی ، تپشِ شوق نے وجود میں ایسی بجلیاں بھر دیں جو کبھی تھم ہی نہ سکیں۔ سیاست جس حکمت کی طالب ہوتی ہے ، سید صاحب اس تکلف کے قائل ہی نہ تھے۔شعلہ ِ سوزاں کی مانند زندگی گزاری ، بڑھاپے نے آ لیا تب بھی رفو گری کے قائل نہ ہو سکے۔قدیم زمانے میں پیدا ہوئے ہوتے تو قبیلے کے جگر دار جنگجو ہوتے۔ فوج میں چلے گئے ہوتے تو شاید ہم ان کی دلاوری کے قصے لکھ رہے ہوتے۔وہ مگر اپنی ساری مثالیت پسندی کے ساتھ سیاست میں آ گئے ۔ عمر کے آخری پڑائو میں ان کی اپنی جماعت نے اس مثالیت پسندی کا بوجھ اٹھانے سے انکار کرتے ہوئے ان سے وہ حسنِ سلوک کیا کہ سوچیں تو حسیات میں آشوب اٹھتا ہے ۔ یہ سید صاحب کا ظرف تھا کہ وقار اور شائستگی کے ساتھ حرفِ شکایت بلند کیے بغیر منصورہ سے رخصت ہو گئے ورنہ روایت تو یہ ہے کہ امیر محترم کا یہ انتخاب جس میں سراج الحق امیر بنے ، اتنا معتبر تھا کہ پاکستان کے عام انتخابات کا سا گماں ہوتا تھا۔ جو شکوہ زبان پر نہ آئے وہ سینے کا داغ بن جاتا ہے۔ کون جانتا ہے دلی کا یہ درویش کتنے داغ لے کر جیتا رہا؟ سید ابو الاعلی مودودی تو جماعت اسلامی کے بانی امیر تھے ان کا معاملہ اور تھا۔لیکن ان کے بعد سید منور حسن واحد امیر تھے جنہیں دوسری مرتبہ امارت کے لیے منتخب نہ کیا جا سکا۔ میاں طفیل محمدپندرہ سال امیر جماعت رہے۔ قاضی حسین احمد اکیس سال اس منصب پر فائز رہے۔ یہ تینوں شخصیات خود امارت کے منصب سے الگ ہوئیں اور انہوں نے اراکین سے کہا کہ اب وہ اپنے لیے نیا امیر منتخب کر لیں۔ سید منور حسن وہ پہلے امیر جماعت تھے جنہیںدوسری مرتبہ امارت کے لیے منتخب نہ کیا جا سکا۔ وہ پہلے امیر جماعت تھے جو امیر جماعت ہوتے ہوئے آئندہ امارت کے لیے نہ چنے جا سکے اور ان کی جگہ وہ سراج الحق امارت کے لیے چن لیے گئے جن کے اپنے صوبہ کے پی کے میںمنور حسن صاحب کے ووٹ زیادہ تھے۔سید منور حسن رنج عشق کھینچ کر ، چپ چاپ کراچی چلے گئے ، خاک عاشقاں کو کریدا نہ دل کے غبار کو زبان تک آنے دیا۔ایسا دل گداختہ اب کہاں؟ سماج نے تو کیا پزیرائی کرنا تھی ، سید منور حسن کے ساتھ تو خود جماعت اسلامی دو گام سے زیادہ نہ چل سکی۔ شاید یہ جماعت کی مجبوری ہو۔شاید یہ اس کا شعوری فیصلہ ہو۔یا شاید اس لیے کہ سید صاحب سیاست کی دنیا کے آدمی ہی نہ تھے ۔ اکل کھرے اور حاضر جواب تو وہ تھے ہی ، وقت کے ساتھ ساتھ ان کے لہجے میں تلخی بھی آتی گئی۔ شاید یہ پے درپے ناکامیوں کی وجہ سے ہو۔ مثالیت پسند آدمی ناکام ہوتا ہے تو تلخی کا در آنا ایک فطری امر ہے اور انسان فطرت سے لڑ نہیں سکتا۔ان حالات میں ایک شریف النفس آدمی بس اس کے تقاضوں کی تہذیب کر سکتا ہے۔ماننا پڑے گا کہ تلخی کے ہنگام بھی تہذیب کے تقاضوں کو انہوں نے ہمیشہ مد نظر رکھا۔لمحہ موجود کے تقاضوں سے البتہ وہ نباہ نہ پائے۔ منور حسن نیک آدمی تھے۔ سیدنا مسیح کے الفاظ میں : زمین کا نمک۔ وہ منافقت سے پاک اور ریا سے دور تھے۔قاضی صاحب مرحوم جیسی شخصیت کے ساتھ بھی اہل صحافت دل لگی کر لیتے تھے لیکن سید منور حسن صاحب وہیں موقع پر حساب باک کر کے ہتھیلی پر رکھ دیتے تھے۔ معلوم نہیں معاملہ کیا تھا ، اپنے ٹاک شو میں ، فون لائن پر میں نے ان سے سوال کیا : سید صاحب یہ سب کچھ ہو گیا اور آپ نے صرف ایک بیان جاری کیا؟ سید صاحب نے ترنت جواب دیا : تو آپ نے کیا کر لیا ، آپ نے بھی تو صرف ٹاک شو میں دو سوال ہی کیے ۔میں نے کہا : سید صاحب میں تو ایک بے بس اینکر ہوں؟ جواب آیا: میری کون سی چار بر اعظموں پر حکومت ہے؟۔۔۔۔ایسے ا جلے آدمی کے ساتھ یہ سماج کیسے نباہ پاتا۔ خود صالحین ان سے وابستگی کا بھرم نہ رکھ پائے۔شاید یہ بھرم رکھنا جماعت اسلامی کے لیے ممکن ہی نہ تھا۔ سید صاحب پرانے وقتوں کی نشانی تھے۔ زبان و بیان میں بھی ، تہذیب و شائستگی میں بھی اور بے لچک رویوں میں بھی۔وہ اگلی شرافت کی نشانیوں میں سے ایک تھے۔ایسے لوگ سیاست میں بھلے ناکام ہو جائیں، ایسے لوگ پاس وضع میں بھلے کسی کو ’’ بروٹس: یو ٹو‘‘ بھی نہ کہہ سکیں اور ایسے لوگ بھلے شکوہ ہائے نا گفتہ سے سینوں کو داغوں سے بھر لیں ، مجلس محبت ان کے ذکر کے بغیر ادھوری رہتی ہے اور دلوں میں وہ کشت محبت کی صورت پیوست رہتے ہیں۔ خدا ان کی قبر کو منور فرمائے۔ملک معراج خالدمرحوم کہا کرتے تھے : محمود ، یاد رکھنا ،زندگی کا حاصل ایک ہی فقرہ ہے۔ مرنے پر لوگوں نے کہہ دیا بندہ اچھا تھا تو سمجھو بیڑا پار ہے۔منور حسن کو الوداع کہتے اس سماج کی گواہی بھی آج یہی ہے کہ بندہ اچھا تھا۔
(روزنامہ 92 نیوز-ہفتہ 27 جون 2020ء)