ایک روشن دماغ تھا، نہ رہا… علم و عمل کا چراغ تھا، نہ رہا۔ جی ہاں! وہی جس کے نعرے ’’صبح منور، شام منور… روشن تیرا نام منور‘‘ ملک بھر میں گونجا کرتے تھے۔ وہی سید منور حسن، جمعۃ المبارک 26 جون 2020ء کو اپنے بے داغ، پاکیزہ اور روشن کردار کے ساتھ اپنے خالق و مالک کے حضور پیش ہوگئے۔ یقینِ کامل ہے کہ اللہ رحمٰن و رحیم نے اپنے اس مردِ درویش کا استقبال ان الفاظ سے کیا ہوگا ’’تُو دوعالم سے خفا میرے لیے تھا… آ، آج میں تجھ سے راضی ہوں، اور تُو مجھ سے خوش‘‘۔
سید صاحب کی تقاریر تو اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے اجتماعات، تربیت گاہوں اور دیگر پروگراموں میں برسوں سے سنتے اور سر دھنتے چلے آ رہے تھے، تاہم ان سے پہلا براہِ راست تعارف اور روبرو ملاقات فروری 1991ء میں محترم و مکرم نصیر احمد سلیمی صاحب کے واسطے سے ہوئی۔ راقم الحروف اُس وقت کے اہم اور ممتاز لیکن سرکار کے زیر نگرانی نیشنل پریس ٹرسٹ کے روزنامہ ’’مشرق‘‘ میں کام کررہا تھا، تاہم 1988ء میں جب وفاق میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت قائم ہوئی تو شدید نظریاتی کشمکش کے اس دور میں جن لوگوں کو روزنامہ ’’مشرق‘‘ میں سب سے پہلے انتقام کا نشانہ بننا پڑا اُن میں راقم الحروف کا نام سرفہرست تھا۔ بے روزگاری کے ان دنوں میں محترم مجیب الرحمٰن شامی صاحب نے اپنے باوقار ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ میں پناہ دی۔ فروری 1991ء میں کراچی میں سندھی، مہاجر فسادات کے بعد حالات خراب ہوئے تو محترم شامی صاحب نے کراچی جاکر رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی۔ بزرگ صحافی نصیر احمد سلیمی صاحب کراچی میں ’’زندگی‘‘ کے بیورو چیف تھے، انہوں نے ہوائی اڈے پر استقبال کیا اور پھر کم و بیش دس دن ان کی محبت اور شفقت سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ انہوں نے کراچی کے تمام اہم سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتوں کا زبردست بندوبست کیا تھا۔ انہی کی معیت میں ایک روز عصر کے وقت ادارۂ نور حق پہنچا۔ چند منٹ کے انتظار کے بعد سید منورحسن اپنا بریف کیس تھامے تشریف لے آئے اور میری یادداشت کے مطابق باہر استقبالیہ ہی کی میز کے ایک جانب وہ بیٹھ گئے اور دوسری جانب راقم الحروف اور نصیر احمد سلیمی صاحب! کراچی کے حالات، سندھ کی صورت حال، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے کردار اور مستقبل کے بارے میں سیر حاصل گفتگو نہایت خوش گوار ماحول میں مکمل ہوئی۔
سید محترم نے ہمارے تمام سوالوں کے تسلی بخش جوابات دیئے۔ تاہم جب باقاعدہ انٹرویو ختم ہوگیا تو میں نے تحریکِ اسلامی پر ٹریڈ یونین کے اثرات پر غیر رسمی گفتگو کرنا چاہی تو انہوں نے صاف انکار کردیا، اپنا بریف کیس اٹھایا اور جس راستے سے آئے تھے، اسی راستے سے واپس چلے گئے۔ شاید انہیں کسی دوسرے پروگرام میں پہنچنے کی جلدی تھی۔ بہرحال یہ ان سے میری پہلی براہِ راست اور دوبدو ملاقات تھی جس کی تلخ و شیریں یادیں ہمیشہ ذہن کو معطر کرتی رہیں گی۔
بعد ازاں سید صاحب محترم جماعت اسلامی پاکستان کے قیم بن کر منصورہ لاہور منتقل ہوگئے اور میں بھی مارچ 1995ء میں روزنامہ مشرق کی بندش کے بعد روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی سے وابستہ ہوگیا تو مختلف پروگراموں، پریس کانفرنسوں، جلسوں اور جلوسوں میں ان سے ملاقاتیں بھی معمول بن گئیں۔ ’’جسارت‘‘ اور ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کے لیے ان سے کئی انٹرویو بھی کیے۔ ہمیشہ شفقت، محبت اور خندہ پیشانی سے پیش آنا ان کا شعار رہا۔ ایک بار تحریکِ اسلامی کی سرپرستی میں صحافت میں پروان چڑھنے والے ایک سینئر صحافی جو بعد ازاں میاں نوازشریف کی زلفوں کے اسیر ہوگئے اور آج کل ایک گروپ آف نیوز پیپرز کے مالک ہیں، ان کے ماہنامہ ڈائجسٹ کے مدیر نے خواہش ظاہر کی کہ سید منور حسن صاحب کا تفصیلی انٹرویو کردیا جائے۔ میں نے سید صاحب کو ٹیلی فون کیا تو صبح سویرے کا وقت عنایت فرما دیا، میں مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی دارالضیافہ پہنچ گیا، جس کی پہلی منزل پر ایک کمرے میں سید صاحب کی رہائش تھی۔ چند منٹ بعد وہ سیڑھیوں سے اترتے دکھائی دیئے۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام اور مصافحہ کیا۔ نہایت گرمجوشی سے ملے، تاہم جب بات چیت شروع ہوئی تو کہنے لگے کہ ڈائجسٹ کے مدیر اعلیٰ تو ہمارے خلاف تحریر و تقریر کا پورا زور صرف کررہے ہیں، میں اُن کے رسالے کے لیے انٹرویو کیوں دوں؟ میں نے اپنی جانب سے ہر ممکن دلائل کے ذریعے آمادہ کرنے کی پوری کوشش کی، مگر وہ تیار نہیں ہوئے اور انٹرویو کا وقت انہوں نے میرے ساتھ چائے، حالاتِ حاضرہ اور ملکی سیاسی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال میں گزار کر نہایت تپاک سے مجھے رخصت کردیا۔
محترم و مکرم صفدر علی چودھری صاحب کی سرپرستی و رہنمائی میں نظریاتی صحافت کے فروغ کے لیے ’’لاہور میڈیا فورم‘‘ قائم کیا گیا تھا جس کے پہلے سیکرٹری اور بعد ازاں صدر کی ذمہ داری راقم الحروف نبھاتا رہا، اس دوران اکثر ہم صحافیوں سے ملاقات کے لیے سید منور حسن کو زحمت دیتے۔ وہ نہ صرف بلا تامل تشریف لاتے بلکہ تازہ سیاسی و عالمی حالات پر کھل کر بات چیت بھی کرتے، جس سے حالات کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی۔
جماعت اسلامی کی پالیسیوں سے آگاہی کی خاطر میں کبھی کبھار مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں شریک ہوجایا کرتا تھا۔ ایک روز اجلاس شروع ہوچکا تھا کہ میں ہال کے پچھلے دروازے سے داخل ہوا اور جہاں جگہ ملی وہاں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد جماعت کے ناظم عمومی برادرم رشید صاحب ایک چٹ لیے آ گئے جس پہ منور حسن صاحب نے لکھا تھا: ’’نمائندہ جسارت‘‘ انور نیازی صاحب کے ساتھ اجلاس میں آکر بیٹھ گئے ہیں، انہیں بتائیں کہ وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوسکتے۔ چٹ پڑھ کر میں خاموشی سے اجلاس سے اٹھ آیا اور پھر آج تک دوبارہ جانے کی ہمت نہیں ہوسکی۔
بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ دین سے گہری وابستگی اور ہمہ وقت تحریکی سرگرمیوں میں مصروف رہنے کے باوجود سید منور حسن کرکٹ سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ معلوم نہیں وہ کبھی عملاً کرکٹ کے کھلاڑی رہے یا نہیں، لیکن کرکٹ سے ان کے لگائو کا یہ عالم تھا کہ جب بھی کوئی اہم کرکٹ میچ ہوتا وہ اس کی لمحہ لمحہ کی صورتِ حال سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے۔ اپنی شدید مصروفیات کے باعث گرائونڈ میں جاکر یا ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر میچ دیکھنا تو اُن کے لیے ممکن نہ تھا مگر ریڈیو کمنٹری سننے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، یہ بھی ممکن نہ ہوتا تو اہم سیاسی اجلاسوں اور سفر تک میں تازہ ترین اسکور سے آگاہ رہنے کے لیے کوشاں رہتے، اور اس مقصد کے لیے شعبۂ نشرواشاعت میں ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے احباب سے رابطے میں رہتے۔
سید منور حسن اسلامی جمعیت طلبہ سے جماعت اسلامی تک اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے، اس دوران سیکڑوں جلسوں، جلوسوں، اجتماعات اور تربیت گاہوں میں تقاریر کیں اور لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا، مگر ان کے یہاں ’’دیگراں را نصیحت، خود میاں فضیحت‘‘ کا شائبہ تک نہیں تھا۔ وہ دوسروں کو جو نصیحت کرتے، پہلے خود اس پر عمل کرتے۔ منصورہ میں ان کے قریب رہنے والے کارکنان اور قائدین اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ ہمیشہ باوضو رہتے، تازہ وضو کی حاجت ہوتی تو وہ تمام مصروفیات ترک کرکے اذان سے پہلے وضو کرتے اور اذان کے بعد ان کی سب سے اہم ترجیح جلد از جلد مسجد پہنچنا ہوتی، جہاں وہ سنتوں کی ادائیگی کے بعد ہمیشہ تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرتے۔ جنہوں نے ان کی امامت میں نماز ادا کی ہے وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کی تلاوت میں بلا کی رقت ہوتی تھی، اور اکثر ’’از دل خیزد، بردل ریزد‘‘ کی کیفیت سامعین پر طاری ہوجاتی تھی۔
جنرل پرویز مشرف نے جب امریکہ کی افغانستان کے خلاف جارحیت پر امریکہ کے سامنے مکمل طور پر ہتھیار ڈال دیئے اور پاکستان کا سب کچھ امریکہ کے حوالے کردیا، اور اپنے اس اقدام کو منوانے کے لیے ظلم و جبر کے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا تو اکثر رہنما خاموشی اختیار کرکے گوشۂ عافیت میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ اس کیفیت میں سید منور حسن نے ڈٹ کر امریکہ اور اس کے حواریوں کی مخالفت اور مذمت کی، اور نتائج کی پروا کیے بغیر کھل کر جہاد اور مجاہدین کی حمایت میں کلمۂ حق بلند کیا۔ ان حالات میں ’’گو امریکہ گو‘‘ کی تحریک منظم کرنا سید منور حسن کا کام تھا، جس کے نتیجے میں آخرکار امریکہ افغانستان میں اپنی شکست تسلیم کرکے طالبان سے مذاکرات اور افغانستان سے ذلت آمیز واپسی پر مجبور ہوا۔ سید منور حسن کی بے شمار یادیں اور باتیں ہیں جو ذہن میں امڈی چلی آتی ہیں، مگر وقت کی قلت مانع ہے… یار زندہ صحبت باقی… اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔