بلوچستان کا اضطراب

سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کا صوبائی اسمبلی میں اہم خطاب

بلوچستان کے اندر متحدہ حزبِ اختلاف نے بجٹ سے پہلے (20جون2020ء) حکومت مخالف محاذ گرم کیے رکھا۔ دھرنے دیے ، ریلیاں نکالیں۔ دیگر کئی اعتراضات و تحفظات سمیت احتجاج کا ایک نکتہ جام کمال حکومت کو غیر منتخب افراد کے ذریعے ترقیاتی بجٹ کے استعمال سے روکنا تھا۔ ان میں حکومتی جماعت کے وہ لوگ شامل ہیں جو حزبِ اختلاف کے ارکان سے عام انتخابات میں شکست کھا چکے ہیں۔ مقصد یہ تھا کہ حزبِ اختلاف کے اراکین کی اہمیت گھٹائی جائے، اور انتخابی حلقوں میں پذیرائی ان کے لوگوں کو ملے۔ حزبِ اختلاف تقاضا کرتی رہی کہ ان کے حلقے بجٹ کے اندر نظرانداز نہ کیے جائیں اور ترقیاتی کام صوبے کے ہر علاقے میں برابر ہوں۔ بہرحال حزبِ اختلاف کے تحفظات متواتر احتجاج کے باوجود اپنی جگہ موجود ہیں، جس کا اظہار مابعد بجٹ اجلاسوں میں ان کی جانب سے ہوتا رہا ہے۔ 26جون کے اجلاس میں سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے کئی اہم پہلوئوں پر قدرے تفصیل سے اظہارِ خیال کیا۔ ان کی یہ تقریر بلاشبہ اہمیت کی حامل تھی۔
دیکھا جائے تو بلوچستان حکومت کی باگیں دن بہ دن ڈھیلی پڑتی جارہی ہیں، چناں چہ ایسے میں جب کوئی حکومت اپنی بات نہ منوا سکے یا اپنی بالادستی میں کلی طور پر ناکام ہو تو نظامِ حکمرانی اور سول سرکاری مشنری ماتحت ہوکر رہ جاتی ہے۔ بلوچستان کے اندر عالم یہ ہے کہ سول بیوروکریسی خود کو ہمہ پہلو پابند سمجھتی ہے۔ اردگرد قائم حصار سے سرکاری امور میں تنزلی اور پستی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ نواب اسلم رئیسانی نے بھی اپنی تقریر میں بھی حزبِ اختلاف کے حلقوں میں مداخلت نہ کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے حوالہ دیا کہ1988ء میں جب نواب اکبر خان بگٹی وزیراعلیٰ تھے، تو انہوں نے حزبِ اختلاف کے ارکان کے حلقوں میں کبھی مداخلت نہ کی۔ جبکہ اب عالم یہ ہے کہ ہارے ہوئے لوگوں کو اراکینِ اسمبلی سے زیادہ فنڈ دیا جاتا ہے۔ نواب اسلم رئیسانی نے واضح الفاظ میں مخاطب کیا کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) اس قدر تجاوز کی مرتکب ہوئی ہے کہ ان کے خاندان تک میں مداخلت کی۔ بھائی (نواب زادہ سراج رئیسانی) کو ورغلایا جسے ان کے خلاف مستونگ میں انتخاب لڑنے کے لیے ٹکٹ جاری کیا۔ یاد رہے کہ 25 جولائی2018ء کے عام انتخابات میں حلقہ پی بی35 مستونگ پر نواب اسلم رئیسانی کے مدمقابل ان کے چھوٹے بھائی نواب زادہ سراج رئیسانی کو بلوچستان عوامی پارٹی نے ٹکٹ دے رکھا تھا۔ یقیناً ایسا پہلی مرتبہ دیکھا گیا کہ رئیسانی خاندان کے اندر بھائیوں کے درمیان تنازعے کا ماحول بنا۔ یہ نواب اسلم رئیسانی کی بصیرت اور معاملہ فہمی تھی کہ انہوں نے تلخی نہ آنے دی۔ 13 جولائی2018ء کو سراج رئیسانی انتخابی جلسے کے دوران خودکش بم حملے کا ہدف بنے اور خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ نواب رئیسانی نے یہ بھی کہا کہ باپ پارٹی نے آج تک سراج رئیسانی کے قتل کی تحقیقات کرنے کی غرض سے انکوائری کمیشن نہیں بنایا۔ نواب رئیسانی کے مطابق فیڈریشن کے اندر مختلف قومیں رہتی ہیں، لہٰذا بغیر گورننس کے کثیرالقومی فیڈریشن کو نہیں چلایا جاسکتا۔ یہ بھی کہا کہ صوبے کے اندر منظورِ نظر افراد اغوا کی وارداتیں کرتے ہیں، ان کے پاس سرکاری گارڈ ہوتے ہیں، یہی لوگ مختلف جرائم کرتے ہیں، ان حرکات سے فیڈریشن کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم اور این ایف سی کے خلاف کام ہورہا ہے۔ فیڈریشن میں قوموں کو حقوق ملیں تو وہ ایک بہتر شکل اختیار کرسکتی ہے۔ یہ بھی کہا کہ ہمارے لوگوں سے ٹارگٹ کلنگ کرائی جاتی ہے، لہٰذا ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو ہم بحیثیت قوم روک سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے ان کے گائوں کو بلڈوز کیا گیا۔ یہ واقعہ تب پیش آیا جب امیرالملک بلوچستان کے گورنر اور کور کمانڈر جنرل عبدالقادر بلوچ تھے۔ نواب اسلم رئیسانی نے یہ بھی کہا کہ جب وہ مستونگ اپنے گائوں ’’کانک‘‘ جاتے ہیں تو انہیں بھی فورسز روک لیتی ہیں، شناخت پوچھتی ہیں، آنے جانے کا مقصد پوچھا جاتا ہے، تو ایک عام شہری سے سلوک کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مثال پیش کی کہ سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا، شکست کھائی، اور پھر نائن الیون کے بعد امریکہ نیٹو فورسز کے ساتھ داخل ہوا، اس نے بھی افغانستان میں شکست کھائی۔ انسان کے احساسات اور جذبات جبر اور بندوق کے تحت حل نہیں ہوتے۔ جبر و استبداد سے آواز، جذبات اور احساسات دبانا ممکن نہیں۔ بلوچستان کے اندر داخلی سیکورٹی پر سالانہ 50، 60 ارب روپے کے اخراجات آتے ہیں جس میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔ نواب رئیسانی نے کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ پیسے آتے جائیں گے اور خرچ کرتے جائیں گے، چھائونیاں بنائیں گے تو یہ اس ملک اور صوبے کی معیشت برداشت نہیں کرسکتی، لہٰذا اس پہلو پر غور کی ضرورت ہے۔ 23 مارچ1940ء کو محمد علی جناح کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ کے کنونشن میں قرارداد پاس کی گئی۔ اب محمد علی جناح کے اقوالِ زریں تو دیواروں پر لگائے جاتے ہیں، مگر جناح کی اس قرارداد کی کوئی حیثیت نہیں۔ خان قلات خان احمد یار خان اور محمد علی جناح کے درمیان معاہدہ ہوا۔ محمد علی جناح نے خان کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کیا۔ اب کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ ٹائم بارڈ ہوا۔ پولیٹکل ڈاکومنٹس ٹائم بارڈ نہیں ہوتے۔ نواب رئیسانی نے کہا کہ ہمیں اس فیڈریشن کو بچانا ہے۔ اگر فیڈریشن کو کچھ ہوتا ہے تو یہاں فساد تصور سے زیادہ ہوگا۔ افغانستان کی سرزمین پر بڑی جنگ لڑی گئی ہے اور یہاں اسلحہ آیا ہے۔ تین چار کروڑ کلاشنکوف تو ہوں گی۔ اگر یہ لوگ بگڑ جائیں تو انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اس لیے فیڈریشن کے اندر قوموں کے حقوق تسلیم کرنے چاہئیں۔ مرکز کے پاس کرنسی، دفاع اور خارجہ امور ہونے چاہئیں۔ پرویزمشرف نے قاضی عدالتوں کو ختم کیا، لیویز فورس کو ختم کیا۔ نواب نے کہا کہ انہوںنے پرویزمشرف کی باقیات کو ختم کیا (جب نواب رئیسانی وزیراعلیٰ تھے اور پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے) پرویز مشرف غاصب حکمران تھا۔ وہ کوئٹہ آیا تو اسے آنے سے منع کیا، لیکن وہ آیا تو ایئرپورٹ پر استقبال کرنے نہیں گئے۔ البتہ بلوچستان کابینہ کے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے چند اراکین نے اس کا استقبال کیا اور لنچ بھی کیا، حالانکہ پیپلز پارٹی جمہوریت کی بات کرتی ہے۔ جب تک پاکستان میں قومی وحدتوں کو اختیارات نہیں دیے جاتے معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے۔ نواب رئیسانی نے مزید کہا کہ ان کی خواہش و نظریہ تھا کہ گوادر کو سرمائی دارالحکومت بنائیں۔ جب گوادر کو سرمائی دارالحکومت بنایا تو آئندہ آنے والے حکمرانوں نے ایک دن کے لیے بھی وہاں جاکر وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں بیٹھنا گوارا نہیں کیا۔ نواب نے کہا کہ انہیں خدشہ تھا کہ یہ ایک دن گوادر پر قبضہ کرلیں گے، اور یہی ہوا۔ گوادر آج کسی اور کے ہاتھ میں جارہا ہے۔ ہم نے پورٹ سنگاپور اتھارٹی سے لڑ جھگڑ کر معاہدہ ختم کرایا۔ گوادر پورٹ کے ماسٹر پلان میں نیوی اور نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) اور عقیل ڈھیڈی نے زمین پر قبضہ کیا۔ جن سے زمین چھڑوائی انہیں کہیں اور زمین دی۔ ہمیں بیٹھ کر ایک دوسرے کی بات اورماحول کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے،کیونکہ بلوچستان میں روز واقعات ہورہے ہیں، اور اب پشتون علاقوں میں بھی ہورہے ہیں۔ سندھ میں بھی مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔ وہاں رینجرز پر حملے ہوئے ہیں۔ یہ خانہ جنگی نہیں تو اور کیا ہے؟ بات چیت ہونی چاہیے۔ مگر یہ بات چیت بالادستی کے بجائے برابری والی ہونی چاہیے۔ اس ریاست میں ہمارا بھی حصہ ہے۔ جو روش چل رہی ہے کوئی اس سے خوش نہیں۔ بی این پی کے ساتھ چھے نکاتی معاہدے میں آخری دن تک سردار اخترمینگل کے ساتھ جھوٹ بولا جارہا تھا۔ نواب اسلم رئیسانی جب وزیراعلیٰ تھے تب بھی ان تحفظات کا کھل کر اظہار کرتے تھے۔ وہ یہاں تک کہتے کہ بلوچستان کے اندر فرنٹیئر کور (ایف سی) نے متوازی حکومت بنا رکھی ہے۔آصف علی زرداری طاقتور صدر تھے، مگر نواب رئیسانی ان کے آگے بھی ڈٹے رہے۔ یوں وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کو انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے 14 جنوری 2013ء کو بلوچستان میں گورنر راج نافذ کردیا گیا۔ مگر نواب رئیسانی تب بھی وزارتِ اعلیٰ سے مستعفی نہ ہوئے۔ صوبے میں گورنر راج 13مارچ2013ء تک نافذ رہا۔گویا نواب نے ہمہ پہلو دبائو کے باوجود اپنی مدت پوری کرلی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ نواب رئیسانی نے سول حکومت کی رٹ، گورننس، ریاست و فیڈریشن کے استحکام کی بات کی ہے۔ اور کہا ہے کہ اسے دانستہ غیر مستحکم و کمزور نہ کیا جائے۔