فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل نے او آئی سی کی بقا کے لیے سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں
اسلامی تعاون تنظیم کے کشمیر رابطہ گروپ کی ورچوئل کانفرنس میں گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد پہلی بار مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر جان دار انداز میں اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔کشمیر رابطہ گروپ کا یہ اجلاس پاکستان کی درخواست پر ہوا، اور اس کی صدارت او آئی سی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر یوسف الاعثمان نے کی۔ او آئی سی رابطہ گروپ میں سعودی عرب، پاکستان، ترکی، نائیجر اور آذربائیجان شامل ہیں۔ ان تمام ممالک کے وزرائے خارجہ نے ورچوئل کانفرنس میں شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیے میں او آئی سی کا ایک مبصر مشن مقبوضہ کشمیر بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کشمیری عوام کے خلاف سیکورٹی آپریشن بند کرنے، خطے کا آبادیاتی ڈھانچہ تبدیل کرنے سے باز رہنے، بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرنے، اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت تنازعے کو پُرامن انداز سے حل کرنے کے لیے مذاکرات کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اجلاس میں او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ میں عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ کشمیر کے عوام کوگزشتہ کئی دہائیوں سے نہ دئیے جانے والے ان حقوق کے حصول کے لیے اپنی کوششوں کو مزید منظم کریں اور مسئلے کا بات چیت سے حل نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے او آئی سی سے مطالبہ کیا کہ تنظیم بھارت پر پانچ اگست کا فیصلہ واپس لینے اور کشمیری عوام کو ان کا حق دینے کے لیے مجبور کرے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے منظم قتلِ عام کو روکنے کے لیے کردار ادا کیا جائے۔
اسلامی تعاون تنظیم کے کشمیر رابطہ گروپ کا یہ اجلاس اور اس میں کشمیر کے حوالے سے کسی حد تک جان دار لب ولہجہ اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد مسلمان ملکوں کا یہ ادارہ کوئی مثالی تو درکنار، سرے سے کارکردگی کا مظاہرہ ہی نہیں کرسکا۔ بھارت نے او آئی سی کی اس خاموشی کو اپنے یک طرفہ اور ظالمانہ فیصلے کے حوالے سے کلین چٹ سمجھ کر زیادہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنا شروع کیا۔ متحدہ عرب امارات نے تو خاموشی سے بڑھ کر افسوسناک رویّے کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانچ اگست کے قدم کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ متحدہ عرب امارات چونکہ عالمی اور علاقائی سیاست میں سعودی عرب کے پلڑے میں گردانا جاتا ہے اس لیے اُس کی آواز کو سعودی عرب کی آواز سمجھا گیا۔ نریندر مودی نے او آئی سی کی اس خاموشی پر سینہ پھُلا کر کہنا شروع کیا کہ کسی مسلمان ملک نے کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت نہیں کی۔ اس کا مقصد کشمیری مسلمانوں کو مایوس کرکے پانچ اگست کے اقدامات کو تسلیم کرنے پر مجبور کرنا تھا۔ آفرین ہے کشمیری عوام کے عزم وہمت پر، کہ انہوں نے اپنے بچوں کو یکے بعد دیگرے قربان کرکے بھارت پر یہ واضح کیا کہ وہ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے کس حد تک جانے کو تیار ہیں۔
او آئی سی کی اس خاموشی سے اس تنظیم کا اپنا وجود ہی خطرات کا شکار ہونے لگا تھا اور ملائشیا میں ترکی، ایران، پاکستان اور ملائشیا کی ایک کانفرنس کو او آئی سی کی تقسیم اور خاتمہ بالخیر کی طرف اہم قدم کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ اس کانفرنس سے یوں لگ رہا تھا کہ او آئی سی کے مقابلے میں کشمیر اور فلسطین پر دوٹوک مؤقف رکھنے والے ممالک اب ایک نیا اور متوازی پلیٹ فارم بنانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سعودی عرب نے اس صورتِ حال کو بھانپتے ہوئے پاکستان کو کانفرنس میں شریک ہونے سے روک دیا، اور یوں کانفرنس پاکستان کے بغیر منعقد تو ہوئی مگر کوئی ٹھوس مقصد حاصل نہ کرسکی۔ کوالالمپور کانفرنس کو یوں بے اثرکرنے کے بدلے سعودی حکومت نے پاکستان کو کیا یقین دہانی کرائی یہ ایک راز ہی رہا۔ ظاہر ہے کہ سعودی حکومت نے او آئی سی کو کشمیر کے حوالے سے تھوڑی بہت فعالیت دکھانے کی یقین دہانی کرائی ہوگی۔ کشمیر رابطہ گروپ کا اجلاس اور اس میں اختیار کیا جانے والا لب ولہجہ ’’ سجدۂ سہو‘‘ہے۔ گیارہ ماہ بعد ہی سہی، مسلمان ممالک کے عالمی فورم کو کشمیری مسلمانوں کی حالتِ زار پر لب کشائی کا خیال آہی گیا تو اسے دیر آید درست آید کہا جا سکتا ہے۔
حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اس فضا میں او آئی سی کا غیرفعال رہنا اس کے وجود کو بے معنی اور تحلیل کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل نے او آئی سی کی بقا کے لیے سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں۔ اپنے وجود کے جواز کے لیے او آئی سی کے پاس کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل پر واضح لائن اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ معاملہ صرف او آئی سی کی بقا کا ہی نہیں، مسلمان دنیا میں سعودی عرب کی سیادت اور قیادت بھی سنجیدہ سوالوں کی زد میں ہے، اور او آئی سی میں سعودی عرب کی حیثیت وہی ہے جو اقوام متحدہ میں امریکہ کو حاصل ہے۔ بھارت نے او آئی سی کے اس مؤقف کو اپنے روایتی انداز میں یہ کہہ کر مسترد کیا ہے کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے، او آئی سی کو اس میں دخل اندازی کا حق نہیں۔
اس دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان کنٹرول لائن پر بھرپور پنجہ آزمائی جاری ہے۔ دونوں افواج بھاری ہتھیاروں سے ایک دوسرے کے ٹھکانوں کو نشانہ بنارہی ہیں۔ بھارتی گولہ باری کی زد اکثر عام افراد پر پڑتی ہے، اور آئے روز کنٹرول لائن پر معصوم افراد شہید ہورہے ہیں۔ بھارت کا میڈیا اس فائرنگ کا یہ جواز پیش کررہا ہے کہ پاکستان فائرنگ کی آڑ میں حریت پسندوں کو وادی میں داخلے کے لیے محفوظ راہ دار ی اور کور فراہم کرتا ہے۔ اب تو بھارتی میڈیا نے یہ واویلا بھی شروع کردیا ہے کہ پاکستان نے فدائی دستوں کو وادی میں داخل کیا ہے جو وقت آنے پر بھارتی فوجی کیمپوں کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے۔ پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے اندر تحریک آزادی کو کچلنے میں ناکامی کا غصہ کنٹرول لائن پر فائرنگ کے ذریعے نکال رہا ہے۔
ایک طرف فوجی محاذ پر جاری یہ کشیدگی دونوں ملکوں کے تعلقات کو بد سے بدتر کی طرف لے جا رہی ہے، تو دوسری طرف سفارتی محاذ بھی اس کشیدگی کے اثرات کی زد میں ہے۔ پیر پنجال کے پہاڑوں کی فوجی کشیدگی نے صفدر جنگ روڈ دہلی اور ڈپلومیٹک انکلیو اسلام آباد کے پُررونق علاقوں تک وسعت اختیار کرلی ہے۔ بھارت نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کی تعداد کم کرکے پچاس فیصد کرکے سفارتی کشیدگی کو انتہا تک لے جانے کی کوشش کی۔ پاکستان کے ہائی کمیشن کو آگاہ کردیا گیا کہ ایک ہفتے کے اندر وہ اپنے آدھے سفارتی عملے کو واپس پاکستان بھیج دے۔ پاکستان نے اس بھارتی قدم کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کے بجائے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے اسلام آباد میں بھارتی سفارت خانے کا اسٹاف آدھا کرنے کا اعلان کیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے باضابطہ طور پر اس کا اعلان بھی کردیا۔ بھارت نے سفارتی کشیدگی بڑھانے کی وجہ اسلام آباد میں دو بھارتی سفارت کاروں کی گرفتاری بتایا تھا۔ بھارت نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستانی اہلکاروں نے سفارت کاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا جو ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان نے ان الزامات کو کلی طور پر مسترد کیا ہے اور سفارت کاروں پر کسی قسم کے تشدد کی سختی سے تردید کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی ہائی کمیشن پاکستان میں تخریبی اور سبوتاژ کی کارروائیوں کی سرپرستی میں ملوث رہا ہے۔ ہائی کمیشن کے لوگ پاکستان میں سلیپر سیلز کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں جن کے سرگرم ہونے کا خدشہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ دنوں ظاہر کیا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی کئی تحریکوں کو بھارت کی کھلی سرپرستی حاصل ہے۔ ظاہر ہے کسی مخصوص وقت پر بروئے کار آنے کے لیے پاکستان میں بھارت کے سلیپر سیلز موجود ہوں گے۔
وزیر خارجہ نے اگر ایسے سیلز کی موجودگی کی بات کی ہے تو اس پر اعتبار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اسلام آباد میں بھارتی لابی بھی ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ آج کل حالات کی وجہ سے یہ لابی دب کر رہ گئی ہے، مگر جونہی دبائو کم ہوتا ہے یہ موم بتی مافیا اپنے بلوں سے باہر نکل آتی اور سرحدی لکیروں کو مٹانے کا واویلا کرتی ہے۔ یہ لابی بھی ایک طرح کا سلیپر سیل ہی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس کے ہاتھ میں بندوق اور دستی بم نہیں ہوتا۔
سفارتی عملے میں کمی کو چین کی طرف سے کی جانے والی پٹائی کی خفت مٹانے کی کوشش بھی کہا جارہا ہے۔ بھارت چین پر اپنا غصہ اتارنے کی قدرت نہیں رکھتا، اس لیے اب پاکستان کے ساتھ پہلے سے موجود کشیدگی کو بڑھاکر بھارت میں مودی کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گلوان میں رنگین ڈنڈوں کی مار کا بدلہ اب پاکستان کے ساتھ سفارتی کشیدگی کی صورت میں لیا جارہا ہے۔ چین کے مقابلے میں فوجی ٹارزن نہ بن سکنے والا مودی پاکستان کے مقابلے میں سفارتی ٹارزن بن کر سامنے آنے کی کوشش کررہا ہے۔ ’’سرینڈر مودی‘‘ کا جو دھبہ مودی کے دامن پر لگ چکا ہے اب اسے دھونا ممکن نہیں رہا… اور ابھی ایسے بہت سے دھبے مودی کا مقدر ہیں، کیونکہ فسطائی رویوں کا آخرکار یہی نتیجہ نکلتا ہے۔