پاکستان اسٹڈی سینٹر، جامعہ پشاور کی خاتون اسکالر کی پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ
خواتین پاکستان کی آبادی کا نصف یا شاید نصف سے بھی کچھ زیادہ ہیں، لیکن ہماری سیاسی اور انتخابی تاریخ اس بات پرگواہ ہے کہ خواتین کو کبھی بھی پاکستان کی سیاست میں وہ کردار ادا کرنے کا موقع یا تو ملا نہیں، یا پھر دیا نہیں گیا جو پاکستان کے مساوی شہری ہونے کے ناتے ان کا بنیادی حق ہے۔ بدقسمتی سے اس حوالے سے خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے حالات اور بھی زیادہ تشویش ناک ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اب جوں جوں ہمارے ہاں سیاسی شعور میں اضافے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہورہی ہیں، سیاست اور انتخابی سرگرمیوں میں خواتین کاکردار بھی بڑھتا جارہا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی یقیناً خوش آئند ہے کہ خود پڑھی لکھی خواتین میں بھی یہ احساس جاگزیں ہوتا جارہا ہے کہ ملک کی مجموعی آبادی کا نصف ہونے کے ناتے خواتین کو نہ صرف زندگی کے دیگر شعبوں بلکہ آگے آکر سیاست میں بھی سرگرم، متحرک اور فعال کردار اداکرنا چاہیے۔ اس کی بہترین مثال گزشتہ دنوں ایک خاتون کی جانب سے پی ایچ ڈی سطح کی تحقیق کا سامنے آنا ہے۔ واضح رہے کہ پی ایچ ڈی سطح کی یہ تحقیق اسلام آباد، پنجاب یا سندھ کی کسی جامعہ کے بجائے تعلیمی، نیز خواتین کے حقوق کے حوالے سے پسماندہ سمجھے جانے والے صوبے(خیبرپختون خوا)کی تاریخی مادرِ علمی جامعہ پشاور کے پاکستان اسٹڈی سینٹر کی ایک خاتون اسکالر حامدہ بی بی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ حامدہ بی بی نے پی ایچ ڈی کی تحقیق صوبے کے نامور ماہرِ تعلیم، دانشور اور پاکستان اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر فخرالاسلام کی زیرنگرانی مکمل کی ہے۔ جس کی تقریب گزشتہ دنوں پاکستان اسٹڈی سینٹر میں منعقد ہوئی۔
یہاں اس امر کی نشاندہی خالی از دلچسپی نہیں ہوگی کہ حامدہ بی بی کا تعلق خیبرپختون خوا کے کسی شہری علاقے سے نہیں ہے، بلکہ وہ ضلع مردان کے انتہائی پسماندہ دیہی علاقے کاٹلنگ سے تعلق رکھتی ہیں۔ لہٰذا ان کی یہ تحقیق اگر ایک طرف بحیثیتِ مجموعی خواتین کے وسیع تر مفاد میں ہے تو دوسری جانب اس سے صوبے کے دوردراز علاقوں سے تعلق رکھنے والی طالبات کو بھی یہ راہنمائی اور حوصلہ ملے گا کہ اگر کوشش کریں تو وہ بھی حامدہ بی بی کی طرح پی ایچ ڈی سطح کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔
زیر بحث مقالہ جو سیاست میں خواتین کی حصے داری یعنی شمولیت، اور سیاست میں ان کے کردار پرلکھا گیا ہے، اس میں خیبر پختون خوا بالخصوص ضلع پشاور میں خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس مطالعے میں تحقیق کے دونوں مروجہ جدید طریقے Quantitative اور Qualitative کوبنیاد بناکر اس تحقیق کے نتائج کو سائنٹفک بنیادوں پر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مطالعے کے اہم مقاصد میں سیاست میں خواتین کی عدم شرکت کی وجوہات، خواتین کے لیے نشستوں کی تخصیص کے نتائج، اور ضلع پشاور کی قومی و صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی حکومتوں میں خواتین نمائندوں کی کارکردگی کی جانچ پڑتال شامل ہے۔ تحقیق کے دوران پشاور میں ضلع، تحصیل اور محلہ/ دیہاتی کونسلوں کے مختلف درجوں کی 265 منتخب خواتین کونسلروں سے ایک سوالنامہ پُر کروانے کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خوا کی صوبائی اور قومی اسمبلی کی 20خواتین ارکان کے علاوہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی فعال خواتین کارکنوں سے تفصیلی انٹرویوز بھی اس تحقیق کا بنیادی حصہ ہیں۔ اس تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سیاست میں خواتین کی کم یا عدم شرکت کے بنیادی عوامل میں قبائلی ثقافتی طرزعمل ایک اہم عنصر ہے، جس کے نتیجے میں خواتین کی محدود نقل و حرکت، ان کی فیصلہ سازی کی طاقت کا فقدان، ان کی ناخواندگی، صنفی عدم رواداری اور سیاسی بیداری کا فقدان جیسے مسائل کی وجہ سے خواتین کو سیاست میں وہ اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا موقع نہیں مل رہا ہے جو اس نصف آبادی کا بنیادی آئینی حق ہے۔ ان عوامل کی مزید تشریح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ خواتین کے اپنے خاندانوں کے مردوں پر مالی انحصار، اور ان کی گھریلو ذمہ داریاں جو انہیں عوامی میدان میں مؤثر شرکت سے روکتی ہیں کے علاوہ ناقص انتخابی قوانین، ووٹنگ کے دن رائے دہندگی کے خراب انتظامات اور قانون سازی کے میدان میں خواتین کے لیے سازگار ماحول کی عدم موجودگی وہ دیگر اہم وجوہات ہیں جو خواتین کے سیاست میں حصہ لینے، نیز ان کے فعال کردار کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں گو کہ بعض خواتین مثلاً محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان، بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، بیگم کلثوم نواز، تہمینہ دولتانہ اور بیگم نسیم ولی خان نے خاصا نمایاں کردار بھی ادا کیا ہے ، لیکن پھر بھی سیاست میں خواتین کا کردار محدود ہی رہا ہے۔
دوسری جانب پاکستانی سیاست میں ہمیشہ سے الیکٹ ایبلز کا نہ صرف خاصا چرچا رہا ہے بلکہ ہماری سیاست میں یہی وہ گنے چنے لوگ ہیں ہماری انتخابی سیاست جن کے گرد گھومتی رہی ہے۔ الیکٹ ایبلزکی اصطلاح ہماری سیاست میں دراصل ان سیاسی گھوڑوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو نہ صرف سیاست کے روایتی دائو پیچ سے واقف ہوتے ہیں بلکہ جو سیاست کی ہوا کا رخ جاننے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، اور جن کے کسی بھی الیکشن میں جیتنے کے امکانات تقریباً سو فیصد ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں خواتین کی سیاست میں عدم فعالیت کی ایک اور اہم وجہ ہمارے ہاں کے ایک عام ووٹرکا یہ خیال ہے کہ کسی خاتون امیدوار کی نسبت اس کے تھانہ کچہری اور زمین جائداد اور پٹواری کے مسائل کوئی مرد امیدوار زیادہ بہتر طور پر حل کرسکتا ہے۔ اُن کی نظر میں یہ سب کسی خاتون کے بس کی بات نہیں ہے۔ اسی لیے عام ووٹرز جن میں غالب اکثریت مردوں کی ہوتی ہے، عورتوں کے بجائے مردوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں خواتین کسی نہ کسی حد تک نظر توآتی ہیں، اور جنرل پرویزمشرف کی برکت سے 22 فیصد کوٹے کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ان کی خاطر خواہ تعداد بھی موجود ہے، لیکن پارلیمان ہی میں مرد اراکینِ کی جانب سے خواتین کو دیے گئے مختلف القابات، نیز پارلیمانی امور، خاص کر خواتین کے مسائل اور حقوق سے متعلق معاملات میں ان کے کردار سے اس بات کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے کہ انھیں ان منتخب فورمز پر کتنا سنجیدہ لیا جاتا ہے۔ مبصرین اور تجزیہ کاروں کے خیال میں خواتین کا الیکٹ ایبلز نہ ہونا بھی معاشرے کے اسی رویّے اور سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس میں عورت کی اپنی انفرادی سوچ کو پسِ پشت ڈال کر اُسے شو پیس کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جب تک معاشرتی رویوں میں تبدیلی نہیں آئے گی، اُس وقت تک سیاست میں بھی خواتین کے کردار کو تبدیل کرنا انتہائی مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہوگا۔
الیکشن کے دن خواتین کے ٹرن آؤٹ میں کمی یا اضافے کا تعلق جہاں مقامی حالات اور مختلف سیاسی جماعتوں کے کردار پر ہے، وہاں چادر اور چاردیواری، سیکورٹی اور خواتین پولنگ عملے کی تعیناتی کے انتظامات سے بھی اس چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ خواتین کے لیے اگر الیکشن کے دن علیحدہ باپردہ پولنگ بوتھ ہوں گے جہاں انھیں ان کی عزت اور تحفظ کا احساس ہوگا تو ان کے لیے یقیناً ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے گھروں سے نکل کر پولنگ اسٹیشن پہنچنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوگا۔
حامدہ بی بی کی ریسرچ کے اعداد وشمار اور اخذ شدہ نتائج پر بحث سے قطع نظر اس تلخ حقیقت کو نظرانداز کرنا شاید کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوگا کہ ہمارے ہاں خواتین کو سیاست میں کبھی بھی وہ کردار اور حق نہیں دیا گیا جس کو نہ صرف آئینِ پاکستان میں تسلیم کیاگیا ہے بلکہ جس کی واضح دلیل اور گنجائش اسلامی تعلیمات میں بھی موجود ہے۔ یہاں ان اعداد وشمار سے اس بات کی واضح معنوں میں تصدیق ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں سیاست میں خواتین کی شرکت کی دیدہ دانستہ حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ الیکشن ایکٹ2017کے تحت ملک کی سیاسی جماعتوں کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں عام نشستوں پر پانچ فیصد خواتین امیدواران کی نامزدگی کی شرط عائد کی گئی ہے، لیکن یہ ہمارا المیہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کی اس شرط کو پورا کرنے کے لیے جنرل نشستوں پر خواتین امیدواران کی اُن حلقوں پر جن میں بعض قبائلی حلقے بھی شامل تھے، نامزدگیاں کیں جہاں سے ان خواتین کے جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔ مثلاً 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف نے اپنی ایک خاتون امیدوار حمیدہ شاہد کو دیربالا کے ایک ایسے پسماندہ حلقے پی کے 10 سے نامزد کیا جو انتخابی عمل میں خواتین کی عدم شرکت کے حوالے سے پورے ملک میں شہرت رکھتا ہے، جہاں 2013ء کے انتخابات میں خواتین کے کُل رجسٹرڈ تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار ووٹرز میں سے صرف ایک خاتون نے ووٹ ڈالا تھا۔ اسی طرح خواتین کے حقوق کی علَم بردار اور قوم پرست سیکولر جماعت اے این پی نے ایک قدامت پرست قبائلی علاقے ضلع خیبر جہاں اس سے پہلے تاریخ میں کبھی کسی خاتون نے الیکشن نہیں لڑاتھا، کے صوبائی حلقے پی کے 109سے ناہید بی بی نامی خاتون کو ایک ایسی جنرل نشست پر ٹکٹ جاری کیا جس پر اس تنہا خاتون کے مقابلے میں 19مرد امیدواران میدان میں تھے، جن میں غالب اکثریت علاقے کے نامی گرامی سرمایہ دار سیاسی گھرانوں کے امیدواران کی تھی۔ درحقیقت یہی ہمارا وہ مجموعی قومی تضاد ہے جو نہ صرف خواتین کی سیاسی عمل میں فعال شرکت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے بلکہ جس کی آڑ میں جہاں خواتین ووٹرز کا استحصال کیا جاتا ہے، وہاں یہ طرزعمل خواتین امیدواران کی سبکی اور حوصلہ شکنی کا باعث بھی بنتا ہے۔