گنجینۂ معنی کا طلسم(اشاریہ دیوانِ غالب)۔

جناب رشید حسن خاں نے اس کتاب پر کتنی محنت کی ہے، دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔
ڈاکٹر تحسین فراقی شکریے کے مستحق ہیں جن کی توجہ سے یہ عظیم تحقیق منصۂ شہود پر آئی۔ ڈاکٹر تحسین فراقی تحریر فرماتے ہیں:
’’رشید حسن خاں (1925ء۔ 2006ء) ہمارے عہد کے ایسے نامور محقق تھے جن کی پوری زندگی قلم و قرطاس سے ان کے مسلسل اور شکست ناپذیر تعلق کی گواہی دیتی ہے۔ انہیں اردو قواعد، املا اور لغت و زبان سے طبعی مناسبت تھی۔ ان موضوعات اور ان کے علاوہ تدوینِ متن وغیرہ سے اسی فطری مناسبت کے باعث انہوں نے متعدد اہم کتابیں تحریر کیں جو اردو زبان کے چاہنے والوں، دانشوروں اور دانش گاہوں کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات کے لیے انمول گنجینے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ رشید حسن خاں کلاسیکی اردو متون میں پَیرے ہوئے اور لفظ و لسان کے تہ رس پارکھ اور محقق تھے۔ ان کا عربی اور فارسی زبانوں کا علم کافی و وافی تھا، اردو کے نامور قدیم و جدید تخلیق کاروں کے عشاق میں سے تھے۔ انہی میں غالب بھی شامل ہیں جن کے دیوان کا ایک بے مثال اشاریہ’’گنجینۂ معنی کا طلسم‘‘ کے زیر عنوان انہوں نے سالہا سال کی جگر توڑ کاوش و محنت کے بعد اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے تیار کرلیا تھا اور اشاعت کے لیے انجمن ترقی اردو (ہند) کے سپرد کردیا تھا۔ پھر نہ معلوم کیا بجوگ پڑا کہ کتاب سالہا سال تک اشاعت سے محروم رہی، تاآنکہ انجمن کے موجودہ جنرل سیکریٹری ممتاز ادیب محبی اطہر فاروقی صاحب کی کاوشوں سے اس کی پہلی جلد غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام اور انجمن کے اشتراک سے چند سال پہلے شائع ہوگئی۔ (واضح رہے کہ ’’گنجینۂ معنی کا طلسم‘‘ کا کمپوز شدہ مسودہ تین جلدوں پر مشتمل ہے)۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے بھی فاروقی صاحب کی طرح رشید حسن خاں سے گہرا تعلقِ خاطر رہا۔ ان سے چند خطوں کا تبادلہ بھی ہوا، ملاقاتیں تو متعدد رہیں۔ میرے اشتیاق کو دیکھتے ہوئے فاروقی صاحب نے کمال مہربانی سے ’’گنجینۂ معنی کا طلسم‘‘ کی تینوں جلدوں کا کمپوز شدہ مسودہ مجھے بھیج دیا، اور اب یہ تینوں جلدیں ان کی باقاعدہ اجازت سے ایک ہی جلد میں ان کے شکریے کے ساتھ شائع کی جارہی ہیں۔
اردو کے بے مثل اور طرح دار شاعر غالب کا کلام، کیا اردو، کیا فارسی، واقعی ’’گنجینۂ معنی کا طلسم‘‘ اور ’’نقش ہاے رنگ رنگ‘‘ سے عبارت ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ان کے کلام کا ایک مفصل، مُحشیٰ اور محققانہ اشاریہ تیار کیا جائے۔ رشید حسن خاں نے اس ضرورت کو بہ طریقِ احسن پورا کیا۔ یقین ہے کہ ان کا یہ آخری کام بھی ان کے اعلیٰ تحقیقی و علمی کارناموں میں شمار ہوگا۔ اپنے مفصل اور عالمانہ مقدمے میں انہوں نے اپنی غیر معمولی شعر فہمی اور محققانہ زیرکی کا جا بجا ثبوت مہیا کیا ہے۔ انہوں نے کس قدر درست لکھا ہے:
’’کسی لفظ کو ہم کاغذ پر لکھیں تو وہ محض ایک نقش معلوم ہوگا، ایک شکل ہوگی غیر متحرک۔ اس وقت ہم صرف اس کے متعارف معنی سے واقف ہوں گے۔ اسی لفظ کو جب ہم کسی شعر میں پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے باطن میں چھپی ہوئی معنویت نمایاں ہونے لگی ہے… کسی بڑے شاعر کے مجموع کلام میں کتنے لفظ ہیں؟ ان کا اشاریہ بنانا بھی دلچسپ کام ہے، لیکن یہ دیکھنا اس سے بھی زیادہ دلچسپ اور ضروری ہے کہ مختلف الفاظ نے کیسی کیسی نسبتوں کی تشکیل کی ہے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ بڑے شاعر کے ہاں لفظ ایک مجرد آواز نہیں، متعدد اور معنی خیز آوازوں اور تلازموں کا ایک حیرت آفریں مجموعہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر لغت کا نہیں، لغت شاعر کا محتاج ہوتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بڑا تخلیق کار لفظ گر اور خلاقِ معانی ہوتا ہے۔ وہ اپنی فکر کی کارگاہ میں لفظوں کے چاند سورج ڈھالتا ہے جن سے لغت و لسان کو نئی زندگی اور طرفہ تازگی ملتی ہے۔ غالب کا شمار بھی ایسے ہی لفظ گروں اور معانی کے لعل و گہر ڈھالنے والوں میں ہوتا ہے۔
پیش نظر کتاب میں رشید حسن خاں نے دیوانِ غالب کے نسخۂ عرشی (طبع اوّل 1958ء) کو بنیادی نسخے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کے خیال میں بعض کمیوں اور فروگزاشتوں کے باوجود نسخۂ عرشی طبع اوّل ہی کو کتابِ حوالہ کی حیثیت حاصل ہے۔ طبع ثانی میں جو اضافے ہیں، ان میں بہت سا دخل اکبر علی خاں عرشی زادہ کو ہے۔ گو کہ رشید حسن خاں نے اشاریے کی بنیاد طبع اوّل ہی کو بنایا ہے مگر ہر شعر کا طبع ثانی کے متن سے تقابل ضرور کیا ہے، اور بعض جگہ طبع ثانی سے استناد بھی کیا ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے غالب پر ڈاکٹر گیان چند کی کتاب ’’تفسیر غالب‘‘ کو بھی پیش نظر رکھا ہے اور متن اشعار کے سلسلے میں اس سے بھی استفادہ کیا ہے۔ رشید حسن خاں نے اپنے مقدمے میں متنِ غالب کے سلسلے میں جو دادِ تحقیق دی ہے اُس کا اعتراف نہ کرنا ظلم کے مترادف ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے غالب کے دیگر آثار کو بھی پیشِ نگاہ رکھا ہے۔ انہیں اس بات کی توقع تھی اور بجاطور پر کہ نقد و نظر سے تعلق رکھنے والے اصحاب ان کی اس [آخری] کاوش کو بہ نظرِ استحسان دیکھیں گے اور اس میں شامل بعض تنقیدی مباحث کو اس کے مندرجات سے نئی روشنی ملے گی۔
’’گنجینۂ معنی کا طلسم‘‘ ڈاکٹر اطہر فاروقی کے مکرر شکریے کے ساتھ شائع کی جارہی ہے۔ ان کا یہ ایثار کچھ کم قابلِ داد نہیں کہ انہوں نے کم و بیش چودہ سو صفحات پر مشتمل کمپوز شدہ مسودہ مجلس ترقی ادب کو ہدیہ کیا۔ مجلس ترقی ادب کے اربابِ علم کے لیے یہ امر باعثِ افتخار ہے کہ ’’گنجینۂ معنی کا طلسم‘‘ غالب کے ایک سو پچاسویں سالِ وفات کے موقع کی مناسبت سے شائع کی جارہی ہے۔ یقین ہے کہ اس کتاب سے نہ صرف غالب شناسی کی کئی نئی راہیں کھلیں گی بلکہ خود رشید حسن خاں کی روح بھی آسودہ ہوگی کہ اپنی تکمیل کے چودہ برس بعد بالآخر یہ کتاب ایک ہی مجلّد میں اشاعت کی روشنی دیکھ رہی ہے‘‘۔
ڈاکٹر اطہر فاروقی سیکریٹری انجمن ترقی اردو (ہند) لکھتے ہیں:
’’رشید حسن خاں صاحب مرحوم کی یہ کتاب نہ جانے کتنے حادثات سے گزری، اب بالآخر شائع ہورہی ہے۔ یہ کتاب تقریباً 13 برس تک کیوں شائع نہ ہوئی، اس کی کہانی نہایت پراسرار ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ یہ کتاب اس عبرت ناک انجام کو نہ پہنچی جو حشر میکشؔ اکبر آبادی کی انجمن ترقی اردو (ہند) کی دعوت پر تیار کردہ فرہنگِ نظیر اکبر آبادی کا ہوا تھا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب انجمن علی گڑھ میں پناہ گزیں تھی۔ اس کی اشاعت کسی نہ کسی بہانے سے مؤخر ہوتی رہی اور آخر میں کہا گیا کہ کتاب کا مسودہ ہی ضائع ہوگیا۔
رشید حسن خاں صاحب کے مزاج کی سخت گیری اور لوگوں کو ناراض کرنے کے اُن کے شوق کے باوجود اُن کے نیاز مندوں کا ایک ایسا حلقہ بھی تھا جسے ان کے جانثاروں سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ انجمن میں بھی ایسے لوگ تھے جو رشید صاحب سے بے لوث اور بے پناہ محبت کرتے تھے۔ انہوں نے ہی اس کتاب کو ضائع ہونے سے بچایا۔
میں اپنا شمار بھی رشید صاحب کے نیازمندوں میں کرتا ہوں۔ رشید صاحب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے پاس آنے والے خطوط فوراً ہی ضائع کردیا کرتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ جن لوگوں کے ساتھ بے تکلف تھے اُن سے وہ کسی قسم کی رازداری نہیں رکھتے تھے۔ میں نے بھی اس طریقے کو اختیار کیا مگر جانے کیسے اُن کے میرے نام لکھے ہوئے خطوط کی ایک بڑی تعداد جو نہایت ذاتی نوعیت کے تھے اور جن میں خود میری زندگی کے کئی برہنہ باب بھی تھے، محفوظ رہ گئے، اور یہ تمام خطوط جناب ٹی۔آر۔ رینا کی کتاب ’’رشید حسن خاں کے خطوط‘‘ میں شامل ہیں۔ ان خطوط کو پڑھ کر یہ احساسِ تفاخر ضرور ہوتا ہے کہ اردو کے ایک عہد ساز محقق کی مجھ پر کیسی بے پایاں نوازشات تھیں۔
بہرکیف یہ کتاب رشید حسن خاں کی دیگر کتابوں کی طرح اردو ادب میں بیش بہا اصافہ ثابت ہوگی‘‘۔
جناب رشید حسن خاں نے اس اشاریے پر مبسوط گراں قدر مقدمہ تحریر کیا ہے۔ وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’غالب صدی کے سلسلے میں فروری 1970ء میں شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی کی طرف سے ایک کتاب ’’اشاریہ کلامِ غالب‘‘ شائع ہوئی تھی جس میں غالب کے اردو، فارسی کلام کے منتخب مرکبات کو یکجا کیا گیا تھا، اس کے پیش لفظ میں لکھا گیا تھا:
’’غالبؔ کے ذہن کے نقش و نگار بغیر ان کی شاعرانہ ترکیبوں کے سمجھ میں نہیں آسکتے۔ ان میں جو ندرت اور طرفگی ہے، وہ ہمارے ادب کی دولت اور شاعری میں ان کی وسعتِ فکر کی دلیل ہے‘‘۔
اس مجموعے کے تین مرتبین میں میرا نام بھی شامل تھا۔ یہ ناتمام کام تھا، مگر اپنے انداز کی منفرد کتاب تھی۔ اُس وقت تک ایسا کوئی جائزہ کتابی شکل میں سامنے نہیں آیا تھا۔ یہ ناتمام کام کا اشاریہ تمام ضرور تھا۔
میرے ذہن میں یہ خیال اسی وقت بیٹھ گیا کہ یہ کام بھی کرنے کا ہے، لیکن دوسرے ضروری کاموں نے مہلت نہیں دی۔ اس پر تیس بتیس سال گزر گئے۔ زندگی کی محدود مدت میں سب ضروری کاموں کی تکمیل کون کرسکتا ہے! یہ سوچ کر اب سے دو سال پہلے میں نے اس کام کا ڈول ڈالا۔ یہ بات عام ہے کہ ایسے کاموں میں بہت سی الجھنیں سامنے آتی رہتی ہیں، ایسا ہی ہوا بہ ہر طور، زورق اندیشہ بہ ساحل رسید‘‘
یہ رشید حسن خاں مرحوم کی آخری تحقیق ہے جو شائع ہوئی ہے۔ جو اصحاب اپنے کتب خانے رکھتے ہیں وہ اگر اس کو خرید کر اپنی لائبریری میں شامل کرلیں گے تو فائدے میں رہیں گے۔ آنے والا دور معلوم نہیں کیسا ہوگا۔ اتنی ضخیم کتاب شائع بھی ہوگی یا نہیں۔
کتاب سفید کاغذ پر خوب صورت طبع کی گئی ہے۔ مجلّد ہے، سادہ سرورق سے مزین ہے۔