نومی اوریسکس،ایرک کونوے۔ترجمہ:ناصر فاروق
ایک مؤرخ کے لیے، انسانی تاریخ کے اس المناک دور کا مطالعہ، اس انتہائی تعجب خیز حقیقت سے دوچار ہونا ہے کہ ’’متاثرین‘‘ جانتے تھے کہ اُن کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے اور کیوں ہونے جارہا ہے۔ درحقیقت، وہ اس ’المناکی‘ کی ساری تفصیل لکھ رہے تھے، محفوظ کررہے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آخرکار سارا الزام قدرتی ایندھن کی آتش گیری پر ڈال دیا جائے گا۔ تاریخ کا تجزیہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ جدید مغرب کے پاس اتنی ٹیکنالوجیکل سمجھ بوجھ اور اہلیت موجود تھی کہ وہ قدرتی توانائی کو پورے نظم سے ’نئی توانائی‘ میں منتقل کرسکتے تھے، یا توانائی کے نئے ذرائع متبادل کے طور پر بروقت اختیار کرسکتے تھے، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔
عظیم تاریخی واقعات کو دیکھا جائے تو اس سوال کا کوئی آسان جواب نہیں ملتا کہ کیوں اس تباہی کا راستہ نہ روکا گیا؟ تاہم چند عامل محرک سمجھے جاسکتے ہیں۔ اس تجزیے کا مقدمہ اُن دو مغربی نظریات کے تناظر میں استوار کیا جاسکتا ہے، کہ مغربی تہذیب جن میں بُری طرح جکڑی ہوئی ہے: اثباتیت پسندی (positivism) اورسرمایہ دار آزاد منڈی (market fundamentalism)۔
بیسویں صدی کے سائنس دانوں نے خود کو’’تجربی روایت‘‘ (empirical tradition)کا امین سمجھا، جس کا حوالہ بارہا بطورpositivismدیا جاتا رہا ہے، جیسا کہ انیسویں صدی کے بعد فرانسیسی فلسفی آگست کومت نے تصور ’’اثباتی علم‘‘ پیش کیا تھا، تاہم یہ سارا فلسفہ زیادہ بہتر طورپر Baconianismکی اصطلاح میں سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ فلسفہ کہتا ہے کہ تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پرہی کوئی فرد فطری دنیا کے بارے میں قابلِ بھروسا علم حاصل کرسکتا ہے، اور یہی علم اپنے حامل کو طاقت ور بناسکتا ہے۔ تجربے نے فلسفے کے پہلے حصے کوکس طرح درست ثابت کیا ہے (یہ ہم بیسویں صدی کے سائنس دانوں کی اُن پیش بینیوں میں دیکھ چکے ہیں، جو وہ موسمی تبدیلی کے اثرات کے بارے میں کرتے رہے ہیں)، تاہم فلسفے کا دوسرا حصہ، کہ یہ علم اُن کی ’طاقت‘ بن جائے گا، کم ہی درست ثابت ہوا ہے۔
اگرچہ بیسویں صدی کے آخر اور اکیسویں صدی کی ابتدا میں’’بگڑتے موسم کی تحقیق‘‘ پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے، مگر اس کے علمی ماحصل کا معاشی اور ٹیکنالوجی پالیسیوں پرکم ہی اثر مرتب ہوا ہے، وہ پالیسیاں جن کا ’’قدرتی ایندھن‘‘ کے استعمال میں کلیدی کردار ہے۔ اس دور سے مخصوص مشکل یہ رہی ہے کہ موسمی تبدیلی کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے ہاتھوں میں ’’طاقت‘‘ نہیں تھی، بلکہ ’’اختیارات‘‘ سیاسی، معاشی، اور معاشرتی اداروں کی مٹھی میں مقید رہے ہیں، اور ان کے مفادات قدرتی ایندھن کا استعمال برقرار رکھنے میں محفوظ ہیں۔ مؤرخین نے اس نظام کو ’’کاربن کمبسشن کمپلیکس‘‘ کا عنوان دیا ہے: ایک ایسا نیٹ ورک، جو طاقتور صنعتوں اور قدرتی ایندھن کو قابلِ استعمال بنانے والوں پرمشتمل ہے، یہ نیٹ ورک توانائی کمپنیوں کے لیے کام کرتا ہے (جیسا کہ ڈرلنگ اور آئل فیلڈ سروسز کمپنیاں اور بڑی کنسٹرکشن فرمز)، صنعت کار کہ جن کی مصنوعات سستی توانائی پرانحصار کرتی ہیں (خاص طور پرگاڑیوں اور ہوا بازی، ایلومینم اور دیگر معدنیاتی تعاملات میں استعمال ہوتی ہیں)، مالیاتی ادارے، اشتہار بازی، پبلک ریلیشن، اور مارکیٹنگ فرمز جو اپنی مصنوعات کی تشہیر کرتی ہیں۔
کاربن کمبسشن کمپلیکس واضح طور پر گروہی مفادات کے لیے متحرک ہے، تاہم اس نیٹ ورک نے اس حقیقت کو ’’تھنک ٹینکس‘‘ کے لبادے میں چھپاکر پیش کیا، جنھوں نے ہر اُس سائنسی علم کو للکارا، جو اس کمپلیکس کے مفادات کے لیے خطرہ ہوسکتا تھا۔ اخبارات نے ان تھنک ٹینکس ملازمین کی آراء کوکچھ اس طرح نقل کیا کہ جیسے وہ موسم کے محققین ہوں، اُن کے خیالات کو سرکاری سائنس دانوں کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس عمل نے عوام میں یہ تاثر پیدا کیا کہ جیسے گویا ’سائنس‘ اس معاملے میں بے یقینی کا شکار ہے، یوں یہ خیال مستحکم کیا گیا کہ اس معاملے میں کسی ضروری اقدام کا وقت ابھی نہیں آیا۔
اس دوران سائنس دان اپنا کام کرتے رہے، اور یہ یقین کرتے رہے کہ اس معاملے میں انھیں سیاسی سوالوں سے دور رہنا چاہیے اور کسی قسم کی ہنگامی صورتِ حال کے اظہار سے گریز کرنا چاہیے، اور یہ کہ دنیا کو درپیش ’تباہ کاری‘ سے بچنے کے لیے ازخود ہی اقدامات کرنے چاہئیں۔ ایک جانب کہ جب سائنس دان مختلف طریقوں سے فطری اور معاشرتی نظاموں کے درمیان مسائل کی گتھی سلجھانے کی سعی کررہے تھے، مغربی معاشرے کا بڑا حصہ اُن کے علم کو مسترد کررہا تھا، اور اُن کا یہ استرداد صرف طاقتور نظریاتی نظام کی خاطر تھا، جو آزاد منڈی اور اثباتیت پسندی میں گُندھا ہوا تھا۔
یہاں تک کہ وہ وقت بھی آیا، کہ بہت سوں نے اس نظریاتی نظام کو مذہبی عقیدے کی طرح سینے سے لگائے رکھا: آزاد منڈی اور اس کے بہت سے تشریحی سلسلے، جیسا کہ نیولبرلزم، لیزے فیئر(laissez-faire) معاشیات، اور لیزے فیئر سرمایہ داریت۔ یہ دو شاخہ نظریاتی نظام تھا۔ ایک شاخ کہتی ہے کہ ’’آزاد منڈی‘‘ کی معیشت میں معاشرے کی ضروریات بھرپور طور پر پوری ہوتی ہیں۔ ’’پوشیدہ ہاتھوں‘‘ کی رہنمائی میں افراد آزادانہ طور پر ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرتے ہیں، اور اس طرح ترسیل اور طلب کے درمیان توازن مستحکم کرتے ہیں۔ دوسری شاخ کہتی ہے کہ آزاد منڈیاں مادی ضروریات پوری کرنے کا بہترین یا اطمینان بخش طریقہ نہیں ہے: یہ صرف وہ طریقہ ہے کہ جس سے ذاتی آزادی کو خطرہ درپیش نہیں ہوتا، لیکن یہ تقسیم شدہ طاقت جو مختلف افراد کے آزاد انتخاب میں توانائی صرف کرتی ہے، مرکزی حکومت کی جانب معاشی قوت کا ارتکاز روکتی ہے۔ اس طرح فرد کی سیاسی، شہری، معاشی، مذہبی، اور فنی آزادی محفوظ رہتی ہے۔ اس فلسفے کا یہ پہلو نیولبرلزم کہلاتا ہے۔ یہ اٹھارہویں، انیسویں صدی کی ’’روشن خیالی‘‘ کے لبرلزم کی یاددہانی سی ہے۔ اس حوالے سے ایڈم اسمتھ، ڈیوڈ ہیوم، جان لاک، اور بعد میں جان اسٹیوارٹ مل کے کام کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ یہ سارا کام اُن کے دور کی مغربی ملوکیت کے خلاف ردعمل تھا۔ ان مفکرین نے ناانصافی کے مقابل اپنی ذاتی آزادی کو عوامی آزادی بنانے کی بھرپور کوشش کی، یہ من مانے اور نااہل کٹھ پتلی حکمرانوں سے بغاوت تھی۔ وہ وقت کہ جب چند سیاسی رہنما بادشاہی نظام کے متبادلات متصور کررہے تھے، بہت سوں نے فرد کی آزادی کی ضرورت پر زوردیا۔ اٹھارہویں صدی کے آخر میں، یہ خیالات امریکن ریپبلک کے معماروں پر اثرانداز ہوئے، یہ انقلابِ فرانس کا ’لبرل‘ مرحلہ تھا۔ اُس وقت بھی یہ خیالات کم حقیقت پسند سمجھے جاتے تھے۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں امریکی آئین میں نسلی بنیاد پر ’’ادارہ غلامی‘‘ کو قائم رکھا گیا تھا، یہاں تک کہ انیسویں صدی کے وسط میں کہ جب غلامی منسوخ کردی گئی تھی، ایک صدی سے بھی زائد عرصے تک معاشی اور معاشرتی عصبیت موجود تھی۔
یورپ میں ’ انقلابِ فرانس‘ پُرتشدد واقعات کی لہر میں بیٹھ گیا تھا، اور پھر نپولین بوناپارٹ کی قیادت میں بحال ہوا تھا۔ انیسویں صدی میں ساری طاقت چند صنعت کاروں کے ہاتھوں میں سمٹ چکی تھی، جوکمزور سیاسی لبرل تصورات کو للکار رہے تھے۔ یورپ میں جرمن فلسفی کارل مارکس نے دلیل دی کہ سرمایہ دارانہ نظام کی نمایاں خاصیت دولت کا چند ہاتھوں تک مرتکز ہوجانا ہے، جو محنت کش کی پیداوار کی دگنی چوگنی قدر خود ہتھیا لیتے ہیں۔ صنعت کاروں نے نہ صرف عوام کو ظالمانہ اور جابرانہ نظام میں جکڑ رکھا ہے(انیسویں صدی کی’’ شیطانی ملیں‘‘)، بلکہ جمہوری عمل کو بھی رشوت ستانی اور ناجائز ہتھکنڈوں سے مجروح کیا ہے، اور منڈی کو بے ضابطگیوں سے خراب کیا ہے۔ اس کی بھرپور مثال امریکی’’ریل روڈز‘‘ کی ترقی اور پھیلاؤ ہے۔ ان ’’کہیں نہ جانے والی شاہراہوں‘‘ پر بھاری سبسڈی دی گئی، اور ان کی مانگ کی ملمع کاری کی گئی، اور اس کے عوض مقامی باشندوں کو بے گھر کیا گیا، اور فطری ماحول برباد کیا گیا۔
مارکس کے تجزیے نے اپنے وقت کی قومی ریاستوں کے مقبول رہنماؤں کو متاثرکیا۔ روس، چین، ویت نام، گھانا، اور کیوبا وغیرہ نے کمیونزم کو بطور معاشی اور معاشرتی متبادل کے طور پر اختیارکیا۔ اس دوران سرمایہ دار امریکہ نے ’’غلامی‘‘ کو منسوخ کیا، تاکہ طاقت کے عدم توازن کی تھوڑی بہت تلافی ہوسکے، اور دولت کے ارتکاز سے پہنچنے والے نقصانات کا کچھ ازالہ ہوسکے۔ دیگر اصلاحات میں وفاقی حکومت نے ’اجارہ داریوں‘ کی روک تھام کے لیے کئی قوانین متعارف کروائے: مزدوروں کے کام کے اوقات کم کیے گئے، بچوں سے مزدوری پرپابندی لگائی گئی، اور انکم ٹیکس اصلاحات نافذکی گئیں۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں یہ واضح ہوچکا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی خالص نظریاتی شکل میں باقی نہ رہا تھا، اور اب بہت کم ہی باقی رہ گئے تھے جو اس کی پسندیدگی پر بات کررہے تھے۔ ناکامیاں بہت واضح ہوچکی تھیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد زیادہ تر غیر کمیونسٹ ریاستوں نے ’’ملی جلی‘‘ معیشتیں تشکیل دیں، کہ جن میں کارپوریٹ اور فرد دونوں کو مناسب شرح سے آزادی اور اہمیت دی گئی۔ جبکہ کمیونزم، جو یوروایشیا، افریقا کے چند علاقوں، اور لاطینی وجنوبی امریکہ میں پھیل چکا تھا، سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں زیادہ بڑی ناکامیوں سے دوچار ہورہا تھا۔ کمیونسٹ معیشتیں تجارتی سامان کی ترسیل اور خدمات کی ادائیگی میں نااہل ثابت ہوئی تھیں۔ سیاسی طور پر یہ ’عوامی‘ کے بجائے ’ظالمانہ آمریت‘ بنتی چلی گئیں۔ جوزف اسٹالن کے سوویت یونین میں کروڑوں لوگ سیاسی purges میں مارے گئے، جبراً اجتماعی زرعی نظام میں جھونک دیے گئے، اور دیگر داخلی فسادات کی نذر ہوگئے۔ اسی طرح چین میں بھی کروڑوں لوگ ماؤزے تنگ کی Great Leap Forward پالیسی، اور نام نہاد ’’ثقافتی انقلاب‘‘ کی نذر ہوئے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد روسی کمیونزم کے مشرقی یورپ میں پھیلاؤ، اور امریکی منڈیوں کی یہاں تک رسائی میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ ایسا لگا کہ مغرب پھر معاشی کساد بازاری میں چلا جائے گا، چنانچہ امریکہ نے سوویت استعماریت کے خلاف بھرپور اقدامات کا فیصلہ کیا۔ یوں سرد جنگ نے دو معاشی نظاموں کو مدمقابل کردیا۔ کمیونسٹ سرمایہ دارانہ نظام کی کرپشن پرکڑی تنقید کرتے تھے، اور سرمایہ دار کمیونسٹ حکومتوں میں ظالمانہ آمرانہ ہتھکنڈوں کی مذمت کرتے تھے (اور اس طرح دونوں ہی تسلیم کرتے تھے کہ نہ کمیونسٹ نظام خالص تھا اورنہ ہی سرمایہ دارانہ نظام بے نقص تھا)۔
’نیولبرلزم‘ مفکرین کے ایک گروہ کی اختراع تھی، آسٹرین فریڈرخ وان ہائیک اور امریکی ملٹن فرائڈمین پیشرو تھے۔ یہ حضرات جابرانہ وفاقی نظامِ حکومت کے معاملے میں بہت حساس تھے۔ انھوں نے دو کلیدی کام کیے، وان ہائیک کی Road to Serfdom اورفرائڈمین کی Capitalism and Freedom منظر پر ابھریں، یوں نیولبرلزم کے اہم عناصر سامنے آئے: یہ خیال کہ آزاد منڈی کا نظام واحد معاشی نظام ہے، جو فرد کی آزادی خطرے سے دوچار نہیں کرتا۔ ابتدا میں نیولبرلزم ایک اقلیت کا نظریہ تھا۔ سن 1950ء کی دہائی میں مغرب نے مجموعی طور پر معاشی ترقی کا تجربہ کیا، اور قوموں نے اپنے اپنے ثقافتی سیاق وسباق میں ملی جلی معیشتوں سے استفادہ کیا۔ ستّر اور اسّی کی دہائیوں میں معاملات بدلنے شروع ہوئے، جب مغربی معیشتیں منجمد محسوس ہوئیں، اور نیولبرل نظریات پُرکشش لگنے لگے۔ یہ وہ وقت تھا جب رہنما اپنے اپنے ملکوں میں گرتی ہوئی معاشی کارکردگی سے پریشان تھے، جیسا کہ انگلینڈ میں مارگریٹ تھیچر اورامریکہ میں رونالڈ ریگن۔ فرائڈمین ریگن کا مشیر بن گیا تھا۔ سن 1991ء میں، وان ہائک نے صدر جارج بُش سے صدارتی ایوارڈِ آزادی وصول کیا۔
یہ ہماری اس کہانی کا ستم ظریف پہلو تھا، کہ فریڈرک وان ہائک سائنسی کار گزاریوں کا بہت احترام کرتا تھا، اور انھیں پسند کرتا تھا، اور اسے سرمایہ دارانہ نظام کے تاریخی رفیق کے طور پر دیکھتا تھا۔ تجارت میں فروغ کے ذریعے، وان ہائک نے خیال پیش کیا، سائنس اور صنعت کا قریبی تعلق سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی میں معاون ثابت ہوا، اور اس طرح سیاسی آزادی میں خوب ترقی ہوئی۔ یہ خیال بیسویں صدی کے وسط میں خاصی شہرت پاگیا، اور اسے سائنسی تحقیق میں حکومتی کردارکی توسیع کے لیے استعمال کیا گیا۔ تاہم جب ماحولیاتی سائنس نے دکھایا کہ فطری ماحول کے تحفظ کے لیے حکومتی ’’ایکشن‘‘ کی ضرورت ہے، تب کاربن کمبسشن کمپلیکس نے سائنس کو دشمن کے طور پر دیکھا، اور اس سے نمٹنے کے لیے ہرضروری ہتھکنڈہ استعمال کیا۔ وہ سائنس جو دوسری عالمی جنگ میں امریکہ کو جیت تک لے گئی تھی، اور سرد جنگ میں غالب قوت بنارہی تھی، وہ اب شک و شبہ کی نظر سے دیکھی جارہی تھی اور اُس پرحملے کیے جارہے تھے۔ ان ہی وجوہات کے سبب کمیونسٹ ریاستوں میں بھی سائنس ناراضی کا نشانہ بنی، کیونکہ یہ سیاسی نظریے سے ٹکرا رہی تھی۔
سرد جنگ کے خاتمے پر وہ شہری جشن منا رہے تھے، جو سوویت یونین حکومت کے زیر عتاب رہے تھے۔ فرسٹ پیپلز ریپبلک چین میں بھی دھیرے دھیرے اصلاحات کی جارہی تھیں۔ تاہم مغرب میں بہت سے مبصرین کے لیے سوویت یونین کا انہدام ایک انتہائی ناقابلِ تنقید ’’سرمایہ دارانہ عروج‘‘ پروان چڑھا رہا تھا، اس کی مطلق بالادستی سامنے لارہا تھا۔ کچھ لوگ اس سے بھی آگے چلے گئے، اُن کی دلیل تھی کہ اگر سرمایہ دارانہ نظام بالادست ہے، تب یہ اس وقت اپنی خالص ترین حالت میں موجود ہے۔
یہی وہ وقت بھی تھا جب صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو بے ضابطہ منڈیوں میں بھرپور مواقع اور منافع ہاتھ آئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نوّے کی دہائی اور دوہزار کی دہائی میں بے ضابطگیوں کی ایک ایسی لہر چلی جس نے صارف اور محنت کش کی کمر توڑ دی، اور ماحولیاتی حفاظتی نظام کو کمزور کیا۔
دوسری گلڈڈ ایج میں دولت اور طاقت کا یہ بے نظیر ارتکاز تھا، ایسے تھک ٹینکس پر مزید سرمایہ کاری ہوئی جو نیولبرلزم کو فروغ دے رہے تھے۔ کئی نے تو قدرتی ایندھن کی پیداوار میں بڑھ چڑھ کر مزید اور ازسرنو سرمایہ کاری کی۔ نیولبرل سوچ نے سب سے اہم کام یہ کیا کہ سرمایہ دارانہ نظام کو بالکل بے لگام چھوڑ دیا، اور اُسے تیزی سے ’’منڈی کی ناکامی‘‘ کی طرف لے گئی۔
جب سائنس دانوں نے زمین میں موجود کاربن کے قدرتی ذخائر،planetarysinksکی گنجائش، انجذابی صلاحیت، اور کارکردگی کا پتا لگایا، منڈی کی ناکامی بھی کھُل کر سامنے آگئی۔ تیزابی بارش، Dichloro-Diphenyl-Trichloroethane، اور اوزون لہر کے گھٹاؤ سے پیدا ہونے والے زہریلے اثرات، اور موسم کی تبدیلی وہ تشویشناک مسائل بن کر سامنے آئے، جن کے حل کے لیے منڈیاں کچھ بھی نہیں کررہی تھیں۔ حکومتوں کی فوری مداخلت ضروری ہوگئی تھی۔ نقصان دہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ، ان اشیاء کی ممانعت، یا پھر ان اشیاء کے متبادلات کی تیاری کے لیے سرمایہ کاری ازحد ضروری ہوچکی تھی۔ لیکن کیونکہ نیولبرل وفاقی نظام حکومت کے شدید مخالف تھے، اس لیے اس معاملے کو پھر ایک کونے میں کردیا گیا۔ امریکی اس بات کے قائل ہوچکے تھے، جیسا کہ صدر رونالڈ ریگن نے کہا تھا، کہ حکومت ’’مسئلہ ہے، حل نہیں‘‘۔ لوگ حالتِ انکار میں چلے گئے تھے، اس بات کو قبول کرچکے تھے کہ سائنس غیر معین ہے۔ عام حمایت سے محروم حکومتی قیادت اس قابل نہ ہوسکی کہ دنیا کی معیشت کوکاربن فری توانائی کی جانب منتقل کرسکے۔
جب موسم کا بدلاؤ بے قابو ہونے لگا، اور’’ منڈی کی ناکامی‘‘ کے نتائج پرکوئی تنازع باقی نہ رہا، تب سائنس دانوں پر ہی دھاوا بول دیا گیا، مسائل کا ملبہ اُن پر ہی ڈالا جانے لگا، جبکہ وہ ان مسائل کو عرصے سے دستاویزی صورت دے رہے تھے۔ طبیعات کے سائنس دان انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر پہلے اور بعد میں بھی خبردار کرتے رہے تھے، کہ موسم بدل رہا تھا۔ فنکار اس رجحان پر توجہ دے رہے تھے جو سائنسی خدشات کو نظرانداز کرتا چلا آیا تھا۔ بیسویں صدی کے کینیڈین شاعر لیونارڈ کوہن نے اس تناظر میں نظم “We asked for signs. The signs were sent.” لکھی اورگائی۔ سوشل سائنٹسٹس نے “late lessons fromearly warnings”(بروقت تنبیہات پردیر سے سبق حاصل کرنا)کا تصورمتعارف کروایا، جس کا مقصد غفلت کے خطرناک رجحان کی نشاندہی کرنا تھا۔ علاج کے طورپر، انھوں نے ایک احتیاطی اصول مشتہر کیا کہ بروقت ’’ایکشن‘‘ بعد کے ’’نقصان‘‘ سے محفوظ رکھتا ہے۔ تاہم یہ روایتی دانش بھی نیولبرل دشمنی کی نذر ہوگئی، منڈیوں کی طاقت پر اندھے اعتماد نے معاشرتی مسائل بڑھادیے۔ درحقیقت نیولبرل منڈیوں پراس قدر یقین رکھتے تھے جیسے گویا وہ مستقبل کے تحفظ کی قیمت پیشگی چکاسکتی ہوں! دورِ نیم تاریک کی دیگر تلخ حقیقتوں کی ماننداصولِ معاشیات کی ستم ظریفی بھرپور طورپر فعال رہی، اس کی جڑیں قدیم یونان کے تصور ’’امورِ خانہ داری‘‘ میں تھیں، جوتوانائی کے نئے نظام میں مؤثر طورپر خود کو منتقل نہ کرسکی تھی۔ توانائی کے استعمال کا انتظام اور گرین ہاؤس گیسز پر قابو پانے کا خیال ہی نیولبرل ماہرینِ معیشت کے لیے نفرت انگیز تھا، اور اُن کی فکر اس نازک مرحلے میں نظام پر غالب تھی۔ یوں کوئی منصوبہ بندی نہ کی گئی، کوئی حفاظتی تدبیر اختیار نہ کی گئی، اور یہ انتظامیہ تباہی ثابت ہوئی۔
صاحبِ ادراک نیولبرلز نے تسلیم کیا کہ آزاد منڈی درحقیقت ’’آزاد‘‘ نہیں، مداخلتیں ہرجگہ موجود ہیں۔ کچھ نے مشورہ دیا کہ ’’قدرتی ایندھن‘‘ کے لیے سبسڈیز کا خاتمہ کردیا جائے، اور ’’کاربن‘‘ منڈیاں تخلیق کی جائیں۔ دیگر نے تسلیم کیا کہ چند مداخلتوں کو جواز مہیا کیا جانا چاہیے۔ وان ہائک خود بھی حکومتی مداخلت کا یکسر مخالف نہ تھا، بلکہ سن 1944ء میں اُس نے laissez-faireکی اصطلاح مسترد کردی تھی، اسے گمراہ کُن قرار دیا تھا، کیونکہ وہ کئی معاملات میں حکومت کی مداخلت کا جواز محسوس کررہا تھا۔ اُس کے خیال میں ان جائز مداخلتوں میں شاہراہوں پر سائن پوسٹس، جنگلات کو نقصان سے بچاؤ کی تدبیریں، کارخانوں کے شور اور دھویں میں کمی کی تدبیریں، زہریلے مواد کے استعمال کی ممانعت، کام کے اوقات کا تعین، گندگی کی ممانعت، پُرتشدد واقعات کی روک تھام وغیرہ شامل ہیں۔
اُن واقعات پر ازسرنو نظر ڈالی جائے تو یہ تصور بھی محال نظر آتا ہے کہ بیسویں صدی میں کس طرح اور کیوں کوئی قدرتی ماحولیات کے تحفظ کے لیے حکومتی کوششوں کا مخالف ہوسکتا تھا؟ وہ ماحولیاتی تحفظ کہ جس پر انسانی زندگی کی بقاء کا انحصار تھا! نہ صرف یہ کہ ایسے دلائل گھڑے گئے بلکہ عوامی حلقوں پر مسلط بھی کیے گئے۔ گومگوکی انتہا یہ ہوئی کہ نیولبرلزم، جو فرد کی آزادی یقینی بنانے نکلا تھا، حالات کو ایسے رُخ پر لے گیا کہ جہاں حکومت کی بڑے پیمانے پر مداخلت ناگزیر ہوگئی۔
کلاسیکی لبرلزم کا مرکزی خیال فرد کی آزادی تھا، اور اٹھارہویں صدی میں اکثر افراد بھرپور طور پر اس سے متمتع ہوئے۔ تاہم بیسویں صدی کے وسط میں صورت حال ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی: غلامی انیسویں صدی میں باقاعدہ طور پر غیر قانونی قرار دے دی گئی تھی، اور بادشاہتیں تیزی سے لبرل جمہوریتوں میں ڈھل چکی تھیں۔ مغرب میں فرد کی آزادی، بے قاعدہ اور باقاعدہ دونوں صورتوں میں، غالباً اُس وقت اپنے عروج پر تھی کہ جب وان ہائک لکھ رہا تھا۔ بیسویں صدی کے آخر میں مغربی شہری کو ووٹ دینے کے حقوق، آزادیِ فکر کی کئی اقسام، روزگار اور سفر کی آزادی مکمل اور باقاعدہ طور پر حاصل ہوچکی تھی۔ لیکن قابلِ عمل آزادی گھٹتی جارہی تھی، معاشی طاقت چند ہاتھوں میں سمٹ رہی تھی۔ یہ وہ اشرافیہ تھی جو’’ایک فیصد‘‘ کے نام سے جانی گئی، اور تب سیاسی اشرافیہ کو ’’موسمی تبدیلی کے بحران‘‘ کے سبب ڈرامائی مداخلتیں کرنی پڑیں، تاکہ بلند ہوتے سمندروں سے دربدر ہوتی آبادیوں کی ازسرنو آبادکاری کی جاسکے، وباؤں پر قابو پایا جاسکے، اور بڑے پیمانے پر قحط سے بچایا جاسکے۔
اور یوں وہ حالت ترقی کرگئی جس نے طاقت اور اختیار کو ’’حکومت مرکز‘‘ بنادیا، اور ذاتی پسند ناپسند کا نقصان ہوگیا، وہ صورتِ حال عفریت بن کر اُن کے سامنے آکھڑی ہوئی تھی، جس سے نیولبرلز سب سے زیادہ خوف زدہ تھے، جس سے نجات کے لیے اُن کی ساری پالیسیاں وضع کی گئی تھیں۔