مہدی آزر یزدی/ مترجم: ڈاکٹر تحسین فراقی
جب لوٹا پانی سے بھر گیا، تو بھاری ہوگیا اور گیدڑ کی دم نیچے کی جانب کھنچتی گئی۔ قریب تھا کہ وہ خود دریا میں جاگرے، اس نے جس قدر داد فریاد کی ’’مجھے چھوڑ دے، مجھے چھوڑ دے‘‘، لوٹا اس کی دم سے چمٹا ہوا تھا اور نیچے کو کھنچتا جارہا تھا۔ گیدڑ نے دل میں کہا: ’’میں نے عجیب حماقت کی، اب لوٹا میری جان نہیں چھوڑتا۔ کوئی بھی نہیں جو میری فریاد کو پہنچے۔ اب میں اس قابل بھی نہیں کہ لوٹے کو اوپر کھینچ لوں اور اس قابل بھی نہیں کہ خود کو رہائی دلاسکوں!‘‘
ناچار گیدڑ نے اپنی گردن موڑی اور اپنی آدھی دم کو اپنے دانتوں سے کاٹ ڈالا۔ لوٹا پانی میں غرق ہوگیا اور اسے نجات ملی۔ اس وقت وہ مڑا اور لوٹے سے جو اب زیر آب تھا، مخاطب ہوکر بولا: ’’یہ ذراسی دم کیا چیز ہے، اس کے عوض میں نے تیرے پورے وجود کو پانی میں غرق کردیا اور تیری آواز کی اذیت سے سکون پالیا‘‘۔
اب گیدڑ کو لوٹے کے خیال سے نجات مل چکی تھی، لیکن اس کی دم بھی اس کے ہاتھ سے نکل گئی تھی۔ وہ ڈرا کہ اگر وہ دوسرے گیدڑوں کے پاس لوٹا اور انہیں یہ ساری رام کہانی سنائی تو وہ اس کا مذاق اڑائیں گے۔ وہ اس قدر شرمندہ تھا کہ کہنے لگا: ’’میں ایسی جگہ چلا جاتا ہوں جہاں کوئی گیدڑ مجھے نہ دیکھے‘‘۔ اب گیڈر نے آبادی کا رخ کیا اور ایک گلی میں داخل ہوگیا۔ کتے کے ڈر سے اس نے اپنے آپ کو ایک سوراخ میں چھپالیا۔ یہ سوراخ ایک رنگ ریز کی دکان کی کھڑکی کا تھا اور کھڑکی کے نیچے رنگ کے بہت سے مٹکے ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔
اچانک گیدڑ سوراخ سے پھسل کر اس مٹکے میں جاگرا جس میں سرخ رنگ بھرا تھا۔ اس کے پائوں سرخ رنگ کے ہوگئے۔ اس نے بڑی مشکل سے خود کو مٹکے سے نکالا لیکن سر کے بل دوسرے مٹکے میں جاگرا۔ اس کا سر اور گردن سبز رنگ کے ہوگئے۔ اس مٹکے سے نجات پائی تو زرد رنگ کے مٹکے میں جاگرا۔ مختصر یہ کہ جب وہ بڑی جدوجہد کے بعد مٹکوں کے درمیان سے نکلا تو صبح ہونے والی تھی۔ وہ پانی کے ایک طشت میں کود گیا۔ پانی میں اپنا عکس دیکھ کر وہ حیران تھا کہ اس پر کیسے کیسے رنگ چڑھ گئے ہیں کہ خود وہ اپنے آپ کو پہچاننے سے قاصر ہے۔
صبح صبح رنگ ریز کے شاگرد آئے۔ انہوں نے دروازہ کھولا اور سمجھے کہ کوئی کتا ہے۔ بولے: ’’ایک کتا کھڑکی کے سوراخ سے پھسل کر گرا اور اس نے سارے رنگوں کو پلید کر ڈالا‘‘۔ انہوں نے اسے مارنے کے لیے لکڑی اٹھائی اور رنگین گیدڑ نے دروازے کی جانب سے فرار ہونے کی راہ اختیار کی۔ گلی میں ایک بلی نے اس رنگیلے گیدڑ کو دیکھا تو وہ بھی یہی سمجھی کہ یہ کتا ہے۔ وہ ایک درخت پر جا چڑھی اور بولی: ’’واہ تُو کتنا خوش رنگ کتا ہے!‘‘ گیدڑ بولا: ’’تُو ہوگی!‘‘ اور بھاگ نکلا۔ بھاگتے بھاگتے ایک صحرا میں پہنچا جہاں اسے ایک چھوٹی سی ندی دکھائی دی۔ اس نے اس ندی میں داخل ہوکر خود کو خوب دھویا، لیکن رنگ، اصلی گیاہی رنگ تھے۔ یہ وہ رنگ تھے جن سے قالین رنگے جاتے ہیں اور جو پکے ہوتے ہیں، کیمیائی رنگ نہ تھے جو صاف ہوجاتے ہیں۔ اس نے جس قدر اپنے آپ کو دھویا مانجھا، رنگ زیادہ شفاف اور روشن ہوتے چلے گئے!
ناچار گیدڑ باہر نکلا اور جب اس کے بال خشک ہوگئے، خود سے کہنے لگا: ’’اب میں کیا کروں، کیا نہ کروں۔ اس بے دُمی اور رنگوں کے ساتھ کہ میں مور کی طرح ہوگیا ہوں، لوگوں سے کیا کہوں؟‘‘
اس نے تھوڑا غور و فکر کیا اور بولا: ’’اب اس سے بہتر کچھ نہیں کہ میں بڑی بڑی باتیں کروں اور کہوں کہ میں نے شیر سے جنگ کی۔ شیر نے میری دم کاٹ ڈالی۔ پھر مجھے حضرت خضرؑ نے نجات دلائی اور مجھ پر کرم کی نگاہ فرمائی!‘‘
وہ انہی سوچوں میں گم چلا جارہا تھا کہ لومڑی اس کے قریب آپہنچی اور بولی: ’’یہ کیا حلیہ بنالیا تُو نے؟‘‘ گیدڑ بولا: ’’کچھ نہیں۔ بس خدا مجھ پر مہربان ہوا۔ کل تمہارے چلے جانے کے بعد شیر نے پھر دھاڑ لگائی۔ میں نے سوچا کہ اس کی جگہ کا کھوج لگائوں۔ میں ٹیلے سے اوپر گیا ہی تھا… خدا نہ کرے کہ تم برا دن دیکھو… کہ اچانک میری آنکھوں نے یہ منظر دیکھا کہ شیر میرے سامنے کھڑا ہے! اس سے پہلے کہ میں بھاگتا، شیر نے پیچھے سے میری دم پکڑلی۔ میں نے مایوسی کے عالم میں فریاد کی اور کہا: ’’خدایا تُو خود مجھے نجات عطا فرما‘‘۔ شاید قبولیت کی گھڑی تھی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ گرد و غبار کے بادلوں میں سے ایک بزرگ نمودار ہوئے۔ انہوں نے شیر کے کلے پر ایک جھانپڑ مارا اور مجھے نجات دلائی۔ پھر فرمایا: ’’بول، کیا چاہتا ہے‘‘۔ میں نے پوچھا: ’’آپ ہیں کون؟‘‘ فرمایا: ’’میں خضرؑ ہوں‘‘۔ میں نے عرض کی: ’’اے خضرؑ، میری دم نہیں۔ دم شیر کھا گیا، گیدڑ میرا مذاق اڑائیں گے، اب میں کیا کروں؟‘‘ خضرؑ بولے: ’’غم نہ کھا۔ اس کے عوض میں تجھے ایک کلمۂ دعا بتاتا ہوں۔ جب تُو اسے پڑھے گا تو ہر وہ آرزو جو تیرے دل میں ہوگی، پوری ہوگی‘‘۔ میں نے دعا پڑھی اور کہا: ’’بارِالٰہا، میری دم نہیں۔ اس کے عوض ایک کرم کر، اور وہ یہ کہ مجھے تمام گیدڑوں سے زیادہ خوب صورت بنا دے‘‘۔ اس وقت اچانک گڑگڑاہٹ ہوئی، بجلی چمکی اور فضا سے نور برسنے لگا اور میرا رنگ اس طرح ہوگیا۔ اب میرا نام بھی گیدڑ نہیں ’’گیدوس‘‘ ہے، یعنی گیدڑ، کہ طائوس (مور) کی طرح ہے اور اس پر حضرت خضر کے فیض کا سایہ ہے، اور میری دعا اور بددعا کا بڑی شدت سے اثر ہوتا ہے اور جس کسی کو اس پر شک ہو اس کا انجام برا ہوگا‘‘۔
(جاری ہے)