فلسطین میں عرب اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی مہم کا آغاز

پہلی جنگ ِ عظیم کے خاتمے پر مفتوحہ علاقوں کے بٹوارے اور ان کی نگرانی کے لیے اتحادیوں کی ایک خودغرض اور مفاد پرست نام نہاد جمعیت ِ اقوام (لیگ آف نیشنز) وجود میں آئی، جس کا مورثِ اعلیٰ خود برطانیہ تھا۔ اس نے جنگ کے ختم ہوتے ہی فلسطین کو اپنی ماتحتی میں لے کر وہاں فوجی حکومت قائم کردی۔ اب نہ شریف مکہ رہے، نہ ان کی آزاد عرب ریاست کا سہانا خواب رہا! اب جو حقیقت آشکارا ہو کر منظر عام پر آئی وہ دولت ِ عثمانیہ کا خاتمہ اور اس کے عرب علاقوں پر مسیحی برطانیہ اور فرانس کا تسلط تھا، جنہوں نے جمعیت ِ اقوام کے ذریعے اپنی ذاتی اغراض کی تکمیل کا راستہ تلاش کرلیا۔
جمعیت اقوام کے آرٹیکل 1، 4۔5، 8،10،11۔12،14۔15۔16،17،19 اور 21 میں اس کے تاسیسی ڈھانچے کی تشریح کی گئی۔ رکنیت، اختیاراتِ اراکین، انعقادِ مجالس، حقوق وفرائض کی وضاحت کی گئی اور جنگ وصلح کا حق بھی اُسی کے حوالے کردیا گیا۔ جمعیت اقوام کے آرٹیکل 22 میں وضاحت کردی گئی کہ مفتوحہ علاقے اب سابقہ حکومتوں کے حیطہ اقتدار سے باہر تھے۔ ان کی صلاح و فلاح کی ساری ذمہ داری اتحادیوں کے ذمہ ہوگی۔ اسی آرٹیکل 22 کی رو سے فلسطین کو دولت ِ عثمانیہ سے آزاد قرار دے کر برطانوی انتدات کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ اور اس کے مستقبل کے فیصلے کو استصواب پر چھوڑ دیا گیا۔ جون 1919ءمیں اس پر دستخط ہوئے۔ برطانیہ اور اسرائیلی سازش کا نتیجہ تھا کہ بالفور منشور کو بھی انتداب کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ جولائی 1922ءتک جمعیت نے سرکاری طور پر برطانوی انتداب کی منظوری نہیں دی۔ پھر بھی برطانیہ بالفور منشور پر گامزن رہا۔ آرٹیکل 2 میں یہودی وطن کی تشکیل کو برطانوی ذمہ داری قرار دے دیا گیا۔ آرٹیکل 4 کی رو سے یہودیوں کو بساؤ کی اجازت دے دی گئی اور ہدایت کردی گئی کہ وہ حکومت ِ برطانیہ کو قومی وطن کے تشکیلی طریقوں پر مشورہ دیتے رہیں۔ آرٹیکل 6 میں ضمناً عربوں کی تسکین کے لیے اتنا ذکر ضرور کردیا گیا کہ یہودی قومی وطن سے عربوں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ قانونی طور پر 29 ستمبر 1923ءکو برطانوی انتداب کا نفاذ ہوا۔ جمعیت ِ اقوام کے آرٹیکل کا بغور مطالعہ اس حقیقت کا انکشاف کرتا ہے کہ یہ ساری دفعات اسرائیلی مقاصد کی تکمیل کا آلہ کار تھیں۔
برطانوی پالیسی فلسطین کے اسلامی اثرات کو ختم کرنے پر مرکوز رہی۔ عرب اور یہودیوں میں فسادات کرانا، اور عرب اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی مہم اسی جانی پہچانی اسکیم کا حصہ تھی۔ دونوں فرقوں میں فسادات لازمی تھے۔ 1929ءمیں دیوارِ گریہ کے سامنے عبادت کرنے پر عرب یہودی فسادات کو برطانیہ نے ہوا دی۔ یہودی دعاویٰ کے مطابق ٹمپل کا مغربی حصہ سلیمان کے اصل ٹمپل کا ایک حصہ تھا اور اس کی دیوار چونکہ اسرائیلی شوکت ِ رفتہ کی یادگار تھی لہٰذا اس کے قریب گریہ و زاری یہودی عبادات کا ایک حصہ تھا۔ اس فساد پر یہودیوں نے برطانیہ سے شکایت کی، اور برطانیہ نے 1929ء میں ہی ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا جس نے اپنی رپورٹ 1930ءمیں عربوں کو مورد الزام قرار دیا۔ برطانیہ نے ایک طرف فسادات کے ذریعے معاشری میں برہمی جاری رکھی اور دوسری طرف یہودیوں کے بسانے کی اسکیم پر عمل کرتا رہا اور ناجائز داخلے کا دروازہ کھول دیا۔ دسمبر 1933ء میں تیس ہزار یہودی باہر سے لا کر بسائے گئے۔ 1934ءمیں بیالیس ہزار، اور 1935ءمیں اکسٹھ ہزار یہودی باہر سے لا کر بسائے گئے۔ 1935ءمیں عربوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور داخلے پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ نیز زراعتی زمین کی فروخت کی مخالفت کی، لیکن عرب دشمن برطانیہ نے سنی ان سنی کردی۔ اپریل 1936ءمیں الحاج امین الحسینی کی قیادت میں چھے ماہ تک ہڑتال جاری رہی۔ پیل کمیشن نے برطانیہ پر واضح کردیا کہ چونکہ عرب اور یہودیوں دونوں کو بیک وقت خوش کرنا محال ہے لہٰذا فلسطین کا واحد حل اس کی تقسیم ہے۔ اس نے سفارش کی کہ آئندہ پانچ سال میں ہر سال بارہ ہزار یہودی باہر سے لاکر یہاں بسائے جائیں، نیز مسلم اکثریت کے علاقوں سے عربوں کا انخلاء کرایا جائے۔ عرب احتجاج کو برطانیہ نے سفاکی کے ساتھ کچلا۔ اکتوبر 1937ءمیں ہائی عرب کمیٹی کو غیر قانونی قرار دے کر قائدینِ عرب کو جزائر میں جلا وطن کردیا۔ (ملاحظہ ہو انسائیکلوپیڈیا برٹینکا کا مقالہ فلسطین، ص 169)۔
(”فلسطین اور بین الاقوامی سیاسیات“۔۔۔۔ پروفیسر سید حبیب الحق ندوی)

بیادِ مجلس اقبال

مرے اشعار اقبال کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو
میرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں

یہ بھی علامہ اقبال کے اُن شعروں میں سے ہے جن میں علامہ اپنے اشعار کی اہمیت و حقیقت واضح کرتے ہیں۔ یہاں بھی وہ بتاتے ہیں کہ میں نے چونکہ اپنا دردِ دل اور اپنی سوچ و فکر اپنے اشعار میں واضح کردی ہے اس لیے یہ مجھے پسند ہیں۔ دراصل میری قلبی آہ و فریاد نے ان لفظوں کا روپ دھار کر میری ملت کو جگانے کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔