ایک مرحلہ ختم ہوا، دوسرا مرحلہ شروع ہوگیا
سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس خارج کرکے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر لگائے گئے الزامات کو غیر قانونی قرار دے دیا اور الزامات کی تحقیقات کے لیے معاملہ ایف بی آر کے سپرد کردیا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی بینچ نے اکثریتی فیصلہ سنایا ہے۔ دس میں سے سات فاضل ججوں نے معاملہ ایف بی آر بھجوانے کا حکم جاری کیا۔ شام چار بج کر گیارہ منٹ پر جب سپریم کورٹ کے دس جج صاحبان فیصلہ سنانے کمرۂ عدالت پہنچے تو کمرۂ عدالت میں معمول سے زیادہ رش تھا۔ 11 صفحاتی فیصلے پر درخواست گزار بھی خوش ہیں اور حکومت بھی اسے قبول کررہی ہے، دونوں طرف خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ معما کیا ہے؟ فیصلہ کسی کی ہار یا جیت قرار دیا جاسکتا ہے۔ شہزاد اکبر ناکام ہوگئے ہیں، حکومت اور ادارے ریفرنس دائر کرنے کا تاثر زائل نہیں کرسکے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ سنانے سے قبل قرآن کی سورہ شوریٰ کی آیات پڑھیں، ایک آیت کا مفہوم یہ تھا ’’اے اللہ ہمیں درست فیصلہ کرنے کی طاقت عطا فرما‘‘۔ جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین اکثریتی فیصلہ دینے والے فاضل جج صاحبان ہیں۔ سپریم کورٹ نے مختصر حکم نامے میں کہا ہے کہ سات دنوں میں کمشنر ان لینڈ ریونیو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو غیر ملکی جائدادوں پر وضاحت اور ذریعہ آمدن پوچھنے کے لیے نوٹس جاری کرے، نوٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رہائش گاہ پر بذریعہ ڈاک ارسال کیے جائیں۔ واضح رہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کبھی لندن کی تین جائدادوں کی ملکیت تسلیم نہیں کی اور ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کیے رکھا کہ ان کا جائدادوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مختصر حکم نامے میںکہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچے ایف بی آر نوٹس کے جواب میں ریکارڈ اور مواد پیش کریں، فریقین میں سے کوئی بیرونِ ملک ہو تو اُس پر لازم ہے کہ وہ بروقت جواب دے، کمشنر ان لینڈ کی کارروائی کسی شخص کی پاکستان میں عدم موجودگی کے سبب ملتوی یا تاخیر کا شکار نہیں ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچے جب اپنے تحریری جوابات پیش کردیں تو کمشنر فریقین کو ذاتی حیثیت، منتخب کردہ فرد یا وکیل کے ذریعے ذاتی شنوائی کا حق فراہم کرے، ایف بی آر کی جانب سے نوٹسز جاری ہونے کے بعد کمشنر دو ماہ میں کارروائی مکمل کرے اور اگلے پندرہ دنوں میں کمشنر ان لینڈ ریونیو فیصلہ جاری کرے۔ حکم نامے میں واضح کیا گیا ہے کہ ایف بی آر کو نہ مزید وقت دیا جائے گا، نہ ہی دیے گئے وقت میں توسیع کی جائے گی۔ مختصر حکم نامے کے مطابق کمشنر ان لینڈ ریونیو کے حکم کے بعد سات دن کے اندر چیئرمین ایف بی آر ذاتی حیثیت سے اپنی دستخط شدہ رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش کرے، رپورٹ کے ہمراہ کارروائی کا مکمل ریکارڈ بھی پیش کیا جائے، سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل ایف بی آر کی رپورٹ چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل (چیف جسٹس آف پاکستان) کے سامنے پیش کریں، سپریم جوڈیشل کونسل رپورٹ کی بنیاد پر مزید کارروائی کرسکتی ہے۔ ایف بی آر سے رپورٹ وصول ہونے کے بعد کونسل آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کو آگے بڑھا سکتی ہے،کونسل کارروائی کے لیے ازخود نوٹس کا اختیار حاصل کرسکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے مختصر حکم نامے میں ایک طرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ نوٹس کو کالعدم قرار دے دیا اور ساتھ ہی جوڈیشل کونسل سے متعلق یہ لکھ دیا کہ جوڈیشل کونسل کو ازخود نوٹس کے تحت کارروائی کا اختیار بھی حاصل ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سو دنوں میں چیئرمین ایف بی آر سے سپریم جوڈیشل کونسل کو رپورٹ فراہم نہ کرنے پر وضاحت طلب کی جائے گی، کارروائی کے لیے ایف بی آر کا جواب بغیر کسی رپورٹ کے آیا، یا کوئی جواب نہ دیا گیا تو یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں لایا جائے گا، پھر کونسل مزید کارروائی یا حکم جاری کرنے کے لیے جائزہ لے گی اورحتمی نتیجے پر پہنچ کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت کسی کے خلاف بھی کارروائی کا کہا جا سکتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر دو ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے سپریم جوڈیشل کونسل کو رپورٹ بھیجے، سپریم جوڈیشل کونسل ازخود نوٹس اختیار کے تحت کارروائی کو آگے بڑھائے۔
عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے کے بعد بظاہر تو یہی دکھائی دے رہا ہے کہ ریفرنس اگرچہ مسترد ہوا ہے لیکن معاملہ معطل ہوا ہے، اور ایف بی آر کی رپورٹ کی روشنی میں سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی کرے گی۔ پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا کنڈکٹ دیکھنے، جائزہ لینے اور ان کے خلاف شکایات سننے والے آئینی فورم کو سپریم جوڈیشل کونسل کا نام دیا گیا ہے۔ اس آئینی فورم کی تشکیل کچھ اس طرح سے ہے کہ چیف جسٹس کونسل کے چیئرمین ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ سپریم کورٹ کے دو سینئر جج بیٹھتے ہیں۔ پانچ ارکان پر مشتمل سپریم جوڈیشل کونسل کے باقی دو ارکان ملک کی پانچ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان میں سے دو سینئر جسٹس ہوتے ہیں۔ موجودہ سپریم جوڈیشل کونسل میں چیئرمین چیف جسٹس گلزار احمد، ان کے ساتھ عدالتِ عظمیٰ کے سینئر ترین جسٹس مشیر عالم اور جسٹس عمر عطا بندیال ہیں۔ دیگر دو ارکان میں سے ایک پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ، اور ان کے ساتھ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ ہیں۔ سپریم کورٹ نے ریفرنس کی 46 سماعتیں کیں اور فیصلے میں صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست قابلِ سماعت قرار دے کر ریفرنس کالعدم قرار دیا۔ عدالت نے گیارہ صفحات پر مشتمل مختصر حکم نامہ جاری کیا، تفصیلی حکم بعد میں جاری ہوگا جس میں معاملہ ایف بی آر کو بھجوانے اور ملک میں احتساب کے نظام پر عدلیہ اپنا حکم سنائے گی۔ تحریری حکم نامے میں سپریم کورٹ کے دس جج صاحبان نے صدارتی ریفرنس خارج کرتے ہوئے قرار دیا کہ صدارتی ریفرنس کی قانون کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں۔ صدارتی ریفرنس کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے 17 جولائی 2019ء کو جاری کردہ شوکاز نوٹس بھی ختم کردیا گیا ہے۔ 46 سماعتوں میں سپریم کورٹ نے یہ اعتراض اٹھایا کہ حکومت فاضل جج کی اہلیہ کی جائدادوں کی تفصیلات معلوم کرنے کے ذرائع کے قابلِ اعتماد ہونے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکی، لہٰذا اب معاملہ ایف بی آر کے سپرد ہوا ہے، جو قانون کے مطابق کھوج لگائے گا اور رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوائی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے سامنے یہ بھی نکتہ اٹھایا کہ ججوں کے لیے اپنے بچوں اور اہلیہ کے اثاثے ڈکلیئر کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ وفاقی حکومت کے وکیل فروغ نسیم نے ریفرنس کا دفاع تو کیا لیکن اپنے دلائل میں یہ بات بھی کہی کہ جج بھی سیاسی پس منظر سے خالی نہیں ہوتے اور عدلیہ کے جج بھی قابلِ احتساب ہیں۔ عدالت نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا ہے، اور تفصیلی فیصلے میں فروغ نسیم کے دلائل سمیت اٹھائے جانے والے نکات اور تمام امور کا احاطہ کیا جائے گا۔ مسلسل سماعت کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے معاملہ بالآخر ایف بی آر کے سپرد کردیا ہے جسے دوسرے لفظوں میں اور محتاط انداز میں کہا جاسکتا ہے کہ ایف بی آر ’’جے آئی ٹی‘‘ کی طرح ہی کام کرے گا۔ جسٹس قاضی فائز علی عیسیٰ کے لیے معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ اس کیس میں جسٹس فائز علی عیسیٰ کی جانب سے منیر اے ملک، رضا ربانی، حامد خان اور افتخار گیلانی پیش ہوئے، فروغ نسیم نے وفاقی حکومت کی پیروی کی۔ صدر مملکت عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا تھا، ریفرنس میں جسٹس فائز علی عیسیٰ کی اہلیہ فریق نہیں تھیں، اور اب فیصلہ یہ دیا گیا کہ اہلیہ کی جائداد کا جائزہ ایف بی آر لے گا۔ صدارتی ریفرنس کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت متعدد بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز نے آئینی درخواست کے ذریعے چیلنج کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف آئینی درخواست میں اہلِ خانہ کی جاسوسی اور حکومتی بدنیتی کا ذکر کیا تھا۔ وکلا تنظیمیں بھی صدارتی ریفرنس کو عدلیہ کی خودمختاری کے خلاف قرار دیتی رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ انکم ٹیکس قانون کے تحت ایف بی آر کی کارروائی اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی دونوں ایک دوسرے سے یکسر مختلف اور الگ الگ ہیں۔کمشنر کے آرڈر کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو اپیل کا حق حاصل ہوگا، سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے معاملہ ہونے کے سبب کمشنر کے آرڈر کے خلاف اپیل متاثر نہیں ہوگی۔ یعنی اپیل اور کونسل کی کارروائی ساتھ ساتھ چل سکتی ہیں۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کمشنر کے خلاف اپیل کے فورم کو ہدایات جاری کرسکتی ہے۔ جسٹس مقبول باقر اور جسٹس منصور علی شاہ نے فروغ نسیم کے دلائل سے اتفاق کیا اور مختصر حکم نامے میں لکھا کہ پاکستان کے آئین میں عدلیہ کی خودمختاری کو مکمل تحفظ حاصل ہے، آئینِ پاکستان تمام شہریوں کے مساوی حقوق اور مساوی برتاؤ کی بات کرتا ہے، آئین پاکستان میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ یا کوئی جج یا کوئی انفرادی شخص یا ادارہ قانون سے بالاتر نہیں، کسی جج کے خلاف کارروائی کے لیے سپریم کونسل کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں، جج کو بھی آئینِ پاکستان کے تحت حقوق دیئے گئے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 28مئی کو حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا۔29 مئی کو ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو موصول ہوا۔ 14 جون کو سپریم جوڈیشل کونسل کا پہلا اجلاس ہوا۔17 جولائی کو کونسل نے قاضی فائز عیسیٰ کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے کُل چار اجلاس منعقد ہوئے، 7 اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔17 ستمبر کو کیس کی پہلی سماعت سات رکنی لارجر بینچ نے کی۔17 ستمبر کو ہی منیر اے ملک نے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس سردار طارق مسعود کی بینچ میں شمولیت کو چیلنج کیا۔ منیر اے ملک نے 21 سماعتوں میں اپنے دلائل مکمل کیے۔ مجموعی طور پر کیس کی 46 سماعتیں ہوئیں۔18 فروری کو سابق اٹارنی جنرل انور منصور نے بینچ میں شامل ایک جج پر الزام تراشی کی۔20 فروری کو انور منصور نے متنازع بیان کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔24 فروری کو نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید نے حکومت کی نمائندگی کرنے سے انکار کردیا۔کورونا کی وجہ سے کیس تین ماہ سے زائد وقفے کے بعد 2 جون کو سماعت کے لیے مقرر ہوا۔ سابق وزیر قانون فروغ نسیم نے وزارت سے استعفیٰ دے کر حکومتی مؤقف کی پیروی کی اور 9 سماعتوں میں اپنے دلائل مکمل کیے۔ جسٹس فائز علی عیسیٰ کی اہلیہ سرینا فائز نے اپنا ویڈیو بیان سپریم کورٹ میں ریکارڈ کروایا۔ ریفرنس کی سماعت کے دوران خفیہ جاسوسی اور حکومتی بدنیتی کے بارے میں عدالتی ریمارکس اور وکیلِ صفائی کے دلائل انتہائی اہمیت کے حامل رہے۔ اس بارے میں مختصر فیصلے میں کچھ نہیں لکھا گیا، تاہم تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ یہ موضوع ضرور اٹھائے گی۔ متحدہ اپوزیشن نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، تاہم اپوزیشن اس فیصلے کے اصل اثرات سے واقف ہی نہیں ہے کہ فیصلہ اصل میں ہے کیا؟ فیصلے پر قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن نے ردعمل دیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے اثاثوں کے حوالے سے معاملہ ابھی حل طلب ہے۔ عدالت نے اس معاملے کو دوبارہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور راستے سے بھیجنے کا امکان پیدا کردیا ہے۔ اعتزاز احسن نے افتخار محمد چودھری کے کیس میں سپریم کورٹ سے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کالعدم کروائی تھی، انہوں ثابت کیا تھا کہ ریفرنس کو حکومت کی جانب سے کسی نے پڑھا تک نہیں تھا۔ ان کی رائے میں کالعدم قرار دیے جانے والے جسٹس فائز عیسیٰ کے ریفرنس میں کوئی سقم نہیں تھا۔ سقم نہ ہو تو ریفرنس کے قابلِ سماعت ہونے یا نہ ہونے پر صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو فیصلے کا حق ہے۔ اعتزاز احسن کی رائے وزنی اور قانونی ہے۔ ویسے بھی قانون سے واقف ہر شخص یہ جانتا ہے کہ 2010ء کے بعد سے کوئی بھی پاکستانی ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کروا سکتا ہے۔ ریفرنس کالعدم قرار دینے کے لیے جو ٹھوس شواہد ضروری تھے وہ عدالت کو حاصل نہیں تھے۔ حکومتی دلائل کے دوران جسٹس فائز عیسیٰ کا اچانک عدالت میں حاضر ہوجانا بھی ایک سوال ہے۔ عدالت اپنے تفصیلی فیصلے میں ضرور اس بارے میں لکھے گی کہ فاضل جج کو ازخود اپنے لیے عدالت میں پیش ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل کو انہیں ازخود عدالت میں پیش ہونے سے روکنا چاہیے تھا۔ جوڈیشل کنڈکٹ کے تقاضوں کا پورا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے ازخود سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوکر غلطی کی۔ مئی 2019ء سے شروع ہونے والے معاملے کا فیصلہ آ گیا ہے، یوں پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے، اور دوسرا شروع ہوگیا ہے۔ اس ریفرنس کے اصل نتائج ابھی آنے ہیں۔
وزیراعظم کی ڈراما نگاروں سے ملاقات
جس لمحے پورا ملک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس کے فیصلے کا انتظار کررہا تھا، اُس وقت وزیراعظم عمران خان، وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں بیٹھے ویڈیو لنک کے ذریعے کراچی اور لاہور میں ملک کے چند نامور ڈراما مصنفین سے ملاقات کررہے تھے۔ وزیراعظم کے ساتھ وفاقی وزیرِ اطلاعات شبلی فراز اور معاونِ خصوصی برائے اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ بھی موجود تھے۔ اس ملاقات میں نظامت کے مکمل فرائض جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے انجام دیے۔ جن مصنفین کو مدعو کیا گیا تھا ان میں حسینہ معین، امجد اسلام امجد، افتخار عارف، فاروق قیصر، بی گُل، فصیح باری خان، ظفر معراج، زنجبیل عاصم شاہ، آمنہ مفتی، ساجی گُل، صائمہ اکرام چودھری اور جہانزیب قمر شامل تھے۔ افتخار عارف، فاروق قیصر اور ساجی گُل ویڈیو لنک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے۔ اس محفل میں وزیراعظم عمران خان نے اپنا تجزیہ دیا کہ پاکستان اس وقت چائلڈ پورنو گرافی میں پہلے نمبر پر ہے اور پورا معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے۔ وزیراعظم نے طویل وقت پاکستان میں معاشرے کی اخلاقی پستی پر بات کی۔ وزیراعظم کے بقول پاکستان میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ مغربیت پسندی اور اخلاقی زوال ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ معاشرہ بگڑ رہا ہے اور ہماری نوجوان نسل کو ہماری تاریخ کے بارے میں معلومات حاصل نہیں ہیں، اس لیے ڈراما نگاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسل کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی میں مدد کریں۔ وزیراعظم نے طلاق کے مسئلے پر بہت طویل گفتگو کی اور اسے مغربیت اور اخلاقی گراوٹ کا نتیجہ قرار دیا۔ آخر میں وزیراعظم نے شرکا کو بتایا کہ وہ پی ٹی وی کو اپ گریڈ کرنا چاہتے ہیں اور اسے مکمل ڈیجیٹلائز کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، اور اس کی ساری ذمے داری انہوں نے اپنے معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو سونپ دی ہے۔