ایک ٹی وی چینل پر ’جرگہ‘ کے عنوان سے پروگرام ہوتا ہے لیکن اس کا تلفظ جِرگہ (ج کے نیچے زیر) کیا جاتا ہے۔ انگریزی میں بھی اسے JIRGA لکھا جاتا ہے، جب کہ یہ فارسی کا لفظ ہے اور ’ج‘ پر زبر ہے (جَرگہ)۔ آدمیوں کا مجمع، گروہ، جماعت، پنچایت وغیرہ… سرحدی قبائلی علاقوں میں وہ جماعت جو سنگین یا اہم معاملات کے بارے میں فیصلہ دیتی ہے۔ سرحدی علاقوں کے علاوہ جہاں جہاں پٹھان آباد ہیں، جَرگہ وہاں بھی ہوتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ پروگرام کرنے والے بھی پٹھان ہیں، اور پٹھانوں سے ہمیشہ جَرگہ ہی سنا ہے۔ لغات کے مطابق ’’جرگہ آنا‘‘ محاورہ ہے جس کا مطلب ہے پٹھانوں کی جماعت، گروہ یا وفد کا کسی کام کے لیے کسی افسر کے پاس آنا۔ جرگہ بٹھانا، جرگہ بلانا، جرگہ بندی، جرگے میں بھیجنا وغیرہ محاورے ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک وفاقی وزیر نے فرمایا کہ عید کے بعد جھاڑو پھرے گا اور خود قرنطینہ میں چلے گئے۔ عید تو کب کی گزر چکی لیکن عرض یہ ہے کہ جھاڑو مذکر نہیں مونث ہے۔ یہ پھرتا نہیں، پھرتی ہے۔ ’’جھاڑو پھر گئی‘‘ محاورہ ہے۔ البتہ ایک بڑی سی جھاڑو جس کی دُم میں ایک بڑا سا ڈنڈا لگا ہوتا ہے اور خاکروب اس سے سڑکوں کی صفائی کرتے ہیں اُس کی جسامت دیکھ کر اُسے مذکر کہا جاسکتا ہے۔ جھاڑو کا کوئی تعلق جھاڑ یا جھاڑی سے نہیں ہے۔ جھاڑ مذکر ہے اور جھاڑی مونث۔ ’’تاڑ کا جھاڑ‘‘ بھی ایک مثل ہے، کسی لمبے چوڑے شخص کو کہتے ہیں۔ جھاڑ فانوس کو بھی کہتے ہیں۔ عام طور پر جھاڑ فانوس ایک ساتھ آتے ہیں۔ مینہ کی جھڑی کو بھی جھاڑ کہتے ہیں، اور جھاڑ پھونک بھی کی جاتی ہے۔ ’’جھاڑ باندھنا‘‘ کا مطلب ہے لگاتار بولے جانا۔ یہ منظر ٹی وی چینلوں کے پروگراموں میں دیکھا جاسکتا ہے جب اینکر بار بار بات کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ ’’جھاڑ بسانا‘‘ بھی محاورہ ہے جس کا مطلب ہے لڑائی جھگڑا مول لینا۔ لیکن جھاڑ باندھنا، یا جھاڑ بسانا کا استعمال اب بول چال میں نہیں آتا، البتہ جھاڑ پونچھ ضرور گھروں میں نظر آتی ہے۔ ایک ’’جھاڑ کا کانٹا‘‘ بھی ہوتا ہے۔ ’’جھاڑو پھرے‘‘ یا ’’جھاڑو مارے‘‘ عورتوں کے محاورے ہیں۔ جھاڑ پر ایک تک بندی سن لیجیے:۔
ہر جھاڑ چمن زا ہے، ہر خار ہے گل اپنا
یہ نجد نہیں مجنوں، یہ اور بیاباں ہے
جسارت کے ایک کالم نگار لکھتے ہیں ’’احتجاج کی لہر موج زن ہے‘‘۔ اب اگر یہ کسی زن کی موج نہیں تو لہر بھی تو موج ہی کو کہتے ہیں۔ لہر ہندی کا لفظ ہے اور مطلب ہے پانی کی موج، تلاطم، جوار بھاٹا، امنگ، ترنگ وغیرہ۔ دیوانگی، سودا اورجنوں کو بھی کہتے ہیں۔ لہر آنا محاورہ ہے، یعنی موج آنا۔ لہر اٹھنا موج کا اونچا ہونا، شوق پیدا ہونا۔ لہربہر کہتے ہیں خوشحالی، کسی چیز کی افراط کو۔ اور لہرا کہتے ہیں طبیعت میں جوش پیدا کرنے والے سُر۔ کنایتاً تڑاتڑ جوتیاں مارنے کو بھی کہتے ہیں۔ تو بھئی، لہر موجزن نہیں ہوتی۔ کسی پرانے استاد کا شعر ہے:۔
انتظاری نے تری خوب دکھایا لہرا
صبح سے شام ہوئی، شام سے پچھلا پہرا
گزشتہ پیر کو سندھ اسمبلی میں ایک خاتون نے دوسری خاتون کو ’’باگڑی‘‘ کہہ دیا۔ ممکن ہے یہ باگڑی سندھی کا لفظ ہو، گو کہ اس میں ’’ڑ‘‘ بتارہی ہے کہ یہ ہندی ہے۔ لغت میں باگڑی تو نہیں ملا البتہ ’’بانگڑو‘‘ ہے۔ ممکن ہے یہ باگڑی بانگڑو کی مونث ہو۔ بانگڑو احمق اور بے وقوف کو کہتے ہیں۔ ارکانِ اسمبلی ایک دوسرے کو خوب پہچانتے ہیں۔
23 جون کے ایک اخبار میں بہت جسیم اور قدیم کالم نگار نے ’’ڈکار‘‘ کو مذکر لکھا ہے۔ ان کی ’’ڈکار‘‘ یقیناً مذکر ہوگی۔ ویسے ڈکار مونث ہے اور ہندی کا لفظ ہے۔ موصوف ہمارے پسندیدہ کالم نگار ہیں لیکن غلطیاں کرنے لگے ہیں۔
آئیے اب ایک استاد سے مزید استفادہ کرتے ہیں۔ کالمانہ کے بجائے عالمانہ مضمون پڑھیے۔ جناب غازی علم الدین مزید لکھتے ہیں کہ
’’لفظی تکرار معنوی تکرار کا باعث بنتی ہے، یہ جہاں سماعت کو بھلی نہیں لگتی وہاں بصری طور پر بھی ناگوار گزرتی ہے۔
تکرار کے غلط اور بے جا استعمال سے قطع نظر، نظم و نثر میں اس کو برتنے کے متعدد اچھے اور مفید پہلو بھی ہیں۔ مدعا واضح کرنے، بات نکھارنے، پیرایۂ بیان دل کش بنانے، کسی مسئلے کی اہمیت اور تاکید کے لیے تکرار اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قرآن مجید میں انبیاء کے واقعات کی تکرار ہر مرتبہ نیا اور دل کش اسلوب سامنے لاتی ہے۔ (1) قرآنی الفاظ کی تکرار سے جہانِ معانی عیاں ہوتے ہیں۔ (2) آیاتِ مقدسہ کی تکرار سے حکمتوں کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ (3) اردو نظم و نثر میں بھی فعل کی تکرار سے کئی معانی پیدا ہوتے ہیں جیسے:۔
-1 وقت کی قلت ظاہر کرنے کے لیے کہتے ہیں ’’ہمارے دیکھتے دیکھتے زمانہ بدل گیا‘‘۔
-2 فعل کا جاری رہنا جیسے ’’میں تو اُسے سمجھاتے سمجھاتے تھک گیا‘‘۔
-3 وقت کی درازی کے لیے جیسے:۔
نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
-4 فعل کا وقوع کے قریب پہنچ کر رُک جانا جیسے: ’’یہ بات میری زبان تک آتے آتے رہ گئی‘‘۔ اور ’’کام بنتے بنتے بگڑ گیا‘‘ وغیرہ۔
اُردو نثر میں، لفظی تکرار کی ایسی مثالیں ہمیں جابجا نظر آتی ہیں جیسے: ’’مجھے لمحہ لمحہ کی خبر ہے‘‘۔ ’’میں نہر کے ساتھ ساتھ چلتا گیا‘‘۔ ’’یہ قریب قریب دو ماہ پہلے کی بات ہے‘‘۔ اور ’’میں لفظ لفظ کی صحت کا خیال رکھتا ہوں‘‘ وغیرہ۔
تکرار کے غلط استعمال میں، عام طور پر، ایک ہی جملے میں کسی بات کو لفظاً اور معناً دُہرا دیا جاتا ہے اور یہ مُضحِک صورتِ حال جہالت، بِلادت اور توجہ کے فقدان کا ثبوت بن جاتی ہے۔ آئے دن ایسی سیکڑوں مثالیں ہمارے مشاہدے میں آتی رہتی ہیں۔
تحریر و تقریر، انسانی شخصیت کا ثقافتی تلازمہ ہے۔ اہلِ ذوق اس امر کا اہتمام کرتے ہیں کہ زبان و بیان مسلمہ اصول و معیارات سے ہم آہنگ رہے۔ اس طرح کی مختلف النوع لغزشیں اور فروگزاشتیں اگر تحریر و تقریر میں در آئیں تو زبان کی نزاکتوں کو سمجھنے والوں کی طبیعت تکدر اور بیزاری کا شکار ہوتی ہے۔ ماضی میں شاعر و ادیب، اساتذہ اور صحافی حضرات ہی زبان و بیان کے معیار و وقار کا سبب بنتے تھے لیکن فی زمانہ ان میں اکثر حضرات اس کی پروا نہیں کررہے ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ محتاط روی کی تلقین کرنے والے ادیب، شاعر اور صحافی پھسل گئے تو ایک امت پھسل جائے گی، کیوں کہ علم و ادب کے معاملات میں لوگ انہی کی پیروی کرتے ہیں۔
لفظی اور معنوی تکرار کی ایسی معیوب اور مذموم مثالیں، جو مطالعے اور مشاہدے میں آتی رہتی ہیں، پیش کی جاتی ہیں۔ یہ جائزہ عصری ادب کی سرگرمیوں کا عکاس ہے جس سے لکھنے اور بولنے کے معیار کا پتا چلے گا:۔
آب دیدہ آنکھیں:۔
’’وہ اپنی آب دیدہ آنکھوں سے مرحوم والد کی تصویر دیکھتا رہا‘‘۔ اس جملے میں ’’آنکھوں‘‘ اضافی ہے، دیدہ کا معنیٰ ہی آنکھ ہے۔ آب دیدہ کا معنیٰ ہے ’’جس شخص کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوں‘‘۔ دوسری ترکیب ’’آبِ دیدہ‘‘ ہے جس کا معنیٰ آنکھ کا پانی یعنی آنسو ہے۔ درست جملہ اس طرح ہے: ’’وہ آبْ دیدہ اپنے مرحوم والد کی تصویر دیکھتا رہا‘‘۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں: ’’وہ آنسو بھری آنکھوں سے مرحوم والد کی…‘‘
آپ کی محبت کشاں کشاں کھینچ لائی ہے
’’کشاں‘‘ کشیدن (مصدر) سے ہے جس کا معنیٰ ہے کھینچنا۔ ’’کشاں کشاں‘‘ کے بعد ’’کھینچ لائی‘‘ کی زیادتی معنوی یکجائی کا باعث ہے۔
آئندہ آنے والے دنوں میں
آئندہ دنوں میں یا آنے والے دنوں میں۔