کیا سلامتی کونسل میں بھارتی کامیابی پاکستان کی سفارتی ناکامی ہے؟۔

نئی سرد جنگ اور نئے عالمی نظام میں اقوام متحدہ کا ادارہ اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے؟

کہنے والوں نے سچ ہی کہا تھا کہ بھارت کے سلامتی کونسل کا ممبر بننے سے آسمان ٹوٹے گا، نہ قیامت بپا ہوگی۔ واقعی آسمان ٹوٹا، نہ زمین شق ہوئی، مگر بھارت اگلے دوسال کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل ممبر منتخب ہوگیا ہے۔ یہ تو عارضی اور دو سال کی رکنیت ہے، اگر بھارت مستقل رکن بھی بن جائے تو کیا دنیا کی قیادت اور سیادت کا ریموٹ اس کے ہاتھ لگ جائے گا؟ وہ بھی تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل ممبر اور ویٹو پاور کا حامل ملک تھا جسے تین دہائیاں قبل افغانستان میں اتنی مار پڑی تھی کہ تاریخ کے سینے میں محفوظ ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ بھی تو سلامتی کونسل کا مستقبل بلکہ سب سے تگڑا رکن ہے جو آج افغانستان میں اپنے ایک بدکے ہوئے دوست سے محفوظ واپسی کا راستہ مانگ رہا ہے۔ چین بھی سلامتی کونسل کا ایک مستقل رکن تھا جب وہ پانچ اگست کے بھارتی فیصلے کے خلاف سلامتی کونسل کی راہداریوں میں مارا مارا پھرتا تھا اور بھارت کے خلاف ٹھوس اقدامات کی درخواست کرتا تھا، مگر یہ سب کوششیں اکارت گئیں۔
سلامتی کونسل کی رکنیت اور طاقت کے ظاہری پیمانے بظاہر خوشنما اور دلربا ہوتے ہیں، مگر یہ نوشتۂ دیوار یا ہونی کو انہونی نہیں بنا سکتے، کیونکہ فطرت کے اپنے اصول ہوتے ہیں، اور وہ اپنے اصولوں پر یوٹرن لیتی ہے نہ سمجھوتا کرتی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ایسے معاملات سے واقعی قیامت برپا نہیں ہوتی، مگر ان واقعات کے کچھ نفسیاتی اثرات ہوتے ہیں، اور ان سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کون سا فریق کتنے پانی میں ہے۔
اس کا کیا کیجیے کہ ہمیں خود مذمتی کی عادت سی ہوگئی ہے۔ ناکامیوں کی تو بات ہی کیا، ہم اپنی کامیابیوں میں بھی ایسے کیڑے تلاش کرتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔ خودمذمتی اور خود ملامتی نفسیاتی عوارض میں سے ایک ہے جو عرصۂ دراز سے ہمیں لاحق ہے۔ زور ِبازو سے حاصل کی گئی کامیابیوں میں بھی ہم ادھار اور انعام کا پہلو تلاش کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے فورم کے لیے بھارت کا انتخاب پہلے ہی یقینی تھا، اور کسی فریق کو اس عمل کی مزاحمت کی رسم ہی ادا کرنا تھی۔ اس کے لیے بھی بھاری وسائل کی ضرورت تھی۔ اقوام متحدہ کی راہداریوں اور لابیوں میں چائے خانوں کی رونقیں بڑھانا تھیں۔ ارکان کی خاطر مدارات کا بندوبست کرنا تھا۔ ووٹروں کو دلیل، خوشامد اور تواضع سے رام کرنا تھا، تب بھی کامیابی حاصل ہونا یقینی نہ تھی۔ مگر ایسا کرنا بھی زندگی کا ثبوت فراہم کرسکتا تھا۔ بارہا ناک اونچی رکھنے کے لیے یہ مشقت کرنا پڑتی ہے، اور اقوام متحدہ کوئی انصاف اور اصول کدہ تو نہیں بلکہ گائوں کا ایک چوپال ہے جہاں وہ تمام اصول رائج ہیں جو معاشرے میں موجود ہیں۔ یہاں بھی حق اور سچ کا ساتھ دینے کے لیے طاقت کا ترازو دیکھنا پڑتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ ادارہ روز بروز اپنی ساکھ کھوتا چلا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے رکن ملکوں نے ووٹنگ کی رسمی کارروائی کے ذریعے ایشیا پیسفک کی غیر مستقل نشست کے لیے بھارت کا انتخاب کردیا۔ عملی طور پر اس سے دنیا کی سیاست اور رنگ و رخ پر رتی برابر اثر نہیں پڑے گا۔ بھارت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا طلب گار اور دعوے دار ہے، اس خواہش کے بارے میں عالمی سیاست کو سمجھنے والوں کی متفقہ رائے ہے کہ ’’ہنوز دِلّی دور است‘‘۔ سلامتی کونسل کی دو پرتیں ہوتی ہیں جن میں اصل اور مرکزی پرت پانچ مستقل ارکان ہیں، جن میں امریکہ، برطانیہ، چین، روس اور فرانس شامل ہیں۔ انہی پانچ ارکان کو ویٹو پاور حاصل ہے اور یہی طاقتیں حقیقت میں دنیا کے مقدر اور مستقبل کے فیصلے کرتی ہیں۔ دوسری پرت غیر مستقل ارکان پر مشتمل ہے، جن کی تعداد دس ہے، اور ان ارکان کا انتخاب دوسال کے لیے ہوتا ہے۔ بھارت ماضی میں متعدد بار اس فورم پر منتخب ہوتا رہا ہے، جبکہ پاکستان بھی اس فورم کا رکن رہ چکا ہے۔ غیر مستقل ارکان طاقت اور معیشت کے بجائے زیادہ تر لابنگ کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں۔ افریقہ کے کمزور ملک بھی انتخابی مہم اور لابنگ کی بنیاد پرغیر مستقل ارکان کی نشست حاصل کرتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کے بیان پر جہاں انہیں اپوزیشن نے آڑے ہاتھوں لیا، وہیں آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر نے بھی شاہ محمود قریشی کے اس بیان پر شدید ردعمل ظاہر کیا، گوکہ بعد میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے استفسار پر شاہ محمود قریشی نے اس بات کی تردید بھی کی، مگر حقیقت یہی ہے کہ ان فیصلوں سے عالمی سیاست کے دھارے پر کوئی فرق نہیں پڑتا مگر اس سے کسی ملک کی سفارت کاری کی کامیابی اور ناکامی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسی کوئی سرگرمی ریکارڈ پر نہیں آئی کہ پاکستان نے بھارت کے انتخاب میں رکاوٹ ڈالنے کی کوئی کوشش کی ہو۔ خود ایک حکومتی وزیر شیریں مزاری نے بھارت کے انتخاب پر حکومتِ پاکستان کے حوالے سے یہ نکتہ اُٹھایا ہے کہ پاکستانی نمائندے کو بھارت کے انتخاب پر اعتراض کرنا چاہیے تھا اور بھارت کو علاقائی نشست پر بلامقابلہ منتخب ہونے کا موقع نہیں دیا جانا چاہیے تھا۔ اعتراض کی حد تک تو بات ٹھیک ہے، مگر یہ بھی صرف ریکارڈ درست رکھنے کی حد تک ہی رہتا، عملی طور پر عالمی فورم اس اعتراض کو وزن نہ دیتا۔
اقوام متحدہ کا اپنا ایک پیچیدہ اور تہ در تہ طریقہ کار ہوتا ہے، اور اس ایوان پر اگر سب سے زیادہ کوئی ملک اثرانداز ہوتا ہے تو وہ امریکہ ہے۔ امریکہ اور اُس کے زیراثر ممالک اقوام متحدہ کی فیصلہ سازی کی صلاحیت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس کے بعد سلامتی کونسل کے چار دوسرے مستقل ارکان کی بات وزن کی حامل قرار پاتی ہے۔ پانچ اگست کو بھارتی حکومت نے کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور تمام تاریخی کارروائی اور فیصلوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کی متنازع حیثیت ختم کی تو پاکستان نے ویٹو پاور کی حامل طاقت چین کے ذریعے اس مسئلے کو عالمی ایوان میں زیر بحث لانے کی پے در پے کوششیں کیں۔ امریکہ کا اثر رسوخ اور بھارت کے لیے امریکی پسندیدگی ان کوششوں کی کامیابی کی راہ میں بار بار رکاوٹ بنتی رہی۔ یوں اقوام متحدہ کا ایوان بھارت کے خلاف کوئی ٹھوس پالیسی اختیار نہ کرسکا۔ سلامتی کونسل کے اجلاسوں کے بعد جو کچھ سامنے آیا ’’گول مول‘‘ ہی تھا۔ یوں عملی طور پر سلامتی کونسل بھارت کی یک طرفہ کارروائی پر کوئی مؤثر کردار ادا نہ کرسکی۔ اقوام متحدہ سے مایوس ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پانچ اگست کا واقعہ چین، بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے ایک آتش فشاں کی مانند لاوہ اُگلتا چلا گیا۔ آخرکار یہ آتش فشاں جون کے پہلے ہفتے میں لداخ میں پھٹ پڑا۔
چین، بھارت اور پاکستان ایشیا میں کشیدگی کی ایک مثلث بنا رہے ہیں۔ یہ اقوام متحدہ کی ساکھ اور وجود کے آگے ایک موٹا سا سوالیہ نشان ہے۔ اب جبکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ تینوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی حالیہ لہر نے پانچ اگست کے بھارتی فیصلے سے جنم لیا ہے تو یہ سیدھے سبھائو اقوام متحدہ کی ناکامی ہے۔ اس مثلث میں نیپال کو شامل کریں جو پانچ اگست کے فیصلے سے متاثر ہونے والوں میں شامل ہے، تو یہ باقاعدہ مستطیل بنتی ہے۔ گویا کہ چار ملکوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ اقوام متحدہ کا غیر مؤثر کردار اور نااہلی ہے۔ ان چار میں سے تین ملک تباہ کن ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ہیں۔ اس سارے قصے میں صرف دو سوال اہم ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی یوں سمجھ بوجھ کر کب تک چلائی جاتی رہے گی؟ نئی سرد جنگ اور نئے عالمی نظام میں ان ادائوں کے ساتھ اقوام متحدہ کا ادارہ اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے؟ بھارت جیسے ملکوں کا اقوام متحدہ کے ایوانوں میں اعتبار پانا اگر قیامت نہیں تو قیامت سے کم بھی نہیں، جس پر امید فاضلی کی زبان میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ

گر قیامت یہ نہیں ہے تو قیامت کیا ہے
شہر جلتا رہا اور لوگ نہ گھر سے نکلے